ملحوظات ہشت گانہ اورفیصلہ امام ربانی

( حضرت مولانا) حکیم فخر الاسلام الٰہ آبادی (حفظہ اللہ)

            (” قدیم فلسفہ کو نصاب کا حصہ ہونا چاہیے یا نہیں“؟کے عنوان سے اِرسال کی گئی ایک پوسٹ،جس میں مرسل کی جانب سے طرز تواِستفہامی ہے؛مگراندازِ پیش کش سے اِستفہام مترشح نہیں ہوتا؛بلکہ گمان یہ ہوتا ہے کہ نصابِ تعلیم میں شمولیت ِفلسفہ کے باب میں فیصلہٴ فیصلہ امام ربانی سے مرسل کا مقصودسے ایک مطلق حجت قائم کرنا ہے،جب کہ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ فیصلہ حضرت گنگوہی-جو آگے آ رہا ہے-اگرچہ اپنے تناظر میں اہمیت رکھتا ہے ؛لیکن علی الاطلاق حجت نہیں ہے۔آئندہ سطور میں اقتباس ، تجزیہ اور چند ملحوظات پیشِ خدمت ہیں۔)

(مرسلہ پوسٹ )

”قدیم فلسفے کو نصاب کا حصہ ہونا چاہیے یا نہیں؟

            فقیہ النفس امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

            ”فلسفہ محض بیکار امر ہے ،اس سے کوئی نفع معتد بہ حاصل نہیں سوائے اِس کے ،دوچار سال ضائع ہوں اور آدمی خر دماغ ، غبی دینیات سے ہوجائے ، فہم کج وکور فہم ِشرعیات سے ہوجائے اور کلمات کفریہ زبان سے نکال کر ظلماتِ فلاسفہ میں قلب کو کدورت ہو جائے اور کوئی فائدہ نہیں ؛لہذا اس فن خبیث کو مدرسہ سے اخراج دیا تھا ، چنانچہ ایک سال سے اس کی پڑھائی مدرسہ دیوبند سے موقوف کر دی گئی ہے ؛مگر بعض بعض مدرسین اور طلبہ کو خیال اِس کاچلا جاتا ہے اور شاید خفیہ خفیہ درس بھی اِس کا ہوتا ہے ۔“

            یہ پوسٹ واسطہ در واسطہ ارسال شدہ ہے، اولاًجس کسی نے اِرسال کیا ہے، شایداِس غرض سے ارسال کیا ہو کہ فلسفہ کے باب میں خیالات کی اِصلاح ہو جائے، تو یہ جذبہ تو بڑا اچھا ہے، کہ جو فلسفہ پڑھ کر دینیات سے نکل جاتا ہو اور ظلماتِ فلسفہ سے قلب کو مکدر کر لیتا ہو، اُس کے لیے حضرت گنگوہی کے ارشاد پر مشتمل یہ پوسٹ آج بھی ایک تازیانہ عبرت ہے۔ اور اِسی جذبہ سے مذکورہ ملفوظ گنگوہی پیش نظر رہنا چا ہیے کہ یہ ایک قضیہ شرطیہ ہے، جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص فلسفہ اگر کسی صحیح غرض سے پڑھ رہا ہے، تو اسے چا ہیے کہ:

            ”فہم کج و کور، فہم دینیات سے نہ ہو، ظلماتِ فلاسفہ میں قلب کو مکدر“کرنے سے خود کو بچائے۔ اِس کے بعد اگر فلسفہ سے حفاظتِ دین کی خدمت لینے کا فائدہ حاصل کر ے، تو ظاہر ہے، مذکورہ بالا فیصلہ گنگوہی باقی نہیں رہے گا؛ بلکہ بدل جائے گا۔

            حضرت گنگوہی کے ملفوظِ بالا سے پہلے بھی بعض بزرگوں کی طرف سے منطق و فلسفہ کی شدید مخالفت ہوئی ہے،اُس کامنشا بھی یہی علت ہے کہ جن ”کم فہموں اور کم ہمتوں کے حق میں اِس کا مشغلہ تحصیلِ علوم دین میں حارج ہو،تو اُس وقت وہ ذریعہٴ خیر نہ رہا،وسیلہٴ شر ہو گیا۔“نہ صرف پہلے کے بعض بزرگوں کی جانب سے مخالفت ہوئی؛بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ اوراق منطق سے استنجاء جائز ہے۔

            یہ وہ قول ہے جس کو ابنائے زمان، موجودہ دور میں زیادہ تیزی کے ساتھ گاتے پھررہے ہیں اور اس سے معقولات و منطق کی حرمت کا استنباط کر رہے ہیں؛مگر اِس سے علی الاطلاق حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ ذرا دیکھیے، اِستنباطِ حرمت پر حضرت نانوتوی نے کیسابلیغ فقرہ ارشاد فرمایا، اُنہوں نے فرمایا کہ:

            جوازِ استنجاء سے حرمت ِفن پر اِستدلال کرنا ایسا ہی ہے جیسے یہ استنباط کہ:

            ڈھیلے سے استنجاء جائز ہے ؛اس لیے ڈھیلے کا جمع کرنا نا جا ئز ہے۔

            اگر یہ شبہہ ہو کہ منطق و فلسفہ سے شغف بعض کے لیے ،علوم دینیہ سے محرومی کا باعث ہو جاتا ہے ،اس لیے یہ مطلق ناجائز ہے ،تو یہ بات توصرف و نحو و ادب غیرہ میں بھی ہے ،معقولات ہی کی کیا خصوصیت!چناں چہ الامام محمد قاسم نانوتوی کی درج ذیل صراحت نظر انداز کرنے کے قابل نہیں کہ:

            ” اگر اِشتغالِ منطق؛ گاہ وبے گاہ، یا بعض افراد کے حق میں موجبِ محرومیِ علوم دینیہ ہو جا تا ہے، تو یہ بات صرف و نحو و غیرہ علوم مسلَّمة الاِباحة میں بھی بالبداہت موجود ہے“۔

            منطق و فلسفہ کی مخالفت عالم ربانی مولانا رشید احمد گنگوہی نے تو بعد میں کی،اُن سے پہلے بعض بزرگوں کی جانب سے اِس کی مذمت کی جاچکی ہے،ڈھکی چھپی وجہ سے پردہ اُٹھاتے ہوئے امام نانوتویفرماتے ہیں:

            پہلی وجہ:”جس کسی نے بزرگانِ دین میں سے منطق کو برا کہا ہے، بایں نظر کہاہے“(۱)کہ”کم فہموں اور کم ہمتوں کے حق میں اِ س کا مشغلہ تحصیلِ علوم دین میں حارج ہو، تو اُس وقت وہ ذریعہٴ خیر نہ رہا، وسیلہٴ شر ہو گیا“۔

            دوسری وجہ-”یا یہ وجہ ہو ئی کہ خود بہ وجہِ کمالِ فہم ان بزرگوں کو منطق کی ضرورت نہ ہوئی، جو (اِس فن کے) مطالعہ کی نو بت آتی، (اس لیے، وہ) یہ سمجھے کہ یہ علم من جملہ علومِ اِیجاد کردہٴ حکمائے یو نان ہے، اور اُن (حکمائے یو نان)کے اِیجاد کیے ہو ئے علوم کی مخالفت کسی قدر یقینی تھی، اس لیے یہی خیال جم گیا کہ یہ علمِ بھی مخالفِ دینِ اسلام ہی ہو گا۔

            ورنہ اِس علم(معقولات) کی حقیقت سے آگاہ ہو تے اور اِس زمانہ کے نیم ملا وٴں کے اَفہام کو دیکھتے؛ جو چھوٹتے ہی قرآن وحدیث کو لے بیٹھتے ہیں اور- با وجودے کہ قرآن کتابِ مبین اور اُس کی آیات واقعی بیِّنات ہیں- فہمِ مطالب واحکام میں ایسی طرح دھکے کھاتے ہیں، جیسے آفتابِ نیم روز کے ہوتے، اَندھے دھکے کھا تے ہیں۔

