کفار حکمراں ؛ہم پر کیوں مسلط کردیے گئے ؟
ایک شخص نے مجھ سے کہا ۔ بتائیے کفار میں کون سی لیاقت اور کون سا ایسا استحقاق ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو محروم کرکے ان کافروں کو حکومت عطا کی گئی ہے؟
میں نے کہا کہ مسلمان تو اپنی نالائقی اور نا اہلی کی وجہ سے محروم ہوئے ہیں اور کافروں کو بلا استحقاق اور بلا قابلیت حکومت دے دی گئی؛ تاکہ ہم کو تنبیہ ہو اور خوابِ غفلت سے بیدار ہوں کہ جو چیز ہمارے پاس ہونا چاہیے تھی وہ ہماری غفلت کی وجہ سے دوسروں کے ہاتھ میں ہے۔ سو جب تک ہم اپنی حالت کو شرعی آئین کے ماتحت درست نہ کریں گے، حکومت کی باگ ڈور بھی ہمارے ہاتھ نہ آئے گی۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ بعض اوقات بادشاہ اپنی اولاد کو معمولی اور کم درجہ کے ملازمین سے سزا دلواتے ہیں تو کیا اس سے ان ملازمین کا محبوب اور اہل ہونا لازم آتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ ہاں! اولاد کا نالائق ہونا ضرور ثابت ہوتا ہے۔(اسعد الابرار،اتعاظ بالغیر ملحقہ آداب انسانیت ص۱۹۲، ۱۹۴، اسلامی الحقیقی ص ۵۰۷)
کیا اللہ تعالیٰ کافروں کا مدد گار ہے؟
رہا یہ شبہ کہ اللہ میاں بھی کافروں کے مددگار ہیں جیساکہ بعض گستاخوں نے کہا ہے۔
سنیے! نافرمانی وہ چیز ہے کہ بھنگی سے شہزادہ کے کوڑے لگوائے جاتے ہیں۔ تو کیا اس صورت میں بادشاہ بھنگی کا طرف دار ہے۔ اور کیا اس سے یہ لازم آگیا کہ بھنگی مقبول ہے؛ بل کہ بات یوں ہے کہ شہزادہ اپنے مردود ہونے کی وجہ سے مغلوب ہے۔
ایک آیت شریف یاد آئی۔ سورہ بنی اسرائیل میں ہے اور یہ بنی اسرائیل کافر نہیں تھے، اہل کتاب تھے، انبیا کے قائل تھے۔
وہ آیت یہ ہے :
﴿وقضینا الی بنی اسرائیل فی الکتٰب لتفسدن فی الارض مرتین… الٰی قولہ تعالیٰ… وکان وعدا مفعولا﴾(بنی اسرائیل)
آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں یہ بات بتلادی تھی کہ تم سرزمین میں دوبارہ فساد مچاوٴگے؛ جب اول مرتبہ شرارت کروگے تو ہم تم پر اپنے ایسے بندوں کو مسلط کردیں گے جو بڑے خونخوار (ظالم) ہوں گے پھر وہ گھروں میں گھس پڑیں گے۔
اب اس دنیا میں دیکھنا چاہیے کہ ان لوگوں کوجو اہل ِکتاب میں مفسد اور حد سے گزرنے والا فرمایا گیا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جن کو ”عبادا لنا“ فرمایا ہے یہ کون لوگ ہیں؟ یہ مشرک ہیں؟ بت پرست ہیں؟ ان کو اپنا بندہ فرما رہے ہیں، اس حیثیت سے کہ ہمارے مملوک ہیں۔ اور ہمارے آلہٴ عذاب ہیں ۔نہ اس حیثیت سے کہ مقبول ہیں؛ بل کہ بات یہ ہے کہ تمہارے مردود ہونے کی وجہ سے ان کو تم پرمسلط کردیا ہے۔
دیکھئے اگر ٹوپی پرنجاست پڑجاتی ہے تو اسے اتار کر پھینک دیتے ہیں ،ایک منٹ سر پر نہیں رکھتے۔ اور جوتا اگر نجاست میں بھرجائے تو اسے کوئی نہیں پھینکتا۔ اسی طرح کافر اور مسلم کی مثال ہے کہ مومن مثل ٹوپی کے ہے کہ اس میں اگر دھبہ بھی پڑجاتا ہے تو ناگوار ہوتا ہے اور کافر مثل جوتا کے ہے کہ اگر پورا نجاست سے بھر جائے تو بھی ناگوار نہیں ہوتا۔ تو کیا اس سے یہ لازم آگیا کہ جوتا ٹوپی سے افضل ہے؟ (مزید المجید ۸۹)
(اس لیے) کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ ہم توگناہ کرنے والوں کو بڑے عیش (آرام) میں دیکھتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ استدراج (ڈھیل) ہے۔ اس کا اور بھی زیادہ خطرہ (اور سخت وبال)ہے ۔ جیسے مکتب (اسکول) میں کوئی لڑکا سبق نہ یاد کرتا ہو اور معلم ماسٹر ضد میں سزا نہیں دیتا کہ کل سبق نہ یاد ہوگا اس وقت اکٹھی سزا ہوگی۔
ایک شبہ اور اس کا جواب:
اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ اہل یورپ (غیرمسلم کفار)توبغیر دین کے آرام سے ہیں (اور برابر ترقی کررہے ہیں اور ہم کیوں بغیر دین کے ترقی نہیں کرسکتے؟)
اس کا جواب یہ ہے کہ ……آپ اپنے کو ان پرقیاس نہیں کرسکتے۔ ان کافروں کو بغیر دین کے دنیا کی راحت حاصل ہوسکتی ہے ،مگر آپ کو بغیر دین کے دنیا کی راحت ہر گز حاصل نہیں ہوسکتی ؛کیوں کہ آپ اطاعت و فرماں برداری کے مدعی ہیں اور وہ اطاعت کے مدعی نہیں؛ بل کہ کفر اختیار کرکے وہ خدا سے باغی ہوچکے ہیں۔ پس آپ کے ساتھ وہ برتاوٴ کیاجائے گا جو مدعیٴ اطاعت (یعنی جو اطاعت کا دعویٰ کرتا ہو) اس کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ بات بات پر گرفت ہوگی اور جہاں ذرا شریعت کے قانون سے باہر قدم رکھاتو فوراً سزا ہوگی۔ (اسلام اور سیاست: صفحہ ۱۱۸-۱۲۹)