ملفوظا تِ وستا نوی

انجمن والنادی،کی ضرورت واہمیت:

            طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:کہ ہر طالب علم کو اپنی مافی الضمیر کی ادائیگی کے لیے محنت،کوشش اور کاوش کرنی چاہیے،قرآن کریم کے ساتھ ہمارا والہانہ تعلق ہونا چاہیے،جو طلبہ ترجمہٴ قرآن کریم پڑھتے ہیں ان کو اپنی تقریر میں قرآن ہی کو محنت کا میدان بنانا چاہیے،وہ طالب علم جوحافظ بھی ہیں اورترجمہ بھی پڑھتے ہیں تو وہ قرآن کی آیتوں کو پڑھنے کے ساتھ سمجھ بھی سکتے ہیں، اگر انہوں نے دو تین آیتوں کا سہارا لے لیا تو ان کی دس منٹ کی تقریر بن جائے گی۔

            ”النادی العربی“ کی اہمیت کو بتاتے ہوئے آپ نے فرمایا:کہ اگر طلبہ کوشش کریں تو قرآن کریم کی آیتوں سے”النادی العربی“ میں بھی سہارا لے سکتے ہیں۔اورحضرت مولانا علی میاں ندوی صاحب نے ادب میں ”قصص النبیین“کتاب لکھی ہے، جو نصاب میں بھی داخل ہے،اگر طلبہ اس کو اچھے سے دیکھیں تو ادیب بن سکتے ہیں۔

وقت کی اہمیت اورقدر ومنزلت:

            حضرت نے وقت کی اہمیت پر زور دیتے ہو ئے طلبہ سے فرمایا:کہ آپ کا جامعہ میں قیام دن بدن کم ہوتا جارہا ہے،یہ مبارک گھڑیاں پھر آ پ کو ملنے والی نہیں ہیں،لہٰذا اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے محنت کریں۔

اہتمام نماز:

            نماز کی پابندی پر توجہ دلاتے ہوئے آ پ نے فرمایا:کہ آپ کے معاملات میں سب سے اہم معاملہ نماز کا ہے۔ طلبہ ایک دوسرے کو نگراں بنالیں کہ بھا ئی میری رکعت نہیں جانی چاہیے،میری سنتیں نہیں جانی چاہیے، نماز میں غفلت نہیں ہونی چاہیے،تم میری نگرانی کرو۔اگر آپ نے نماز کااہتمام کر لیا تو آپ کامیاب ہوگئے اوراگر آپ علامہ بن گئے اورنماز کااہتمام نہیں تو کچھ بھی نہیں،”اِنَّ مِنْ اَھَمِّ اُمُوْرِکُمْ الصَّلَاة“کہ تمہارے معاملہ میں اگر کوئی اہم ترین معاملہ ہے تو وہ نماز ہے۔اگر آپ طالب علمی کے زمانے میں نماز کے پابند بن گئے تو فراغت کے بعد بھی آپ نماز پڑھیں گے آپ اپنی فکرخود کرو ﴿قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا﴾ قرآن کہتاہے کہ اپنے آپ کو اوراپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاوٴ۔

             آپ عربی دوم سے ترجمہ پڑھتے ہیں،ہمارے اکابرین نے جو نصاب بنایا ہے اس میں قرآن پر بہت زور دیا ہے اگر آپ صحیح سے محنت کرتے ہیں تو جید عالم اور فاضل بن سکتے ہیں مگر ضرورت ہے محنت کی، محنت کریں۔

وقت کا صحیح استعمال اور تلاوت قرآن کا معمول:

            وقت کا صحیح استعمال کریں،سستی او رغفت سے اپنے آپ کو بچائیں،اسباق کی پابندی کریں،اساتذہ کی تقریروں کو دل وجان سے سنے اور تلاوت کا معمول بنائیں،اقل قلیل حافظ کو تین پارے اور غیر حافظ کو ایک پارے کا معمول بنانا چاہیے،جب تک قرآن کی تلاوت کا اپنے آپ کو عادی نہیں بنائیں گے، قرآن کی برکات سے مالا مال نہیں ہوں گے۔اکیسویں پارے کی پہلی آیت ہے:﴿اُتْلُ مَا اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ﴾یہ کس سے کہا جارہا ہے نبی سے کہا جارہاہے،قرآن نبی سے مخاطب ہے، اس نبی سے جس پر قرآن کا نزول ہوا،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جارہاہے کہ قرآن کی تلاوت کریں، تو ہماری اورآپ کی کیا بات ہے!؟

            علما کی جماعت قرآن کی تلاوت سے غافل ہے،یہ بڑا المیہ ہے اگر آپ قرآن سے غافل ہیں تو بڑا المیہ ہے،اگر آپ نے یہاں قرآن کے تلاوت کی عادت نہیں ڈالی تو بعد میں بھی آپ نہیں پڑھ سکتے ہیں،اگر یہاں جماعت کی عادت نہیں ڈالے تو بعدمیں بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ میں آپ کو باربار ایک ہی بات کا کہتاہوں”ان من اہم امورکم الصلاة“تمہارے کاموں میں سب زیادہ اہم نماز ہے،جو جتنا نماز کا پابند بنے گاوہ فراغت کے بعد بھی نماز پڑھے گا۔

مافی الضمیر کی ادائیگی پر توجہ:

            ”انجمن”،”النادی العربی“ اور”لجنة القرأت“ یہ طلبہ کی تربیت کے اہم شعبے ہیں۔ جامعہ کے فضلا ماشاء اللہ مختلف جگہوں پر تدریسی، تعلیمی،تبلیغی،اصلاحی اور رفاہی کام کررہے ہیں،ان تمام کاموں میں سب سے بڑا دخل ہماری زبان کا ہے،مافی الضمیرکی ادائیگی اس دور میں وقت کی ضرورت بن چکی ہے،مثلا مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے،اور مجھے بولنا ہی نہیں آتاہے تو کیا کریں گے؟اسی طرح جب آپ عالم بن کر گاوٴں میں جائیں گے، تو لوگ کہیں گے،مولانا آج جمعہ ہے ذرابات کرو، تو اگر آپ یہاں سیکھیں گے نہیں، تو کہیں گے نہیں میرے سر میں درد ہے۔ امام صاحب کہیں گے مولانا صاحب فجر کی نماز پڑھادو، توآپ محنت نہیں کریں گے، تو کہیں گے میرے پیٹ میں درد ہے۔ تو اگر آپ نے محنت نہیں کیا،نماز کی مشق نہیں کی، تو لوگ آپ سے فیض حاصل نہیں کریں گے۔

اورنگ آباد کے فضلائے جامعہ:

            حضرت نے فضلائے اورنگ آبادکی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:کہ ماشاء اللہ وہاں ہمارے فضلا اچھاکام کرہے ہیں، مکاتب کا اچھا نظام بنایا ہے،لیکن ہم کوصرف اس پر اکتفا نہیں کرناہے؛ بل کہ اب ہمیں درس قرآن کی فکر کرنی ہے۔درس قرآن میں بس آپ جس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں وہاں اعلان کردیجیے کہ میں ان شاء اللہ ہفتہ میں ایک دن درس ِقرآن کروں گا،اور آپ چار پانچ رکوع تجوید سے پڑھ دیجیے اوراس کا ترجمہ مطلب او رشان نزول بیان کردیجیے یہ ہوگیا آپ کا درسِ قرآن۔

            ہمارے یہاں نصاب میں ترجمہٴ قرآن شامل ہے، مگر آپ اس پر محنت نہیں کرتے ہیں!ہم آپ سے بار بار کہتے ہیں کہ ترجمہ پر محنت کریں،انجمن میں آپ کو تقریر کرنی ہے، قرآن کریم کے پانچ ،چھ آیتوں کا انتخاب کرلیں اس کا ترجمہ کریں اور مطلب بیان کریں تقریر ہوگئی۔قرآن پر محنت کرکے آپ بہترین مدرس،مقرر اور امام بن سکتے ہیں۔قرآن کریم اللہ کی مقدس کتاب ہے اس میں آپ جتنی محنت کاوش کریں گے اتنا اللہ تعالیٰ آپ کو قرآن کی برکات سے مال مال کرے گا۔کریں گے نہ بھائی ؟طلبہ نے کہا ان شاء اللہ۔

            قرآن کا وعدہ ہے:﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِکْرَ وَاِنَّا لَہلَحٰفِظُوْنَ﴾کہ ہم نے قرآن ِکریم کو اتارا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ قرآن کریم نے اپنے بارے میں کہا ہے:﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرْ﴾تحقیق کہ ہم نے قرآن کو یاد کرنے،نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کیا ہے، توہے کوئی اسے یاد کرنے والا؟

ٌٌٌقرآن کی پکار پر لبیک:

            تو آپ کہیے! کہ ہاں ہم ہیں یاد کرنے والے،نصیحت حاصل کرنے والے۔اللہ تعالیٰ پوچھ رہے ہیں کہ ہے کوئی تو آپ کہیں ہاں ہم محنت کریں گے۔ آپ محنت کرکے بہترین مقرر،واعظ،عالم بن سکتے ہیں۔آپ کیا نہیں بن سکتے ؟آپ سب کچھ بن سکتے ہیں؛لیکن اگر توہی نہ چاہے تو بہانے ہزار ہیں۔

            بچو! اپنے وقت کی قدر کرو،یہ بہت قیمتی وقت ہے،جب آپ یہاں سے فارغ ہوکر جائیں گے تو افسوس کریں گے کہ میں تو نماز بھی نہیں پڑھا سکتا،میں تو تقریر بھی نہیں کرسکتا،تو آپ نے کیاکیا ؟جامعہ نے آپ کے لیے کیا نہیں کیا!اللہ نے آپ کو اتنے اچھے اساتذہ دیے، اللہ نے ساری سہولتیں دیں۔

قرآن کی برکت :

            سورت کے دو آدمی آئے اور کہا کہ حضرت میں چاہتاہوں کہ آپ کے طلبہ کو کپڑے پہنادوں!میں نے کہا سب طلبہ کو؟ تو اس نے کہا ہاں سب طلبہ کو(ان شاء اللہ)پھر اس نے سولہ لاکھ کے کپڑے دیے۔میں اس کے پا س تشکیل کونہیں گیا تھا، مگر اللہ نے اس کے قلب کو متوجہ کردیا تو وہ آکر دے گیا۔

            تو وہ قرآن کی برکت سے آپ کو کپڑے پہنا کر گئے، دنیا آپ کی قدر کرتی ہے، لوگ آپ کی خدمت کرتے ہیں،لیکن اگر ہم خود ہی اپنی قدر نہیں کریں گے پھر کیا ہوگا؟ اس لیے محنت کرو، کوشش کرو،پڑھنے کے وقت میں پڑھو، کھانے کے وقت میں کھاوٴ، کھیلنے کے وقت میں کھیلو،آپس میں بھائی بھائی کی طرح رہو، مل جل کررہو، اپنے اخلاق اچھے بناوٴ! نماز کا اہتمام، تلاوت کا اہتمام اور رونے والے بنواللہ سے مانگو۔

قرآن کریم پر ہر راہ سے محنت اہل مدارس کی ذمے داری:

            قرآن کریم اللہ کی مقدس کتاب ہے اور قرآن کریم کی تلاوت عبادت ہے اور اس کا اہتمام کرنا ہم مدارس والوں پر فرض ہے،جو ان پڑھ ہیں وہ قرآن نہیں پڑھ سکتے ہیں لیکن جو لوگ الف،باء سے لیکر بخاری تک پڑھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس قرآن کا علم بھی ہے،وہ قرآن کو سمجھتے اور جانتے بھی ہیں،وہ ان کے معانی اور مطالب کو بھی سمجھ سکتے ہیں،تو ان کو اور زیادہ قرآن کریم کی طرف تو جہ دینی چاہیے،یعنی ہم اہل مدارس کو ترجمہٴ قرآن، تفسیر قرآن، قرأتِ سبعہ اور قرأت عشرہ یہ تمام اہل مدارس کے کام ہیں۔

             بڑے خوش نصیب ہیں وہ طلبہ جو قرآن کی طرف توجہ دیتے ہیں،قرآن کے صیغوں کی مشق عربی اول ہی سے شروع ہوجاتی ہے،تو یہ جو کچھ بھی آپ کو سکھایا جاتاہے وہ قرآن کریم کے لیے سکھایا جاتاہے،جو بچے عربی اول پڑھتے ہیں ان کو چاہیے کہ قرآن میں صیغے تلاش کریں،اگر آپ عربی اول ہی سے صیغے تلاش کریں گے تو زندگی بھر قرآن کا ترجمہ نہیں بھولیں گے،کیوں کہ آپ نے قرآن کو سمجھ لیا ہے صیغے پہچان لیے ہیں،آپ نے معانی جان لیے ہیں، جب آپ سب پہچان اور جان چکے ہیں تو اب ترجمہ پڑھیں گے۔تفسیرجلالین بیضاوی پڑھیں گے تو وہ ترجمہ جو آپ نے یاد کیا ہے وہ سب صیغے اور گردانیں یاد آئیں گے،اور یہ بخاری تک کام آئیں گے۔