مفتی عبد القیوم مالیگانوی/ استاذِ جامعہ اکل کوا
تیری جدائی سے کون ہے وہ جو حزیں نہیں ہے
مگر تیری مرگ ناگہاں کا اب تک یقیں نہیں ہے
اس دورِ قحط الرجال میں علما وصلحا بہت ہی برق رفتاری کے ساتھ اس دنیائے بے مایہ کو الوداع کہہ رہے ہیں۔ اس وقت جب کہ ایک طرف” کورونا“جیسی مہلک بیماری نے پوری دنیا کو اپنے خون خوار پنجوں میں لے رکھاہے، تو دوسری طرف ہر نئی صبح ایک نیا منظر نامہ لیے نمودار ہورہی ہے۔ ایسے حالات میں رہنمایانِ قوم وملت میں سے جب کسی شخصیت کی خبرِ وفات گوشِ سماعت سے گذرتی ہے، تو ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہردوڑ جاتی ہے۔
مورخہ ۱۲/اپریل۲۰۲۰ء بہ روز اتوار مسابقات قرآنیہ کے سرخیل، رئیس الحفلات، استاذ تفسیر وحدیث، اورمفتی عبد اللہ مظاہری ؛بانی”جامعہ مظہر سعادت“ ہانسوٹ کے منجھلے بھائی حضرت مولانا عبد الرحیم فلاحی مظاہری تھوڑی علالت کے بعد اپنے مولیٰ سے جاملے۔اناللہ واناالیہ راجعون!
اس عاجز کا حضرت سے تعلقِ تلمیذ وشاگرد کے علاوہ ایک فرزندکا بھی رہاہے۔ علم کے اس شجرِ سایہ دار کے زیر سایہ میں نے بہت کچھ پایا۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت فلاحی کی خدمات جلیلہ جو مختلف میدانوں اور نوعیتوں کو سموئی ہیں، جوبدر کامل کی طرح ہویدا ہے۔ آپ دینی وعلمی حلقوں میں معروف ومقبول تھے، طلبا کے مابین محبوب، آپ کا تعلق علم دوست، علما نواز، علم پرور اورمحدث خاندان سے تھا۔ ایک اندازے کے مطابق مولانا کے تلامذہ ۳۰۰۰/ سے زائد ہیں۔ آپ خادم القرآن وعامر المساجد حضرت مولانا غلام محمد وستانوی مدظلہ کے شانہ بہ شانہ جامعہ اکل کوا کو ابتدا سے لے کر تا دم آخر بام عروج تک پہنچانے میں پیش پیش رہے، آپ انتہائی متواضع اور کام یاب منتظم تھے۔ آپ کی شخصیت کا خاصہ تھاکہ آلام ومصائب کے موقع پر مجمع کو وعظ ونصیحت سے تڑپادیتے اور خوشی ومسرت کے موقع پر آپ کے انداز تخاطب سے پھول جھڑتے تھے۔اسی طرح آپ کے درس کا بھی انداز نرالا اور البیلا تھا۔ فرحاں وشاداں ہوکر درس دیتے، دوران درس یا اور موقع پر کسی طالب علم سے سرزد ہونے والی غلطی ولغزش پر بڑے حسین انداز میں اشارہ وکنایہ سے تنبیہ فرماتے۔ آپ کی خوبی یہ تھی کہ اپنے اساتذہ واکابر کا تذکرہ بڑے ہی ادب واحترام کے ساتھ کرتے، ورنہ آج کی دنیامیں عموماً لوگ ؛بلندیوں پر پہنچ جانے کے بعد اساتذہ کو بھول بھلیاں کی اندھیری کوٹھری میں ڈال دیتے ہیں۔ علم پروری مولانا کے خون میں شامل تھی ا ور کیوں نہ ہوتی؟ جس گھرانے اور خاندان میں نشوونما پائی اور جن والدین کی آغوشِ تربیت میں پروان چڑھے، انھوں نے نہ صرف علم سے وابستہ کیا؛ بل کہ اس کے لیے قربان کردیا، جس کی برکت سے آپ کو خدا ترس علمائے ربانیین اساتذہ میسر آئے۔
