ملفوظا تِ وستا نوی

حضرت وستانوی کے ملفوظات؛ نافع للطلاب:

علم پر عمل ضروری ہے:   حضرت نے فرمایا : عصر کی نماز کے بعدجو اکابرین کے ملفوظات آپ کو سنائے جاتے ہیں اس کا مقصد یہی ہے کہ ہمارا طالب علم کچھ باتیں دھیان اور توجہ کے ساتھ سنے اور اس پر عمل کرے ، کیوں کہ کہا گیاہے: ’’اَلْعِلْمُ  بِلَا عَمَلٍ کَالشَّجَرَۃِ بِلَا ثَمَرٍ‘‘علم بغیر عمل کے ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی درخت بغیر پھل کے ۔

            معلوم ہواکہ جو بھی بات کوئی سنے اسے حرص ہو نا چاہیے کہ یہ میری زندگی کے عمل میںآجائے ۔ طالب علم اگر اس نیت سے توجہ کے ساتھ سنتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے علم کو عملِ نافع کے ساتھ متصف کردیتے ہیں ۔

تعلیم وتدریس کو ضبط کرنے کی اہمیت: ظہر اور عصر میں جو تعلیم کی جاتی ہے اس کو اپنی کاپی میں لکھ لیں ؛کیوں کہ یہ کہا گیاہے ’’ اَلْعِلْمُ صَیْدٌ وَالْکِتَابَۃُ قَیْدٌ ‘‘ علم یہ شکار ہے اسے لکھ لینا اس شکار کو قابو کر لینا ہے۔طالب علم کو استاذکی کوئی بات ؛جو کتاب کے تعلق سے ہے یا کوئی باہر کی بات ہے اس کو بھی لکھ لینا چاہیے ۔

            فارسی کی کہاوت ہے’’ داشتہ بکار آید ‘‘ کہ لکھی ہوئی چیز سود مند ہوتی ہے ۔

            علم دوطرح کے ہیں ، ایک علم بالکتب ، دوسرے علم بالصدور ۔

             راوی کہتے ہیںکہ سمعنا من شیخنا قال کذا و کذا وکذا کہ انہوں نے ایسا ایسا کہا ۔تو یہ سند ہوگئی ۔راوی نے اپنے شیخ کے نام کے ساتھ اس کو بیان کیا ۔

             اورایک ہے  قرأنا من کتاب ہذا کذا و کذاوکذا کہ ہم نے اس کو اس کتاب سے ایسا اور ایسا پڑھا ، تو دونوں چیزیں طالب علم کے ذہن میں رہنی چاہیے ۔

طالب علم احساس کمتری کا شکار نہ ہو:

            ایک بہت بڑی سمجھنے کی بات یہ ہے کہ طالب علم اپنے آپ کو بدھو نہ سمجھے ۔ کتنے طالب علم ہیں جو احساسِ کمتری کے شکار ہوجاتے ہیں کہ مجھے تو کچھ نہیں آتا ۔ میرا فلاں ساتھی تو ماشاء اللہ کتنا ذہین ہے ، تکرار کراتا ہے ، تقریر بھی کرتا ہے ، مجھے تو کچھ آتا ہی نہیں ، چلو میں سو جاتاہوں ! شیطان اس احساس کمتری کا فائدہ اٹھاتا ہے اور کہتا ہے تم کیا کرتے ہو جاؤ کمرے میں سوجاؤ۔ارے بھائی !یہ بیدار رہتا اور اپنے ساتھی کے پاس تکرار کرتا تو اس کے لیے کچھ کام کی بات ہوتی ، تو طالب علم کو احساس کمتری کا شکار ہر گز نہیں ہونا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ کب اور کس طالب علم سے کیسا کام لے لے وہ میں اورآپ نہیں کہہ سکتے ۔

             لیکن یہ ہم نے دیکھا ہے کہ طالب علمی کے زمانہ میں جو طالب علم نمازکا پابند ، دعا کا عادی ، تلاوت کا خوگر اور سبق کا رسیارہتا ہے ، تو اللہ اس سے ایسا کارنامہ انجام دلاتے ہیں کہ اس کو بھی اس کا گمان نہیں ہوتا۔

طالب علم کو دعا والااور رونے والا بننا چاہیے :

            حضرت نے طلبہ کو دعا کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا : کہ طالب علم کو دعا کرنا چاہیے کہ اے اللہ! تو مجھے علم نافع عطا فرما۔ اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا ، وَرِزْقًا حَلَالًا طِیِّبًا ، وَعَمَلًا مُّتَقَبَّلاً وَشِفَائً مِنْ کُلِّ دَائٍ ۔

            بعض طلبہ ماشاء اللہ بہت دعا والے ہیں ،وہ دعا میں بہت آہ و زاری کرتے ہیں ۔ میرے ایک استاذ نے کہا میں آپ کی مسجد میں تہجد کے وقت پہنچا تو دیکھا کہ ایک طالب علم سجدے میں سسکیاں مار کر اور روروکردعا کررہا ہے۔وہ کہنے لگے کہ میرے دل میں یہی بات آئی کہ ان مدرسوں میں یہی کام ہوتاہے ۔ یہ مدرسے ایسے افراد تیار کرتے ہیں کہ جو ساری امت کے لیے دعائیں کرتے ہیں ۔ ’’ اَلدُّعَائُ سِلَاحُ الْمُوْمِنِ ‘‘ دعا مومن کا ہتھیار ہے ۔’’ اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ ‘‘دعا عبادت کا مغزہے ۔

             آپ گھومنے جاتے ہیں، کھیلنے جاتے ہیں ، ضرور جائیے ، کوئی منع نہیں کرتا ہے ، عصر بعد تفریح کے لیے جاؤ، لیکن ایک ٹائم ہونا چاہیے کہ اذان سے پہلے ہم مسجد کا رخ کرلیںگے ۔ کوئی آپ کو ایسا نہ کہے کہ چلوچلو! موذن کہہ رہا ہے ، حی علی الصلاۃ ، حی علی الفلاح ۔ اذا ن کی آواز سننے کے بعد کہنے کی ضرورت نہیں پڑنا چاہیے ۔ اِنَّ مِنْ اَہَمِّ اُمُوْرِ کُمْ الصَّلَاۃ ، طالب علم جتنا نماز کا پابند ہوگا ، اتنا ہی اللہ کا اس پر فضل و کرم ہوگا ۔ طالب علمی کا دور:           میںطالب علمی کے زمانہ میں روزانہ کچھ نہ کچھ مسئلہ بیان کرتاتھا ۔ میں نے کسی کتاب میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ملفوظ پڑھا تھا کہ :’’جو آدمی نوافل کو چھوڑتا ہے ، ایک وقت آئے گا کہ وہ سنتوں کو بھی چھوڑ دے گا ۔ اور جو سنتوں کو چھوڑتا ہے ایک دن آئے گا کہ وہ فرائض کو بھی چھوڑ دے گا ۔ اور جو فرائض کو چھوڑدے گا اس کے لیے اس بات کا خطرہ ہے کہ اس کا ایمان پر خاتمہ نہیں ہوگا ۔‘‘ اللہ اکبر ! کہاں نوافل ، کہاں سنن ، کہاں واجبات اور کہاں فرائض ! اور اس کا نتیجہ نکلا وہاں پر ۔نوافل وسنن یہ تتمۂ فرائض ہیں۔ یہ فرائض کی کمی کو پوری کرنے والے ہیں ۔ (مرتب: محمدسبحان ارریاوی)