معتمدِ حضرت وستانوی الحاج مولانا رمضان صاحب اشاعتی اور انکی مختصر سوانح عمری

ازقلم مفتی رفعت علی اورنگ آبادی (مدرس دارالیتٰمٰی مدرسة الفلاح پپلہ)

مقام پیدائش وتاریخ :۔

            حضرت مولانا رمضان صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے والد محترم جناب چھوٹوپٹیل صاحب خاندیش کے علاقہ ضلع جلگاؤں کے ایک چھوٹے گاؤں ناچن کھیڑے سے تعلق رکھتے تھے۔ غربت و افلاس کی وجہ سے تلاشِ معاش کے سلسلے میں وہ ایم ۔پی کے ضلع کھر گون چلے گئے، وہیں قاضی محلہ نامی محلہ میں رہنے لگے۔ وہیں ایک جون ۱۹۷۴ءء کو مولانا کی پیدائش ہوئی تقریباً دوسال کا عرصہ ایم پی میں گزارنے کے بعد مولانا کے والد دوبارہ اپنے وطن ِمالوف ناچن کھیڑہ تشریف لائے ۔

مولانا کی ابتدائی تعلیم :۔

            ابتدائی تعلیم وتربیت ناچن کھیڑے میں والدین کی نگرانی میں مقامی مکتب میں ہوئی، اسکے بعد عا لمیت کی تعلیم کے لئے مدرسہ انوار العلوم مہرون ضلع جلگاؤں میں داخلہ لیا اور وہاں جانفشانی اور لگن سے تعلیم حاصل کی۔ عالمیت درجہٴ چہارم تک مختلف اساتذہ ٴکرام سے الگ الگ علم و فن کی کتابیں پڑھی اور اپنی جماعت میں لائق و فائق رہے اور درجہ ممتازسے امتحانات میں کامیاب ہوتے رہے ۔آپکے ابتدائی اساتذہ تو انوار العلوم مہرون کے سبھی اساتذہ ہیں؛ لیکن مولانا عبدالرحمن صاحب ملی (استاذ انوار العلوم مہرون)اور مولانا عبدالمجید صاحب قابل ذکر ہیں۔

اعلیٰ تعلیم وفراغت :۔

            عا لمیت کی ابتدائی تعلیم انوارالعلوم مہرون میں حاصل کرنے کے بعد اپنے ساتذہٴ کرام کے مشورے سے ہندوستان و بیرون کی شھرئہ آفاق دینی و عصری دانش گاہ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں ۱۹۸۸ءء میں عربی چہارم میں داخلہ لیا؛ وہاں جامعہ کے کہنہ مشق اساتذہ کرام سے اکتساب ِفیض فرمایا۔ آپکے اساتذہ میں تو جامعہ کے تمام ہی اساتذہ ہیں؛لیکن خصوصاً آپ نے مولانا عبدالرحیم صاحب رویدروی فلاحی رحمتہ اللہ علیہ حضرت مولانا حسن صاحب ستپونی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب، حضرت مولانا قاری سلیمان صاحب ‘ حضرت مولانا طاہر صاحب مالیگاؤں اور مولانا نسیم صاحب اعظمی سے علمی فیض حاصل فرمایا اور دورئہ حدیث میں بخاری شریف و ترمذی شریف و دیگر کتابیں حضرت مولانا سلیمان صاحب شمسی  سے پڑھی ۔ اور ۱۹۹۱ءء میں جامعہ کے فارغین کی تیسری جماعت میں درسِ نظامی سے فراغت حاصل کی۔ ملک کے کبارعلماء حضرت مولانا ذوالفقار صاحب اور حضرت مولانا عبداللہ صاحب کاپودروی اور حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی اور دیگر علماء و اساتذہ کی موجودگی میں سند فراغت حاصل کی اور دستارِبندی کے اعلیٰ اعزاز و شرف سے مشرف ہوئے۔