            پھر اُن خرابیوں کو دیکھتے جو ایسے لو گوں کے ہا تھوں دین میں واقع ہو ئی ہیں، ہر گز یوں نہ فرماتے (منطق و فلسفہ کو برا نہ کہتے)؛بلکہ علمائے جامعین کی برکات اور فیوض کو دیکھ کر تو عجب نہیں، بشرطِ حسنِ نیت بوجہِ توسُّلِ مذکور(کہ یہ منطق و معقولات: خوبیِ اِستدلال، کمالِ اِستدلال، نیز تشحیذِذہن کا ذریعہ ہونے اور مراداتِ خدا وندی و نبوی کے سمجھنے میں اور اُن پر پڑنے والے شبہات کے اِزالہ میں نافع ہیں۔ف) ترغیب ہی فرماتے۔“

            (اور ترغیب ) کیوں نہ فرماتے؛ وجہِ حر متِ علومِ فلسفہ اگر ہے تو مخالفتِ دینِ اسلام ہے، چناں چہ تصریحاتِ متن فقہاء اِس پر شاہد ہیں۔سو، فرمائیے تو سہی!منطق کا وہ کون سا مسئلہ ہے جس کو یوں کہئے(کہ) مخالفِ عقائدِدین و اسلام اور احکامِ دین وایمان ہے۔

            مگر جب مخالفت نہیں اور وجہِ ممانعت مخالفت تھی، تو (اگر اِس کے بعد بھی فقہاء نے برا کہا، توسوائے اس کے ) اور کیا کہئے کہ بوجہِ نا واقفیتِ حقیقتِ علم مذکور( منطق وفلسفہ کی حقیقت سے نا واقف ہو نے کی وجہ سے) فقط اِنتسابِ فلاسفہ سے اِن فقہاء کو دھوکا ہوا، جو اس کو بھی ہم سنگِ علومِ مخالفہ سمجھ گئے۔ کلامِ فقہاء سے بہ نسبت علومِ فلسفہ(ممانعت کو) ایسی عامہ مطلقہ سمجھ لینا، اُنہی کا کام ہے جن کو فہمِ ثاقب خداوند عالم نے عطا نہیں کیا“۔

            ( مراداتِ خدا وندی و نبوی کے سمجھنے میں اور اُن پر پڑنے والے شبہات کے اِزالہ میں علوم منطق و فلسفہ کے نافع ہونے کا ہزاروں لاکھوں علمائے سلف و خلف کو جو تجربہ ہوا،اُسی تجربہ کی بنا پر اکابر ِسلف نے معقولات پر عبور حاصل کیا ہے۔فن سے تعلق کے باب میں اُن کا اِجمالی جائزہ بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ اب جو معقولات سے گریز کی راہ تجویز کی جانے لگی ہے، وہ محض مغربی اَثر ہے، جس کا نتیجہ صحیح اُصولوں کا ترک اور خیالات اور عقائد میں اِلتباسِ فکری ہے،اُس کو حضرت گنگوہی اور ما سلف علماء کی مخالفت سے کوئی نسبت نہیں۔

             فلسفہ اور معقولات میں اکابر وسلف کے شغف اورمہارت کی مختصر روداد ذکر کرتے ہوئے الامام محمد قاسم نانوتوی فرماتے ہیں:

            ”صاحبو! اِس زمانہ سے لے کر آغازِ سلطنتِ عباسیہ تک جس میں علومِ فلسفہ یو نانی سے عربی میں ترجمہ ہوئے، لاکھوں علماء اور اولیاء ایسے ہیں اور گزرے، جن کو علومِ مذکورہ میں مہارتِ کاملہ تھی اور ہے … علمائے ضلع سہارنپور کی جامعیت خود مشہور ہے“۔(۱)

