ملفوظا ت وستا نوی

اجازت ذکر اور اہتمام ذکر:

                حضرت شیخ الحدیثؒ کا ذکر آج کی تعلیم میں آیا ۔ ہم نے بخاری شریف کی ابتدا حضرت شیخؒ سے کی اور انتہا  بھی حضرت شیخ سے کی اور سال بھر پڑھایا حضرت محدث کبیر شیخ یونس صاحب ؒنے۔اور بخاری پڑھنے سے دو سال قبل میں سہارنپور حضرت کی خدمت میں رمضان گزارنے گیا تھا ۔ حضرت کے یہاں ’’رمضان المبارک‘‘ بہت ہی زیادہ عبادات کا مشغول مہینہ ہوتا ہے ۔وقت میں بڑی برکتیں ہوجاتی تھیں ۔صبح سے شام تک لوگ قرآن شریف پڑھتے، ایک قرآن ،دو قرآن پورا کر دیتے تھے ۔ حضرت کے ساتھ عمرہ کا اتفاق تو نہیں ہوا،لیکن حضرت کے خادم ِ خاص مولانا عبدالرحیم صاحب کے بڑے بہنوئی یعنی ہمارے ہم زلف مولانا احمد لولات صاحب نے پوری زندگی حضرت کے ساتھ لگادی ۔ حضرت کو ان پر بڑا اعتماد تھا۔

                 ۱۹۸۰ء کی بات ہے کہ حضرت نے فیصل آباد میں رمضان گزاری ۔ فیصل آباد پڑوس میں ہے ، ہمیں بھی جانا تھا ۔ میں اور مفتی عبد اللہ صاحب ،استاذ ِمحترم مفتی احمد بیمات صاحب اورکچھ بڑے لوگ تھے، ہم دوچار چھوٹے تھے۔ پڑوس ملک کا ویزا نہیں مل رہا تھا ، لیکن احمد پٹیل صاحب کی کوشش سے سارے دس پندرہ آدمیوں کا ویزا مل گیا ۔ میرا ہندوستان سے باہر کا سب سے پہلا سفر پڑوس کا ہوا ۔حضرت کی خانقاہ میں وہیں مجھے ذکر کی اجازت دی گئی اور ذکر کی تلقین کی گئی اور کہاگیا کہ آپ ذکر میں اپنے مواقع کے اعتبار سے زیادہ کم کرسکتے ہیں۔

                 بہر حال حضرت کی و ہ تسبیحات ۱۹۸۰ء سے اب تک جاری ہیں اور دعا فرمائیں کہ موت تک جاری رہیں، کیوں کہ ذکر اللہ کو شروع کرنے کے بعد آپ اس کو چھوڑ نہیں سکتے ۔ کسی نے ذکر شروع کیا ، پھر چھوڑ دیا ، تو اس کے لیے بڑی تکلیف کا باعث ہوتا ہے ۔

                حضرت فرمایا کرتے تھے :  ’’ پیارے ذکر شروع نہ کرو، لیکن شروع کرو تو اس کو چھوڑ نی کی نیت نہ رکھو ، موت تک ذکر کرتے رہو اور یہی ہمارے اکابرین کا طرۂ امتیاز ہے کہ وہاں ذکر کا بڑا اہتمام ہوتا ہے ۔ ‘‘حضرت شیخ کی خانقاہ میں، حضرت مدنی ؒ کی خانقاہ میں حضرت رائے پوری ؒکی خانقاہ میں ۔

                رائے پوری ؒکے وہاں باغیچے میں ذکر کے حلقے لگتے تھے ،تو باغیچے کے پتوں کی آپس کی کھنکھناہٹ اور پتوں کی جو آواز ہے اس میں اللہ کا ذکر سنائی دیتا تھا کہ وہاں یہ پتے بھی ذکر کررہے ہیں ، یہ میں نے اورلوگوں سے بھی سنا ہے ۔ حضرت رائپوریؒ کے یہاں جو باغیچہ ہے اس باغیچہ میں جب ہوائیں چلتی ہیں ، تو ذکر کی آواز ظاہر ہوتی ہے۔ یہ برکت ہے ان ذاکرین کی جو ان درختوں کے نیچے ذکر کرتے ہیں ۔ تو ’’ذکر اللہ‘‘ بہت اہم عبادت ہے ۔