تدریسی خدمات :۔

            فراغت کے معاً بعد حضرت رئیس جامعہ کے ایماء پر مدرسہ ضیاء العلوم قصاب کھیڑہ میں تدریسی خدمات کا آغاز فرمایا اور ساتھ مدرسہ کے مطبخ کی نظامت بھی بحسن و خوبی انجام دی۔ تین سالہ تدریسی دور میں بہت سارے طلبہ نے آپ سے ناظرہٴ قرآن مکمل فرماکر حفظ و عا لمیت کی تعلیم حاصل کرکے قرآنی خدمات میں مصروف و منہمک ہیں ۔آپ کے تلامذہ تو بہت ہیں ان میں قابل ذکر مولانا عمران قاسمی (وائی)،حافظ عبدالرشید کنڑ ،مولانا سراج اشرفی، حافظ صادق ہو رکھیڑہ ہیں؛ جو مختلف مقامات پر قرآنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔

منصبِ نظامت :۔

            تین سالہ تدریسی خدمات انجام دینے کے دوران حضرت خادم القرآن و المساجد جنکی نگاہِ دور اندیش، کا ر آمد انتظامی صلاحیت کے حاملین کو بھاپ لیتی ہے، حضرت کی نظر انتخاب مولانا مرحوم پر پڑی اور معذرت پیش کرنے کے باوجود تاکیدی حکم کے ساتھ مدرسہ دارالیتٰمٰی مدرسة الفلاح پپلہ کے منصب ِنظامت پر آپ موصوف کو فائز فرمایا۔ حضرت مولانا میں چوں کہ خداداد انتظامی صلاحیتیں موجود تھیں، جس کو حضرت کی دوررس نگاہیں دیکھ رہی تھی ۔

دارالیتٰمٰی میں آ پ کی خدمات :۔

            حضرت رئیس جامعہ کے حسن ِظن کی لاج رکھتے ہوئے، مولانا موصوف انتہائی جانفشانی وانتھک محنت و لگن کے ساتھ ادارہ کو پروان چڑھانے اور ترقی دینے میں لگ گئے۔ دار الیتٰمٰی جو ایک چھوٹی مسجد اور طعام گاہ اور چند کمروں پر مشتمل تھا ۔ بہت جلد مولانا مرحوم کی جد وجہد ،کا وشوں اور حضرت رئیس جامعہ کی توجہات کی برکت سے علاقہ کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا۔ دور دراز سے تشنگانِ علوم نبو ت کی آمد کا سلسلہ جاری و ساری ہوگیا ۔مدرسہ کی مسجد اور عمارتیں تنگ دامنی کی شکار ہونے لگیں ؛لہٰذا مسجد ،طعام گاہ،دارالمدرسین ،مدرسہ بلڈنگ میں توسیع کا کام عمل میں آیا ۔ ڈی۔ایڈ کالج کی عمارت تعمیرہوئی ۔تعمیراتی ترقیات کے ساتھ ساتھ تعلیمی ترقی بھی ہونے لگی، جس کی بین دلیل جامعہ کے موٴقرترین وفود کے ذریعے ہونے والے امتحانات کے نتائج اور مسابقاتِ قرآنیہ کے رزلٹ ہیں کہ طلبہ اکثر و بیشتر اس میں لائق و فائق رہے۔ نیز دارالیتٰمٰی کی خدمات کا مختصر خاکہ بھی مولانا مرحوم کی دینی و تعلیمی خدمات کا معترف و شاہد عدل ہے۔

دارلیتٰمٰی کا مختصر تعلیمی خدمات کا خاکہ

                        عا لمیت کے لئے جامعہ جانے والے طلبہ                                            200

                        حفظ مکمل کرنے والے طلبہ                                                            290

                        مومنہ کورس حاصل کرنے والی طالبات                                             1074

                        ٹیلرنگ کلاس پاس کرنے والی                                                         595

                        ڈی ایڈ کالج سے کامیاب ہونے والے طلبہ و طالبات                                352

                        ناظرہ مکمل کرنے والے                                                    1799

                        مکاتیب سے ناظرہ مکمل کرنے والے                                                2013

                        مساجد کی تعمیر                                                                200

                        مکاتیب قرآنیہ                                                                   33

