معارفِ کاپودرویؒ

تصورِ آخرت کی اہمیت:

             بزرگو اور دوستو!  قرآن مجید میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں انسانوں کے دو طبقے ہیں، جب انسانوں میں یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ اس دنیوی زندگی کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے، صرف دنیا میں کھانا پینا ہے اور پھر ختم ہو جانا ہے، تو اس وقت زمین میں شر و فساد پھیلتا ہے، قرآنِ مجید کے مطالعہ سے اور قوموں کی تاریخ پڑھنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب جب دنیا میں بسنے والے انسانوں کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہمیں اس دنیا میں صرف کمانا ہے، کھانا پینا ہے اور موت تک مزے کرنا ہے، اس کے بعد زندگی نہیں ہے {اِنْ ہِيَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْيٰ وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِینَ} جب یہ تصور انسانی سماج میں پیدا ہوتا ہے تو دنیا میں شر و فساد پھیلتا ہے اور جب اس کے برخلاف یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ اس مختصر دنیوی زندگی کے بعد ایک طویل زندگی کا سامنا ہے اور ہم یہاں جو کچھ کریں گے، اس کا اللہ تعالیٰ کے سامنے ہمیں جواب دینا ہے، جب یہ تصور انسانوں کے ذہنوں میں آتا ہے، تو انسانی سوسائٹی راہِ راست پر آتی ہے۔

            اس سے ثابت ہوا کہ یہ بہت بنیادی عقیدہ ہے کہ ہمیں مرنے کے بعد جواب دینا ہے، جب یہ عقیدہ کمزور ہوتا ہے تو اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کا تصور کمزور ہو جاتا ہے، پھر چاہے آپ جتنی تعلیم دیں اور چاہے آپ اپنے ملک میں جتنی ترقی کریں؛ لیکن انسانی سماج اور انسانی سوسائٹی تکلیف اور مصیبت ہی میں رہے گی۔

             اگر آخرت میں جواب دینے کا تصور نہ ہو تو پھر ملکوں کی حالت وہی ہوگی جو(آج ملکوں میں کرپشن کے نمبرات اربوں کھربوںروپے میں جاتے ہیں) اگر لوگوں کے دلوں میں یہ بات جاگزیں ہوتی کہ یہ جو کچھ کر رہے ہیں ،اس کا جواب ہمیں اللہ کے یہاں دینا ہے تو یہ بات ہرگز پیش نہ آتی۔

            چناں چہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے جنگ و جدال ، لوٹ و کھسوٹ، مار پیٹ سب کچھ سارے عالم میں عام تھا، اس زمانے میں ایران کی بڑی حکومت تھی اور رومن امپائر کا بہت بڑا درجہ تھا؛ لیکن لوگوں کو چین حاصل نہیں تھا۔ حضرت مولانا علی میاں صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے ’’ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین‘‘ مسلمانوں کے تنزل سے دنیا کو کیا نقصان پہنچا، اس کے شروع میں رومن امپائر کا، ایرانی سلطنت اور ہندوستانی تہذیب کا نقشہ کھینچا ہے، ان کے دربار میں کیسے کیسے گل چھرے اڑائے جاتے تھے، لیکن بیچاری رعیت کس طرح غربت سے مر رہی تھی ۔ جیسے وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ بیوہ عورتوں اور غریبوں کا کوئی پرسان ِحال نہیں اور مالدار خوب پیسے کما کما کر بینکوں میں بیلنس بڑھا رہے ہیں، یہ اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ ہمیں اسی دنیا میں رہنا ہے۔(حضرت کا یہ خطاب پڑوس ملک کا ہے) ہم روزانہ اخبار میں حالات پڑھتے ہیں ، ہمیں سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ سب مسلمان ہیں، سب یہی کلمہ پڑھتے ہیں، ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ‘‘اور اسلام کے نام پر ایک ملک الگ کیا گیا، لیکن اس کے باوجود وہاں یہ حالات ؟! مسجدوں میں گولیاں چلتی ہیں، ہندوستان میں اتنے فسادات ہوتے ہیں، لیکن وہ کبھی مسجد میں آ کر مسلمانوں کو اس طرح نہیں مارتے ، لیکن پاکستان میں مسلمان مسلمان کو مار رہا ہے، اس لیے کہ اس کو آخرت کا ڈر نہیں ہے اور اس نے اپنی حقیقت کو نہیں پہچانا۔

انسان کی حقیقت:

            حق تعالیٰ فرماتے ہیں:  {فَلْیَنظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ}آدمی کو غور کرنا چاہیے کہ کس چیز سے اس کی پیدائش ہوئی ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی حقیقت سمجھائی ہے، ابھی امام صاحب نے نماز میں یہ آیت پڑھی تھی، مجھے خیال آیا۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انسان کی کیسی حقیقت کھولی ہے، قرآن شریف کہتا ہے {فَلْیَنظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ}آدمی ذرا غور کر کے دیکھے کہ اس کی پیدائش کس چیز سے ہوئی، اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرمایا{ خُلِقَ مِنْ مَّائِ دَافِقٍ یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ }ایک اچھلتے ہوئے پانی کے قطرہ سے پیدا کیا جو مرد کی پشت اور عورت کے سینہ کے بیچ سے نکلتا ہے، دونوں کو ملا کر اللہ تعالیٰ نے تجھے پیدا کیا، تو اپنی پیدائش سے پہلے ایک نا پاک قطرہ تھا، اگر وہ قطرہ ماں کے رحم میں نہ جاتا اور کپڑے پر گرتا تو کپڑا دھونا پڑتا وہ اتنا نا پاک قطرہ تھا اس سے تیری پیدائش ہوئی ہے اور تو یہ خیال کر رہا ہے کہ میں بڑا ہو گیا ہوں، میرے پاس پیسے ہیں، میں بڑی گاڑیوں میں گھوم رہا ہوں اور مجھے کوئی پوچھنے والا نہیں، اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں:{اِنّہُ عَلیٰ رَجْعِہٖ لَقَادِرٌ}  وہی خدا جس نے تجھے اس قطرہ سے پیدا کیا ہے تجھے واپس کرنے پر بھی قادر ہے، یہ بات سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ تجھے مٹی میں ملنے کے بعد دوبارہ زندہ کریں گے۔

             بہر حال اس آیت میں انسان کو اس کی حقیقت سمجھائی جا رہی ہے کہ تو اپنی پیدائش سے پہلے کچھ نہیں تھا، لیکن میری قدرت سے تو دنیا میں موجود ہوا اور اتنا طاقتور بنا اور تیرے اندر اتنی عقل آئی کہ تو ہوائی جہاز بنا کر اس میں اڑنے لگا اور تو نے دنیا کے سفر کئے ، لیکن ایک وقت آئے گا کہ تو پھر اس زمین کے اندر چلا جائے گا ، اسی لیے جب دفن کرتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں : {مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ وَفِیْہَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْریٰ} ہم نے اسی زمین سے تم کو پیدا کیا ہے اور اسی میں ہم تم کو واپس کریں گے اور اسی سے ہم تم کو دوربارہ اٹھائیںگے ، لیکن جب کسی قوم کے ذہن سے یہ تصور نکل جاتا ہے تو کوئی تعلیم اپنا اثر نہیں کرتی ، بڑی بڑی ڈگریاں اس تصور کے بغیر بیکار ہیں، جو بڑے بڑے افسر کرسیوں کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں اور جو کروڑوں روپئے اپنے کھاتوں میں جمع کر رہے ہیں وہ جاہل نہیں ہیں وہ تو تعلیم یافتہ لوگ ہیں ، لیکن پھر بھی قوم کو چوس رہے ہیں، اس لیے کہ ان کا تصورِ آخرت کمزور ہے۔

حضرت عمر کی فکر آخرت:

             جب آدمی کو آخرت کا تصور ہوتا ہے تو پھر اس کو نیند نہیں آتی ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ذہن میں چوں کہ یہ تصور مضبوط تھا؛ اس لیے سو نہیں سکتے تھے، آپ جب سے خلیفہ بنے بہت کم ایسا ہوا کہ آپ ؓ پوری رات سوئے ہوں، رات کو مدینہ منورہ کی گلیوں میں گشت لگاتے تھے اور یہ دیکھتے تھے کہ کہیں کوئی ایسا انسان تو نہیں جو بھوک سے تڑپ رہا ہو؛ چناں چہ ایک عورت کو دیکھا کہ وہ اپنی جھونپڑی کے اندر چولہا جلائے ہوئے ہے اور اس کے اوپر ایک ہانڈی چڑھی ہوئی ہے اور اس کے بچے رورہے ہیں۔ حضرت عمر نے پوچھا کہ کیا قصہ ہے؟ بچے کیوں رو رہے ہیں اس نے کہا کہ ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے اور یہ بچے بھوکے ہیں؛ اس لیے اس نے ان کی تسلی کے لیے یہ ہانڈی چڑھا رکھی ہے کہ اس طرح تسلی پا کر ہو سکتا ہے کہ وہ سو جائیں ، سید نا عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ، انہوں نے کہا عمر ! تو مسلمانوں کا خلیفہ ہے اور تیری خلافت میں بیچاری ایک عورت اپنے بھوکے بچوں کے ساتھ رات گزار رہی ہے اور تجھے خبر بھی نہیں؟ واپس تشریف لے گئے ، بیت المال کا دروازہ کھولا ، آٹا، گھی ،نمک ، شہد وغیرہ سب اپنے سر پر رکھا۔ خادم نے عرض کیا امیر المومنین ! آپ مجھے دے دیجئے ، آپ نے فرمایا نہیں ! کل خدا مجھے پوچھیں گے کہ عمر! تو مسلمانوں کا خلیفہ بنا بیٹھا تھا اور تیری خلافت میں ایک عورت اور اس کے بچے بھوک سے بلک رہے تھے اور تو نے ان کی خبر گیری نہیں کی ، تو میرے پاس کیا جواب ہوگا؟ جب اللہ کے یہاں پہنچنے کا تصور ہوتا ہے تو مسلمانوں کا خلیفہ اس طرح راتوں کو گشت لگاتا ہے اور جب اللہ کے یہاں جواب دہی کا تصور انسان کے دل میں نہیں ہوتا تو پھر وہ حلال اور حرام کی پرواہ کئے بغیر پیسوں سے اپنی جیب بھرتا رہتا ہے۔

(صدائے دل:۳/۵ ۵-۶۰)