حبِ جاہ:
افسوس آج کل علما علم کے بعد بھی عوام کی نظروں میں جاہ اور قدر ومنزلت کے طالب ہیں ، یہی وجہ ہے کہ عوام کی خاطر بعض دفعہ ایسے کاموں میں پڑجاتے ہیں ، جن کو اندر سے ان کا دل قبول نہیں کرتا ۔ بعض لوگ جب یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں جگہ رہ کر عوام کی نظروں میں ہماری وقعت نہ ہوگی یا کم ہوگی اس جگہ کو چھوڑنا چاہتے ہیں اورایسی جگہ کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں ان کی وقعت زیادہ ہو۔بعض لوگوں کو اس کا اہتمام ہوتا ہے کہ جب ہم بازارمیں یا کسی اور جگہ جائیں تو دو چار آدمی ہمارے ساتھ چلنے والے ہوں۔ تنہا چلنا انہیں گوارا نہیں ہوتا ، حالاں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ جب آپ کے ساتھ راستہ میں کچھ صحابہ ہوجاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض کو آگے کردیتے اوربعض کو پیچھے سب آگے نہ چلتے۔
اسی طرح مجلس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم جہاں جگہ پاتے وہیں بیٹھ جاتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نشست کے لیے کوئی ممتاز جگہ نہ تھی ،حتی کہ باہر سے آنے والوں کو بھی نہ معلوم ہوتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس مجمع میں کون ہیں ؟آج کل لوگ خود بڑا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔اوراگرکوئی کوشش نہ کرے توعوام کے مصافحہ اورہاتھ پیر چومنے سے اس کوشبہ ہوجاتاہے کہ میں ضرورکچھ ہوں،جب ہی تویہ لوگ میری اس قدرتعظیم کرتے ہیں۔عجیب بات ہے کہ انسان کواپنے عیوب خوب معلوم ہوتے ہیں،جن کودوسرے نہیں جانتے ۔مگریہ شخص ان جاہلوں کی تعظیم وتکریم سے یہ سمجھنے لگتاہے کہ میں واقع میں اس قابل ہوں اورجوعیب اُسے اپنے اندرمعلوم ہوئے ہیں ان سے قطعِ نظرکرلیتاہے ۔(التبلیغ:ج۲۱/ص۱۵۲)
عالم کے لیے بڑافتنہ:
فرمایاجامع صغیرمیں ایک حدیث ِمرفوع نظرسے گزری کہ عالم کے لیے یہ بہت بڑافتنہ ہے کہ وہ اس کی خواہش رکھے کہ لوگ اس کے پاس آکربیٹھاکریں۔
بزرگان دین نے حب ِجاہ کے علاج کے لیے اپنے نفس کے خلاف بڑے بڑے مجاہدے کیے ہیں۔
فرمایا:جاہ کی تحصیل اس قدرکہ لوگوں کے ظلم سے بچ جائے جائزہے اوراس درجہ سے زائدہوتودین کے لیے مضرہے ۔یہی وجہ ہے کہ حدیث میں یہ دعاسکھلائی گئی ہے ”اللٰہم اجعل فی عینی صغیراً وفی اعین الناس کبیراً“ یعنی یااللہ میری نظروں میں حقیراورلوگوں کی نظروں میں بڑابنادے ۔تویہ دعاطلب ِجاہ ہی ہے ،مگر حدیث میں صرف دعاپراکتفاکیاگیاہے ۔اس کی تحصیل کے لیے کوئی تدبیرنہیں بتلائی گئی،جس سے معلوم ہوتاہے کہ دراصل محض خدادادہوتاہے ،تدبیروں سے کچھ نہیں ہوتا۔