تقویٰ سے کیا چیز حاصل ہوتی ہے ؟
بس اس سے زیادہ پتہ اس حقیقت کا نہیں بتلا سکتا ۔فہما اوتیہ الرجل فی القرآن (یعنی تقویٰ سے تفقہ فی الدین اور قرآن کا فہم نصیب ہوتا ہے )مگر یہ فہم کیا چیز ہے؟ اور کس درجہ کی ہوتی ہے اس کے بیان سے الفاظ قاصر ہیں۔ اس کے سمجھنے کا طریقہ یہی ہے کہ تقویٰ اختیار کرکے دیکھ لو الفاظ سے کمالات حقیقیہ کی تعبیر نہیں ہوسکتی ۔ مولانا محمد یعقوب صاحب فرماتے ہیں کہ امورِ ذوقیہ کی حقیقت بیان سے سمجھ میں نہیں آسکتی ۔ دیکھو اگر کسی نے آم نہ کھایا ہو اور تم اس سے آم کی تعریف کرو کہ ایسا لذیذ ایسا میٹھا ہوتا ہے تو وہ کہے گا گڑ جیسا؟ تم کہوگے نہیں وہ کہے گا شکر جیسا ؟ یا انگور اورانار جیسا ؟ تم کہوگے نہیں پھر وہ اصرار کرے گا کہ بتلاوٴ کیسا ہوتا ہے ؟ تم بھی کہوگے کہ بھائی ہم کو اس کے بیان پر قدرت نہیں ۔ ایک دفعہ کھا کر دیکھ لو معلوم ہوجائے گا اس وقت اس شخص کو تعجب ہوگا اور اس بات کا یقین نہ کرے گا کہ بیان پر قدرت نہیں ، مگر جب کھالے گا تو اب وہ بھی بیان پرقادر نہ ہوگا ۔ یہ بات کمالات ِحقیقیہ ہی کے ساتھ خاص نہیں ،بل کہ محسوسات میں بھی جس چیز کا ذوق سے تعلق ہے وہ الفاظ سے بیان نہیں ہوسکتی ۔
اہل علم اورطلبا کو تقویٰ کی ضرورت ہے :
عربی پڑھنے والے بھی سب عالم نہیں ہوئے ۔ کیوں کہ زبان اورچیز ہے اور علم اور چیز ہے ۔میں تو ترقی کرکے کہتا ہوں کہ اگر علم دین بھی ہو اورعمل نہ ہو تو وہ بھی محقق عالم نہیں ۔اور دلیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ علما ئے یہود کے بارے میں فرماتے ہیں ۔ ﴿لو کانوا یعلمون﴾ چوں کہ وہ عمل نہ کرتے تھے اس لیے باوجود اس کے کہ اس کے قبل ان کی نسبت ولقد علموا (یعنی ضرور یہ جانتے ہیں ) کہاعلم ہے، پھر بھی لو کانوا یعلمونمیں ان کے علم کی نفی کی اور ان کے علم کو کالعدم سمجھا گیا۔ پس معلوم ہوا کہ علمِ مطلوب وہی ہے ،جس کے ساتھ عمل ہو ۔پس اہل علم ناز نہ کریں کہ ہم نے کتابیں پڑھ لی ہیں تو ہم مولوی ہیں ۔
یاد رکھو علم کی حقیقت کہ احکام کو صحیح صحیح سمجھ جائیں ۔میں بقسم کہتا ہوں کہ وہ بد وں تقویٰ کے نصیب نہیں ہوتا ۔ اگر دو آدمی ہم عمر ہوں اور ایک ہی استاد سے انہوں نے پڑھا ہو اور فہم وحافظے میں بھی برابر ہوں، لیکن فرق یہ ہو کہ ایک متقی ہو اورایک نہ ہو تو متقی کے علم میں جو برکت اورنور ہوگا اور جیسا فہم اس کا صحیح ہوگا اور جیسے حقائق حقہ اس کے ذہن میں آئیں گے وہ بات غیر متقی میں ہر گز نہ ہوگی۔ اگر چہ اصطلاحی عالم ہے اور کتابیں بھی پڑھا سکتا ہے مگر خالی اس سے کیا ہوتا ہے؟
اگر تقویٰ ہوگا تو علومِ حقہ قلب پر وارد ہوں گے ۔ اب بھی جس طالب علم کا جی چاہے تجربہ کرلے اور تقویٰ کو اختیار کرکے دیکھ لے کہ کیسے کیسے علوم حاصل ہوتے ہیں ۔ اگر خلوص سے تقویٰ اختیار کیا جائے تو اس کی برکت کی توحد نہیں ۔ اگر خلوص نہ ہو تو امتحان کے لیے کرکے دیکھ لو اس کی برکت بھی کچھ نہ کچھ دیکھ لو گے ۔ طلبہ کو خصوصیت کے ساتھ تقویٰ اختیار کرنا چاہیے ۔
(دعوات عبدیت ص ۱۲۶/ج ۱۵، الغاء المجازفة)
۲۵/ ویں قسط: