مولانا عبد الوہاب ندوی مدنی /استاذ جامعہ اکل کوا
چھٹی صدی عیسوی میں دنیا جہالت کی گھٹا ٹوپ اندھیریوں اور خواب غفلت میں مست تھی،قوم کا ہر فرد اور جماعت؛صرف ذاتی منفعت اور خواہشات و ضروریات کی فکر میں لگا ہوا تھا۔جہالت ،بد امنی، فساد و انارکی اور معاشرہ کا بگڑا ہوا نظام اس زمانے کے جلی عناوین تھے۔یہ جہالت و بربریت جزیرة العرب کے ساتھ خاص ہرگز نہ تھی ،بل کہ یہ عالمگیر جہالت تھی۔ روم و ایران، ہند و چین اور مشرق و مغرب ہر طرف اسی جہالت کا دور دورہ تھا۔ دنیا کے لوگ اپنے خالق ِحقیقی اور اس کی تعلیمات کو بھلا کر شرک و بت پرستی اور خرافات میں الجھ گئے تھے ، ایسے وقت میں وادئ بطحا سے ہدایت کی باد ِبہاری چلی اور وحی ِالٰہی نے ان بد مست اور خوابِ غفلت میں محو لوگوں کو جھنجھوڑا ۔ ایک بگڑے ہوئے معاشرہ کو راہ ِراست پر لانے اور جہالت کے اندھیریوں کو ہٹانے کے لیے وحی ِالٰہی نے سب سے پہلا سبق” اقرأ “کا دیا ۔مخاطب قوم کی حالت ِزار کو دیکھ کر اگر کوئی اس معاشرہ کی اصلاح کا بیڑا اٹھانا چاہتا تو شاید وہ پہلے منکرات پر نکیر کرتا ، اصلاح ِقلب کی دعوت دیتا ، رذائل سے بچنے کی تاکید کرتا ، اعمال ِصالحہ کی ترغیب دیتا ،لیکن خالق ِحقیقی؛ جو ہر مخلوق کی طبیعت سے واقف ہے،اس نے جب اصلاح ِعالم کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے اپنی وحی کے ذریعہ” اقرأ “یعنی تعلیم و تعلم کا حکم دیا اور اور اس تعلیم کو اپنے نام سے جوڑ دیا اور ارشاد ہوا﴿ اقرأ باسم ربک الذی خلق﴾ پھر کیا تھا؟ اس وحی کی برکت، نبی کی محنت، ایمانی تربیت اور قرآنی تعلیم نے ایک مختصر سی مدت میں معاشرہ میں وہ تبدیلی پیدا کی کہ راہزن ، رہبر اور فاسق و فاجر متقی و پرہیزگار بن گئے ۔
خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
جزیرة العرب میں آباد و برباد قومیں اور قبائل جن کی طبیعتوں کے فساد اور مزاج کی ترشی کو دیکھتے ہوئے کوئی ان پر حکومت تک کرنا نہیں چاہتا تھا، وحی ِالٰہی کی برکت سے آپس میں شیر و شکر ہو گئے ، وہ عمر ؛جنھیں بکریاں چرانے کا سلیقہ نہیں تھااسی تعلیم کی برکت سے انسانوں کی قیادت فرمانے لگے۔ عرب کے ان بدوٴوں میں کوئی ”سیف من سیوف اللہ“ کہلایا تو کسی کو” امین ہذہ الأمة“ کا لقب ملا اور کسی کو دنیا ہی میں جنت کی بشارت سے نوازا گیا ۔ اور مجموعی طور پر بھی اس جماعت کو رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کا مژدہ سنایا گیا۔
یہ سب اس وحیِ الٰہی کا فیض تھا، جس کا پہلا لفظ”اقرأ“ہے ۔اور پھر اس وحی الٰہی کے تربیت یافتہ اور خدا رسیدہ لوگوں کی جماعت جب دنیا کے دوسرے خطوں میں پہنچی اور اسلامی مملکت کے پھیلاوٴ کے ساتھ ساتھ جب تعلیم وتعلم پرخصوصی توجہ ہوئی تو اس کے نتیجہ میں دنیا نے ایک کروٹ لی ۔سائنس و ٹیکنالوجی ،جغرافیہ وغیرہ علوم کی داغ بیل پڑی، نئی نئی تحقیقات ، ایجادات اورمعدنی مصنوعات کا ظہور ہوا اور دنیا ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئی اور ﴿لتخرج الناس من الظلمات إلی النور﴾ کا عکس نمایاں ہوا۔مسلم علما و سائنسدانوں نے دنیا کی تنگیوں سے اس کی وسعتوں کی طرف نکالے جانے کی سچی تصویر پیش کی ، مسلمان ترقی کی راہ پار کرتے رہے اور وہ صنعت و حرفت اور علوم ِعصریہ میں اجتہاد کا درجہ رکھتے اور نئی نئی ایجادات اور ہر طرح کی طاقت و قوت کی فراوانی نے اقوام ِعالم کو ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