                        مکاتب کے طلبہ کی تعداد                                                    1221

                        دسویں پاس ہونے والے طلبہ                                                            360

                        بارہویں پاس ہونے والے طلبہ                                                          55

            اس کے علاوہ جامعہ کے توسط سے چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں بورویل اور بیوہ خواتین کے غلہ اور رمضان میں کٹ کا انتظام اور بلاسودی قرضِ حسنہ مہیا کرانے کی فکر کرنا، مولانا موصوف کے اہم ملی کاموں میں سے ہے؛ اسی طرح پپلہ مدرسہ کا دھڑکتا ہوا دل مومن آباد (امبہ جوگائی)میں وقتاً فوقتاً علاقے اور دور دراز کے صاحبِ نسبت عبقری شخصیات کے حامل علمائے کرام کو مدعو کرکے ان کے وعظ و نصیحت و پندونصائح اور تفسیر قرآن کی مجالس منعقد کرکے امت کو ان سے مستفید ہونے کا قیمتی اور سنہرہ موقع عطاکرنا اور دینی و عصری تعلیم میں ممتاز طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنا مولانا مرحوم کے اہم کارناموں میں سے ہے۔

حضرت رئیس جامعہ سے و الھانہ تعلق اور اعتماد !

            مولانا موصوف مرحوم کی گوناگوخوبیوں ،خدادادانتظامی صلاحیت کام کی حسن ِ تنظیم و ترتیب، معاملات کی صفائی ،امانتداری، جامعہ کے ہر تقاضہ اور تحریک پر لبیک کہنے کی وجہ سے اور خصوصاً حضرت کا منشاء اور مزاجِ جامعہ سمجھنے کی وجہ سے ،حضرت رئیس ِجامعہ مولانا سے بہت محبت کرتے تھے اور مولانا مرحوم کوبھی حضرت سے بہت لگاؤ اور والھانہ تعلق تھا۔ آپ نے اپنے حسن ِانتظام اور معاملات کی صفائی اور معاملہ فہمی کی وجہ سے حضرت رئیس جامعہ کا اعتماد حاصل کیا تھا۔جو وابستگانِ جامعہ سے مخفی نہ تھا آپ کو معتمدِ حضرت وستانوی سے علاقہ میں جانا جاتا تھا ۔حضرت رئیس جامعہ نے آپ کو نظامت میں تمام نظماء میں اوّل درجہ کا ناظم قرار دیاتھا، جس کا برملہ اظہار حضرت نے اپنے تعزیتی خطاب میں فرمایا ۔نیز حضرت انھیں اپنا بیٹا مانتے تھے، جس کا اظہار تعزیتی خطاب میں ان الفاظ میں کیا ۔ ”وہ میرا بیٹا تھا“حضرت نے دار الیتٰمٰی پپلہ کے علاوہ علاقہ کے جامعہ کے ماتحت چلنے والے مدارس اور مراکز کی ذمہ داری بھی آپ کو دی تھی، جس کو آپ تا دم حیات بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔

عمومی طاعون (کرونا)سے متاثر اور علالت :۔

            ۲۲/مارچ ۲۰۲۰ءء میں جب ملک کرونا نامی عمومی طاعون کے زدمیں آگیا، تو جس طرح اس سے عوام متاثر ہو کر ہلاکت تک پہنچ گئی، وہی خواص و اخص الخاص درجہ کے عمائدین اور صف ِاوّل کے علمائے کرام کی ایک بڑی جماعت اس سے متاثر ہوکر شہید ہوئی۔ اس زمانے میں مولانا مرحوم بھی کرونا کے شکار ہوئے اور طویل عرصہ موت وحیات کی کشمکش سے دوچار ہوکر الحمد اللہ صحت یاب ہوئے ۔کرونا کے حملہ سے نبردآزما ہونے بھی نہ پائے تھے کہ بلیک فنگس (Black Funguss)نامی بیماری نے حملہ کیا، جس میں مولانا کے ایک جانب کے کچھ دانت اور داڑھیں نکالنا پڑی ۔تین مرتبہ آپریشن کی نوبت آئی مگر ”جسے اللہ رکھے اسے کون چھکے“اس بیماری سے بھی مولانا کو اللہ تعالیٰ نے صحت عطا فرمائی ۔طویل علالت کے باعث انتہائی نقاہت اور کمزوری ہوگئی تھی۔ حضرت رئیس جامعہ نے آرام کا مشورہ دیا جو مولانا کے لئے حکم تھا آرام کے بعد جب طبیعت ٹھیک ہوئی تومدرسہ تشریف لائے علاقہ میں خوشی کی لہر دوڑ پڑی، لوگ فرداًفرداًاور اجتماعی طور پر حاضر ہوکر استقبال کرنے لگے اور مولانا کے کام کے حوصلوں کو بڑھا نے لگے۔ حتیٰ کے چندہی دنوں میں مولانا مدرسہ اور دیگر مصروفیات میں معمول کے مطابق مصروف ہوگئے ۔ مدرسہ اور مدرسہ کے علاوہ دیگر دینی و ملی قومی تقاضے پورے کرنے لگے۔

سانحہ ٴ ارتحال : ۔

            ۱۹/نومبر بروز سنیچر ۲۰۲۲ءء کی صبح مجلس ِتحفظ ِختم نبوت و مجلس علماء وحفاظ عثمان آباد کلم کے زیر اہتمام و انتظام سیرت النبی و تقسیم انعامات کا ایک جلسہ تھا، جس میں مولانا عمرین محفوظ رحمانی صاحب اور مفتی ہارون صاحب ندوی جلگاؤں اور مولانا مرحوم مہمانِ خصوصی تھے ۔ باوجود یکہ مولانا کا لڑکا جگر(Liver) میں پیپ ہوجانے کی وجہ سے لاتور میں زیر علاج تھا ۔احباب کلم کے اصرار پر جلسہ کے لئے روانہ ہوئے تقریر فرمائی واپسی میں بچے سے ملاقات کیلئے لاتور ہاسپیٹل تشریف لے گئے ۔ بچہ کی عیادت کی وہاں سے امبہ جوگائی روانہ ہوئے لاتور سے نکلنے سے پہلے ہلکا ہلکا سینہ میں کچھ درد کی طرح سے محسوس ہونے لگا تھا، امبہ جوگائی پہنچ کر دواخانہ بتلایا اور کھانے کے بعد دوائی لیکر سوگئے ۔ ۳۰:۱۲بجے سینے میں درد کی وجہ سے بیدار ہوئے ۔مولانا کا بیدار ہونا اور بے چینی سے گھر کے افراد بھی بیدار ہوگئے، مولانا کے چوتھے نمبرکے فرزند عزیزم ارشد سلمہ گھرپر تھے ،وہ دوڑتے ہوئے دار المدرسین آئے، مولانا افسر صاحب حافظ عبدالحمید صاحب اور ارشد نے بلاتاخیر مولانا کو لیکر امبہ جوگائی کے سرکاری اسپتال نکلے اور مجھے (مفتی رفعت علی اورنگ آباد)فون کیا کہ ناظم صاحب کی طبیعت خراب ہے۔ آپ پپلہ کے امیر صاحب کو لیکر فوراً دواخانہ پہنچو چنانچہ میں اور امیر صاحب اور حافظ عبدالرشید صاحب فوراً اسپتال کیلئے نکلے ہم اسپتال پہنچے تو اس وقت مولانا کے سینہ کا درد بہت بڑھ چکا تھا مولانا درد کی تاب نہ لاکر بے تحاشہ بلند آواز سے ”میرا سینہ دُکھرا“”میرے سینے میں بہت درد ہے“ارے میرا سینہ بہت دُکھرا“یہی الفاظ بار بار دوہرا رہے تھے ۔ایمرجنسی وارڈ میں ڈاکٹروں نے معائنہ کیا ۔ECGنکالا اور انجکشن لگوایا اور دوائی دی اور فوراً ICUمیں منتقل کردیا؛لیکن سینہ کادرد رکتا نہ تھا ڈاکٹر مسلسل انجکشن وغیرہ دیتے رہے؛ یہاں تک کہ صبح کے ۴/بج گئے چار بچے کچھ افاقہ ہوا اور مولانا کو نیند لگ گئی؛ لیکن پھر فجر کے بعد آنکھ کھل گئی اور ۳۰:۷ بجے پھر طبعیت خراب ہونے لگی ۔تھنڈا پسینہ جانے لگا شاید وہ دل کا دورہ ہو۔ اس کے بعد ڈاکٹروں نے لاتور منتقل کرنے کا مشورہ دیا ۔چنانچہ Cardic Ambulanceمیں ایک ڈاکٹر کے ساتھ لاتورکے سوپر اسپیشلٹی الفا اسپتال میں منتقل کردیا گیا۔ جہاں ڈاکٹر ورما اور ان کی پوری ٹیم نے پوری جانفشانی جد وجہد و محنت کے ساتھ علاج شروع کیا اینجیوگرافی (Engiography)کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھی کہ اچانک قلب کا دورہ(Heart Attack) بڑی شدت کے ساتھ پڑا اور قلب کی حرکت ہی بند ہوگئی ڈاکٹروں کی پوری ٹیم عمل ِتنفس اور قلب کی حرکت کو جاری رکھنے کی مصنوعی طریقہ پر کوشش کرتی رہی لیکن کامیابی نہ مل سکی بالآخر ڈاکٹر ورما نے موجودہ متعلقین سے کہا کہ مریض کا ہارٹ فیل ہوچکاہے ۔انتہائی معذرت کیساتھ Sorryکہا اور آبدیدہ ہوکر مولانا کے انتقال ہوجانے کی متعلقین کو خبر دی ۔ یک لخت سب پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور سب بے اختیار زار وقطار رونے لگے۔ عزیزم اشفاق اور ارشد سلمھماکا حال نا قابل بیان تھا اور کیوں نہ ہوتا پھر سب سے پہلے سرپرست اعلیٰ حضرت رئیس جامعہ کو فون پر اطلاع دی گئی۔ حضرت اور رشتہ داروں کے مشورے سے پپلہ جانا طئے ہوا عصر سے قبل میت کو مدرسہ کے احاطے میں لایا گیا اور مشورے سے آئندہ کل پیر ۲۱/نومبر ۱۰/بجے نمازِ جنازہ مدرسہ کے احاطے اور تدفین پپلہ گاؤں کے قبرستان میں طئے ہوئی ۔انتقال کی خبر ہوا کی طرح موبائیل اور وہاٹس ایپ کے ذریعے پورے علاقے میں پھیل گئی لوگ جوق در جوق مدرسہ کے احاطے میں جمع ہونے لگے قرب و جوار سے علماء وپپلہ مدرسہ کے ابنائے قدیم جامعہ کے نظماء اور وابستگانِ مدرسہ اور مولانا کے محبین کا بڑا جم غفیر مدرسہ میں جمع ہوگیا ۔ بعد نماز مغرب یہ اطلاع موصول ہوئی کہ حضرت رئیس جامعہ کے خلف ِ رشید فخر علماء و طلبہ علم دوست ہستی حضرت مولانا حذیفہ صاحب اطال اللہ بقاء ہ علینا ناظم تعلیمات جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا بھی اپنی گوناگو مصروفیت اوراہم مہمانوں کے ساتھ مشغولی کے باوجود وابستگانِ دارالیتٰمٰی پپلہ اور حضرت مرحوم کے پسماندگان کی تعزیت کے لئے تشریف لارہے ہے ۔

