مقاتلہ حربیین (جہاد):عقل کا فیصلہ

(الا مام محمد قاسم نانوتوی اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی تحقیقات کی روشنی میں)

                                                                                    مولانا حکیم فخرالاسلام

            عصرِ جدید میں دینِ اسلام کے اجزائے خمسہ :۱-عقائد۲-عبادات۳- معاملات و سیاسات۴-معاشرات و عاداتِ خاصہ اور۵-اخلاقِ باطنی و جذباتِ نفسانیہ میں سے ہر ایک میں اعتقادی اور فکری طور پر بعض غلطیاں پیدا ہو گئی ہیں۔زیرِ بحث موضوع کا تعلق چوں کہ معاملات و سیاسات سے ہے،اس لیے پہلے ’معاملات و سیاسات ‘ ہی کے متعلق اصولی طور بعض کوتاہیوں کی نشاندہی کر دینا مناسب ہے۔اِس باب میں بڑی اہم اور اصولی غلطی یہ کی جا تی ہے کہ ایسے امور دین وشریعت کا جزء نہیں سمجھے جاتے؛ بلکہ محض تمدنی امور سمجھ کر اِن سے رغبت یا نفرت کا معاملہ کیا جا تا ہے ۔یہ ایک ایسی بات ہے جو عقل کی رو سے کسی طرح درست قرار نہیں دی جا سکتی۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے -عقل کے صحیح اصول کی نشاندہی کرتے ہوئے -اِس غلطی کا نہ صرف اِستدراک کیا ہے؛بلکہ کسی چیز کے جزءِ شریعت ہونے، نہ ہونے کاایک معیاربھی بیان کیا ہے ، فرماتے ہیں:

            ” شریعت میں کسی چیز کے داخل ہونے ،نہ ہونے کامعیار… صرف ایک ہی چیز ہے: وعدہٴ ثواب یا وعید ِعذاب۔ اِس کے بعد اب قرآن وحدیث کوہاتھ میں لے کر پڑھو اور غورکرو۔ جابجا اِن ابوابِ(تمدن) میں ثواب، عذاب کے وعدے اور وعیدیں نظرپڑیں گی ۔پس جب معیار محقق (اور ثابت شدہ :ف)ہے، اب(معاملات و سیاسات کے:ف) جزو شریعت ہونے میں کیا شبہ رہا؟“۔

                        (حکیم الامت -الانتباہات المفیدة عن الاشتباہات الجدیدةص ۶۶،۶۷کتب خانہ امداد الغرباء،سہارن پور)

            معیار کی اِس تعیین کے بعد حکیم الامت نے موجودہ احوال میں (Contemporaryحیثیت سے)پیدا ہونے والے شبہہ اور اُس کا جواب بھی بیان فرمایا ہے جسے ذیل میں درج کیا جا تا ہے:

            ”اگر واقعاتِ زمانہ کو دیکھ کر شبہ کیا جاوے کہ ہم اِس وقت کھلی آنکھوں دیکھتے ہیں کہ شریعت پرعمل کرنے سے کاروائی میں تنگی پیش آتی ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ احکام اِس زمانے کے مناسب نہیں۔اِس کا حل یہ ہے کہ تنگی ِقانون کا حکم اُس وقت صحیح ہوسکتاہے کہ جب اُس پر عامل(عمل کرتے ) ہوں اورپھرکام اٹکنے لگیں۔سواِس کو کوئی ثابت نہیں کرسکتا ۔اور اِس وقت جوتنگی پیش آرہی ہے اُس کا سبب تو یہ ہے کہ غیر عامل (عمل نہ کرنے والے)زیادہ ہیں اور عامل(عمل کرنے والے) کم۔

            جب اِن قلیل عاملوں کواُن کثیرغیرعاملین سے سابقہ پڑے گا،ضر ور معاملات میں کشاکشی ہوگی۔ سواِس تنگی کا مرجع توہمارا طرزمعاشرت ہے ،نہ کہ احکامِ شریعت۔ جیسے طبیب مریض کو دس چیزیں کھانے کوبتلاتاہے ؛مگر اُس کے گاوٴں میں ایک بھی نہیں ملتی۔ تویہ تنگی طب میں نہیں ہوئی ،قریہ(گاوٴں) کی تجارت میں ہوئی۔اورکہیں(ایسا ہوتا ہے کہ در حقیقت)تنگی واقع نہیں ہوتی، محض اپنے ذاتی ضررسے تنگی کا شبہ ہو جاتا ہے ،تو ایساذاتی ضرر-مصلحتِ عامَّہ کی رعایت سے- کون قانون ہے کہ جس میں نہیں ہے۔“

(حکیم الامت -ایضاًص ۳۶،۳۷۔)

            رسالہا لانتباہات المفیدة عن الاشتباہات الجدیدة“ میں دیے گئے اِس جواب کے علاوہ مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور کے ایک وعظ میں”تنگی“کی اِطلاقی نوعیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے-مسئلہ کی وضاحت آسان اُسلوب میں- اس طرح فرمائی ہے کہ :”دین میں تنگی یا رکاوٹ دو طرح سے ہوتی ہے:

الف- دوسروں کی طرف سے رُکاوٹ:ایک تو یہ کہ کوئی عمل کرنا چاہے تودوسرے نہیں کرنے دیتے۔چناں چہ”دیکھ لیجیے! آج کل کوئی شریعت پر عمل چاہتا ہے،تو ضرور رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔عقائد سے تو کوئی ہٹا نہیں سکتا،کیوں کہ عقیدہ فعلِ قلب ہے،وہاں اعمال میں رُکاوٹیں ہیں۔….اورمعاملات وہ اعمال ہیں کہ جن کا تعلق دوسروں سے ہوتا ہے ،جب تک کہ دونوں با ہمت اور پکے نہ ہوں،معاملات کی اصلاح کیسے ہو؟مذاق عام طور سے بگڑے ہوئے ہیں۔اگر ایک شخص اِصلاحِ معاملہ کی کوشش کرتا ہے،تو دوسراپکا نہیں ہوتا اور آ پڑوسن مجھ سے ہو(یعنی اپنے ساتھی کو بھی اپنے ہی جیسا بنا نا چاہتا ہے اور)اُس کو بھی بگاڑ لیتا ہے۔بس اِ س طرح سے ایک سے دوسرا،دوسرے سے تیسرا مبتلا ہو کر سب ایک بلائے عام میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ سب کے معاملات بگڑ گئے ہیں۔اور مسائلِ شرعیہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ بہت تنگ ہیں۔“

(حکیم الامت:مواعظ و خطبات مظاہر:ص ۱۸ ۲ جامعہ مظاہر علوم سہارن پور)

 ب-خود اپنے نفس کی مزاحمت:”دوسرے یہ کہ خود اپنانفس مزاحمت کرتا ہے جس سے کسل غالب آ جاتا ہے۔….(عمل میں مشقت ہونے لگتی ہے اور:ف)اعمال میں مشقت کا سامنا ہونا،آیت وَ ما جَعَلَ عَلَیْکُمْ فی الدِّینِ مِنْ حَرَجِِ (اور اُس نے تم پر دین (کے احکام) میں کسی قسم کی تنگی نہیں کی۔بیان القرآن جلد ۷ ص۸۴)کے خلاف نہیں۔کیوں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ دین فی نفسہ آسان ہے،دشوار نہیں،یہ اور بات ہے کہ منازعتِ نفس کی وجہ سے اِس میں دشواری آ جائے۔کیوں کہ یہ ضرور ہے کہ اعمالِ شرعیہ میں نفس کی خواہشوں کو پا مال کیا جا تا ہے اور اُس کی مخالفت کی جا تی ہے۔اور یہ نفس کو ضرور گراں ہے،تو اِس منازعت اور کشا کشی کی وجہ سے دشواری آ جانا یسر فی نفسہ کے خلاف نہیں۔اِسی لیے قرآن میں وَ ما جَعَلَ عَلَیْکُمْ فی الدِّینِ مِنْ حَرَجِِ سے پہلے وَ جَاھِدُوا فی الله ِحَقَّ جِھَادِہِِ (”الله کے کام میں خوب کوشش کیا کروجیسا کوشش کرنے کا حق ہے“:بیان القرآن جلد ۷ ص۸۴)بھی آیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ دین میں مجاہدے کی بھی ضرورت ہے۔پس ایک جزء کو ہی مت دیکھو ،دونوں جزء کو ملا وٴ۔ “