لیکن دھیرے دھیرے اس قوم کو بھی خواہشات ِنفس ، ہوا و ہوس اور حب ِدنیا کا گھن لگ گیا ۔اس کی صلاحیتیں اب خواہشات کے پیچھے صرف ہونے لگیں ، اس کا مقصد اور مطمح ِنظر فقط دنیا کا حصول اور اس کی آرزو ، زیب و زینت اور آرام و آسائش کی زندگی ہوگئی۔ عین اسی وقت یورپ اپنی نیند سے بیدار ہونے لگا مسلمانوں پر علمی و فکری جمود طاری ہوتا گیا اور یورپ میں ترقی کی امنگیں بڑھتی گئیں ،مسلمان عیش و عشرت میں مست ہوتے گئے اور ادھر یورپ صنعت و حرفت اور علم و فکر کی راہیں طے کرتا ہوا ترقی کی بام ِعروج تک پہنچ گیا؛لیکن بد قسمتی سے یہ قوم چوں کہ ایمان و احتساب ، ایثار و قربانی کے جذبہ سے بالکل عاری ہے، دنیا طلبی ، مفاد پرستی اور خود غرضی اس کا شیوہ ہے، تو اس طبیعت و مزاج نے ان علوم و ترقیات میں بھی اپنا اثر دکھایا۔ آج موجودہ دنیاوی ترقیات کے پیچھے اکثر و بیشتر یوروپی محنتیں اور غیر اسلامی دماغ کارفرما ہے؛ جس کی وجہ سے مشرقی لوگوں میں بھی ان علوم کے حصول کے بعد دنیا طلبی اور مفاد پرستی جنم لینے لگی مشرقی اقوام اور خصوصاً مسلمان مغرب کے شانہ بشانہ چلنے کی آرزو کرنے اور ان سے آگے بڑھ جانے کا عزم کرنے کے بجائے مغرب کے خوشہ چیں اور مقلد بن گئے۔یورپ نے اپنا سکہ جمائے رکھا اور مسلمان حکومتیں اور تعلیمی ادارے سب ہی اسی نظام کے رہین منت ہو گئے ،جس کے نتیجہ میں مشرقی اقوام اب یوروپی دماغ سے سوچنے اور مغربی طرز ِزندگی کو اپنانے میں فخر محسوس کرنے لگیں۔
ہندستان کے موجودہ حالات پر ایک نظر ڈالیں تو مسلم قوم کی تعلیمی پسماندگی اور زبوں حالی واضح ہوجائے گی۔ اس ملک میں آر ایس ایس ، ہندو مہا سبھا اورمراٹھے؛ حتی کے دلت لوگ بھی تعلیمی میدان میں اپنی سرگرمیوں کو بڑھاتے ہوئے ملک کے ہراہم شعبوں میں اپنی قوم میں سے ایک مخصوص ذہنیت کے حامل لوگوں کو اعلیٰ مناصب اور بڑے بڑے عہدوں کے قابل بنارہے ہیں ۔اور مسلم نوجوان اپنی تمام تر کمزوریوں سے واقفیت کے باوجود، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابھی اس کے تدارک کا کوئی منصوبہ کیا ارادہ بھی نہیں رکھتے ۔سارے عالم میں تو مسلمان من حیث القوم پسماندگی اور علمی و عقلی طور پر جمود کا شکار ہیں ،لیکن ہندستان میں ان کے حالات ناگفتہ بہ ہیں ، سچر کمیٹی کی رپورٹ کے علاوہ بنفس ِنفیس کسی بھی علاقہ کا دورہ کیجیے تو خود مشاہدہ ہوگا کہ مسلم نوجوان کس قدر غفلت کا شکار اور خواہشات کے آگے سپر ڈالے ہوئے؛ حالات سے بالکل بے خبر ہیں۔ انھیں اپنی تنزلی اور پسماندگی کا احساس تک نہیں ؛ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مدارس کے وجود اور علمی یو نی ورسیٹیوں کے قیام کے باوجود جہالت میں اضافہ اور علم میں کمی ہو رہی ہے ، جیسا کہ حدیث شریف میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قربِ قیامت کی نشانیوں میں بتایا کہ” یقل العلم و یظھر الجھل“ قرب قیامت کے وقت علم کی کمی ہوگی اور جہالت عام ہو جائے گی۔