             چنانچہ مولانا تشریف لائے حضرت مولانا نے سب سے پہلے مرحوم کا دیدار کیا اور ایصال ثواب فرمایااور مرحوم کے بچوں کو گلے لگاکر صبرو ہمت کی تلقین اپنے پر نم انکھوں سے کی کچھ دیر مدرسہ کے آفیس میں بیٹھے عشاء کی نماز مدرسہ کی مسجد میں ادا فرمائی اور بعد نماز عشاء تعزیتی خطاب فرمایا ۔ جس میں مولانا مرحوم کے اوصاف جمیلہ و اخلاق حمیدہ اور حضرت رئیس جامعہ اور جامعہ کے ساتھ دیرینہ تعلقات کا تذکرہ فرما کر مرحوم کی خدمات کا تعارف فرما کر اس کو سراہا اور انتہائی معذرت کے ساتھ اہم مہمانوں کی مشغولی کی وجہ سے رات میں روانہ ہوگئے ۔حضرت مولانا حذیفہ صاحب کے بعد حضرت رئیس جامعہ نے جامعہ کے موٴقر اساتذہ کرام کا ایک وفدبھیجا جس میں ناظم ِمکاتب قرآنیہ و مراکز علمیہ حضرت مولانا جاوید صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور حضرت کے داماد نیک طبیعت و منبع اخلاق ِ حمیدہ قاری محمد علی صاحب اور استاد محترم حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب ملی ندوی ایڈیٹر مجلہ النور اور استاد قاری ساجد صاحب سیندھوا تھے۔ صبح صبح نمازِ جنازہ سے پہلے مدرسہ کا احاطہ و ابستگانِ مدرسہ اور مولانا کے محبین سے بھر گیا۔ اسی وقت حضرت کے بھتیجے جامع کمالات ،فخر ملت شیخ الحدیث حضرت مولانا فاروق صاحب وستانوی، ناظم جامعہ عمربن خطاب کنج کھیڑا اور محب علماء و طلبہ حضرت مولانا بنیامین صاحب وستانوی ،ناظم جامعہ ریاض العلوم انواء تشریف لائے، نماز جنازہ سے پہلے ان حضرات کے تعزیتی بیانات ہوئے، جس میں ان حضرات نے مولانا کی اپنی قومی و ملی خدمات کو واضح کیا اور دارلیتٰمٰی مدرسة الفلاح کے لئے نعم البدل کی ۔اللہ تعالی سے دعاء کی آخر میں حضرت رئیس ِ جامعہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم العالیہ نے ویڈیو کا نفرنس کے ذریعے مختصر جامع تعزیتی خطاب فرمایا، جس سے پورے مجمع پر ایک سکتہ طاری ہوگیا اور ہر شخص حضرت کے والھانہ تعلق الفت و محبت بھرے الفاظ اور جذبات کی وجہ سے آب دیدہ ہوگیا حضرت نے جہاں مرحوم سے اپنے والھانہ تعلق اور انکی خدمات اور انکے مقام و مرتبہ کو بیان کیا وہی علاقے کے لوگوں کو صبر و ہمت کی تلقین فرمائی ۔اور امت کو وصیت فرمائی کہ دارالیتٰمٰی جوحضرت کا لگایا ہوا ایک باغ اور چمن ہے، اسکی آبیاری فرماتے رہے اور دار الیتٰمٰی کے لئے نعم البدل کی دعاء فرمائی ۔

جنازہ میں اکابرین و ز عماء قوم کی حاضری :

            نماز جنازہ میں ان حضرات کے علاوہ اور بھی بہت سی عظیم شخصیات اور اکابرین علماء کرام شریک رہے مثلاً حضرت مولانا حافظ عبدالجبار صاحب نقشبندی دامت برکاتہم۔ حضرت مولانا حافظ ندیم صاحب صدیقی جمعیة علماء مہاراشٹر ،حافظ ذاکر صاحب سیکروی جمعیة علماء مہاراشٹر، جامعہ کے شاخوں کے نظمائے کرام جیسے کہ مولانا نعیم صاحب نقشبندی ‘ مولا نا صادق صاحب منجلے گاؤں ‘ مولانا قیصر صاحب پاتھری‘ مولانا قاری عبدالقدیر صاحب احمد نگر ‘ مولانا عبدالرحیم صاحب سیفی ،مولانا محسن صاحب اورنگ آبادی وغیرہ نیزان کے علاوہ مولانا عبدالباقی حسامی ، مولانا عبدالرحیم صاحب قاسمی بیڑ‘ قاری انیس الرحمن بھالگاؤں ان حضرات کے علاوہ جنازہ میں سیاسی و سماجی کا رکنان حضرات بھی شریک رہے جیسے سماجی کارکن نند کیشور جی مندڑا، سابق صدر بلدیہ پاپا مودی صاحب ، عبدالرحیم صاحب سابق کونسلر ، سنجئے دونڈ سابق ایم ۔ایل ۔اے، اس کے علاوہ بھی بہت سی عظیم شخصیات علماء کرام و زرعماء قوم و ملت جنازہ میں حاضر اور شریک تھے۔