            ”پہلے زمانہ کی سنئے!… مولانا عبد الحی صاحب، مولانا اسمٰعیل صاحب شہید، مولانا شاہ عبد القادر صاحب، مولانا شاہ رفیع الدین صاحب، مولانا شاہ عبد العزیز صاحب، مولانا شاہ ولی الله صاحب رحمةالله علیہم کا کمال علومِ مذکورہ میں شہرہٴ آفاق ہے۔حضرت شاہ عبد الحق صاحب محدث دہلوی اور حضرت شیخ مجددِ الف ثانی رحمةالله علیہما کا کمال علومِ مذکورہ میں اُن کی تصانیف سے ظاہر و باہر ہے۔حضرت علامہ سعد الدین تفتازانی اور علامہ سید شریف مصنفانِ شرحِ مقاصد وشرحِ مواقف اور علامہ جلال الدین دوَّانی مصنفِ شرحِ عقائد، ملا جلال- جو تینوں کے تینوں امامِ علمِ عقائد ہیں- علومِ مذکورہ میں ایسے کامل ہیں کہ کا ہے کو کوئی ہوگا!حضرت امام فخر الدین رازی، حضرت امام غزالی، حضرت شیخ محی الدین عربی یعنی حضرت شیخ اکبر رحمةالله علیہم اجمعین کا علوم مذکورہ میں کمال ایسا نہیں جو ادنی سے اعلی تک کسی پر مخفی ہو …“۔

سائنسی اِلتباسات اور جدید اعتزال سے حفاظت کے لیے نسخہٴ اِکسیر

             اَب مابعد کے زمانہ میں الامام محمد قاسم نانوتوی کی تحریریں ہیں، موجودہ زمانہ کے تمام اعتراض جو علوم جدیدہ، سائنس و عقلیات کی راہ سے پیدا ہوتے ہوں، اُن شبہات کو دور کر نے کے لیے یہ تحریریں نسخہٴ اِکسیر ہیں؛مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ اُن میں سے اکثر تحریریں معقولا ت و فلسفہ میں درک حاصل کیے بغیر قابو میں آنے والی نہیں،تو اب ان سے محرومی کامطلب یہ ہوا کہ معقولا ت و فلسفہ کی مخالفت میں سرگرداں رہیے،فکری اِلتباسات اور جدید اعتزال کے گڑھے میں گرتے جائیے ۔

بہر حال،حضرت گنگوہی کے اقتباس کو سہارا بنانے کے حوالہ سے، یہاں دو باتیں ذہن میں رہنا ضروری ہیں:

            ۱-بعض بزرگوں کی شدید مخالفت کے باوجود ان فنون(منطق و فلسفہ)سے جو فوائد حاصل کر نے چاہئیں، جو کہ مقصود کی حفاظت کے لیے ضروری ہیں،ان فوائد کی تحصیل کی غرض سے یہ عقلی فنون درسیات میں صدیوں سے؛بلکہ ہزار سال سے متداول چلے آ رہے ہیں۔

(۱)قاسم العلوم حضرت نانوتوی: اَحوال وکمالات … ص۶۶۶، تا ۶۷۳، از: جناب نور الحسن راشد کاندھلوی۔

            ۲-حضرت گنگوہی کے دارالعلوم دیوبند کے سرپرست ہونے سے پہلے، بہ زمانہ سر پرستیِ امام قاسم نانوتوی، یہ فنون پورے اعتماد و بصیرت کے ساتھ جس مذکورہ ضرورت کے تحت نصاب میں شامل رکھے گئے تھے، آج تک ان کی وہ ضرورت مسلّم چلی آ رہی ہے؛بلکہ دورِ حاضر میں کچھ بڑھ گئی ہے۔

امور ِہشت گانہ

            جب یہ بات معلوم ہو گئی،تواب امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے مذکورہ فیصلہ کے متعلق معروضات ِذیل ملاحظہ فرمائیے:

            ۱-امام ربانی کا یہ فیصلہ محض ان کے ذاتی تجربہ پر مبنی تھا، جوخو د ان کی سر پرستی کے زمانہ میں اقل قلیل مدت کے لیے ایک وقتی زجر کے طور پر،پورے آب وتاب کے ساتھ نہیں؛ بلکہ ادھورے انداز میں جاری ہوا اورجلد ہی جزئی یا اکثری یا کلی طور پر بہ تدریج منسوخ ہو گیا۔

            ۲-نہ صرف دارالعلوم دیوبند میں؛ بلکہ خود مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور میں بھی (جسے امام ربانی حضرت گنگوہی کے مشرب و موقف کے ساتھ وابستگی پر اصرار ہے) نہ چل سکا۔

            ۳-ان دو حقیقتوں کی موجود گی میں،سوچنے کی بات یہ ہے کہ:

            حضرت گنگوہی کی مراد و منشا کو ان کے معاصر،ان کے متبعین،منتسبین و تلامذہ نے زیادہ سمجھا ہوگا، جنہیں معقولات کے شاملِ نصاب رہنے دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی تھی؛بلکہ وہ اس کی شمولیت مفید سمجھتے تھے۔

            یا بعد کے اُن لوگوں نے جن کازمان و مکان دونوں حضرت گنگوہی سے بہت بعید ہے۔جوحضرت کے فکر و مسلک سے بھی بہت دورہیں۔

           جامعیت ِعقل و نقل -جو مطلوب ہے اور جس کے لیے معقولات کی ضروت ہے- سے بھی انہیں بیگانگی ہے۔

          دین کے اندر پیدا کی جانے والی زیغ و تلبیس کے علاج کے اصولوں سے بھی نا آشناہیں۔

            اِس باب میں ان کی جہد وسعی بالکل بے اصول ؛بلکہ خلافِ اصول ہے؛چناں چہ ایک طرف حضرت گنگوہی کی منقولات و معقولات میں مہارت سے انہیں کچھ نسبت نہیں؛ بلکہ مناسبت نہیں، دوسری طرف اُن کی حالت یہ ہے کہ محض دور سے بیٹھ کر ایک ملفوظ پڑھ لیا اور لے اڑے۔بالکل ایسے ہی جیسے:”سدا بہار “ پودا کے لیے، ایک دیہاتی مثل ہے کہ:

            بے حیا کے دو ٹھو سینگ نکلی، اُو کہِس کہ مو کا چھاں ہو گئی۔

            ۴-واقعہ یہ ہے کہ دورِگنگوہی میں جو لوگ بات کو سمجھتے تھے، انہوں نے حضرت گنگوہی کے فیصلہ کو ایک ذاتی، وقتی اور معلول بہ علت فیصلہ ہی قراردیا۔

            ۵-چناں چہ جب حضرت گنگوہی کا مذکورہ فیصلہ سامنے آیا،عین اسی وقت مولا نا مملوک العلی صاحب کے بیٹے،مولانا محمد قاسم نانوتوی کے معاصر و شاگرد اوردارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس و متکلم مولانا محمد یعقوب نانوتوی سے طلبہ دارالعلوم نے شکایت کی کہ حضرت گنگوہی نے فلسفہ کو حرام قرار دے دیا، اُس وقت فکری حیثیت سے اسلام کے دفاعی امور میں رسوخ رکھنے والے ترجمانِ حق امام و متکلم انہی حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی نے جو کچھ فرمایا وہ امام ربانی حضرت گنگوہی کے ارشاد کی نہایت بلیغ تشریح ہے، فرمایا:

            ”ہرگز نہیں،حضرت (گنگوہی)نے نہیں حرام فرمایا؛بلکہ تمہاری طبیعتوں نے حرام کیاہے۔“

            اور حضرت متکلم اعظم مولانا محمد یعقوب نانوتوی کا یہ ارشاد،توآنکھ کھول دینے کے لیے کافی ہے کہ:”ہم ،تو پڑھتے ہیں اورہم کو امید ہے کہ جیسے بخاری ا ور مسلم کے پڑھنے میں ہم کو ثواب ملتا ہے،ایسے ہی فلسفہ کے پڑھنے میں بھی ملے گا۔ ہم تو اعانت فی الدین کی وجہ سے فلسفہ کو پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔“(۱)

            ۶-اگر حضرت گنگوہی کی نظر میں فلسفہ علی الاطلاق شجر ِممنوعہ ہوتا، تو وہ”آب حیات“ جیسی کتا ب کی تصنیف کے محرک نہ بنتے، کیوں کہ حضرت نانوتوی کے استدلال کا اسلوب اُنہیں معلوم تھا،اِس کے باوجود انہوں نے کتاب کی تصنیف پر ابھارا۔

            کتاب موجودہے،اِستدلال کااندازدیکھ لیجئے کہ پوری کتاب فلسفہ کے مسائل،حقائق، دلائل اور طبعیاتی و ما بعدالطبیعاتی مناقشات سے بھری پڑی ہے۔

            اِسی طرح حضرت گنگوہی اس کتاب کی تصنیف کے بعد اس کی مدح و ستائش نہ فرماتے، مگر انہوں نے مدح فرمائی اور مسرت کااظہار کیا۔

(۱)حکیم الامت:ملفوظات جلد ۲۹ ص۱۶۷ ،۱۶۶۔

            ۷-اصل اس باب میں یہ ہے کہ ان حضرات کی نظر میں مطالعہ ”بخاری“ اورمطالعہ ”امور عامہ“ میں باعتبار غرض ۲یعنی حصولِ ثواب کی امید ۲ فرق نہ تھا۔ چناں چہ حکیم الامت نے حضرت مولانا یعقوب نا نوتوی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ:

            ”میں جس طرح مطالعہ بخاری کو موجبِ اجر سمجھتا ہوں اُسی طرح میر زاہد اور امور عامہ کو۔ “(۱) اِس کی وجہ ذکر کرتے ہوئے حکیم الامت  فرماتے ہیں :”کیوں کہ اُن کا مقصود اچھا تھا“(۲)

             مقصود اچھا ہونے کی وجہ سے ہی ان کی تعلیم نہ صرف درست ؛بلکہ باعثِ ثواب ہے اور اسی نسبت سے ،یہ لائقِ قدر ہیں ، چناں چہ حکیم الامت ہی کا ارشاد ہے کہ :

            ”معقول و فلسفہ خدا کی نعمت ہیں، ان سے دینیات میں بہت معاونت ملتی ہے۔ “ (۳)

            لہذااس کا شغل حصولِ مقصود میں معین و مدد گار ہے،اور یہ کہ:

            فکری التباسات کے ”اس اخیر زمانہ میں جن حضرات سے دین کو نفع ہوا، وہ معقول ہی کی بدولت ہوا، انہوں نے معقول کو منقول کر کے دکھلا دیا، تاکہ(جو تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں، عقلی علوم و تحقیقات کے ماہر کہے جاتے ہیں؛مگر دین کے باب میں غبی ہیں، دینی حقائق و عقائد میں طرح طرح کے خلجانات کو نشو نما دیتے ہیں اور اصلیت کو ملبس کر کے پیش کرنا، ان کی عادت ہے، ان) اغبیاء کی سمجھ میں آ جائے۔ “(۴)

            اوپر جو اقتباسات ذکر کیے گئے،ان میں سے اکثر وبیشتر کا ماخذ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی  کے ملفوظات وارشادات ہیں ،یہاں یہ بات بہت زیادہ قابل لحاظ ہے کہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ،حضرت گنگوہی  کے بعد تقریبا ۲۵ سال تک ایک خالص مذہبی مرکزی مدرسہ دارالعلوم دیوبند کے سرپرست رہے ، تو انہوں نے حضرت گنگوہی  کے فیصلہ کو کس نظر سے دیکھا ؟