(حکیم الامت:مواعظ و خطبات مظاہر:ص ۱۸ ۲)

            دینِ اسلام میں تنگی کا شبہہ دور کرنے کے بعد رسالہ ”الانتباہات…“ ہی میں محقق تھانوی فرماتے ہیں:” پس ہم کواِس کی بھی ضرورت نہیں کہ اِن احکام کو زبردستی مصالحِ موہومہ (وہمی مصلحتوں)پر منطبق کرکے آیات واحادیث کے غلط معنی گھڑیں اور احکام کو اُن کی اصلیت سے بدلیں۔“

            حکیم الامت کی اِس صراحت میں بعض اُن مسلمانوں کو ہدایت اور تنبیہ فرمائی گئی ہے جو غیر مسلموں کی جانب سے پیش آنے والی شدیدمزاحمت اور اعتراضات سے مضطرب ہو کراحکامِ شریعت میں تبدیلی کے درپے رہتے ہیں۔ویسے بھی غور کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ اِن مزاحمتوں کا حل شریعت کے احکام میں تبدیلی نہیں ہے؛بلکہ اِس باب میں صحیح اصول یہ ہے کہ جب شریعت کے کسی حکم پر اعتراض سامنے آئے،تو معترض ومعارض سے اعتراض و مزاحمت کے منشا اور بنیاد پر دلیل کا مطالبہ کیا جائے۔لیکن اِس وقت ہو یہ رہا ہے کہ اہلِ مغرب سے دلیل کے مطالبہ کوبے ادبی خیال کر کے خود شریعت میں ہی تحریف و تاویل کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔اِس نفسیاتی روگ اور اصول کی خلاف ورزی کا اِظہار اِن الفاظ میں فرمایا گیا ہے:

            ”مدعیانِ خیرخواہی ِاسلام کی عادت ہوگئی ہے کہ مبانی اعتراض پر مطالبہٴ دلیل(اعتراض کی بینادوں پر دلیل کے مطالبہ ) کوبے ادبی سمجھ کر اِعتراض کو تسلیم کرکے خود حکم مُعْتَرَض علیہ(-جس شرعی حکم پر اعتراض ہے-) کو فہرست ِاحکام سے نکال کر اُس کی جگہ دوسرا حکم محرَّف:(تحریف کر دہ حکم) بھرتی کرکے اِس مضمون کا مصداق بنتے ہیں:﴿وَاِنَّ مِنْہُمْ لَفَرِیْقاً یَلْوُوْنَ اِلٰی قَوْلِہِ وَہُمْ ْیَعْلَمُوْنَ﴾” 

(حکیم الامت -الانتباہات المفیدة عن الاشتباہات الجدیدةص ۶۶،۶۷)

اوربے شک ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ کج کرتے ہیں اپنی زبانوں کو کتاب پڑھنے )میں (یعنی اس میں کوئی لفظ یا تفسیرغلط ملادیتے ہیں،تاکہ تم لو گ اس کو کتاب کا جز سمجھو ،حالانکہ وہ کتاب کا جز نہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کے پاس سے ہے، حالانکہ وہ خدا تعالیٰ کے پاس سے نہیں ۔اور اللہ تعالیٰ پرجھوٹ بولتے ہیں اور وہ جانتے ہیں۔“

(بیان القرآن جلد ۱ ص ۲۴۵۔ مطبع ملتان)

            یہ تو آیتِ کریمہ کا مطلب ہوا ۔آگے آیت کی وضاحت کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں: ”ممکن ہے کہ تفسیر غلط بیان کرتے ہوں ۔ اور غلط تفسیر میں․․․․․ یہ دعوی ہو تا ہے کہ تفسیر قواعد شرعیہ سے ثابت ہے․․․․ اس صورت میں معنیً جز وکتاب ہو نے کا د عوی ہو گا۔ بایں معنی کہ جز وماثبت بالشرع ہے اورہرثابت بالشرع حقیقةً ثابت بالکتاب ہے۔ کیونکہ دوسرے دلائل شرعیہ ُمظْہِرِ احکام ہوتے ہیں نہ کہ مثبتِ احکام۔“یہ اہلِ کتاب کا ذکر تھا،اِس امت کا ذکر کرتے ہوئے تفسیر بیان القرآن میں”ف“کے تحت فرماتے ہیں:”․․․․․ ملحدوں نے اِس امت میں بھی حدیث میں تحریف لفظی بھی اور قرآن میں صرف تحریف معنوی کی ہے کیونکہ الفاظ قرآنیہ نصاً محفوظ ہیں۔“

(بیان القرآن جلد ۱ ص ۲۴۵۔ مطبع ملتان)

            پھراسلامی احکام میں اِس بے جا تاویل کے محرک کی نشاندہی فرماتے ہیں کہ”اصل جڑ خرابی کی حب دنیاوتملق اہلِ دنیا(دنیا کی محبت جو آخرت سے رُکاوٹ پیدا کرنے والی ہے اور دنیاداروں کی چاپلوسی )ہے۔ میں سچ کہتاہوں کہ جن اہل دنیاکے تملق میں جن مبانی (اعتراض کی بنیادوں) کو تسلیم کرکے اصولِ اسلامیہ کو بدلاجاتاہے اگر وہ اہل دنیا ان اصول(اسلامیہ) کوتسلیم کرلیں،تویہ محبین (دنیاداروں کی محبت میں فریفتہ )فوراً اپنی سابق رائے کو چھوڑکر اُن مبانی کو (اہلِ تمدن کی موافقت میں اعتراض کے منشاء اور بنیادکو) غلط بتلانے لگیں گے۔ غرض قبلہٴ توجہ ایسے لوگوں کا رضاہے اہل دنیا کی۔ جس میں رضاہو اُدھرہی پھرجاویں گے ۔“

(حکیم الامت -الانتباہات المفیدة عن الاشتباہات الجدیدةص ۶۶،۶۷)

            معاملات و سیاسات ہی کا ایک شعبہ مقاتلہ حربیین ہے جو اِس وقت ہمارا موضوع ہے۔اِس باب میں جو کچھ اِضطراب بعض مسلمانوں کو پیش آتا ہے اُس کابھی اصل منشا وہی جس کی نشاندہی گزشتہ صفحات میں کی گئی،یعنی غیر مسلموں کی جانب سے کیا جا نے والا اعتراض ۔اِسی اعتراض سے مرعوبیت کے نتیجہ میں مسلمان تجدد پسندوں کی جانب سے اِضطراب کا اِظہار کیا جا تا ہے اور حکمِ شریعت میں بے جا تاویلات کی گنجائش نکالی جاتی ہے۔اِس روش کی اصلاح تو حکیم الامت مجدد لاملت حضرت تھانوی نے کافی وضاحت کے ساتھ فرمائی ہے۔یہاں اختصار کے ساتھ وہ اِصلاحات ذکر کی جا تی ہیں:

            ”ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ عقل صحیح کا مقتضاہر حال میں عدل ہے اوروہ منحصر ہے شریعت میں، تو ہر حال میں جو حکم شریعت کا ہو اُس کے ما تحت رہ کر آ دمی کو رہنا اور کام کرنا چاہیے۔ شریعت کواپنے مصالح کے تا بع نہیں بنانا چاہیے ۔ باقی نہ لڑائی فی نفسہ مقصود ہے نہ صلح، بلکہ ہر چیز کا موقع اور وقت شریعت سے معلوم کر کے عمل کرے۔صلح اور لڑائی سب الله کی رضا کے واسطے ہونا چاہیے۔ مقصود اصلی ہر مسلمان کے کام سے خدا کا راضی کرنا ہے۔

( حکیم الامت -م،الافاضات الیومیہ:جلد۸ ص ۲۱۹)

