معارفِ کاپودروی

مدرسہ میں داخل ہوں دخیل نہ ہوں:

             حضرت نے طلبہ سے فرمایا کہ طالب علمو! بس ہمارے حضرت( مسیح الامت حضرت مولانا محب اللہ خان صاحب) کی ایک نصیحت سنو اور وہ یہ کہ

” مدرسہ میں داخل ہو جاؤ، لیکن دخیل مت بنو۔“

             چھوٹا سا جملہ ہے، لیکن کتنا شاندار جملہ ہے کہ مدرسہ میں آپ داخل ہو جائیے، لیکن دخیل نہ بنیں، یعنی یہاں کے انتظام میں آپ ٹانگ نہ اڑائیں، یہ ایسا کیوں ہے اور یہ ایسا کیوں نہیں؟ مدرسہ میں آپ داخل ہوئے ہیں تو تواضع کے ساتھ اور اپنے اساتذہ کے سامنے اپنے آپ کو مٹا کر صبر کے ساتھ طلب علم میں مشغول رہیں، اگر کوئی بات کہنا ہو تو بہت ہی ادب اور احترام کے ساتھ اپنی بات پیش کرو، آپ کے اساتذہ اور آپ کے منتظمین شفیق ہیں، ان کے دلوں میں آپ لوگوں کی محبت ہے، اگر آپ ان کو نرمی کے ساتھ کوئی بات کہیں گے تو وہ ضرور توجہ دیں گے، جب بیٹا اپنے باپ کے سامنے کوئی بات پیش کرتا ہے تو وہ اس کی بات پر یقیناً غور کرتا ہے، کہ بچہ کو کوئی تکلیف ہے۔اسی حیثیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے طالب علم بات پیش کرے کہ: میں اپنے والد کے سامنے ایک بات پیش کر رہا ہوں اور اپنی بات اچھے انداز میں رکھے تو منتظمین یقینا اس پر غور کریں گے۔

طالب علم کے لیے سب سے زیادہ مضر چیز دوستی:

             بہر حال حضرت نے یہ جملہ فرمایا کہ مدرسہ میں داخل ہو جاؤ لیکن دخیل نہ بنو اور فرمایا کہ سب سے زیادہ نقصان دہ چیز یہ ہے کہ طالب علم دوستی بڑھائے کہ فلاں میرا دوست ہے اور فلاں میرا دوست ہے، پھر اس کمرہ میں جا کر بیٹھے اور اس کمرہ میں جا کر بیٹھے۔ فرمایا کہ یہ چیز سب سے زیادہ مضر ہے، اگر آپ کو دوستی کرنی ہے تو کتاب سے کیجیے، اپنے استاذ سے کیجیے، اپنے شیخ سے کیجیے، کتاب سب سے اچھا دوست ہوتا ہے، دنیا میں اس سے بہتر دوست کوئی نہیں۔ متنبی جو عباسی خلافت کا بہت مشہور شاعر گذرا ہے اس نے بہت پہلے یہ بات کہی ہے، جو پہلے بھی میں آپ کو سنا چکا ہوں۔

أَعَزُّ مَکَانَ فِی الدُّنَی سَرْجُ سَابِحٍ

 وَ خَیْرُ جَلِیسٍ فِی الزَّمَانِ کِتَابُ

            دنیا میں سب سے زیادہ عزت کی جگہ گھوڑے کی زین ہے، جب آدمی بہترین گھوڑے پر سوار ہوتا ہے، تو اس کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں عزت کی جگہ پر ہوں، اور دنیا میں اگر کوئی بہترین ساتھی اور بہترین دوست ہے تو وہ کتاب ہے۔آپ کتاب کے ساتھ دوستی رکھیں، دوسروں کے ساتھ دوستی ہرگز نہ رکھیں، اپنے ساتھیوں کے ساتھ علیک سلیک ضرور کریں، خیر خیریت پوچھیں، کسی کو کوئی تکلیف ہے یا کوئی بیمار ہے تو اس کی عیادت واعانت کریں، اس کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو آپ پہنچادیں، باقی اپنا وقت کتاب کے مطالعہ میں لگا ئیں، ایک ایک منٹ کتاب کے مطالعہ میں لگانا چاہیے، مغرب اور عشا بعد کے اپنے قیمتی اوقات کو کتاب کے مطالعہ میں صرف کریں۔

 اپنے آپ کو مٹائیں:

             میرے بھائیو! علم ضروری تو ہے علم کے بغیر گاڑی چلنے والی نہیں؟ لیکن صرف علم کافی نہیں؛ بل کہ علم کے ساتھ ساتھ دل کی اصلاح بہت ضروری ہے، ہم اپنے آپ کو اتنا چھوٹا سمجھیں کہ ہمیں اللہ کی ساری مخلوق اپنے سے بہتر معلوم ہو اور ہم یہ سمجھیں کہ ہمارے اندر بڑی کوتاہیاں ہیں، ہم ہمیشہ اپنے آپ کو محتاج سمجھ کر اہل اللہ کے پاس جائیں، ان کی خدمت میں بیٹھیں، ان کی باتیں سنیں، آپ کو ان کے پاس ایسی ایسی باتیں سننے کو ملیں گی، جو آپ کو کتابوں میں نہیں مل سکتیں اور خاص طور پر ہمارے علمائے دیوبند کو تو اللہ تعالیٰ نے بہت نوازا ہے، ہم نے تو بارہا دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان سے ایسی باتیں کہلوائیں کہ ہم حیران رہ گئے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی گہری بصیرت عطا فرمائی ہے، آدمی ان کی صحبت میں چند دن رہ کر محسوس کرتا ہے کہ اس کی زندگی میں فرق ہو رہا ہے۔

             میرے دوستو! آج کی اس مجلس میں آپ کو میری نصیحت ہے کہ آپ علم کے لیے محنت کریں، کتابوں کو پختہ کریں، لیکن جہاں آپ کو چھٹی مل جائے آپ اہل اللہ کے پاس جائیں، اہل اللہ کی خدمت میں رہیں اور اگر کوئی اللہ والا آپ کو نظرنہ آئے تو جو بھی صالح مسلمان آپ کی مسجد میں ہو اور آپ کے دل میں یہ بات ہو کہ یہ شخص ہماری مسجد میں سب سے زیادہ نیک ہے تو آپ اس کے پاس جائیں، حضرت تھانوی نے بھی اس کو لکھا ہے کہ کوئی نیک آدمی ہو جس کے بارے میں آپ کا خیال ہو یہ ہماری مسجد میں سب سے زیادہ صالح ہے تو اس کے پاس بیٹھنا چاہیے اور ویسے نیکی کا پتہ تو چہرہ ہی سے چل جاتا ہے۔

             حضرت شاہ صاحب ایک مناظرہ میں تشریف لے گئے؛ چناں چہ آپ کو دیکھ کر کچھ ہندؤوں نے کہا کہ اس آدمی کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پکا مسلمان ہے اور اسلام کا صحیح تر جمان ہے۔ حضرت کا چہرہ دیکھ کر غیروں نے یہ کہا، تو یہ بات مسلم ہے کہ اللہ والوں کے چہرہ پر انوار نظر آتے ہیں، اس سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔

نرے علم کا خاصہ:

             میرے دوستو! آج کل ہمارے علما میں جو بہت سی چیزیں پیدا ہوگئی ہیں اس کی وجہ یہی ہے؛ چوں کہ ہمارے دل کی اصلاح نہیں ہوتی؛ اس لیے ہم دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں اور علم تو ایسی ہی چیز ہے کہ وہ بلند کرتا ہے، میں دیکھتا ہوں کہ اگر ایک آدمی چلّہ کے لیے نکلا یا دو تین چلّوں کے لیے نکلا اور اس کی باتوں میں کچھ اثر پیدا ہوا تو وہ اپنے اندر بڑائی محسوس کرنے لگتا ہے، اس سے بعض لوگوں کو شکایت ہوتی ہے کہ یہ ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں۔ بھئی! ان کا قصور نہیں ہے وہ پہلے جس سطح پر تھے اس سطح سے بلند ہو گئے ہیں اور علم کا خاصہ یہ ہے کہ وہ آدمی کو بلند کرتا ہے، اسی لیے حضرت مولانا الیاس صاحب نے اس کا توڑ بھی رکھا؛ چناں چہ” علم“ کے ساتھ ”ذکر“ ضروری قرار دیا؟ اس لیے کہ جب تک علم کے ساتھ ذکر نہیں ہوگا، تو اضع اور اکرام ِمسلم پیدا نہیں ہوگا؛بل کہ آدمی مغرور ہوجائے گا۔

اساتذہٴ کرام کی رہبری میں مطالعہ کریں:

             اس لیے میرے دوستو! ہم آپ طلبہ سے خاص طور پر گذارش کرتے ہیں کہ حصولِ علم میں خوب محنت کرو اور یہاں آپ کو جو کام کرنا ہے اس ملک کے حالات کے پیش نظر ابھی سے اس کی تیاری کرو، خاص طور پر مشکوة شریف اور دورہٴ حدیث کے طلبہ پہلے سے معلوم کریں کہ کیا کیا سوالات اور اعتراضات اسلام کے خلاف اٹھ رہے ہیں، آپ کی سوسائٹی میں کن چیزوں کی مانگ ہے، ان کے ذہنوں میں اسلام کے بارے میں کیا شبہات ہیں، اساتذہ ٴکرام سے پوچھیں کہ کون سی کون سی کتابیں ہمارے لیے ضروری ہیں، ہم کون کون سی کتابوں کا مطالعہ کریں؛ تا کہ ہم سماج میں جا کر کام کرسکیں۔