لاک ڈاؤن کی فضا ہو یا عام حالات کی، صحت کازمانہ ہو یابیماری کا، ہمیشہ تعمیری کاموں میں مصروف ؛ بل کہ متحرک وفعال رہتے۔
علمی خدمات وتصانیف:
آپ کے قلمِ سدا بہار سے بہت ساری کتابیں منصہ شہود پرآئیں، جس میں ”المذکرات التفسیریہ، تحفہٴ بیٹی اور تحفہٴ تراویح“ وغیرہا شامل ہیں۔ آخر الذکر کتاب کو اللہ نے بڑی قبولیت عطا فرمائی، جس کے دیگر زبانوں میں بھی تراجم ہوئے اور خلق عظیم نے اختصار کے ساتھ اس گلدستہ سے عطر بیزی کی۔ مولانا چوں کہ فہم و بصیرت کے شناور اور صاحب الرائے کے ساتھ صائب الرائے بھی تھے۔ چناں چہ آپ نے بہت ساری معیاری کتابوں کے مقدمات اور تقریظات بھی لکھیں اور اس مجموعہ کا نام حضرت نے ”نگارشات فلاحی“ رکھا، جو ہم سب کے لیے بصیرت آمیز ہونے کے ساتھ رہبر علم بھی ہے ۔
افراد سازی:
افراد سازی میں اللہ نے آپ کو غضب کا کمال عطا فرمایاتھا۔ طلبا کی داد رسی اور ان کے مسائل کو حل کرنا بھی آپ کا مشن تھا؛ بل کہ فراغت پانے والے طلبہ کو آپ خدمات دینیہ کے لیے ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے مواقع بھی عطا فرماتے تھے۔
ایک بڑا وصف:
جو اِس زمانے میں عنقا ہوتا چلا جارہاہے، حضرت فلاحی میں بہ درجہٴ اتم تھا کہ آپ اپنے شاگردوں؛ بل کہ ہر علمی ودینی کام کرنے والوں کی دل کھول کرحوصلہ افزائی اور ہمت افزائی فرمایا کرتے تھے انھیں مفید مشورے، کتابیں،مناسب اور قیمتی آرا سے بھی نواز تے تھے، جو کام کرنے والوں کے لیے خضر طریق اور توشہٴ راہ ہوتیں۔
خطابی صلاحیت:
آپ خطیبِ سیفِ بے نیام تھے۔ مجمع چھوٹا ہو یابڑا، علما کا ہو یا جہلا کا، دیر تک مجمع کو سنبھالنا اور ان کے ذوق وطبیعت اور معیار کے اعتبار سے اصلاح وتربیت کے بندھن میں باندھے رکھنا، آپ ہی کا حصہ تھا۔ آپبڑے ہی نبض شناس، زیرک” نرم دم گفتگو اورگرم دم جستجو “کی صفت سے متصف ایک باعمل اور بافیض عالمِ دین تھے۔حضرت مولانا تقریر وتحریر اور تدریس؛ تینوں ہی میدانوں کے عظیم شہ سوار تھے، آپ کی گفتگو میں دور اندیشی اورحلاوت ہوتی تھی، جس سے انسان کے حوصلہ میں بلندی آجاتی تھی۔
کیا لوگ تھے، جوراہ وفا سے گذرگئے
جی چاہتاہے نقش قدم چومتے چلیں
عظیم کارنامہ:
حضرت مولانا عبد الرحیم فلاحی کے کارناموں میں ایک بڑا عظیم کارنامہ یہ تھاکہ آپ حفاظ قرآن کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ مدرسین اور ماتحتوں کے خبر گیری کرتے، آپ نے” آل انڈیا مسابقات قرآنیہ “کے پلیٹ فارم سے جو عظیم قربانیاں پیش فرمائی ہیں، وہ آپ کی زندگی کا جلی عنوان اور آخرت میں سرخ روئی کے لیے عظیم صدقہٴ جاریہ ہے، جس کے لیے آپ لیل ونہار بے تاب وبے قرار رہتے۔ ملک بھر کی خاک چھانتے اور انتہائی پر مشقت اور طویل ترین اسفار کی صعوبتیں جھیلتے؛ لیکن نہ پیشانی پر بل ہے اور نہ ہی چہرہ پر کسی تھکان کا اثر؛ بل کہ مجنوں کی طرح، عاشقِ لیلیٰ کے مثل، عشق مولیٰ میں مستغرق قرآن اور اس کی خدمت میں مست ومگن رہتے تھے۔ گویایہ ان کی غذا اور روح تھی۔ مسابقات قرآنیہ کی طویل ترین بیٹھک جس میں سبھی لوگ اِدھر سے اُدھر ہوجاتے؛ لیکن مولانا فکر ودھن کے ایسے پکے جیسے پہاڑ؛ ثبات میں اپنی مثال آپ تھے۔ اسی جہدِ مسلسل اور بے لوث محنت کو دیکھ کر ایک مجلس میں حضرت مولانا سید ذوالفقاراحمد نروریسابق شیخ الحدیث جامعہ فلاح دارین ترکیسر (گجرات)نے فرمایاتھاکہ: ”مولاناعبد الرحیم تو کوئی جنات معلوم ہوتے ہیں“۔
سماجی خدمات:
آپ کی گراں قدر علمی خدمات کے ساتھ معاشرہ وسماج کو راہ حق اور تعلق مع اللہ کی دولت عظمیٰ سے روشناس کرانے میں آپ نا صرف اپنے ملک کے پیاسوں کو سیراب کیا؛ بل کہ بیرونِ ملک کے بے شمار اسفار میں بھی اپنے پندونصائح اور علمی وروحانی وعظ وخطبات سے ان جویانِ حق کو بھی حتی المقدور حبِ الٰہی اور عشقِ رسول کے جام پلاتے رہے۔ آپ نرم دل، شیریں سخن اور سخاوت کے ہاتھوں سے معمور تھے۔ زندگی کے حسین وجمیل تدریسی ایام کو مہمانانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتربیت کے لیے قربان کیا، اسی کے ساتھ کم زور ومجبور اور غریب طلبا کی امداد وتعاون فرماکر، ان کے لیے سلسلہٴ تعلیم کو جاری رکھنا آسان بنادیا۔ اِنھیں کریمانہ اور حبیبانہ صفات نے سب کو آپ کا گرویدہ اور چہیتا بنادیاتھا۔
انتظامی گُر:
نظم ونسقِ امور کا انتظام وانصرام توگویا آپ کاکھلوناتھا۔سرد وگرم اورنرم وگرم حالات میں مجلس وجلسہ اور مفوضہ پروگرام کو نہ صرف کام یاب بناتے؛ بل کہ اپنی خداداد صلاحیت اور فکر ودھن سے اس میں چار چاند لگا دیتے۔ اسی لیے آپ کو بہ جا طورپر حفلات وجلسات کا بے تاج بادشاہ اور نظامت وخطابت کا چمکتا ستارہ کہا جا سکتاہے۔ اپنی خوش نوائی اور شیریں زبانی کچھ ظرافت کی آمیزش کے ساتھ، ساکت وصامت مجمع کوجھمادینا اور ان کے چہرے پر مسکراہٹوں کو بکھیر دینا آپ کا طرہٴ امتیاز تھا، تو اسی کے ساتھ ایک دم پورے مجمع کو دم بہ خود بناکر روتا چھوڑدینا بھی آپ کا عجیب کمال تھا۔
قوت فیصلہ:
اللہ رب العزت نے آپ کو قوتِ فیصلہ، بصیرتِ کاملہ اور اصابتِ راے جیسی خوبیاں عنایت فرمائی تھی۔چناں چہ اگر کسی جگہ کوئی بد مزگی اور اختلاف کی صورت حال پیدا ہوتی، تو بڑی حکمت اور بے دار مغزی سے بگڑی صورتِ حال کو بہتر بنانے میں فیصل کا کردار نبھاتے، نیز ملک اور بیرون ملک کے حالاتِ حاضرہ اور نشیب وفراز پر بڑی گہری نظر رکھتے، استفسار پر بہت مفید اور نپی تلی راے پیش فرماتے تھے، گویا کہ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔
ذوقِ علم:
علم دوستی ،نئی کتابوں اور نئی باتوں کی جستجو آپ کی طبیعت تھی اور یہی نشہ اپنے شاگردوں میں بھی پلانا چاہتے تھے۔چناں چہ یہ زندگی کے آخری اورسنہرے ایام بھی اسی خدمت اور جستجو میں گذرے۔ لاک ڈاؤن کے ایام تھے، آپ نے طلبا سے مغرب کی نماز میں پڑھی جانے والی آیاتِ ربانیہ کی تفسیر وتوضیح کا مطالبہ کیا اورترغیب کے لیے اچھا لکھنے والوں کو انعامات دینے کا اعلان بھی فرمایا، جس آخری عنوان پر آپ نے لکھنے کا مطالبہ کیا تھا، وہ تھا: ”آوٴجنت کی سیر کریں“؛ لیکن کسے خبر تھی کہ راہِ حق کا یہ مسافر درحقیقت طلبا کو انعامات دیتے دیتے اپنے مولیٰ سے انعام یافتگی کے لیے جنت کا رختِ سفر باندھ چکاہے، جس کے لیے﴿یاأیتہا النفس المطمئنة ارجعی إلی ربک راضیةً مرضیةً﴾ کا اعلان ہوناہے۔
رفاہی وسماجی خدمات:
طلبا کی امداد اوران کی تعلیم وتربیت کے علاوہ عام خلقِ خدا کے ساتھ ہم دردی اوران کی ضرورتوں کی کفالت کابھی بڑا بیڑہ آپ نے اٹھالیاتھا، جس میں یتیموں، بیواؤں اورکم زوروں کو ماہانہ راشن دینا، ضرورت مند علما کے ساتھ تعاون مختلف مقامات پر مساجد کی تعمیر بھی آپ کے میزانِ حسنات میں شامل ہیں۔
آخری بات:
ساری زندگی خلقِ خدا اور انسانوں کی بھلائی اور شخصیات کی تعمیرمیں بسرفرمائی اور نفع عام کو زندہ کرتے رہے۔بعد مرگ بھی نفع رسانی کے عظیم کام کو باقی رکھا، چناں چہ اللہ کی طرف سے موت کا وقت ایسامنتخب ہواکہ نہ کوئی آسکتاہے، نہ کوئی جاسکتاہے اور معمولی بیماری کے سبب صرف چیک اپ(Check Up) کے لیے حضرت وستانوی سے مد ظلہ سے اجازت لے کر کھروڈ ”یشفین“ ہاسپیٹل تشریف لے گئے، شام کے وقت پہنچے اور دوسرے دن ہی اپنی آخری سانس پوری فرمالی۔گویاکہ” خیر الناس من ینفع الناس“کا مصداقِ عملی بن کر جامعہ اوراربابِ جامعہ؛ بل کہ پوری جامعہ برادری کودنیاوی سماجی اورسیاسی پریشانی سے بچانے کا ذریعہ بن گئے کہ مرنے کے بعد بھی میں تمھارے لیے تکلیف اور بوجھ نہیں بنوں گا۔
ساری زندگی اسی احتیاط میں گذری
کہ یہ آشیاں کسی شاخِ چمن پہ بار نہ ہو
اسباقِ حیات:
درحقیقت اپنی پر مشقت اور سدا بہار زندگی سے ہم تہی دستوں اور غافلوں کو بہت کچھ اسباق اور راز ہائے حیات توشہٴ حیات کے طور پردے گئے، جو زندگی کو حسین اورنافع بنانے کے لیے کافی ہیں۔ اللہ کریم اپنے کرم کا ،اللہ رحیم اپنے رحم کا اور اللہ غفور اپنی مغفرت کا معاملہ فرمائے اور اپنی شان کے مطابق بدلہ نصیب فرمائے۔آمین!