            چوں کہ غیر مسلموں نے جہاد کے مسئلہ کووحشیانہ تہذیب کا مسئلہ قرار دیا ہے جس کا اثر بغی و فساد بتلایا ہے۔جہادکے متعلق اِسی کریہ پروپاگنڈا سے متاثر ہو کر مرزا غلام احمد قادیانی وغیرہ نے اِس کا اِنکار کر دیا۔اِس بنا پر حکیم الامت نے اعتراض کے منشا پر کلام کیا:کسی مجلس میں ”ایک مولوی صا حب نے عرض کیا کہ حضرت !مر زا غلام احمد قا دیا نی نے مسئلہ جہاد کا با لکل ہی انکار کیا ہے کہتا ہے کہ اسلام کبھی ایسی وحشیا نہ تعلیم نہیں دے سکتا۔ فرما یا کہ اُس سے کسی نے یہ نہ کہا کہ کیا وہ تعلیم وحشیانہ ہے جس پر دنیا کے عقلاء کا اتفاق ہے؟ تمام دنیا کی سلطنتیں اِس پر متفق ہیں اور اتفاق بھی محض زبانی ہی نہیں؛ بلکہ عملی صورت میں بھی ہر سلطنت اِس پرکار بند ہے۔وہ یہ ہے کہ آخر با غیوں اورسلطنت کے مخالفوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جاتا ہے؟ اِس کا یہی جوا ب ہو سکتا ہے کہ مدا فعت کے لیے ایسا کر تے ہیں ،حفا ظت خود اختیا ری کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ یہی جواب مسلما نوں کے طرف سے ہے کہ جہاد اسلام کی مدا فعت کے لیے ہے حفا ظت خو د اختیا ر ی کے لیے ہے، اسلام پھیلا نے کے لیے نہیں۔ اگر اسلام پھیلا نے کے لیے جہا د ہوتا ،توجزیہ مشروع نہ ہوتا۔ سو اِس کی کیا وجہ کہ ایک ہی چیز یعنی جنگِ مدا فعت ایک جگہ یعنی اسلام میں مذموم،دنیوی اغرا ض میں محمود؟یہ عجیب فلسفہ ہے کہ وطن پر ستی محمود، ملک پرستی محمود، سلطنت پر ستی محمود اور اسلام پرستی محمود نہیں۔ ایک ہی چیز کے تم مر تکب ہو اُس کو تو مہذب تعلیم کہا جا وے اور اسلا م اگر اُس کی اجا زت دے ،تو اُس کو غیر مہذب اور وحشیا نہ تعلیم کہیں ،آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟ مگر معتر ضین بے سمجھے یہی گیت گا تے پھرتے ہیں کہ اسلام بزور شمشیر پھیلااور سلا طینِ اسلام نے یہ مظا لم کیے۔ اُن سے کوئی بہ طور الزامی جواب کے پو چھے کہ اب تم نے کیا کیا؟ جہاں مسلمانوں کی قلیل آبادی دیکھی وہیں ذبح کر دیا۔اب سوال یہ ہے کہ تلوار کا چلا ناکوئی اچھی با ت تھی یا بری؟ اگر اچھی با ت ہے اور اس لیے تم خود اُس کے عا مل ہوئے، تو اسلام اور مسلما نوں پر کیا اعتراض ہے؟ اور اگر بری ہے تو تم نے کیوں اختیا ر کی؟ اور اگر اسلا م اور مسلمانوں کے لیے تو بری ہے اور دوسرو ں کے لیے اچھی ہے تو اِس فرق کو بیان کرو میں بھی سننے کا مشتاق ہوں۔

            پھرمسئلہ کی تحقیق ایک سوال کے جواب میں اِس طرح فرمائی:”ایک مولوی صا حب نے مجھ سے دریافت کیا تھا کہ جہا د کی غرض کیاہے؟ اور اِس کے بعد لااکراہ فی الدین سے اِشکا ل پیش کرنے والے تھے ۔میں نے کہا کہ جہاد اسلام پھیلا نے کے لیے نہیں ہے، جہا د اسلام کے غلبہ کے لیے ہے۔ کیوں کہ ہمیں تبلیغِ اسلام کا حق ہے اور وہ حق دوسروں کے غلبہ کی حالت میں اطمینان کے ساتھ نہیں ہو سکتا، جب چاہیں اِس کو روک سکتے ہیں۔ اِس لیے اسلام کو غلبہ کی ضرورت ہے او ر غلبہ بدون(بغیر) جہاد یا -جہاد کے خوف سے -ادائے جزیہ کے، نہیں ہو سکتا۔ کہنے لگے کہ یہ غرض تو صلح سے بھی حاصل ہو سکتی ہے۔میں نے کہا کہ صلح میں مساوات ہوتی ہے ،جب چاہیں امن اور صلح کوبربادکر دیں اور توڑدیں۔ اورغلبہ کی حالت میں یہ نہیں ہو سکتا۔خلاصہ یہ ہے کہ جہاد سے مقصود اسلام کا یہ ہے کہ عالم سے فتنہ فرو ہوجائے :حتی لا تکون فتنة ویکون الدین کلہ للہ میں اِس کی تصریح ہے(”تم اِن (کفارِعرب )سے اِس حد تک لڑو کہ اِن میں فسادِ عقیدہ(یعنی شرک)نہ رہے اور( اِن کا)دین(خالص)ا لله ہی کا ہو جاوے(اور کسی کے دین کا خا لصاً الله ہی کے لیے ہو جا نا موقوف ہے قبولِ اسلام پر…کیوں کہ کفارِ عرب سے جزیہ نہیں لیا جاتا) “۔

(بیا ن القرآن جلد ۴ ص۷۷)

            معلوم ہوا کہ فتنہ کا فرو ہونا خاص عرب کے کافروں کے لیے قبولِ اسلام پر موقوف ہے اور دیگراں کے لیے:” فتنہ کا فرو ہو نا موقوف ہے اسلام کے غلبہ پر اور غلبہ موقوف ہے جہاد یا خوف ِجہاد(یعنی ادائے جزیہ :ف) پر۔پھر اِس غلبہ کے بعد دیکھنے کی بات یہ ہے کہ- اور تواریخ اِس پر شاہد ہیں کہ – اور قومیں ایسے غلبہ کے بعد کیا کرتی ہیں اور اسلام کیا کرتا ہے؟یہ واقعہ ہے کہ کفار کو خود اپنی سلطنت اور حکومت میں بھی وہ چین اور راحت نصیب نہ تھی جو اسلام کے ماتحت رہ کر نصیب ہوئی۔ اور جو برتاؤ وہ اپنی حکومت میں اپنی رعا یا کے ساتھ کرتے ہیں اسلام میں اُن کے ساتھ اُس سے بہتر برتاوٴ کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے احکام اسلام ومسائل اسلام دیکھو! معلوم ہوگا کہ دوسری غیرمسلم اقوام اسلام کی سی رعایتیں پیش نہیں کر سکتیں۔

