اصلاح کا ایک طریقہ:
دہلی کی جامع مسجد میں حوض پر ایک شخص وضو کررہا تھا اور اس کے پیروں میں ایڑی کا حصہ خشک رہ گیا تھا، حضرت شاہ عبد القادر صاحب نے دیکھ لیا ۔ اب ظاہر بات ہے رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بڑی وعید بیان فرمائی: ”ویل للاعقاب من النار“ جو آدمی ٹھیک سے وضو نہیں کرتا اور پچھلا حصہ خشک رہ جاتا ہے، تو وہ حصہ جہنم میں جائے گا۔ تو اب شاہ صاحب ان کو یہ نہیں کہتے کہ بھائی ! تمہاری ایڑی خشک رہ گئی، بل کہ فرمایا کہ آپ یہاں تشریف لائیے اور دیکھ لیجیے کہ میری ایڑی کہاں خشک رہ گئی؟ وہ شخص سمجھ گئے اور کہنے لگے کہ حضرت آپ کی ایڑی کہاں خشک رہ گئی میری ہی رہ گئی ہوگی۔ تو یہ ہمارے بزرگوں کے انداز ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے بزرگوں کو عجیب صفتیں عطافرمائی تھیں کہ وہ اس انداز سے گفتگو کرتے تھے کہ سامنے والا بات قبول بھی کرلیتا تھا اور اسے برا بھی نہیں معلوم ہوتا تھا۔ کسی آدمی کو ہم کہیں کہ ارے میاں! تم کو ضو کا سلیقہ آتا ہے کہ نہیں؟ تم اس طرح وضو کرکے بھاگ رہے ہو، تمہاری نماز کیسے ہوگی؟ وہ ناراض ہوجائے گا، لیکن آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ بھائی دیکھو! میں نے وضو کیا ذرا دیکھ لو میرا میر کہیں خشک تو نہیں رہ گیا؟ تو وہ سمجھ جائے گا کہ یہ توعالم آدمی ہے، یہ کیوں ایسا کریں گے، میری ہی کوئی غلطی ہوگی۔ اس کا ذہن فوراً اپنی طرف منتقل ہوگا۔
حقیقی طالب علم کی صفات:
شیخ عبد الفتاح رحمہ اللہ حقیقی طالب علم کی صفت بیان فرماتے ہیں کہ ” من ترک احبابہ وہجر دکانہ ومات احد اقربائہ فلم یحضر جنازتہ“ یعنی علم وہ طالب علم حاصل کرتا ہے، جو اپنے دوستوں کو چھوڑدے اور اپنی اور اپنے والد کی تجارت کو چھوڑ دے اور اگر رشتہ داروں میں کوئی رشتہ دار انتقال کرجائے تو وہ جنازہ میں شریک نہ ہو، بل کہ وہیں سے اس کے لیے دعائے مغفرت کردے اور تحصیل ِعلم میں مشغول رہے۔مجھے شیخ عبد الفتاح کی یہ عبارت بہت پسند آئی۔ یہ عبارت بار بار دہرانے کی ضرورت ہے کہ طالب علم حلقہٴ احباب کو چھوڑ دیتا ہے، اپنی تجارت سے منہ موڑ لیتا ہے اور اپنے آپ کو یکسو کرکے مدرسہ میں رہتا ہے۔