وہ قوم جس نے دنیا کو علم کی روشنی عطا کی، جہالت کی اندھیریوں سے نکال کر دنیا کی وسعتوں سے روشناس کرایا، جو صحیح معنی میں سارے عالم کی قائد اور ترقی کی راہبر تھی، آج جہالت کا شکار ہو رہی ہے ۔ اور اس کے تنزل و انحطاط سے عالمگیر طاقت و اقتدار ، فکری و تہذیبی قیادت یورپ کے غیر مسلم قوموں کی طرف منتقل ہو گئی ۔ مشرق سے مغرب تک کوئی ملک ان کے اثر و نفوذ سے خارج نہ رہا۔علم کی طرف توجہ نہ دینے کے نقصانات اور اس سے پیدا ہونے والے فتنوں ہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حدیث پاک میں علم کی کمی ،جہالت کے عموم اور فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری کا دور دورہ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ ارشاد ِنبوی ہے ”و یکثر فیھا الھرج“ اس دور میں قتل وغارت گری اور فتنہ و فساد بہت زیادہ ہوں گے ۔ اور آج اس ظلم و ستم کا شکار بھی صرف مسلمان ہی دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی خطہ پر نظر دوڑائیے سب سے زیادہ کمزور اور مغلوب و مظلوم صرف مسلمانوں ہی کا طبقہ ملے گا ۔ کسی بھی اخبار یا میگزین کو دیکھیے اور مسلمانوں کی مغلوبیت و مظلومیت اور ان کے احساس کمتری کی داستان تازہ پڑھ لیجیے ۔ اگرچہ بعض ممالک ایسے بھی ہیں ،جہاں مسلمان بظاہر خوش حال ، غالب اور طاقت ور ہیں، لیکن اندرونی طور پر وہ بھی ذہنی غلامی اور احساس کمتری میں مبتلا ہیں۔
باطنی حیثیت سے بالکل شکست خوردہ اور مرعوب ہیں ۔یہ صورت ِحال یقیناً تشویش ناک ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اگرچہ بہت سے غمگسارانِ ملت اور ہمدردان امت اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کام کررہے ہیں اور تمام دینی و اسلامی جماعتیں ان ناخوش گوار حالات کو بدلنے کی سعی میں مصروف ہیں ۔بہت سے دینی مدارس،مسلمانوں کی یونی ورسیٹیاں اور تعلیمی ادارے قائم ہیں، اس کے باوجود مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی اور اخلاقی گراوٹ میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔دینی تعلیم سے غفلت کا یہ حال ہے کہ بہت سوں کو اسلام کے بنیادی ارکان اور زندگی کے بہت سارے معاملات میں دینی راہ نمائی کا بھی علم نہیں ۔تعلیمی اداروں کی کثرت ہے ،لیکن یہ تعلیمی ادارے ایک طرح کی تجارتی منڈیاں بن گئیں اور اسکول وکالج ہوں یا بعض دینی ادارے ان کو ایک منافع بخش کاروبار سمجھا جانے لگا ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان اداروں سے پڑھ کر طلبہ مادیت کے حصول اور زیادہ سے زیادہ کمانے کی حرص لے کر آتے ہیں اور ساتھ ہی انسانیت سے ہمدردی اور معاشرہ کی اصلاح کے غم سے عاری ہوتے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تعلیم کاجو اثر پڑھنے والے میں اعلیٰ اخلاق ، اچھے کردار ، ایثار و ہمدردی کا جذبہ پیدا ہونا ہے؛ وہ بالکل ہی دور حاضر میں مفقود نظر آتا ہے۔
مسلمانوں کو موجودہ پستی اور ذہنی غلامی سے نکالنے کے لیے اول وحی ”اقرأ “کی طرف توجہ کے ساتھ ساتھ اس تعلیم کے سرے کو اللہ سے جوڑنے کی ضرورت ہے؛ تاکہ وہ تعلیم معاشرہ میں اس کے بہتر نتائج پیدا کرسکے اور ایک ایسا معاشرہ قائم ہو، جہاں مادیت کے بجائے ایثار و ہمدردی کا جذبہ پایا جائے۔قدیم و جدید طرز ِتعلیم اور اس کے اثرات میں سب سے بیّن فرق یہی ہے کہ زمانہ قدیم میں حصول ِعلم کے بعد بندہ اللہ سے قریب ہوتا تھا۔ ایثار و ہمدردی اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ لے کر وہ معاشرہ میں اخلاص و للہیت کے ساتھ بغیر کسی نام و نمود اور شہرت کی چاہت کے صرف لوگوں کی خدمت کرنے میں دلی سکون اور قلبی اطمینان محسوس کرتا اور اسی کو اپنی سب سے بڑی پونجی سمجھتا تھا؛ لیکن آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان کے پاس جتنی اعلیٰ ڈگری ہے وہ اپنے رب سے اتنا ہی دور اور انسانیت سے عاری ہے۔ اس کی نظر صرف ذاتی مفاد اور خاندانی مصلحت پر ہوتی ہے ، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر تعلیم کے ہر میدان میں آگے بڑھیں اور امامت کے اس منصب پر فائز ہوں، جس کے لیے انھیں چنا گیاہے ۔
آج معاشرے کو ایک ایسے تعلیم یافتہ طبقہ کی ضرورت ہے جو شریعت ِاسلامیہ سے مکمل واقفیت اور دین پر تصلب و تمسک کے ساتھ ساتھ زمانہ کے حالات سے آگاہ اور علوم ِعصریہ میں بھی دسترس رکھتے ہوں۔
دنیا سے مرعوب ہونے کے بجائے اس کا مقابلہ کرسکیں۔ اس کے اصلاح کی فکر کریں، اسی طرح ایسے علما و مدارس کی اشد ضرورت ہے، جو صحیح معنوں میں قیادت کے فرائض انجام دے سکیں ،ان کے علم میں گہرائی اور فکر میں گیرائی ہو۔ زمانہ کے چیلنج کا مقابلہ کرتے ہوئے اسلام کی سر بلندی اور اعلائے کلمة اللہ کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ زمانے سے جہالت کے خاتمہ کے لیے اس طریقہ کو اپنائیں، جس میں دنیا کی ترقی کی ضمانت بھی ہو اور دین کی سربلندی بھی۔ آج دنیا اسی نظام کی پیاسی اور اسی طبقہ کی منتظر ہے، عہدِ ماضی میں جو کوتاہی مسلمانوں سے سرزد ہوئی، جس کی تعزیر میں انھیں طویل ذلیل زندگی کا مزہ چکھنا پڑااور مغربی قیادت مسلط کر دی گئی جس نے دنیا میں تباہی و غارت گری قتل و خوں ریزی برپا کی۔ اب اگر اس موقع پر بھی عالمِ اسلام اور مسلمانوں نے علمی و صنعتی تیاری اور زندگی کے معاملات میں آزادی و خود مختاری اور ایک بہترین تعلیمی نظام کے قیام کے سلسلے میں غفلت برتی تو دنیا کی تقدیر میں بد نصیبی اور شقاوت لکھ دی جائے گی۔
دنیا کی سعادت و کامرانی کی منزل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان نوجوان اپنی قربانیوں سے ایک پل تعمیر کریں، اس پل سے گزر کر ؛دنیا بہتر زندگی کی منزل تک پہنچ سکتی ہے ۔ علمی، عملی اور صنعتی میدانوں میں مسلمان آگے بڑھیں۔ نوجوان لہو ولعب اور خواہشات میں اپنی زندگی کو برباد کرنے کے بجائے کچھ کرنے کا عزم لے کر اٹھیں اور یاد رکھیں آج کی ذرا سی غفلت مزید کئی سالوں تک کے لیے پوری قوم کو قعر ِمذلت میں دھکیل سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ والدین اپنی اولاد کو، اساتذہ اپنے شاگردوں کو اور بوڑھے جوانوں کو مستقبل کی تباہی سے آگاہ کرتے رہیں اور ابھی سنورنے اور دنیا کو سنوارنے کا جذبہ ان میں پیدا کریں ۔ اور اپنی قوم کو ہی نہیں، بل کہ ساری دنیا کو تباہی و بربادی سے بچائیں ۔ اقبال کی زبانی ساری دنیا مسلمانوں سے یہ امید لگائے ہوئے ہے کہ وہ آئیں گے اور اس جہاں کی تعمیر ِنو کا بیڑا اٹھائیں گے؛ لہٰذا اے مسلمانو! خوابِ غفلت سے بیدار ہو جاوٴ۔
فریاد از فرنگ و دل آویزوئ افرنگ
فریاد زشیرینئ و پرویزئ افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزئ افرنگ
معمار حرم !باز بہ تعمیر جہاں خیز
از خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں خیز
از خواب گراں خیز