            بات یہ ہے کہ اسلام اُس ذات کے احکام کانام ہے کہ جن کے یہاں باغیوں تک کے حقوق ہیں۔ (خدا کی نظر میں:ف)کفار باغی ہیں؛ مگر دیکھ لیجیے کہ فرشتے اُن کی حفاظت کے لیے مقرر ہیں۔سانپ بچھو سے اُن کی حفاظت فرماتے ہیں۔ اُن کو کھا نے اور پینے کو دیتے ہیں۔ بس اُسی ذات کے یہ کفار کے متعلق(جہاد کے بارے میں:ف) احکام مقرر کردہ ہیں،یہ مذہب ِاسلام خدائی مذہب ہے۔(خدائی مذہب کی شان :ف )دیکھیے: یہ مسئلہ ہے کہ عین قتال کے وقت جب کہ میدان کار زار میں تلوار چل رہی ہو، اگر کوئی کافر جب کہ اُس کے سر پر تلوار پہنچ گئی ہو کلمہ پڑ ھ لے، فوراًہاتھ روک لینے کا حکم ہے ،چاہے اُس نے دھوکہ ہی دینے کے لیے کلمہ پڑھا ہو۔ کیا کسی اور مذہب میں یہ مسئلہ ہے، یہ حوصلہ کوئی دکھلاسکتاہے؟ اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ خدائی مذہب ہے خدا تعالی جانتے ہیں کہ یہ ہر وقت ہمارے ہاتھ میں ہیں، ہماری قدرت میں ہیں، اُس (خدا:ف)کے مقابلہ میں یہ کیا کرسکتے ہیں؟ جس وقت اور جس طرح ہم چاہیں گے ویساہی ہو جائے گا۔ خود ساختہ پر داختہ مذہب کا بانی کبھی ایسی بلند تعلیم کرسکتا ہے ؟ ہر گز ایسی تعلیم نہیں کرسکتاکہ جس سے اپنی جماعت اور مذہب بہ ظاہر فناکے درجہ کو پہنچ جائیں۔ یہی ایک مسئلہ مذہبِ اسلام کے صدق اور خدائی مذہب ہونے کی کافی وافی دلیل ہے۔ اور یہ جواوپر کہاگیاکہ جہاد مدافعت اور حفاظت ِخود اختیاری کے لیے ہے ،اِس سے یہ نہ سمجھا جاوے کہ جہاد میں ابتدا نہ کی جاوے۔ خود ابتدا کرنے کی بھی غرض یہی مدافعت وحفاظت ہے ۔کیوں کہ بدون(بغیر) غلبہ کے احتمال ہے مزاحمت کا۔ اِس مزاحمت کے اِنسداد کے لیے اِس کاحکم کیاجاتاہے جس کی تفصیل وتوضیح اوپر کی گئی ہے۔ خلاصہ یہ کہ جومدافعت غایت ہے جہاد کی وہ عام ہے مزاحمت واقعہ فی الحال کی مدافعت کو اور مزاحمت متوقعہ فی الاستقبال کی مدافعت کو۔ “

            غیر مسلمو ں کے پھیلائے ہوئے فتنہ کی اثر پذیری کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو:”علی گڈ ھ کا پرنسپل ایک انگریز کرنل تھا اُس نے ایک رسالہ لکھاہے کہ ہندوستان میں اسلام زیادہ تر تاجروں سے پھیلا، یا صوفیہ سے پھیلا۔“سر سید احمد خاں کی ہدایت پرمولوی ذکاء ا لله کے بیٹے مولوی عنایت

ا لله نے(جو علی گڑھ کے پڑھے ہوئے،سر سید احمد خاں کے صحبت یافتہ، تربیت یافتہ تھے) اِس رسالہ کا اردو میں ترجمہ کیا اوراسے ہندوستان میں پھیلایا۔مذکورہ رسالہ میں انگریز کرنل کے ذریعہ کہی گئی بات کے متعلق حکیم الامت نے فرمایا:” یہ قول تو اُس کا حق ہے؛ مگر وہ اِس میں بھی دھوکہ دیناچاہتاہے کہ اسلام سے جہاد کو اڑاناچاہتاہے۔ ہاں ،یہ مسلم ہے کہ اسلام برکت سے بھی پھیلا؛مگر حرکت سے بھی پھیلا․․․․․․․․․اسی لیے بعض حالات میں (حرکتِ)جہاد کی ضرورت پڑتی ہے؛ بلکہ اکثر برکت کی قابلیت بھی حرکت ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ اور اسی سلسلہ میں فرمایا کہ: جہاد کی غرض یہ ہے کہ کل ادیان پر اسلام کا غلبہ ہوخواہ مقابل کے اسلام سے یا استسلام سے (قبولِ اسلام کے بغیر اپنے مذہب پر قائم رہتے ہو ئے امن واطاعت کے ساتھ اسلامی حکومت میں رہنا اور اسلامی حکومت کا اُن کے جان ومال کی حفاظت کرنا۔ف) جس کی صورت جزیہ ہے۔ باقی یہ مقصودنہیں کہ سب کو مسلمان ہی کیاجاوے۔“

            یہ تو-جہاد کے بارے میں- علی گڑھ کالج کے انگریز پرنسپل کا پھیلایا ہوا وہ اثر تھا جوتجدد پسند مسلمانوں میں ظاہر ہوا۔غیر مسلمو ں کے پھیلائے ہوئے فتنہ کی اثر پذیری شعوری یا غیر شعوری طور پر بعض درویشوں میں بھی دیکھنے میں آئی۔ملاحظہ ہو ملفوظِ ذیل:

            ”الٰہ باد میں ایک ولایتی درویش محمدی شاہ نے مجھ سے یہ کہاکہ مولوی ایک آیت کا ترجمہ کرو: ﴿لِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً ہُمْ نَاسِکُوْہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الَامْرِ وَادْعُ اِلٰی رَبِّک﴾الخ()۔ میں سمجھ گیاکہ یہ صلحِ کل کے مذہب کو قرآن مجید سے ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ حق تعالی نے لاَیُنَازِعُنَّکَفرمایا لَایُنَازِعُہُمْ نہیں فرمایا ،یعنی اہل باطل کو توحق نہیں ہے کہ تم سے جھگڑے؛ مگر اہل حق کو یہ حق ہے۔“

                                                ( حکیم الامت:م جلد۱۱-حسن العزیز جلد۲- جدیدملفوظات ص۲۸۱)

            مذکورہ آیت میں ایک خاص مسئلہ کا ذکر کر کے یہ اصول بتایا گیا ہے کہ ”گو اُن کو آپ سے اِس بات میں خطاب درست نہیں؛مگر آپ کو اُن سے خطاب کا حق ہے۔“

(بیا ن القرآن جلد ۷ص۸۱)

            مسلمانوں کے مسئلہ جہاد پراعتراض دیگر اہلِ مذاہب بھی کرتے ہیں۔عیسائیوں کی جانب سے کیے گئے اعتراض کا جواب حکیم الامت نے ایک لطیفہ کے ضمن میں دیا ہے،فرماتے ہیں:”بڑے مزہ کا لطیفہ ہے کہ عیسائی لوگ مسئلہ جہادکے اوپراعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے اس کو کیوں رکھا؟میں کہتاہوں کہ اپنے پیغمبرسے ہی پوچھو وہ عنقریب آنے والے ہیں وانتظرواج انا منتظرون حضور نے پھربھی تمہاری رعایت کی ہے کہ جزیہ دے کر بچ سکتے ہو۔عیسیٰ علیہ السلام نے تو اس کی بھی پرواہ نہ کی۔اُن کے عہدمیں دوہی باتیں ہوں گی یااسلام یا سیف۔ “

(اشرف التفاسیر جلددوم۸۹،ملتان ۱۴۲۴ھ)

حکیم الامت کی جانب سے ضرورتِ وقتیہ کے تحت بعض فوری سوالوں کے جواب کے طور پرذکر کی گئی اِن تحقیقات میں مسئلہ کا عقلی ثبوت ، افادیت و اہمیت ظاہر کی گئی ہے جن کی روشنی میں شریعت پر سے اعتراض مندفع ہو جاتا ہے۔ یہ وہ تحقیقات ہیں جن کے مخاطب مغرب زدہ تجدد پسند مسلمان ہیں۔لیکن ملحدوں،اہلِ کتا ب ،ہنود و دیگر غیر مسلم اقوام سے گفتگو کے وقت فہمائش کا اُسلوب اور اصول دونوں بدل جائے گا۔ الامام محمد قاسم نانوتوی کی گفتگو میں-چوں کہ اقوامِ عالم کو خطاب ہے،اِس لیے- اُس کاطرز تحلیلی اور تجزیاتی ہے۔اسلام کے اصولی مسائل کے اِثبات کے لیے امام موصوف نے پہلے انسان کی پیدائش کے اصلی مقصد کی تحقیق فرمائی ہے جس کے لیے دورِ حاضر کے فکری مستوی -”افادیت“،”انسانیت“اور”فطریت“ کے اصو ل زیرِ بحث لائے ہیں۔کائنات کی تمام” اشیا اگر انسان کے کام میں آتی ہیں ،تو انسان(جب مخلوقات میں سے کسی کے کام کا نہیں ، تو:ف) بے شک خدا کے کام کا ہوگا۔“کیوں کہ انسان مخلوق ہے۔اور”بنی آدم کے مخلوق ہونے پر خود اُسی کی ذات وصفات ،کیفیت بزبان حال گواہ ہے“۔لہذامخلوق ہو اور بے مقصد پیدا کیا گیا ہو،یہ بات محال ہے۔کیوں کہ مخلوقیت کے لیے مقصودیت لازم ہے،کتاب حجة الاسلام میں اِس امرپر براہین قائم کر نے کے بعد فرماتے ہیں کہ:”… بندہ اطاعتِ خدا کے لیے ہے اور اِس اطاعت کا نفع اُسی کو ہے، اس لیے اِطاعت خود بندے کے حق میں مطلبِ اصلی ہوگی۔ “

