ملفوظاتِ وستانوی

 سفرِ عمرہ کی روداد:

            عزیز طلبائے کرام یہ فقیر گذشتہ دو ہفتے کی چھٹی لے کر حرمین شریفین کے سفر پر گیا ہوا تھا، حرمین شریفین کا شمار ان مقاماتِ مقدسہ میں ہوتا ہے، جہاں کی مانگی ہوئی دعائیں اللہ کے یہاں مقبول ہوتی ہیں،وہاں اللہ کیبے شمار برکتوں کا نزول ہوتا ہے،مزید یہ کہ وہاں کی برکتوں کے حوالے سے اللہ کی مدد مانگی جاتی ہے۔

طلبہٴ جامعہ کے لیے دعا:

             الحمدللہ وہاں کی حاضری میں جتنا ممکن ہو سکا اللہ سے لو لگا کر خوب دعائیں مانگی، آپ سبھی طلبائے عزیز کی کامیابی کے لیے دعائیں ہوئیں: کہ اللہ تعالی نے جتنے بھی طلبا کے دلوں کو ہماری طرف مائل کیا ہے، ان سبھی طلبا کو اپنے مقصد میں کامیابی عطا فرئے، اللہ تعالی ہمارے ہر طالب علم کو قاریٴ قرآن بنائے اور اللہ ہر طالب علم کو قران ِشریف کی دولت سے مالا مال فرمائے۔

 دنیا کے تمام مدارس ومکاتب اور دینی ادارے کے لیے دعا:

             اسی طریقے سے اپنی دعاوٴں میں یہ بھی مانگنے کی کوشش کی کہ جتنے بھی مدارس و مکاتب اور دینی ادارے جہاں بھی قائم ہیں، اللہ اپنی قدرت سے ان مراکز کی حفاظت فرما، مراکز میں پڑھنے، پڑھانے والوں کی ضروریات کو اپنے خزانہٴ غیب سے پوری فرما۔

            آپ حضرات بخوبی واقف ہیں کہ دنیا میں مدارس کا نظام کس طریقے سے چل رہا ہے، اللہ ہی کے فضل و کرم سے ہمارا اور دنیا کے تمام مدارس کا نظام چل رہا ہے۔

حرمین شریفین کی حاضری کا مقصد:

             حرمین شریفین کی حاضری میں میری دعاوٴں کا مرکز تو جامعہ کے اساتذہ و طلبا ہی ہوتے ہیں، میں نے وہاں جامعہ کے اساتذہ وطلبا کے لیے خوب دعائیں مانگی،کہ اے اللہ! ان سب حضرات کو قران کی دولت سے مالا مال فرما! اے اللہ جتنے اساتذہ و طلبا ہمارے جامعہ میں اور دیگر مدارس میں خدمت انجام دے رہے ہیں، ان تمام کو اپنے دین حنیف کے لیے قبول فرما۔ ارض مقدسہ میں یہی ساری چیزیں اپنی دعاوٴں میں مانگنے کی ہیں، کہ جتنے بھی مدارس میں طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان سب کو کامیابی عطا فرما، انہیں دین حنیف کا خادم بنا، قرآن کا خادم بنا، خادم حدیث بنا، انہیں ماں باپ کا خادم بنا، والدین کے آنکھوں کی ٹھنڈک بنا۔

دعاوٴں کا اہتمام:

             ہر طالب علم کو دعاوٴں کا خوب اہتمام کرنا چاہیے، اللہ تعالی کا اپنے بندوں سے وعدہ ہے کہ وہ مجیب الدعوات ہے، (یعنی دعاوٴں کا قبول کرنے والا ہے) اللہ آپ کی اور ہماری تمام لوگوں کی دعاوٴں کو قبول کرتا ہے، ہر طالب علم کو اپنا مسئلہ اللہ تبارک وتعالی سے دعائیں مانگ مانگ کر حل کروانا چاہیے، اگر طالب علم اللہ سے دعائیں مانگنے والا بنے گا، اور اللہ کے سامنے رونے والا بنے گا تو اللہ تبارک وتعالی ان شاء اللہ اس کے مستقبل کو بھی روشن بنائیں گے، جب بندہ اللہ تبارک وتعالی سے خوب دعائیں مانگتا ہے، تو اللہ تبارک وتعالی کی جانب سے قبولیت کی گھڑی بھی اس کو نصیب ہو جاتی ہے۔