                 ہم دورہ کے طلبہ کو لے کر بیٹھتے ہیں لیکن اصل مقصد تو یہ ہے کہ ان بچوں میں اس کی عادت پڑ جائے ۔ اب جس کو عادت پڑگئی، وہ کہیں بھی جائے گا، چاہے مدرس بنے گا یا امام بنے گا یا کچھ بھی کرے گا تو ذکر کرے گا، لیکن یہ اس وقت ہوگا جب کہ طالب علمی کے زمانے میں یہ کام آپ دل سے کریں گے ۔

                دورۂ حدیث کے طلبہ خاص سن لیں! یہ ذکر جو کرایا جاتا ہے اس میں ہماری حاضری غیر حاضری کو اگر آپ دخل دیںگے توآپ ذاکر نہیں بنیںگے۔ ہم نہیں ہیں تو کیا ہوا ؟ ہم کو کبھی کام ہے تو چلے گئے ،ایک دو دن آئے پھر چـلے گئے توآپ ذکر چھوڑ دیںگے ؟ نہیں!  آپ اپنے معمولات میں ذکرکو داخل کریں ، ذاکر زندہ  ہوتا ہے ، ذکر کی بڑی تاثیر ہے۔

                 میںحضرت شیخ الحدیث صاحبؒ کے یہاں ذکر میں جاتا تھا ۔ طالب علمی کے زمانے میں جمعہ کے دن عصر کے بعد حضرت کے یہاں ذکر ہوتا تھا، باقی میں حضرت ناظم صاحب ؒکے پاس ان کے پلنگ کے پاس بیٹھ جاتا تھا اورحضرت تکیہ لگاکر تشریف فرماہوتے اور میں ذکر کرتا تھا، کیوں کہ میں حضرت ناظم صاحب کا خادم تھا ۔حضرت کو ہم مسجد سے لاتے، پلنگ پر بٹھادیتے اور ذکر کرنے والے دو چار لوگ حضرت کے پاس بیٹھ جاتے ۔

نفوسِ قدسہ کے ذکر سے آنکھیں بھر آتی ہیں:

                 اکابرین میں جن لوگوں کو میں نے دیکھا ،ان کا ذکرجب بھی کرتا ہوں تب میرا دل بھر آتا ہے کہ اللہ یہ کیسے تھے ۔ اللہ اکبر!

                یہ نفوسِ قدسیہ تھے ۔ وہ لوگ کہ جن کو دیکھ کر اللہ یاد آجاتا تھا اور جن کی نگاہوں میں ہمیشہ پانی رہتا تھا ۔ کثیرالبکاء میں نے ایسے بزرگوں کو دیکھا ،جن کی زندگیوں میں اللہ اللہ ہی ہوتا تھا ۔جنہوں نے دنیا کو طلاق دیدی تھی ، جن کو دنیا سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ یہ ہمارے اکابرین متبع سنت تھے اور راتوں کو جاگنے والے تھے ، تہجد پڑھنے والے تھے ، ان کی ایک بھی تہجد نہیں جاتی تھی ۔ اللہ اکبر! 

                ناظم صاحب چل نہیں سکتے تھے ، اٹھاکر لے جایاجاتا ، لیکن تہجد کا وقت ہے کہ وہ خود اٹھ جاتے تھے اور خادموں کے سہارے استنجا اوروضوسے فارغ ہوگئے،اور بس اب ان کو چھوڑ دو بستر پر وہ کھڑے رہیںگے ، رکوع کریںگے ، سجدہ کریںگے ، قومہ کریںگے اور اچھے طریقے سے عبادت کریںگے ۔ بڑھاپے نے ان کو عباد ت سے نہیں روکا ۔