(حجة الاسلام-شرح فخرالاسلا م:ص۵۶۔مجمع الفکر الاسلامی الدولی اکل کوا ۔۲۰۱۹)

”طاعت کا نفع خود بندہ ہی کو ہے“کا یہ وہ اصول ہے جسے انیسویں صدی عیسوی کے مغربی مفکروں نے ”فطری مذہب کے اصول و فروع “کی وضاحت کے دوران اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ہے۔اِس اصول کا اِجرا کرنے کے بعد”عقلیت“کا اصول جاری کرتے ہوئے امام موصوف نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ ”معرفتِ رب “ایک نا گز حقیقت ہے۔کیوں کہ انسان کو دو نعمتیں دی گئی ہیں۔۱-عقل۔۲-اِختیار۔اِن میں ”عقل “ہدایت کار (Director)ہے اور”اختیار“پابندِ احکام:” عقل ہر چیز کی حقیقت کے پہچاننے کے لیے بنائی گئی ہے اور قدرت ِبشری (انسانی اختیار و ارادہ)وغیرہ کو (فاطرِ کائنات نے)اِس لیے بنایا ہے کہ حسب ہدایتِ عقل کام کیا کرے۔“

” اورظاہر ہے کہ (جب” عقل ہر چیز کی حقیقت کے پہچاننے کے لیے بنائی گئی ہے“تواُس کی اول رسائی انسانی وجود کے عارضی ہونے کی وجہ سے ”وجود اصلی “کی جانب ہونی چاہیے،اس لیے :ف) سب میں اول لائقِ شناخت وعلم(جو ذات ہے،وہ) ”خداوند عالم“ ہے۔ کیوں کہ سب حقائق اُسی کی وجہ سے ایسی طرح تاباں ہوئی ہیں جیسے فرض کیجیے: آفتاب سے دھوپ۔… اور ظاہر ہے کہ دھوپ کی حقیقت اِس سے زیادہ اور کیا ہے کہ وہ ایک پَرتوِ آفتاب ہے۔“”وجود عارضی“اور ”وجود اصلی “کے اِس اصول سے ڈیکارٹ کے ذریعہ پیش کیے گئے مغالطہ کا پردہ چاک کیا گیا ہے کہ : ” چوں کہ سب میں اول اپنی ذات کاعلم ہوتا ہے اور اپنی حقیقت اُس کا ایک پَرتو ٹھہرا، تو بے شک اپنا پہچاننا اور علم ،اُس کے پہچاننے اور اُس کے علم پر موقوف ہوگا۔ “(حجة الاسلام-شرح فخرالاسلا م:ص۵۹،۶۰)جیسے دھوپ کا پہچاننا،آفتاب کے پہچاننے پر موقوف ہے۔

یہ وہ مسئلہ ہے جہاں پر جدید فلسفہ کے بانی ڈیکارٹ کے قدم پھسلے تھے اور اُس نے ”انسانیت“،”عقلیت“،”معرفت“کے ہر ایک بنیادی مسئلہ میں توحید کے بجائے اِلحاد کی راہ دکھائی تھی۔الله بزرگ و برتر کی خدائی ثابت کرنے کے بجائے انسان کو ہی خدا بناکر پیش کیا تھا،پھر ما بعد کے تمام ادوار میں اِس اِلحادی فلسفہ کو فروغ حاصل ہوتا چلا گیا۔ انسان کی اپنی معرفت کے لیے خدا کی معرفت ضروری ہے، کا اِقتضا بیان کرتے ہوئے امامِ موصوف آگے فرماتے ہیں:

”مگر خدا کی معرفت میں کم سے کم یہ تو ضرور ہی ہوگا کہ اُس کو غنی اور بے پروا اور اپنے آپ کو اُس کا محتاج سمجھے۔ مگر یہ بات ہوگی، تو بالضرور اُس کی اطاعت اور فرماں برداری ایک طبعی بات اور مقتضائے دلی ہوگا۔ اور …جو کام ایسا ہو کہ خدا کی اطاعت اُس پر ایسی طرح موقوف ہوجیسے روٹی کا پکنا مثلا: آگ، لکڑی، توے، کونڈے وغیرہ پر، تو وہ(کام) طاعت ہی کے حساب میں شمار کیا جائے گا۔ …(اسی طرح) جو کھانے کے حساب میں شمار کی جاتی ہیں اُس کام کو طاعتِ خدا کے حساب سے خارج نہ کرسکیں گے۔ اور سوا اِس کے جو کام ہوگا وہ سب اُس(طاعت کے) کارخانہ سے علاحدہ سمجھا جائے گا۔ اور… آدمی کے حق میں از قسم کم نصیبی اور بدبختی شمار کیا جاوے گا۔“

(ایضاً:ص۶۰ تا ۶۲)

            پھر کم نصیبی و بدبختی کے اسباب بتلاتے ہیں:” اِس بدبختی کا سبب کبھی غلطی ہوتی ہے اور کبھی غلبہٴ خواہش۔“ غلطی کا اِزا لہ تو اُس کی اِصلاح سے ہوگا اور غلبہٴ خواہش سے نجات، فکرِ آخرت پر موقوف ہے،اِس لیے:” میرے ذمے بہ وجہِ خیر خواہی… لازم ہے کہ غلطی والوں کو غلطی سے آگاہ کروں اور مغلوبانِ خواہش کو اپنا شریک ِمرض سمجھ کر فضائلِ آخرت سمجھاؤں ۔… “ پھر غلطی اور غلبہٴ خواہش میں فرق یہ ہے کہ :”چوں کہ غلط کار لوگ بہ منزلہ اُس مسافر کے ہیں جو شہر ِمطلوب کی سڑک کو( غلطی کی وجہ سے:ف)… چھوڑ کر کسی اور راہ کو ہولے۔ اور مغلوبانِ خواہش ایسے ہیں جیسے فرض کیجیے:شہرِ مطلوب کی سڑک پر جاتے ہیں؛ پر بادِ مخالف قدم- بہ دشواری- اٹھانے دیتی ہے؛ اس لیے غلطی والوں کے حال پر زیادہ افسوس چاہیے۔کیوں کہ جیسے اُس مسافر کی کامیابی کی کوئی صورت نہیں جو سڑک ِشہر مطلوب کو چھوڑ کر کسی اور سڑک کو ہولیا ہے اگرچہ کیسا ہی تیز رفتار کیوں نہ ہو، ایسے ہی اُن صاحبوں کی کامیابی کی کوئی صورت نہیں جو -بہ وجہِ غلطی- راہِ مستقیم ِخدا کو چھوڑ کر کسی اور راہ ہولیے ہیں اگرچہ وہ کیسے ہی عابد زاہد کیوں نہ ہوں۔ البتہ وہ لوگ جو اُسی راہ کو جاتے ہیں جو خدا تک جاتا ہے؛ پر ہوا وہوس کے دھکے بہ دشواری چلنے دیتے ہیں- وہ گو بہ دشواری پہنچیں، پر- ایک نہ ایک روز گرتے پڑتے گرم، سردِ زمانہ چکھتے چکھاتے شہر مطلوب-یعنی جنت -میں پہنچ رہیں گے؛گو اَثنائے راہ میں نزع اور عذاب کی تکالیفِ گوناگوں اُن کو بھگتنی پڑیں۔ …“

(ایضاً:ص۶۴،۶۵)

            یہ سڑک -کہ جس سے بھٹکنے کے بعد منزلِ مقصودکو پہنچنے کی کوئی صورت نہیں-کی نشاندہی ضروری ہے :”اس لیے بہ نظر ِخیر خواہی یہ گزارش ہے کہ: سوائے دین محمدی کوئی مذہب ایسا نہیں جس میں عقائد کی غلطیاں باعث ِترکِ رہ گزار ِاصلی -جس کو صراط مستقیم کہیے- نہ ہوئی ہوں۔ تعصب مذہبی کو چھوڑ کر اگر اور صاحب غور فرمائیں گے، تو سب کے سب اِسی دین کو اپنے مطلوبِ اصلی کا راستہ سمجھیں گے۔ … “

