دفع شرور وفتن کا ایک نسخہ :
کلام ِمجید کی ایک آیت ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : {وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوَیٰ ، فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأویٰ} جو شخص دنیا میں ایسا ہوکہ اللہ کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اور جس نے اپنے نفس کو خواہشات سے روک رکھاہے ، جس نے اپنی من چاہی زندگی کو چھوڑ کر رب چاہی زندگی کو اختیار کیا ہے ، خواہشات کو روکا تو اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔
جنت صرف آرزؤوں سے حاصل نہیں ہوتی :
اس دنیا میں ہر مسلمان چاہے وہ کتنا ہی کمزور ایمان والا ہو یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کردے ، یہ ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے ، کوئی مسلمان ایسا نہیں ہو سکتاکہ جس کے دل میں یہ تمنا اور آرزو نہ ہو کہ اسے جنت میں داخلہ نہ ملے ، لیکن میرے دوستو! جنت صرف آرزؤوں سے حاصل نہیں ہوتی ، اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ مَنْ خَافَ أدْلَجَ وَمَنْ اَدْلَجَ بَلَغَ الْمَنْزِلَ ‘‘ یعنی جو ڈرتا ہے، وہ صبح سویرے جلدی سفرکرتا ہے ، اور جلدی سفر اختیار کرتا ہے تو وہ منزل پر پہنچتا ہے ، اور پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اَلَا سِلْعَۃُ اللّٰہِ الْغَالِیَۃُ اَلَا سِلْعَۃُ اللّٰہِ الْجَنَّۃُ ‘‘ کہ اللہ تعالیٰ کا یہ تحفہ بہت قیمتی ہے ، اللہ تعالیٰ کا یہ تحفہ اور سامان جنت ہے ۔ لیکن اس حصول کے لیے ہمیں کچھ اعمال کرنے پڑیںگے اور زندگی صحیح رخ پر ڈالنا پڑے گی۔
تقویٰ انسان کی قدرو قیمت کا پیمانہ :
میرے دوستو! ہرزمانے میں انسانوں کی قدرو قیمت نا پی جاتی رہی ہے ، جس دور میں دنیا والوں نے انسان کی قدرو قیمت اور اس کا ویلیو مال اور دولت بنایا تو وہ فتنہ فساد کا دور ہے ، آپ پوری تاریخ دیکھ لیجیے ، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک جب بھی اس سرزمین پر انسانوں کی قدر وقیمت مال و دولت سے ناپی گئی، تو فتنے فساد پھیلتے رہے ، اور جب انسان کی قدرو قیمت کا اندازہ ان کے تقویٰ اور اخلاق سے لگایا گیا تو دنیا میں امن و سکون کا دور دورہ رہا ، جتنے بھی حضرات ِانبیا علیہم الصلاۃ والسلام دنیا میں تشریف لائے ، انہوں نے اس نکتہ کو انسانوں کے ذہنوں میں خوب بٹھایا کہ دیکھو! مال ودولت کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہے ، اخلاق اور تقویٰ کی طرف جانے کی ضرورت ہے ، اگر تقویٰ اختیار کروگے اور اخلاق درست کرلوگے تو پوری انسانیت میں سکھ اور چین کی فضا پھیل جائے گی ۔
اسی لیے قرآن مجید میں بتا یا گیا : {اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍوَّ اُنْثیٰ }ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا {وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ }اور ہم نے تم کو مختلف قسم کے قبیلوں میں تقسیم کیا ہے {لِتَعَاَرَفُوْا } تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔ انسان کی یہ ویلیو نہیں ہے کہ فلا نا سید ہے ، فلانا پٹھان ہے ، فلانا فلانی بستی کا رہنے والا ہے ، یہ فلانے ایریے کے رہنے والے ہیں، ٹاپ لیول (Top Level ) کے لوگ ہیں ، اور یہ فلانے دیہات کے لوگ ہیں ، شریعت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، یہ جو ہمارے ذہنوں میں باتیں چھاجاتی ہیں کہ یہ مال والا طبقہ ہے ، یہ غریب طبقہ ہے ، یہ فلانا ہے ، یہ فلانی قومیت کی ساتھ تعلق رکھتا ہے ، اس نے انسانوں کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا اور آپس میں لڑائیاں اور جنگیں شروع ہوگئیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : {اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ }تم میں سب سے زیادہ مکرم اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو ۔ اس آیتِ کریمہ میں تقویٰ کو انسان کی قدر وقیمت کے لیے پیمانہ بتا یا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے حصول کی توفیق عطا فرمائے ۔
دنیا کی حقیقت حدیث کی روشنی میں :
بہر حال اب ویلیوز بدل گئے ہیں ، قدریں بدل گئیں ، انبیا علیہم الصلاۃ والسلام نے اسی لیے دنیا کی قدریں انسانوں کے پاس سے کم کرنے کی محنتیں کیں، اور ان کو یہ بتایا کہ یہ دنیا جس کے پیچھے تم جارہے ہو کچھ کام آنے والی نہیں ، اسی لیے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (قربان جائیے آپ کی تعلیمات پر ) مختلف موقعوں پر صحابہ کے دلوں میں یہ بات بٹھانے کے ـلیے تمثیل کے ساتھ بیان فرمایا کرتے تھے ، روایتوں میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف لے جارہے تھے ، راستہ میں بکری کا ایک بچہ مرا ہوا پڑا تھا ، جس کے کان بھی کٹے ہوئے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے دیکھا اور آپ کھڑے ہوگئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’ مَنْ یَّشْتَرِیْ مِنْکُمْ ‘‘ تم میں سے کون اسے خریدے گا ؟ صحابہ بہت تعجب سے دیکھنے لگے اور فرمایا ، یارسول اللہ ! اس کو کون خرید سکتا ہے ؟ اس کے تو کان کٹے ہوئے ہیں ، اس کی دم نہیں ہے ، اور پھر یہ مرا ہوا ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ان کے دلوں میں اِ س کی نفرت ہے اوریہ سمجھتے ہیں کہ یہ بالکل حقیر چیز ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھائی ! اللہ کے نزدیک یہ دنیا اس سے بھی کم درجہ کی ہے ، پیغمبروں نے دنیا کی ویلیو انسانوں کے دلوں میں بالکل کم کردی ، اور دنیا کی ویلیو گھٹا کر آخرت کی ویلیو کو بڑھایا ۔