اہل علم کو سادگی کی ضرورت:
میرے خیال میں جہاں تک غور کیا جائے گا ہم میں سادگی کا پتہ بھی نہیں ملے گا۔ نہایت افسوس اس امرکا ہے کہ اس وقت خود اکثر اہل علم میں عورتوں کی سی زینت آگئی ہے۔
صاحبو! یہ ہمارے لیے دین کے اعتبار سے بھی اور دنیا میں بھی سخت (قسم کا عیب) نقص ہے ،اس سے بجائے عزت بڑھنے کے اورذلت بڑھتی ہے۔
ہمارے لیے کمال یہی ہے کہ نہ لباس میں کوئی شان و شوکت ہو ،نہ دوسرے سامان میں، مگر اس وقت یہ حالت ہے کہ اکثر طالب علموں کو دیکھ کر یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ طالب علم ہیں یا کسی نواب کے لڑکے۔ اوریہ کوئی دیندار ہیں یا دنیا دار۔ یا تو آدمی کسی جماعت میں داخل نہ ہو اوراگر داخل ہوا تو پھر وضع قطع سب اسی کی سی ہونا چاہیے۔ علم کی یہی زینت ہے کہ اہل علم کی وضع پر رہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگراس کا خیال نہیں تو کم ازکم اس کاخیال تو ضرور کیجیے کہ آپ کس کے وارث ہونے کے مدعی ہیں اور آپ کے مورث کی کیا حالت تھی۔ واللہ ہماری حالت سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ابھی دین کا ہم پر کامل اثر نہیں ہوا۔ دین نے ہمارے قلب میں پوری جگہ نہیں کی۔
(دعوات عبدیت: ص۲۱/ جلد ۳)
سلف صالحین اور اکابرین کی حالت:
ہمارے سلف صالحین کی تو یہ حالت تھی کہ انھوں نے بعضے مباح امور کو بھی جب کہ وہ مفضی بہ تکلف یا فساق کا شیوہ ہوگئے تھے(ان کو بھی) ترک کردیا تھا، چناں چہ اسی بنا پر باریک کپڑا پہننا چھوڑ دیا تھا اور اسی بنا پرحدیث شریف میں ہے : ” من رق ثوبہ رق دینہ“ جس نے اپنے کپڑے کو باریک بنایا اس کا دین بھی باریک کمزور ہوگیا۔
دوسری بنا کے متعلق ایک واقعہ ہے کہ کسی صحابی یا تابعی نے ایک مرتبہ کسی خلیفہ کو مہین لباس پہنے دیکھ کر یہ کہا تھا کہ ”انظر الی امیرنا ہذا یلبس بثیاب الفساق“ (ہمارے اس امیر کو دیکھو تو فاسقوں کا لباس پہنے ہے)
چوں کہ سلف صالحین میں سادگی بہت زیادہ بڑھی ہوئی تھی، اس لیے اس وقت صلحا باریک کپڑے نہ پہنتے تھے۔ اس لیے امیرکو فساق کا لباس پہنے دیکھ کر اعتراض کیا۔
پس اس وقت بھی جو امور اہل باطل یا اہل کبر کی وضع ہیں، گو فی نفسہمباح ہی ہوں ان کا ترک کرنا چاہیے۔ جیسے انگریزی بوٹ جوتے پھندے دار ٹوپی وغیرہ کیوں کہ اس قسم کے امور اول من تشبہ میں داخل ہیں۔ دوسرے اگران کو تشبہ سے قطع نظر کرکے مباح مطلق بھی مان لیا جائے تب بھی چوں کہ لوگوں کی وضع نہیں ہے اس لیے بھی وہ قابل ترک ہوں گے۔ ہماری وضع ایسی ہونی چاہیے کہ لوگوں کو دیکھتے ہی معلوم ہوجائے کہ یہ ان لوگوں میں ہیں، جن کو ناکارہ سمجھا جاتا ہے جو کہ ہمارے لیے مایہٴ فخر ہے۔ (دعوات عبدیت : ص۳۳/جلد ۱۳)
حضرت مولانا گنگوہی باکل سادے رہتے تھے، مگر لوگوں کو ہمت بھی نہیں ہوتی تھی کہ سامنے بات کرسکیں۔ (مزید المجیدص :۲۵)
تصنع وتکلف سے احتراز:
بعض اہل علم اپنے کو خوب بناوٴ سنگھار سے رکھتے ہیں، جوشان علم کے خلاف ہے اور ضروری خدمات علم سے بے فکری کی علامت ہے، کیوں کہ اس فکر کے ساتھ لباس وطعام وغیرہ کے تکلفات کی طرف التفات نہیں ہوتا۔
اسی طرح مجلس میں صدر یا ممتاز جگہ پر بیٹھنے کا شوق، چلنے میں تقدم کی فکر، مجمع میں امام ہونے کاخیال، یہ سب ریا و کبر کے شعبے ہیں۔تواضع وبے تکلفی اور سادگی ہی میں علم دین کی شان ہے۔ حدیث میں ہے ”البذاذة من الایمان“ اس سے مساکین کو بعد و توحش نہیں ہوتا۔ اور یہی لوگ دین کے زیادہ قبول کرنے والے ہیں۔ البتہ سادگی کے ساتھ طہارت ونظافت ضروری ہے۔(حقوق العلم ص: ۶۰، تجدید تعلیم ص: ۱۱۶)
تصنع وتکلف کی مضرت:
قطعِ نظر اس کے کہ یہ (سادگی) بالکل خلاف ہے ایک بڑی مضرت یہ ہے کہ جب ہر وقت یہی شغل رہے گا تو باقاعدہ النفس لا تتوجہ الی شیئین فی آن واحد یہ ضروری ہے کہ علم کی طرف توجہ نہ رہے گی اور علم سے بالکل بے بہرہ رہے گا، چناں چہ مشاہدہ ہے کہ جو لوگ ہر وقت بناوٴ سنگھار میں رہتے ہیں ،نہ ان میں کوئی استعداد ہوتی ہے نہ مناسبت۔ اور یہ یقینی ہے کہ جو شخص امور عظام (اہم کاموں) میں مشغول ہوتا ہے اس کی نظر امور صغائر (معمولی کاموں) پر نہیں رہا کرتی؛ حتیٰ کہ یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ غسل کب کیا تھا اور کپڑے کب بدلے تھے اور یہی سبب ہے کہ امر طبعی تھا، مگر کام کرنے والوں کو اس طرف التفات نہیں رہتا، اس لیے قانون کی ضرورت پڑی ، ایک طرف بذاذت کا حکم ہے کہ تکلف اور زینت نہ آجائے اور چوں کہ بعض لوگوں سے اس پر ایسا عمل کرنے کاخیال تھا کہ وہ اپنے تن بدن کی خبر نہ رکھنے کی وجہ سے حد نظافت سے بھی خارج ہوجاتے ہیں، اس لیے فرمایا کہ ہفتے میں ایک مرتبہ ضرور غسل کرلیا کرو تاکہ نظافت بھی فوت نہ ہو۔ (دعوت عبدیت ص: ۳۵، العمل العلماء)