(ایضاً: ص۶۵)

            خدا کی معرفت،خدا کی رضا جوئی ، شہرِ مطلوب یعنی جنت کو لے جانے والی سڑک،اِن سب امور کی طرف رہنمائی کے بعداِس امر کو بھی ثابت کرنا ضروری ٹھہرا کہ بندہ پر خدائے تعالی کی اِطاعت واجب ہے اور اُس کی اِطلاقی نوعیتیں کیا ہیں؟لہذا اِس امر کودو بنیادوں پر اِستوار کیا گیا ہے:۱-خدا تعالی کا مالک ہونا۔۲- خدا تعالی کا محبوب ہونا۔پھراِن دونوں بنیادوں کے سہاریعقل کا اِقتضا جو کچھ بتلایا گیا ہے،اُسی میں ”جہاد “اور ”جزیہ “کا بھی ذکر ہے:

            ” جب بندہ مملوک اور محکوم ِخدا ٹھہرا، اِدھر خدا کا محب ومخلص بنا، تو بالضرور دو باتیں اُس کو بہ تقاضائے غلامی ومحبت کرنی پڑیں گی:۱-ایک تو جو خدا کے دوست ہوں، جان ومال سے اُن کی مدد کرے۔ اور۲- جو خدا کے دشمن ہوں، اُ ن کی جان ومال کی تاک میں رہے اور اُن کی تذلیل سے نہ چوکے۔ پہلے کو ”حب فی اللہ“ اور دوسرے کو ”بغض فی اللہ“ کہتے ہیں۔سخاوت، مروت، ایثار، حسن اخلاق، حیا وصلہ رحمی، عیب پوشی، نصیحت، خیر خواہی وغیرہ اہلِ اسلام کے ساتھ، اول (یعنی”حب فی ا لله“)سے متعلق ہیں۔ اور جہاد اور جزیہ کا لینا اور غنیمت کا لینا اور مناظرہ وغیرہ دوسرے(یعنی ”بغض فی اللہ“ ) سے متعلق ہیں۔ “

(ایضاً:ص۱۲۸،۱۲۹)

            نبوت کی علامات وصفات میں سب سے ضروری بات تقربِ خداوندی ہے جس کے لیے ظاہر و باطن کے اعمال کا مرضی خداوندی کے موافق ہونا لازم ہے اورتقربِ خداوندی ومرضی خداوندی کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے:۱-خدا تعالی کے ساتھ اِخلاص ۔۲-محبت۔۳- اخلاق کا خدا تعالی کے اخلاق کے مشابہ ہو نا۔پھر امر سوم کوتجزیاتی منہج پرثابت کرتے ہوئے اُس کی اِطلاقی نوعیت ظاہر کرتے ہیں:” ہرکار ایک خصلت سے مربوط ہوگا۔ اگر اچھی خصلت سے مربوط ہے، تو اچھا ہوگا، بُری خصلت سے مربوط ہے، تو بُرا ہوگا۔ اور اخلاق کا اچھا بُرا ہونا اِس پر منحصر ہے کہ خدا کے اخلاق کے موافق یا مخالف ہو۔ جو خُلق موافق ہوگا،وہ اچھا سمجھا جائے گا۔ جو مخالف ہوگا، وہ بُرا ہوگا۔ اس لیے جو باتیں موافق ِاخلاقِ خداوندی ہوں، اُن کا بُرا کہنا بہ جز ناقص فہموں کے اور کسی کا کام نہیں۔ مثلاً: خداوند ِعالم بالاتفاق سب کے نزدیک اچھوں سے خوش ہوتا ہے اور بُروں سے ناخوش۔ اُن کو انعام دیتا ہے، اِن کو سزا پہنچاتا ہے۔ پھر جو شخص ہوبہو ایسا ہو( اچھوں سے خوش اور بُروں سے ناخوش ہوتاہو:ف)، اُس کو اوروں سے کامل اور جان ودل سے محبوب رکھنا چاہیے۔ نہ یہ کہ بہ جائے محبت ،عداوت اور بہ جائے تعریف، اُس میں عیب نکالنے لگیں۔ اُس وقت یہ حضرات نصاریٰ کا اعتراض ِجہاد -جو حضرت خاتم النبیین ﷺ پر کرتے ہیں- سراسر ناانصافی ہوگی۔“(ایضاً:ص۱۳۹) اِس وضاحت سے مقاتلہ حربیین کے مسئلہ میں عقل کی موا فقت اچھی طرح ظاہر ہو گئی۔

یہ تو کتاب ”حجةالاسلام“ کا اُسلوب ہے۔دیگر تصنیف کا اُسلوب دوسرا ہے۔ہمارے قارئین کویاد ہوگا کہ حکیم الامت  کے حوالہ سے اوپر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ ” عقل صحیح کا مقتضاہر حال میں عدل ہے“،”تقریر دل پذیر“ میں اِسی عدل کو وسیع تناظر میں ”عقلیت“،”تجربیت“،”حقیقت پسندی“،یعنی لائبنز،لاک،ہیوم،کانٹ،ہیگل،مورے وغیرہ کے بیان کردہ تمام مناہج زیرِ بحث لاتے ہوئے الامام محمد قاسم نانوتوی فرماتے ہیں:

”مہربانِ من! چار باتیں اخلاق میں سے ایسی ہیں کہ اُن کی بھلائی میں عالم کو ایسا اتفاق ہے، جیسا روز ِروشن کے ہونے اور رات کی اندھیری (کے ہونے)میں (سب کو اِتفاق ہے)،کسی کو کلام نہیں:

۱:ایک تو: عدل و انصاف، یعنی حق والوں کے حقوق ادا کرنے۔۲:دوسری:دوسروں کے ساتھ احسان اور بھلائی کرنی۔۳:تیسری: متانت، یعنی سبک حرکت نہ ہونا اور بے فائدہ اور بے ہودہ کام نہ کرنے۔۴:چوتھی:نفاست اور پاکیزگی۔“(تقریر دل پذیر:ص۵۲ ۱شیخ الہند اکیڈمی ۱۳۳۱ھ)پھراِن چار باتوں کی اصولی اور کلی حیثیت کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں: ” اب کان دھر کر سنیے کہ: یہ چار باتیں کہنے میں تو چار ہیں: پر غور سے دیکھیے، تو اِن کا پھیلاوٴ رشتہٴ خیال کو بھی تنگ کیے دیتا ہے۔کم تر ایسے مجمل مضمون ہوں گے کہ جن کی اتنی بڑی تفصیل ہو۔ سو، مختصر مختصر اِس مشکل کو شرح کرکے ،بعد میں اِس کا نتیجہ عرض کروں گا۔“(ایضاً:۱۵۳)”جنابِ من! … خدائے بزرگ کے برابر کسی کو نہ جاننا، اُس کو محبت سے ہر دم یاد رکھنا، اُس کے احسانوں کو نہ بھولنا، اُس کے آگے اپنے آپ کو ہر دم ذلیل و خوار سمجھنا، اُس سے ڈرتے رہنا، اُس کی رحمت سے ناامید نہ ہونا اور مثل اِس کے جو حال کہ اُس کی عظمت اور اپنی کم تری کے مناسب ہو۔(اسی طرح)… سجدہ سجود وغیرہ -جو جوتپشیوں (تپسیوں یعنی عبادتوں:ف)کے کام خاص اُسی کی تعظیم کے لیے ہوتے ہیں(نیز)…خدا کے محتاج بندوں کو خدا کے دیے ہوے مال میں سے دینا۔یہ تینوں قسم کی ( قلبی، بدنی اور مالی)بندگیاں عدل و انصاف ہی میں داخل ہیں۔“

(ایضاً)

