معارف تھانوی

ُحزْن سے ترقیٴ باطن ہونے کی تحقیق:

             ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ حزن سے عبدیت، شکستگی پیدا ہوتی ہے کہ بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں یا پِگھل رہے ہیں اور یہ خود ایک مستقل مجاہدہ بھی ہے، اس لیے کہ تکلیف پر اجر کا وعدہ بھی ہے۔

             ایک صاحب کا خط آیا تھا اس میں لکھا تھا کہ سفر کی وجہ سے معمولات پورے نہ ہو سکے اور اس پر قلق اور حزن ظاہر کیا تھا، میں نے لکھ دیا کہ اصلاح میں جو کمی تھی وہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح پر پوری فرمادی، وہ کمی یہ ہے کہ کبھی اس ناغہ نہ ہونے سے اعمال میں عُجب پیدا ہو جاتا ہے تو اس ناغہ میں اس عجب سے حفاظت ہوگئی، مگر اس سے مراد ہر حزن اور گِریہ نہیں، بل کہ جس حزن اور گریہ پر اجر ہے وہ ہے جو غیر اختیاری ہو، مثلاً کوئی مصیبت آپڑی یا یہ کہ اعمال کے متعلق سعی میں لگا ہوا ہے کام کر رہا ہے اور پھر اتفا قاًبلا قصد کے اس کے خلاف کا صدور ہوگیا، اس پر حزن ہے، غم ہے، گر یہ ہے، یہ ہے وہ حزن جو دس گھنٹہ کا حزن اور گریہ دس برس کے مجاہدہ سے زیادہ کام کا بنانے والا اور فضیلت رکھنے والا ہے۔

             چناں چہ جن لوگوں نے حضرت حاجی صاحب اور حضرت مولانا گنگوہی  کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضرت حاجی صاحب  مولانا سے مسائل پوچھ پوچھ کر عمل کیا کرتے تھے اور مولانا بھی اگر کوئی شخص فتاوی شرعیہ کے معارضہ میں حضرت حاجی صاحب  کا کوئی قول یا فعل پیش کرتا تو صاف صاف فرمادیا کرتے تھے کہ حضرت حاجی صاحب کو ان مسائلِ جزئیہ میں ہمارے فتوے پر عمل کرنا واجب ہے، ہم کو ان مسائل جزئیہ میں حضرت حاجی صاحب  کی تقلید جائز نہیں اور ہم ان مسائل کی وجہ سے حضرت حاجی صاحب سے مرید تھوڑا ہی ہوئے ہیں، وہ اور ہی چیزیں ہیں ،جن کی وجہ سے ہم نے حضرت سے بیعت کی ہے۔

             اتنا بڑا شخص، اتنا بڑا عالم حضرت کے کمالاتِ باطنی کا اعتراف کر رہا ہے، آخر حضرت میں کوئی چیز تو تھی ورنہ اگر حضرت میں کوئی چیز نہ ہوتی تو ایسے لوگ جن کی صاف بیانی کی یہ کیفیت ہے وہ کیا معتقد ہو سکتے تھے، ہم کو اپنے بزرگوں کی ان ہی باتوں پر فخر ہے کہ ان کے یہاں ہر چیز اپنے مرتبہ پر رہتی ہے، کوئی افراط تفریط نہیں۔

(ملفوظ نمبر: ۵۳۴)

دنیا کے جھگڑے اور اہل اللہ کا غم:

             ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل یہ نئی نئی چیزیں دنیا میں چل رہی ہیں، خصوصاً ہندوستان میں آئے دن ایک نیا ترانہ لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب کی ان میں شرکت ہو، میں کہتا ہوں کہ تم کو تو ملک کی فکر، قوم کاغم ہے اور اہل اللہ کو ایک ایسا غم ہے اور ایک ایسی فکر ہے کہ اگر تم کو بھی وہی غم اور فکر لگ جائے تو واللہ سب جھگڑے بھول جاؤ، مگر اس کی تو تم کو ہوا تک بھی نہیں لگی، اور وہ لگانے سے لگتی ہے، بدون لگائے تھوڑا ہی لگ سکتی ہے، اور وہ فکر اور غم ایسا ہے کہ جب حضرت ابراہیم ادہم بلخی نے سلطنت ترک کر دی تو وزیر نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ سب ارکان پریشان ہیں، پھر چل کر تاج و تخت سنبھا لیے، فرمایا یہ ظاہر ہے کہ فکر اور غم (والا) ایسے تعلقات کا حق ادا نہیں کر سکتا اس لیے میں معذور ہوں، وزیر نے عرض کیا وہ ایسا کیا غم ہے کہ جس کا کوئی علاج ہی نہیں؟ وزیر کے اصرار پر فرمایا کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ﴿ وَ تُنْذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیہِ فَرِیقٌ فِی الْجَنَّةِ وَفَرِیقٌ فِی السَّعِیر﴾ (سورہ شوریٰ:۷) یوم الجمع یعنی قیامت کے دن دو گروہ ہوں گے، ایک جنتی اور ایک دوزخی، یہ بتلاؤ میں کون سے گروہ سے ہوں گا؟ یہ ہے وہ غم اس کو دفع کرو، وزیر نے عرض کیا کہ حضور! میں آپ کے غم اور فکر کو کیا دفع کرتا، مجھے خود اپنی فکر پڑ گئی۔

