کتاب کس طرح پڑھیں:حضرت مولانا علی میاں صاحبؒ کی خدمت میں ہم لوگ حاضر تھے۔ابھی دو چار سال پہلے کی بات کررہاہوں طلبہ کی مختصر سی مجلس تھی، اس میں حضرت نے ایک جملہ فرمایا تھا کہ بھائی! کسی کتاب کو آپ اس طرح پڑھیں جیسا کہ آپ نے اس کتاب کو چاٹ لیا ہو۔ اور خود اپنے بارے میں فرمایا کہ میں نے احمد امین کی کتابوں کو اتنی مرتبہ پڑھا کہ ان کتابوں کے صفحات کے صفحات مجھے یاد ہوگئے۔ ڈاکٹر احمد امین عرب کے مشہور لکھنے والوں میں سے ہیں، طہٰ حسین ہیں، عباس محمودعقاد ،مصطفی لطفی منفلوطی اور مصطفی صادق رافعی ہیں،یہ سب عرب کے ادبا ہیں۔ہمارے یہاں مقامات یا متنبی کے طلبہ ہیں ان کو یہ بات جاننی چاہئے کہ بڑے بڑے ادبا کون کون گذرے ہیں اور ان کے اسلوب کیا کیا ہیں؟
بہر حال میں یہ کہہ رہا تھا کہ حضرت مولانا نے احمد امین کو خوب پڑھا ہے۔انہیں کی ایک کتاب ہے ’’الی ولدی‘‘ جس میں اپنے لڑکے کے نام خطوط لکھے ہیں؛ ان خطوط میں نصیحتیں ہیں، بڑی اچھی کتاب ہے، میں جب قاہرہ گیا تھا تو اس کتاب کی تلاش میں نکلا، مختلف کتب خانوں میں گیا، تو جس کتب خانہ میں گیا وہاں وہ کتاب نہیں ملی، گھومتے گھومتے میں نے دیکھا کہ ایک کتب خانہ کے شوکیس میں وہ کتاب رکھی ہوئی ہے، تو میں بہت خوش ہوگیا،میں اندر گیا اور میں نے صاحب مکتبہ سے کہا کہ یہ کتاب مجھے خریدنی ہے، تو انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس صرف ایک ہی نسخہ رہ گیا ہے ہم نے اس کو ہمارے محفوظات میں رکھا ہے، ہم اس کو فروخت نہیں کرتے۔میں نے کہا آپ مجھے ضرور فروخت کردیں، اس لیے کہ میں ہندوستان سے یہاں آیا ہوںاور دودن کے بعد یہاں سے جارہاہوں پھر مجھے نہیں ملے گی، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ مجھے یہ کتاب دے دیں۔ صاحب مکتبہ نے جب یہ سنا کہ میں ہندوستان سے آیا ہوں، تو اس نے ملازم سے کہا کہ وہ کتاب نکال لاؤ، ہم کہیں اور سے تلاش کرلیں گے،ا نہیں دے دو، کتنی دور سے یہ شخص اس کتاب کی تلاش میں آئے ہیں، تو انہوں نے وہ کتاب نکال کر دی اور میں نے وہ کتاب خریدلی۔ احمد امین کی ایک کتاب ہے’’ حیاتی‘‘ ان کی زندگی کی کتاب ہے۔ مولا نا کہاکرتے تھے کہ اس کو پڑھا کرو تا کہ عربی کی سلاست تمہیں معلوم ہوجائے، تو مولانا نے فرمایا کہ احمد امین کی کتابوں کو میں نے اتنی مرتبہ پڑھا کہ اس کے پورے پورے صفحات اور قطعات مجھے یاد ہو گئے۔ آپ مولاناعلی میاں ندوی صاحب کی عربی کتابیں پڑھیں گے، تو آپ کو پورا احساس ہوجائے گا کہ مولانا کی کتابوں میں احمد امین کے اسلوب کا کتنا اثر ہے۔ میں نے خود اپنے استادشیخ محمود عبد الوہاب ،جو از ہر کی طرف سے دیوبند پڑھانے آئے تھے اور طنطا کے رہنے والے تھے۔ مصر کے صف اول کے جو رائٹر ہیں اور لکھنے والے ہیں اسی طرح سید ابولحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں، چوںکہ ادبائے مصر کی کتابوں کو انہوں نے بچپن سے چاٹا تھا اس لیے ان کا عربی ادب بہت نکھرا ہواتھا۔ آپ کو اگر عربی زبان سے ذوق ہے تو عربی ادباکی کتابیں اتنی مرتبہ پڑھو کہ اس کا اسلوب آپ کے دماغ میں بیٹھ جائے، یہی طریقہ ہوتا ہے کسی کے اسلوب کو سیکھنے کا۔