 یہ تینوں باتیں عدل و اِنصاف میں کیوں داخل ہیں؟اِس امر کودلائل سے ثابت کرنے( ایضاًص ۱۵۳،۱۵۴) کے بعد یہ نتیجہ پیش فرمایا ہے کہ:”خدائے مالک الملک سب چیزوں کا مالک معلوم ہوتا ہے۔کیوں کہ سب اُسی کے بنائے ہوئے، عطا فرمائے ہوئے ہیں۔ اپنے پاس اِن کو(یعنی جان،اعضا،اختیارکو) ایک مستعار سمجھنا چاہیے۔ اِس صورت میں (مذکورہ تینوں قسموں میں سے:ف)ہر چیز کو… اُسی (خالق و مالک)کے کام میں لانا چاہیے۔ ورنہ انصاف کہاں، اور عدل کجا؟“

( ایضاً:ص ۱۵۴)

             چوں کہ کتاب ”تقریر دل پذیر “میں ایک کھلی بحث کی طرح ڈالی گئی ہے،اس لیے مذکورہ تحقیق پر مبنی آفاقی اور عمومی خطاب کے طرز میں یہ تفریع پیش کی گئی ہے کہ:”جو بعضے مضرات کا کھانا مثل زہر وغیرہ کے -بعضے مذہبوں کے(بیان کی رو سے:ف) ممنوع ہے، تو عجب نہیں کہ خلاف عدل سمجھ کر ممنوعات میں داخل رکھا ہو۔ کیوں کہ جب کسی غیر (کی) چیز کو بے اجازت اپنے تصرف میں لانا ،اُسے خراب کردینا ظلم گنا جاتا ہے، تو اپنی جان و تن کو بھی-…(جو) اپنی ملک نہیں؛ خدائے مالک الملک کی مملوک ہیں- …بلا اُس کی اجازت کے کوئی کام اِن سے لینا یا اِنھیں خراب، برباد کردینا اول درجے کا ظلم ہوگا۔اور اپنی جان کے ہلاک کردینے(یعنی خود کشی) کی اجازت کا خدائے حکیم کی طرف سے ہونا، ہرگز قرینِ عقل نہیں ہوسکتا۔کیوں کہ جان و تن کے پیدا کرنے سے جو کام لیتے تھے، تلف کرنے میں وہ معطل ہو جائیں گے، تو گویا اپنا تلف کردینا ایسا ہوگا، جیسے کسی کاریگر کے آلات کا بے وجہ توڑ ڈالنا۔ اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ یہ ظلمِ صریح ہے۔“

( ایضاًص ۱۵۶تا ۱۵۸)

            خدا مالک الملک ہے اور انسان اُس کی مملوک:فرد کی زندگی(مثلاً:خود کشی) میں اِس اصول کی اِطلاقی نوعیت معلوم ہو جا نے کے بعداِس کا اِنطباق معاملات و سیاسات میں کیجیے:عقل کے قانون سے خود کشی تو عدل نہیں،ظلم ٹھہرا ۔”ہاں، اگر خدا ہی کے فرمائے ہوئے کاموں میں جان جاتی رہے، تو یہ ایسا ہوگا کہ جیسے کوئی کسی کو اپنے پاس سے کوئی آلہ دے کر کچھ کام کرائے اور وہ آلہ اُس کام میں ٹوٹ جائے، تو اِس کو ظلم نہ کہیں گے۔“بلکہ ”عدل “کہیں گے کہ مالک کی دی ہوئی جان کو اُس کی رضا جوئی میں خرچ کر دیا۔

( ایضاًص ۱۵۸)

جہاد کی یہ ا ِجازت توحید یعنی خدا تعالی کی ذات و صفات کے کمال و یکتائی ،مالکیت و محبوبیت کے مقتضا کے تحت بیان ہوئی ہے۔مگر یہاں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ اسلام کے احکام قیامت تک باقی رہنے کی بنیادقرآن کے دیگر کتبِ سماویہ سے ممتاز ہونے اور حضور ﷺ کے خاتم النبیین ہونے پر ہے۔ایسی صورت میں یہ بات ضروری قرارپا تی ہے کہ حضور ﷺ کے خاتم النبیین ہونے اور تمام اقوام و اہلِ مذاہب پر آپ کی اتباع ضروری ہونے کے حوالہ سے،اقوام عالم کے خلجانات دورکیے جائیں۔اِس حوالہ سے سب سے شدید مزاحمت عیسائیوں کی جانب سے پیش آئی ہے۔چناں چہ اُن کا خلجان رفع کرتے ہوئے امام موصوف فرماتے ہیں :”شاید نصاری کو یہ خیال ہو کہ حضرت موسی کا کلیم ہونا اور حضرت عیسی کا کلمہ ہونا بھی مسلم ہے؛ پھر بہ وجہِ نزولِ کلام اللہ- محمدیوں ہی کو کیا اِفتخار رہا(کہ مسلمانوں کے نبی خاتم النبیین قرار دیے جائیں:ف)؟تو اُس کا اول تو یہ جواب ہے کہ: حضرت موسی علیہ السلام کا کلیم ہونا بہ ایں معنی ہے کہ وہ خدا کے مخاطب تھے اور خدا کے کلام اُن کے کان میں آئے۔ یہ نہیں کہ اُن کی زبان تک اور اُن کے منھ تک بھی نوبت پہنچی ہو۔ اور(جب یہ اِمکان موجود ہے کہ خدا کا کلام اُن کی زبان تک اور اُن کے منھ تک نہ آیا ہو،توحضرت موسی علیہ السلام کی افضلیت کاشبہہ خود بہ خود رفع ہو جاتا ہے۔دلائل کی دیگر تفصیلات کا مطالعہ حجة الاسلام میں کیجیے،دوسری طرف:ف)،…یہ بات ( خدا کا کلام زبان تک اور منھ تک پہنچنے کی نوبت:ف)اگر میسر آئی ہے، تو جناب رسول اللہ ﷺ کو میسر آئی(کہ اُن پر جو قرآن اُترا ،وہ خدا ہی کا کلام ہے جورسول اللہ ﷺ کی زبانِ مبارک پر جا ری ہوا:ف) ۔ یہی وجہ ہوئی کہ سوا آپ کے اور کسی نے یہ دعوی (نازل ہونے والی کتاب کے کلام ا لله ہونے اورخود اُس کلام کے فصیح و بلیغ معجزہ ہونے کا:ف )نہیں کیا۔ “

(ایضاً:ص۱۵۹)

دلیلِ ختمِ نبوت کی تائید میں مزید فرماتے ہیں:”اِس تقریر کے سننے، دیکھنے والوں کو -ان شاء اللہ -اس بات کا یقین ہوجائے گا کہ تورات کی وہ پیشین گوئی -جس میں یہ ہے کہ: اُس کے منھ میں اپنے کلام ڈالوں گا- بلاشبہ جناب رسول اللہ ﷺ ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور اُس وقت یہ بات بھی آشکارا ہوگئی ہوگی کہ اُس پیشین گوئی میں جو اِس فقرہ سے اول حضرت موسی علیہ السلام کو خطاب کرکے فرماتے ہیں کہ: تجھ جیسا نبی پیدا کروں گا، اِس کا یہ مطلب نہیں کہ تو اور وہ متساوی المراتب ہوں گے؛ بل کہ یہ مطلب ہے کہ کلام ربانی سے تجھے بھی معاملہ پڑا اور اُسے بھی معاملہ پڑے گا۔ مگر چوں کہ یہ تشبیہ اگر مطلق رہتی ، تو کمالِ مشابہت پر دلالت کرتی جس کا حاصل وہی تساویٴ مراتب نکلتا۔ اِس لیے آگے بہ طور اِستثناواِستدراک یہ ارشاد فرمایا کہ: اُس کے منھ میں اپنے کلام ڈالوں گا، تاکہ یہ بات معلوم ہوجائے کہ وہ تم سے افضل ہوں گے۔ کیوں کہ ُاس وقت وہ نبی بہ منزلہٴ زبانِ خدا ہوں گے۔ … سو جب متکلم خداوند کریم ہوئے اور رسول اللہ ﷺ بہ منزلہٴ زبان وترجمان، تو بے شک اِس حساب سے حضرت موسی علیہ السلام کو اُن کے ساتھ درجہٴ تساوی میسر نہیں آسکتا۔