            ۸- اِس سوال کا جواب ہمیں ان کے دور سرپرستی کے ایک عملی وتجربی واقعہ میں مل جاتا ہے، جو حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحب اورمولانا شاہ وصی اللہ صاحب الٰہ آبادی  کے ہم سبق مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی کی جانب منسوب ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ”۱۳۲۳ھ میں جب احقر کی تعلیم میں یونانی فلسفہ کی کتاب میبذی کا نمبر

(۱)ملفوظات جلد ۱۵ ص۹۶۔

(۲)ملفوظات جلد ۱۵ ص۹۶۔

(۳)ملفوظات جلد ۱ ص۲۴۸۔(۴)ایضا جلد ۱۵ص۶۹۔

آیا، تو مجھے والد محترم سے سنی ہوئی یہ بات یاد آئی کہ حضرت مولانا گنگوہی کی رائے مدارس عربیہ میں یونانی فلسفہ کی تعلیم کے خلاف تھی …اس وقت مجھے بھی تردد ہوا کہ یہ فن پڑھوں یا نہیں؟“

            خیال رہے کہ مفتی محمد شفیع صاحب  کے والد ماجد حکیم الامت کے ہر لحاظ سے معاصر اور زمانہ طالب علمی میں رفیق درس رہ چکے تھے اور” حضرت گنگوہی سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے “ مگر مفتی شفیع صاحب لکھتے ہیں کہ اس وقت انہوں نے فرمایا کہ :

            ”حضرت گنگوہی کے بعد حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کو آپ کا قائم مقام سمجھتا ہوں ؛ اس لیے مناسب ہے کہ تمہارے بارے میں ان کے مشورے پر عمل کیا جائے ۔“(۱)

            حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندی کا اپنے متعلق لکھا ہوا یہ واقعہ تو خاصا شہرت پا چکا ہے کہ معقولات کسے پڑھنا چاہئے، کسے نہیں اور خود فرزند یاسین، آگے چل کر مفتی اعظم بننے والے محمد شفیع دیوبندی کو پڑھنا چاہیے یا نہیں، اس مسئلہ کو لے کر ان کے والد نے ”تھانہ بھون“ کا سفر کیا، حضرت مولانا تھانوی نے فرمایا:

            ہاں، مجھے معلوم ہے کہ اس معاملہ میں حضرت نانوتوی اور حضرت گنگوہی کی رائے میں اختلاف تھا، دونوں بزرگ ہمارے مقتدا اور پیشوا ہیں، ان میں جس کی رائے پر بھی کوئی عمل کرے، خیر ہی خیر ہے؛ لیکن تمہارے متعلق میرا مشورہ یہ ہے کہ تم ضرور اس فن کو پڑھو اور محنت سے پڑھو۔ “(۲)

            اگران امور ہشت گانہ کی روشنی میں ملفوظِ گنگوہی پرنظر کی جائے، تو یہ ملفوظ بہت بصیرت افروز ہے؛ مگر تشریح کے بغیر ملفوظ نشرکرنا، ملت کو آزمائش میں ڈالنا اور مغا لطہ میں مبتلا کرناہے، اس سے بچنا چا ہیے۔

(۱)ملفوظات جلد ۲۴ص۲۱۔

(۲)ایضا ملفوظا ت جلد۲۴ص۲۳۔

والسلام فخرالاسلام الہ آبادی۲۱شوال۱۴۴۵ھ=۱/مئی ۲۰۲۴ء

                                                            نظر ثانی:۲۸ ذی الحجہ۱۴۴۵ھ=۵جولائی ۲۰۲۴ء،

نظر ثالث:۱۷ محر الحرام۱۴۴۶ھ=۲۳جولائی ۲۰۲۴ء،سہ شنبہ)