معار ف کا پو د روی

دینے والا مزاج بنائیں:

            اے امت اسلامیہ ! خداکے یہاں پوچھ ہوگی، اس مال کی ﴿ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم﴾ تم ضرور پوچھے جاوٴگے قیامت کے دن ان مالوں کے بارے میں۔ ایک ایک سے پوچھ ہوگی، فکر کرو اللہ کے بندوں کی ، اس سرزمین کے اوپر جو بھوکے لوگ ہیں، جو غریب لوگ ہیں، جن کے پاس اسکول کے لیے پیسے نہیں، جو اپنے بچوں کو پڑھانہیں سکتے، جن کی بچیوں کی شادیاں نہیں ہورہی ہیں، ان کی فکر کرو۔

             میرے دوستو! اللہ تعالیٰ نے آج ہم کو دیا ہے، تو ہمارا دل تڑپنا چاہیے۔ یہ کتنی قیمتی بات ہوگی کہ اللہ نے ایک موقع دیا ہے ، اچھا کھانا دیا ہے، پیسہ دیا ہے، ہم نے اس کو دوسرے انسانوں کے لیے خرچ کیا، آدمی کا دل کتنا خوش ہوتا ہے۔ صحابہٴ کرام  جب کسی کی کچھ مدد کرتے تھے، تو بہت خوش ہوتے تھے اور اسی خوشی کے شکرانہ میں اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے تھے۔ آج ہم مالوں کو روک کر خوش ہوتے ہیں اور وہ لوگ دے کر خوش ہوتے تھے، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مزاج دینے کا بنایا تھا، آج ہمارا مزاج لینے کا بن گیا ہے۔ ہم لینے والے بن گئے ، دینے والے نہیں بنے، ہم دوسرے ملکوں میں بھی آئے تو اسی لیے آئے کہ یہاں کی جو دولت ہے، یہاں کی جو مال ملکیت ہے، یہاں کی جو آسائش ہے ہم ان کو لے لیں، لیکن ہمارے پاس جو ایمان کی دولت تھی، ہمارے پاس جو اخلاق کی دولت تھی، ہمارے پاس جو اونچے کردار تھے، جو رسول ِپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیے تھے وہ ہم ان کو دینے کے لیے تیار نہیں ۔ ہمارا تو فرض تھا، ہم اس ملک میں جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے تھے، اس ملک میں ہم اپنے اعمال سے یہ بتاتے کہ یہ بڑی درد مندقوم ہے،یہ کسی کی مفلسی پر صبر نہیں کرسکتی، یہ کسی کو دکھی نہیں دیکھ سکتی۔

باطل کی محنت :

            میرے دوستو! آج غریبوں کا عجیب وغریب حال ہے، غربت کی وجہ سے لوگ ارتداد کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ بنگلہ دیش کا حال مولانا اسعد صاحب نے سنایا تو میں حیران ہوگیا کہ بنگلہ دیش کے اندر نوے ہزار عورتوں نے مشنری تیار کی ہیں، جو گاوٴں گاوٴں جاکر ان کو عیسائی بنارہی ہیں اور ان کا یہ خیال ہے کہ پچاس سال کے بعد آدھا سے زیادہ بنگلہ دیش عیسائی بن جائے گا۔ وہاں بہت ہی غریبی اورمفلسی کی حالت ہے اور امت ِاسلامیہ اپنے عیش و آرام میں مست ہے۔کچھ پتہ نہیں کہ دنیا میں مسلمانوں پر کیا ہورہا ہے!سوڈان میں کیا ہورہا ہے، صومالیہ میں کیا ہورہا ہے، الجزائر میں کیا ہورہا ہے، فلاں جگہ پر کیا ہورہا ہے، انھیں کچھ پتہ نہیں۔کیوں کہ وہ تو اپنے عیش و آرام میں ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں فکر نصیب فرمائے۔ آمین!

ایک درد مندانہ اپیل:

            میرے دوستو! میں آپ سے بہت درد مندانہ اپیل کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے واسطے یہ سب چھوڑ دیں اور اپنی لائف کا سروے کریں۔ جائزہ لیں کہ ہم کیا غلط کررہے ہیں اورکیا صحیح ، میری آپ سے یہی درخواست ہے ، اب ہمیں غور کرنے کا وقت آچکا ہے، ہم بہت پٹ رہے ہیں، بہت مار کھارہے ہیں، ہمارے غلط اعمال کی وجہ سے ہمارے معصوم بچوں کو پھاڑ پھاڑ کر پھینکا جارہا ہے، ہمارے نوجوانوں کے سینوں کو چھلنی کیا جارہا ہے، ہمارے نوجوانوں کی کھوپڑیوں سے کھیلا جارہا ہے اور ہم کرکٹ کھیل کے میدانوں میں گیند سے کھیل رہے ہیں، ہم فٹ بال سے کھیل رہے ہیں اور دشمن ہمارے نوجوانوں کے سروں سے کھیل رہا ہے اور ہمیں ذرہ برابر غیرت نہیں آتی، ہماری غیرت مر چکی ہے، ہماری بے غیرتی دیکھئے کہ ان کی بڑی بڑی بوتلیں (کوکا کولا وغیرہ) کی ہم اپنے دسترخوانوں پر سجاکر رکھتے ہیں، جن پیسوں کو ہم دے رہے ہیں، ان پیسوں سے گولیاں خریدی جاتی ہیں، جو مسلمانوں کے سینہ میں اتاری جارہی ہیں، ان پیسوں سے اسلحہ بنائے اور خریدے جارہے ہیں، جو ہمارے خلاف استعمال کیے جارہے ہیں، ان سب باتوں سے میرا دل تڑپتا ہے، خاص طورسے جب میں کسی کے دسترخوان پر کوکا کولا کی بوتل دیکھتا ہوں، توتڑپ اٹھتا ہوں، اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں احساس عنایت فرمائیں، شاعر مشرق علامہ اقبالنے میرے انہی جذبات کو اس شعر میں فرمایا ہے:

احساس عنایت کر آثار مصیبت میں

امروز کی مشکل میں کچھ فکر فردا دے

            اے اللہ ! اس امت کو احساس عنایت کر اور آج کی مصیبت سے کل کے لیے سبق لینے کی توفیق عطا کر۔

            ہمیں تو کچھ فکر ہی نہیں ہے کہ یہ امت اپنی زندگی کو کس لائن پر لے جارہی ہے، خدا کے واسطے اپنے ضمیر کو بیدار کرو اوراپنے دل کو جھنجھوڑو، اپنے دل کو دیکھو اور ٹٹولو کہ ہمارا ایمان ، ہمارا اسلام، ہمارا کلمہ ، ہماری نماز کس پوزیشن میں ہے۔

آج کے دور میں مسلمان کی قیمت :

            ہم دنیا کا نقشہ دیکھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم پوری دنیا پر چھائے ہوئے ہیں، اتنے کروڑ مسلمان فلاں ملک میں ہے، انڈیا کے اندر سترہ کروڑ بتلاتے ہیں اور پاکستان میں بیس کروڑ، بنگلہ دیش میں دس کروڑ، انڈونیشیا میں اتنے اور مصر میں اتنے، آپ ٹوٹل لگائیں گے تو تعجب کریں گے کہ او ہو! اتنے مسلمان! لیکن یہ اتنے سارے مسلمانوں کی حقیقت اس وقت ایسی ہے، جیسے حدیث شریف میں ہے: ”غثاء کغثاء السیل“ کہ پانی کے اوپر جو جھاگ ہوتی ہے، مسلمان کی قیمت اس وقت جھاگ جیسی ہے، کوئی اس کی بات سننے کے لیے تیار نہیں، آپ خیر کے کام کریں تو آپ برے ہیں، اور برا کام جو کررہا ہے وہ اچھا ہے۔

خرد کا نام رکھ دیا ہے جنون ، جنوں کا خرد

            جو دہشت پسند ہیں، وہ تو بظاہر سیکولر بنے ہوئے ہیں، اوردنیا میں لوگوں کو جمہوریت بتلا رہے ہیں اور جو اپنی جان، اپنا مال، اپنی عزت اور اپنے گھر کا دفاع کررہے ہیں، وہ دہشت پسند ہیں، وہ ٹیریرسٹ ہیں، وہ غنڈے ہیں ، تین دن پہلے ایسے الفاظ اخبار میں استعمال ہوئے کہ ہم اُن غنڈوں سے نمٹ لیں گے، آدمی جب اس قسم کی خبریں پڑھتا ہے نا امید ہوجاتا ہے ، ناامید ہونے کی ضرورت نہیں، بل کہ اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے کہ اے اللہ! اس سرزمین پر اس وقت یہ طاغوت ہیں اور تیری ہی قدرت ہے جو ان طاغوت کوقبضہ میں لا سکتی ہے، تیرے سوا کوئی طاقت نہیں۔

بچپن سے ذہن سازی کی ضرورت ہے:

            دنیا میں جتنے بڑے لوگ ہوئے ہیں، آپ ان کی سوانح حیات پڑھ کر دیکھ لیجئے ، ان کے والدین نے یا ان کے والدہ نے ان کے ذہن کو بنایا تھا، حضرت مولانا علی میاں صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ہم جب چھوٹے چھوٹے تھے تو ہماری والدہ ہمیں اور ہماری بہنوں کو سونے سے پہلے بٹھاتی تھیں اور ”فتوح الشام“ پڑھ کر سنایا کرتی تھیں، جس میں صحابہ کے قصے ہیں،تب جاکر مولانا میں وہ جذبہ پیدا ہوا کہ پوری زندگی انھوں نے اسلام کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا، کئی لاکھ روپئے سعودی اور دبئی کی گورنمنٹ نے ان کو دئے، لیکن مولانا وہیں تقسیم کرکے ہندستان چلے آئے، اور بعض مرتبہ حضرت مولانا کا تو یہ حال تھا کہ وہ لکھنوٴ سے رائے بریلی جانے کے لیے نکلتے تھے، جیب میں ایک پیسہ بھی نہیں ہوتا تھا، سعودی گورنمنٹ نے ان کو جو ایوارڈ یا تھا، تو اس کا آدھا حصہ افغانستان کو دے دیا، اور آدھا حصہ مکہ مکرمہ کے تحفیظ القرآن میں دے دیا، ایک پیسہ بھی ہندستان نہیں لائے، یہ ان کی والدہ کی تربیت کا اثر ہے، اللہ کرے کہ ہماری مائیں اور بہنیں اپنے بچوں کو لے کر بیٹھیں اور ان کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سنائیں، صحابہ کرام کے قصے سنائیں۔