            مسئلہ ختمِ نبوت کی قطعیت ثابت ہونے کے بعد دلیلِ مذکورة الصدر سے ہی جہاد کے مسئلہ کا بھی اِثبات ہوگیا۔وہ کس طرح ؟فرماتے ہیں:

            ”مگر جب یہ بات ( رسول اللہ ﷺ کی خاتمیت)واجب التسلیم ہوئی، تو یہ بات آپ چسپاں ہوگئی کہ جو اُس نبی( رسول اللہ ﷺ) کا مخالف ہوگا، اُس سے میں انتقام لوں گا؛ کیوں کہ اُس وقت اُس نبی کی مخالفت کو بہ نسبت اور نبیوں کی مخالفت کے زیادہ تر، یوں کہہ سکتے ہیں کہ:(اُس نبی کے”بہ منزلہٴ زبانِ خدا ہو“نے کے:ف) خدا کی مخالفت ہے؛ اس لیے خدا ہی انتقام لے گا۔ مگر جس طرح خدا کی جانب دربارہٴ کلام وہ شمار کیے گئے، ایسے ہی دربارہٴ انتقام بھی اُن کو شمار کرلیجیے۔ اور اُن جہادوں کو جو خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے مخالفوں کے ساتھ کیے ہیں، اُس انتقام کا ظہور سمجھ لیجیے۔“

(ایضاً:ص۱۵۹،۱۶۰)

            خدا کے واجب الاطاعت ہونے اور حضور ﷺ کے خاتم النبیین ہونے ،دونوں لحاظ سے مقاتلہٴ حربیین(جہاد) کے باب میں عقلیت کا مقتضا معلوم ہو گیا۔ لیکن موقع اور محل کا فیصلہ کرنے کے لیے صرف عقل کافی نہیں ہے؛بلکہ شریعت سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔اور شریعت کی رو سے اِس مسئلہ میں کافی تفصیلات ہیں۔چناں چہ حکیم الامت کے اِفادات کی روشنی میں،اُن تفصیلات کامختصر اجمالی اور اصولی بیان گزشتہ صفحات میں کیا جاچکا۔اُنہی تفصیلات میں سے یہ بھی ہے کہ اگر کسی ملک میں مسلم اور غیر مسلم امن کے ساتھ رہ رہے ہوں،تو یہ نہ ہو کہ خواہ مخواہ لڑیں ؛بلکہ مسلمانوں کے ذمہ اِستحباب کے درجہ میں یہ ہے کہ غیر مسلموں کو راہِ حق دکھائیں ،اُنہیں دینِ حق کی تبلیغ کریں،خواہ قول سے بھی ،خواہ صرف عمل سے ۔اور دونوں قوموں کے ذمہ یہ ضروری ہے کہ ادائے حقوق میں بے انصافی نہ کریں ۔مسلمانوں کوتمام تفصیلات شریعت سے معلوم کرنا ضروری ہے۔نِری عقل خیرو شر کے باہمی تفاوت اور مابینی تفصیلات کے باریک فروق پہچاننے کے لیے کافی نہیں ہو سکتی۔ عقل کا کا م کائنات کی نشانیوں سے خدا کے وجود ،اُس کی توحید تک رسائی اور دلائل کی روشنی میں رسالت کا اقرار ہے۔پھر خدا کو خدا اور رسول کو رسول مان لینے کے بعداُن کے احکام (جس کا نام شریعت ہے)کی اتباع لازم ہے ۔خود الامام محمد قاسم نانوتوی کی صراحت کی رو سے:” اِس امر میں تمہا ری ہماری عقلوں کا اعتبار نہیں،معقول جو -بہ فحوائے﴿فی قلوبہم مَرَضٌ﴾-امراضِ روحانی کے باعث ایسی طرح فاسد ہو گئی ہوں جیسی قوتِ ذائقہ یرقانی،(توایسی مریض عقل۔ف)ہر گز قابلِ اعتبار نہیں۔(احکام شریعت کے اسرار و مصالح ۔ف)…کے اِدراک کے لیے اُن کی عقل چا ہئے جن کے دل بفحوائے اِلّاَ مَنْ اَ تَی اللهَ بِقَلْبِِ سَلِیْمِِ(عقیدے کی غلطی اور خواہش کے غبار میں آلود ہو کر۔ف)امراضِ روحانی سے ایسی طرح عافیت میں ہوں جیسے مرضِ جسمانی یرقان وغیرہ سے،بہ حالتِ صحت ہماری آنکھیں اور زبا نیں بچی ہو ئی ہو تی ہیں۔“

( امام قاسم نانوتوی:تصفیةا لعقائدص۲۶ شیخ لاہند اکیڈمی ۱۴۳۰ھ)

            وجہ اِس کی یہ ہے کہ عقل: ”موجدِ معلومات نہیں مُخبرِ معلومات ہے۔“” عقل کچھ اپنی طرف سے حکم نہیں کرتی، بل کہ ہر کسی(یعنی ہر شی) کی پیشا نی پر تجویزِ خدا وندی اور حکمِ الٰہی یعنی نافع ہو نا یا مضر ہو نا جو اُس شی کی نسبت لکھا ہوا ہے، لکھا دیکھ کر اطلاع کر دیتی ہے۔پر ہر عقل کو نہ یہ صفا ئی ہے کہ ہر بھلا برا جدا کر دے اور نہ یہ رسا ئی ہے کہ ہر دور و نزدیک کی با توں کی خبر دے۔ اِ س جگہ عقل کامل چا ہئے۔“

(ایضاً: ص۱۴۴،۱۴۵)

            حکیم الامت کی صراحت کے مطابق، عقل سے اُس کے منصب سے زیادہ کام نہ لینا چاہیے۔” یہی وجہ ہے بہت سے عقلاء کے تباہ ہونے کی کہ اُنہوں نے عقل سے وہ کام لیا جو اُس کی حدسے آگے تھا۔ اور ہر چیز کا اپنی حدسے آگے نکل جانا مضر ہے۔ میں تو عقل کے متعلق ایک مثال دیاکرتاہوں کہ: یہ ایسی ہے جیسے گھوڑا پہاڑ پر چڑھنے والے کے لیے۔ اب تین قسم کے لوگ ہیں ایک تو وہ جو گھوڑے پر سوار ہو کر پہاڑ تک پہنچے اور پھر پہاڑ پر بھی اُس پر سوار ہو کر چڑھنے لگے۔ یہ غلطی پر ہیں ضرور کسی سیدھی چڑھائی پر سوار اور گھوڑا دونوں گریں گے۔ اور ایک وہ ہیں جو یہ سمجھ کر کہ گھوڑا پہاڑ پر تو کام دیتاہی نہیں تو اُس سے صاف سڑک پر بھی کام لینے کی کیا ضرورت ہے ؟وہ گھر ہی سے پیدل چل پڑے ۔نتیجہ یہ ہواکہ پہاڑ تک پہنچ کر تھک گئے۔ یہ بھی نہ چڑھ سکے۔ تو اِن دونوں کی رائے غلط تھی۔ پہلی جماعت نے گھوڑے کو ایسا باکار سمجھا کہ اخیر تک اُسی سے راستہ طے کرناچاہا۔اور دوسرے نے ایسابے کار سمجھا

کہ پہاڑ تک بھی اُس سے کام نہ لیا۔ صحیح بات یہ ہے کہ گھوڑا پہاڑ تک تو کار آمد ہے اور پہاڑ پر چڑھنے کے لیے بے کار ہے۔ اُس کے لیے کسی اور سواری کی ضرورت ہے۔

            یہی حال عقل کاہے کہ عقل سے بالکل کام نہ لینابھی حماقت ہے اور اخیر تک کام لینا بھی غلطی ہے۔ پس عقل سے اتنا کام تو لوکہ توحید ورسالت کو سمجھو اور کلام اللہ کا کلام اللہ ہونا معلوم کرلو۔ اِس سے آگے فروع میں عقل سے کام نہ لینا چاہیے؛ بلکہ اب خدا اور رسول کے احکام کے آگے گردن جھکا دینی چاہیے ،چاہے اُن کی حکمت عقل میں آوے یا نہ آوے۔“

(حکیم الامت:اشرف الجواب)