اللہ کی رحمت سے نا امیدی نہ ہو:

            آپ ہر گز بھی یہ نہ سمجھیں کہ ہماری دعائیں اللہ کے یہاں مقبول نہیں ہوتی؛ بل کہ اللہ کے یہاں آپ کی دعائیں مقبول ہوتی ہیں، کیوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ مجیب الدعوات ہے، دعاوٴں کا قبول کرنے والا ہے، لہذا جب بھی کوئی بندہ اللہ سے دعا مانگے تو اس کے دل میں اس بات کا خوب یقین ہو کہ ہماری دعائیں اللہ کے یہاں مقبول ہوتی ہیں، دعا میں صبر وانتظار چاہیے ،نا امیدومایوس نہیں ہونا چاہیے! اللہ تبارک وتعالی خود ارشاد فرماتے ہیں:

             لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ۔ (الزمر: ۵۳)

             اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو۔

اپنے محسنین کے لیے دعا کا اہتمام:

             اپنے لئے، اپنے والدین کے لیے ،اپنے بھائیوں اور اپنے اعزا واقارب کے لیے دعائیں کرو! جامعہ کے لیے، اپنے اساتذہ اور محسنین کے لیے اور ساری امت کے لیے دعائیں کرو!۔ غرض دعا کا خوب اہتمام کرو!

اللہ کے محبوب بندے:

            پیارے بچو! آپ کا تعلیمی سال چل رہا ہے۔آپ اپنے تعلیمی امتحانات کے لیے خوب دعائیں کریں، اللہ تعالی بے شک آپ کو امتحانات میں کامیاب کرے گا، لیکن شرط یہ ہے کہ آپ محنت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو دعاوٴں سے بھی وابستہ رکھیں۔اللہ کو وہ بندے بہت محبوب ہیں، جو اللہ سے مانگتے ہیں، اللہ سے امید رکھتے ہیں، اپنی تمام ضروریات کو اللہ سے مانگ مانگ کر پورا کرتے ہیں، جو طالب علم دعاوالا بن جاتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے، اور اللہ کے نزدیک اپنا ایک مقام بنا لیتا ہے۔بعضے طالب علم اللہ کے سامنے خوب روتے ہیں، اللہ سے خوب رو رو کر دعائیں مانگتے ہیں، جن کی وجہ سے ہم سب کو بھی رونا آجا تا ہے؛ لہذا ہم سب کو بھی اللہ کے سامنے خوب رونا اور گڑگڑانا چاہیے۔ اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں مانگنا چاہیے، کسی بھی غیر اللہ کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا چاہیے، اللہ کے سامنے ہی ہاتھ پھیلانا ہے، اللہ ہی سے دعائیں کرنی ہے۔

اپنی دعاؤں میں اس دعا کا شامل کریں!!

            ہر طالب علم جب بھی دعا مانگے تو اپنی دعاوٴں میں اس دعا کو بھی شامل کرلے: ” اللّہُمَّ إنَّا نَسْاَٴلُکَ عِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلاً، وَرِزْقًا حَلَالًا طَیِّبًا وَشِفَاءً مِنْ کُلِّ دَاءٍ۔“

            ” اللّہُمَّ ثَبِّتْنَا عَلٰی الایْمَانِ، واَٴمِتْنَا عَلٰی الِایْمَانِ، واحْشُرْنَا یَوْمَ القِیَامَةِ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ، مَعَ النَّبِیِّنَ مَعَ الصِّدِّیْقِیْنَ مَعَ الشُّہَدَاءِ۔“