            میرے دوستو! پہلے بھی یہ بات میں نے عرض کی تھی آج میں پھر اس کو دہرا رہا ہوں کہ ہر جگہ کام کی نوعیت الگ الگ ہے، ہندوستان اور پاکستان میں کام کی نوعیت بالکل الگ ہے، وہاں کے رہنے والوں کا سوچنے کا انداز الگ ہے اور یورپ میں کام کرنے کی نوعیت الگ ہے، آپ اُس نہج کو یہاں نہیں اپنا سکتے جو ہندوستان اور پاکستان میں اپنایا جا سکتا ہے۔

             ابھی جو ختم نبوت کا نفرنس چل رہی ہے اس کے ذمہ دار سے میں نے عرض کیا کہ مولانا! مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ ویمبلی میں ختم نبوت کانفرس کر رہے ہیں؛ حالاں کہ اس میں جتنے آدمی شریک ہوں گے وہ سب کے سب ختم نبوت کے عقیدہ کو ماننے والے ہیں، سب مان رہے ہیں کہ ختم نبوت بالکل یقینی چیز ہے، ہمارا عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی دنیا میں آنے والا نہیں ہے اور جو اس کے خلاف عقیدہ رکھے گا وہ اسلام سے نکل جائے گا، ہم ان ہی کے سامنے یہ تقریریں کریں گے۔ میں نے کہا کہ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ آپ ان لوگوں میں جائیں جو اس کے یا تو منکر ہیں یا پھر جن کو اس میں شک ہے، یونیورسٹیوں میں اور تعلیم یافتہ لوگوں میں جائیں، جن کے ذہنوں میں اس قسم کی باتیں ہیں اور جن کے ذہنوں کو خراب کیا گیا ہے۔

 ہمیں بیدار رہنے کی ضرورت ہے:

            میں نے کہا آپ کے مقابل جو لوگ ہیں وہ ظاہر میں کچھ نہیں کر رہے ہیں، لیکن وہ اتنے باخبر ہیں کہ ہمارے مشہور دینی اداروں اور تنظیموں میں کوئی استعفا دیتا ہے تو اس کو وہ لوگ بی بی سی لندن میں نشر کرتے ہیں، آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ یہ لوگ کس طرح ہم پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں کہ ہمارے حلقہ میں کوئی چھوٹی سی بات پیش آتی ہے تو وہ اس کو اپنے اخباروں میں شائع کرتے ہیں، سیٹیلائٹ پر دیتے ہیں اور ہم میں سے کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ یہ لوگ اپنی تحریک کسی طرح چلا رہے ہیں، انہوں نے اپنے مضامین کہاں کہاں پہنچائے ہیں۔ میں ایک یونیورسٹی میں گیا اور میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے یہاں اسلامیات کا شعبہ کہاں ہے؟ تو ایک عورت نے جو کمپیوٹر پر بیٹھی ہوئی تھی بتایا کہ آپ چوتھی منزل پر جائیے، ۶۲/۶۳ نمبر کی الماری میں آپ کو اسلامیات کی کتابیں ملیں گی، جب میں نے وہاں جا کر دیکھا تو الماریوں میں قادیانیوں کی سب کتابیں تھیں، مجھے تعجب بھی ہوا اور افسوس بھی۔

            میرے دوستو! یہ بات ہمیں سمجھتی ہوگی کہ ہم یہاں کی تعلیم گاہوں اور یونیورسٹیوں میں اور یہاں کے تعلیم یافتہ طبقہ میں اسلام کے لیے کیسے کام کریں اور اس کے لیے آپ کو ضرورت ہے کہ آپ بہترین زبان سیکھیں، آپ کے پاس دلائل کی قوت ہو، آپ کے پاس اتنا صبر و ضبط ہو کہ اگر وہ ٹیڑھے سوال کریں تو آپ غصہ نہ ہو جائیں وہ تو جان بوجھ کر غصہ دلاتے ہیں؛ تاکہ آپ غصہ ہو کر کہہ دیں کہ تم تو بالکل غلیظ قسم کے آدمی ہو، تمہارے ساتھ کیا بات کریں؟ یہ صیح طریقہ نہیں صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ ان کی بات ٹھنڈے دل سے سنیں اور پھر بات کریں۔