نماز جنازہ اور جم غفیر:

            نماز جنازہ مولانا مرحوم کے فرزند ارجمند عزیزم حافظ اشرف سلمہ نے ادا فرمائی اور بعد نماز کے اعلان فرمایا کہ والد محترم کے کہنے اور سننے کو معاف فرمائے ۔نماز جنازہ کے بعد ایک ایسا جم غفیر اور ایسا عظیم مجمع جس کو پپلہ اور سرزمین پپلہ کی تاریخ میں نہیں دیکھا گیا ۔جو تقریباً ۱۵/سے ۲۰/ہزار پر مشتمل ہوگا۔ اس مجمع نے اپنے عظیم قائد و رہنما اور قوم و ملت کے رہبر کے کھوجا نے کے غم و فراق کے جذبات کے ساتھ پپلہ کے قبر ستان میں جہاں پہلے سے مدرسہ کے اساتذہ آرام فرما رہے ہیں ان ہی کے پہلو میں حضرت مولانا کو بھی سپر د خاک کیا ۔

اکابرین و زعماء کے تعزیتی بیانات :

            جوحضرات کسی وجہ سے جنازہ میں شرکت نہ کرسکے ان حضرات نے تعزیتی خطوط اور مسیج بھیجے اور بعد میں مدرسہ آکر ملاقات کی ۔جن میں قابل ذکر حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی# دامت برکاتہم، حضرت مولانا عمرین محفوظ رحمانی صاحب مالیگاؤں اور حضرت صلاح الدین صاحب سیفی دامت برکاتہم العالیہ اور مفتی عارف صاحب بیڑ،مولانا امین صاحب بیڑ اور پرلی حلقہ انتخاب کے ممبر اسمبلی عالیجناب دھننجئے منڈے صاحب ہے اور دیگر بہت سے حضرات ہے جنھوں نے تعزیتی خطوط ارسال فرماکر اپنے جذباتِ محبت کا اظہار فرمایا ہے۔

پسماندگان :

            مرحوم کے پسماندگان میں والدہ اور مرحوم کی بیوہ پانچ لڑکے عزیزم محمد اشفاق، محمد صدیق، حافظ محمد اشرف، محمد ارشد ، محمد اسجد سلمھم اور ایک بیٹی عزیزی انجم سلمہا ہیں ۔اسی طرح مرحوم کے دو بھائی عبداللہ عرف عبدل بھائی اور دستگیر بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ اللہ تعالی ان تمام حضرات کو صبر جمیل کی دولت سے مالا مال فرمائے اور مرحوم کی بیوہ اور بچوں کی اپنے خزانہٴ غیب سے کفالت فرمائے ؛انکی مدد ونصرت و حفاظت فرمائے اور آخر میں دعا ء ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم محترم کی بال بال مغفرت فرمائے، انکے درجات کو بلند سے بلند تر فرمائے ،انکی تمام خدمات اور مساعیٴ جمیلہ کو شرف ِقبولیت عطاء فرمائے اور انکی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے اور ہمیں بھی ان کی طرح دینی خدمات کا جذبہ عطا فرمائے اور ہم سے بھی اللہ تعالی دینی و قومی و ملی خدمات لینے کے فیصلے صفت ِ قبولیت کے ساتھ فرمائے اور دارلیتٰمٰی مدرسة الفلاح پپلہ کوحضرت مرحوم کا نعم البدل عطاء فرمائے اور اللہ اس چمن کی ہر طرف سے حفاظت فرمائے ۔آمین یارب العالمین