دعاوٴں کی قبولیت کا تعلق حلال رزق سے ہے:

            جب آپ اللہ سے خوب دعائیں مانگے گے تو اللہ تعالی ضرور بالضرور آپ کی دعاوٴں کو قبول کرے گا، کیوں کہ آپ کا کھانا حلال ہے، ماشاء اللہ آپ حرام کا لقمہ نہیں کھاتے ہیں۔الحمد للہ! آپ کے لیے تو کھانے کا بہترین انتظام کیا گیا ہے، یہ سب نظام ِالٰہی ہے، جس نے طلبا کی تعلیم وتربیت کے لیے امت کے دلوں کو ان کی طرف متوجہ کر دیا ہے۔طلبا کا کام تو صرف قرآن پڑھنا پڑھانا ہے،قرآن یاد کرنا، قرآن سیکھنا سکھانا ہے۔

قرآن سیکھنے سکھانے والوں کی فضیلت:

             حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ” تم میں بہتر وہ ہے جو قرآن کو سیکھے اور قرآن کو سکھائے “ اللہ تبارک وتعالی نے طالب علم کو تو اس کام کے لے منتخب فرما لیا ہے۔ طالب علم بڑے قیمتی ہوتے ہیں، اتنے قیمتی ہیں کہ قرآن اٹھاتے ہیں، قران پڑھتے ہیں اور قران یاد کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالی طالب علم کو دو گنا سہ گنا چار گنا اجر دیتے ہیں۔

دعاوٴں کی فضیلت:

            تو میرے بھائیو!بات اصل یہ ہے کہ حرمین کی حاضری دعا ہی کے لیے ہوتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: الدُّعَاءُ سِلَاحُ المَوْٴمِنِ، وَعِمَادُ الدِّیْنِ، وَنُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَٴرْض․

( المستدرک علی الصحیحین للحاکم، رقم الحدیث: ۱۸۱۴)

             دعا مومن کا ہتھیار ہے، دین کا ستون ہے اور آسمان وزمین کا نور ہے۔

             لہذا ہر طالب علم کو دعا والا بن جانا چاہیے، اور اللہ سے دعا کر کے اپنی ضروریات کو حل کرنا چاہیے۔ جب طالب علم دعا والا بن جاتا ہے، تو اللہ کی طرف سے قبولیت بھی آتی ہے۔

ا ساتذہ و طلبا کی جانب سے سرکار دو عالم اکے دربار میں صلاة و سلام:

             حرمین شریفین کی میری حاضری میں، میں نے اساتذہ و طلبا کی جانب سے سرکار ِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں صلاة و سلام بھی پیش کیا میں نے کہا ” السلام علیک یا رسول اللہ من جمیع طلبة واساتذةالجامعہ “ جامعہ کے تمام طلبا کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صلاة و سلام ۔

ہم سب کو ذاکر بننا ہے:

            حرمین کے سفر میں ایک خاص عمل جو رہا وہ قرآن کی تلاوت ہے۔ ہم اپنے آپ کو دعا، قرآن کی تلاوت اور ذکر اللہ میں مشغول رکھیں گے، کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ذاکر زندہ ہوتا ہے اور غافل مردہ ہوتا ہے؛ لہذا ہم سب کو ذاکر بننا ہے، غافل نہیں بننا ہے۔

دعائیہ کلمات:       بہرحال میرا حرمین کا سفر الحمدللہ بہت کامیاب رہا اور آپ سب طالب علموں کے لیے دعائیں کی، اللہ تعالی ہماری اورآپ کی ساری ضرورتوں کو اپنے خزانہٴ غیب سے پوری فرمائے اور جتنے طلباء مدارس میں پڑھ رہے ہیں اللہ سب کو علم نافع عطا فرمائے۔ آمین! آپ بھی دعا کا معمول بنائیں، قران شریف کی تلاوت کریں۔