            اس فکر کے اثر پر یاد آیا۔ ایک مرتبہ اکبر بادشاہ شب کومحل میں پڑا ہوا تھا، آرام کا وقت تھا کہ دفعةً کسی عارض کی وجہ سے روشنی گل ہوگئی، تو بادشاہ کو قبر کی تاریکی کا خیال آگیا کہ یہاں پر با وجود یکہ حشم و خدم، فوج و پلٹن، سلطنت و حکومت سب ہی کچھ ہے مگر روشنی گل ہو جانے سے کوئی اس وحشت کو رفع نہیں کر سکتا، تو قبر میں جہاں کچھ بھی نہ ہوگا، دو گز گہرا گڑھا اور تنہائی ہوگی، وہاں اس اندھیرے میں کیا حشر ہوگا؟ صبح کو جو اٹھ کر دربار میں آیا، بیربل نے دیکھا کہ بادشاہ کا چہرہ پژ مردہ ہے اور ملال کے آثار ہیں، بیربل نے عرض کیا کہ آج حضور کے مزاج کیسے ہیں؟

            فرمایا کہ آج شب کو یہ واقعہ پیش آیا، اس سے یہ خیال قلب پر جم گیا ہے، بیر بل نے عرض کیا کہ حضور! یہ کون مشکل بات ہے، میں آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں وہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کتنی ہوئی؟ اکبر نے کہا تریسٹھ سال کی، اور حضور کی وفات کو کتنا عرصہ ہوا؟ کہا ہزار سال سے زیادہ، بیر بل نے عرض کیا کہ جس ذات نے تریسٹھ سال کے اندر تمام عالم کو منو راور روشن کر دیا اس ذات کو زمین کے اندر جاتے ہوئے ہزار سال ہو گئے، کیا باطنِ زمین آپ سے منور اور روشن نہ ہوئی ہوگی؟ اور قبور باطن زمین میں ہیں، ہر امتی کو ان شاء اللہ قبر روشن ملے گی، تھا تو بیر بل ہند و،مگر حقیقت کو کس عجیب عنوان سے بیان کیا۔

            اس قصہ میں دیکھیے! اکبر جیسے آزاد شخص کو اس فکر نے کیسا پریشان کر دیا، غرض اس فکر میں یہی خاصیت ہے، میں اسی کو کہہ رہا تھا کہ اہل اللہ کو وہ فکر اور غم ہے کہ اگر اس کی تم کو ہوا بھی لگ جائے تو تمام غم اور فکر اس کے سامنے گرْد ہوجائیں، واللہ ثم واللہ ان کے دلوں پر ہر وقت آرے چلتے ہیں جن کی آپ کو خبر بھی نہیں، پھر ان کو ان فضول جھگڑوں کی کہاں مہلت کہ وہ ان میں پڑیں۔ (ملفوظ نمبر: ۵۳۵)

خیر کا مفضی الی الشر ہونا:

            ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا: کہ جی ہاں کبھی خیر بھی مفضِی الی الشر ہوجاتی ہے اور وہ اس طرح کہ اس خیر کا کرنے والا حقیقت سے بے خبر ہے، مثلاً خرچ کیا اور نیت یہ ہے کہ دوسرے دیکھ کر مجھ کو سخی سمجھیں، تو خرچ کرنا خیر تھا، مگر نیت کی وجہ سے رِیا ہوگیا، تو مفضی الی الشر ہوگیا، وجہ وہی ہے کہ حقیقتِ ریا سے بے خبری یا عدمِ اہلیت اور اگر خرچ کی بھی صورت ہے کہ اظہار کرکے خرچ کیا، مگر نیت یہ ہے کہ دوسرے بھی دیکھ کر اللہ کے واسطے خرچ کریں، جس کا حاصل یہ ہے کہ اظہار سے ترغیب دینا مقصود ہے تو یہ خیرکا خیر ہی رہا، اس کی وجہ صرف حقیقت سے باخبری ہے؛ البتہ بخل کے علاج کے موقع پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ خرچ کرو چاہے ریا ہی ہو۔ مثلاً ایک شخص بخیل ہے تو بخل کے علاج کے لیے اس کو اجازت دی جاوے گی کہ ریا ہی سے خرچ کرو، گو ریا ہی سے ہو، تاکہ اس کو عادت پڑے گی، پھر اخلاص کی تعلیم کردی جائے گی۔ (ملفوظ نمبر: ۶۳۸)

روحانیت سے لطافت میں ترقی ہوتی ہے:

            ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت! روحانیت کے غلبہ سے لطافت بڑھ جاتی ہے، رنج کا بھی احساس زیادہ ہوتا ہوگا؟

            فرمایا کہ کینہ تو نہیں ہوتا، رنج ضرور ہوتا ہے، عرض کیا کہ اوروں سے زیادہ؟ فرمایا کہ اوروں سے زیادہ، حتیٰ کہ اگر دشمن کو بھی بد حالی میں دیکھ لے گا تو دل پانی پانی ہوجائے گا۔ (ملفوظ نمبر: ۲۴۲)

(منتخب ملفوظات حکیم الامت: ۱۶۷- ۱۷۱)