کام کا آدمی ہمیشہ سادہ دیکھا جا تا ہے:
حسی اعتبار سے لیجیے تو ہم دیکھتے ہیں کہ حساً بھی یہی حالت ہوتی ہے کہ جوآ دمی کسی بڑے کام میں مشغول ہو تا ہے اس کو چھوٹے کا موں کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔مثلاً شادی کے موقع پر جن لوگوں کے سپر دشادی کا انتظام ہوتا ہے ان کو نہ ا پنے کپڑوں کی خبر ہوتی ہے نہ بدن کی اور وہ اس کو کچھ عارنہیں سمجھتے،بل کہ اپنی کارگزاری پر ناز کرتے ہیں ۔پس معلوم ہوا کہ انہماک فی الامور العظام (بڑے کاموں میں انہماک لا زم ہے۔)
جو طالب علم اپنے علم کے شغل میں لگا ہوگا اس کوکبھی اس کی فکر نہ ہو گی کہ میرے پاس سوٹ بوٹ اور رومال بھی ہے یانہیں؟
بڑے لوگوں کی سوانح عمری دیکھنے سے بھی اگر چہ وہ دنیاہی کے بڑے ہوں صاف معلوم ہو سکتا ہے کہ انہوں نے زندگی نہایت بے تکلف بسر کی، پس جوشخص ہر وقت مانگ پٹی میں مشغول ر ہے، اس کی نسبت سمجھ لینا چاہیے۔ لیس من الکمال فی شئ اس کے اندر کچھ کمال نہیں۔
یہ شخص (کام کا آدمی) تو قومی انجن کا ڈرائیور ہے۔ ڈرائیور کوغسل کرنے، صابن ملنے کی اور کوئلوں کے جھاڑ نے کی فرصت کہاں؟ اگر فرسٹ اور سیکنڈ کلاس کے متنعم پر اعتراض کریں اور یہ نہ سمجھیں کہ ہم (بمبئی،کلکتہ) اسی کی بدولت پہنچے ہیں اور وہاں سے ڈگریاں حاصل کر کے فرسٹ وسیکنڈ کلاس میں سفر کرر ہے ہیں۔ (اگر وہ یہ اعتراض کریں) تو نادانی کے سوا کیا ہے۔ (تجد یدتعلیم ص ۳۵)
عزت اچھے کپڑوں اورتصنع وتکلف میں نہیں:
ان لوگوں کو یہ بھی غور کر نا چاہیے کہ ہم جو تکلف اور فیشن کے پیچھے پڑے ہیں آخران کی غرض کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ اپنی قدر بڑھانا اور لوگوں کی نظروں میں عزیز بننا یہی اس کی غرض ہوتی ہے۔ سوعلما کی جماعت میں تو اس سے کچھ قدر نہیں ہوتی ہے، اس جماعت کی نظر میں قد ر بڑھانے کی تو صورت یہ ہے کہ علم میں کمال حاصل ہو؛اگر چہ پائجامہ نصف ساق تک ہی ہواور کر تہ بالکل بھی نہ ہو۔
کا ن پور میں جس زمانہ میں میراقیام تھا، ایک مرتبہ میں مدرسہ میں پڑ ھار ہا تھا کہ ایک شخص آکر بیٹھے ان کے بدن پر صرف لنگی اور ایک چادرتھی۔ اس ہیئت کو دیکھ کر کسی نے ان کی طرف التفات نہیں کیا، جب انہوں نے گفتگو شروع کی تو معلوم ہوا کہ بہت بڑے فاضل ہیں ،پھر ان کی اس قدروقعت ہوئی کہ ہر ہر طالب علم ان پر جھکا جاتا تھا۔
پہلے طالب علموں کی یہ کیفیت ہوتی تھی کہ وہ بالکل الول جلول رہتے تھے کہ نہ کرتہ کی خبر نہ پائجامہ کی۔ پھر دیکھ لیجیے کہ ان میں سے جواب موجود ہیں، وہ اپنے وقت کے مقتداہیں اور جوشخص کرتے پاجامے کی زیب میں مشغول رہے گا اس کو یہ بات کہاں میسر ہو گی۔
(دعوات عبدیت ص: ۳۶ ج۱۳)
عوام کے حالات و خیالات کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نظروں میں بھی اہل ِعلم کی وقعت وضع اور لباس سے نہیں۔ یہ ظاہر زیب وزینت ان لوگوں کے لیے ہے جو کمال سے عاری ہوں۔
(دعوات عبدیت ص: ۳۷ ج۱۳)
عزت وذلت کا معیار:
حقیقت یہ ہے کہ عزت کا مداراستغنااور تذلل کا مدارا حتیاج پر ہے۔لباس و وضع کو اس میں دخل نہیں۔ اگر کپڑے پرانے ہیں او ر ہفت اقلیم کا بھی دست نگرنہیں تو وہ معزز ہے اور اگر لباس وضع نوابوں کا سا ہے ہزاروں رو پیہ تنخواہ ہے، ہزاروں روپیہ جائیداد کی آمدنی ہے، سامان امیرانہ ہے ،مگر نظراس پر ہے کہ اس مقدمہ میں کچھ اورمل جائے؛ فلاں معاملہ میں کچھ اور ہاتھ آ جائے تو ایسا شخص بالکل ذلیل ہے۔
(اے اہل علم!) آپ لوگوں کی وقعت علم اور تقویٰ وطہارت سے ہے نہ کہ لباس سے،قدر بڑھانے کی صورت یہ ہے کہ علم میں کمال حاصل ہو،اہلِ علم کی وضع ولباس اکثر سادہ ہی ہوتا ہے) کبھی پیوند لگا ہوا،کبھی بند یا بٹن کھلا ہواد یکھا جا تا ہے، اس سے ان پر تذلل کا شبہ کیا جا تا ہے حالاں کہ یہ تواضع ہے۔
(تجد یدتعلیم ص ۳۴/ دعوات عبدیت ص۷ ۳)
تصنع و تکلف کرنے والوں کی حالت:
ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ ان کی یہ حالت تھی کہ جب کوئی ان کو گھر پر جا کر آواز دیتا تو کم از کم نصف گھنٹہ میں باہر آتے۔اس کی وجہ تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ جس وقت پکارنے کی آواز گھر میں پہنچتی ہے تو وہ آئینہ اورکنگھا کرکے ایک ایک بال کو موزوں بناکر دولہا بن کر تشریف لاتے تھے، اسے جنون و خبط نہ کہیے تو کیا کہیے؟
اسی طرح اکثر متکلفین کو دیکھا ہے کہ ان کے پاس ایک دو جوڑا محض اس کام کے لیے رہتا ہے کہ جب باہر نکلیں تو اس کو زیب تن کرکے نکلیں اور جب واپس آئیں تو پھروہی لنگوٹی یا سڑے ہوئے کپڑے۔ ان کا لباس گویا ہاتھی کے دانت ہیں کہ کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ان لوگوں کو شیطان نے دھوکہ دیا ہے کہ” ان اللہ جمیل یحب الجمال“ جب خدا تعالیٰ کو جمال پسند ہے تو ہم کو جمیل بن کر رہنا چاہیے۔ لیکن میں ان سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر یہ تزئین محض جمال کی وجہ سے ہے تو اس کی کیا وجہ ہے کہ محض جلوت میں یہ تکلیف کا لباس پہنا جاتا ہے۔ کیا خدا تعالیٰ کو خلوت میں جمال پسند نہیں؟ صاحبو! یہ سب نفس کی توجیہات اور نکات بعد الوقوع ہیں اور خود آثار سے پتا چلتا ہے کہ اصل مقصود کیا ہے؟چنا ں ہم نے بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ نہایت کم قیمت کپڑا پہنیں گے، لیکن وضع ایسی اختیار کریں گے کہ دوسرے کو نہایت قیمتی معلوم ہو اور یہ بڑے لوگو ں میں شمار ہوں۔
اسی طرح بعض امرا کو دیکھا ہے کہ نہایت قیمتی کپڑا پہنتے ہیں، لیکن اس کی وضع ایسی سادہ ہوتی ہے کہ وہ بالکل معمولی ہوتا ہے۔
اگر خدا تعالیٰ نے وسعت دی ہو قیمتی کپڑا پہنو، لیکن اس کی وضع بالکل سادہ رکھو، اس میں بناوٹ اور تزئین ہرگز نہ ہو، مگر یہ اسی سے ہوسکے گاجو کسی بڑے کام میں مشغول ہوگا۔
(دعوات عبدیت: ص۳۶/۳)
تکلف اور ساد گی کا مطلب :
بعض لوگ شاید بذاذت کے معنی یہ سمجھ جائیں کہ نہ صفائی ہو اور نہ نظافت ہو بالکل میلی کچیلی حالت میں رہے ؛حالاں کہ میلے پن سے بذاذت کو کوئی علاقہ نہیں، ہماری جماعت ؛جو کہ علما و طلبا کی جماعت ہے، اس کے لیے اس کی ضرورت ہے کہ یہ نظافت کی طرف متوجہ ہوں جہاں تک دیکھا جاتا ہے ان لوگوں کا ذرا خیال نہیں ہوتا، بعض لوگ تکلف کے خوگر (عادی) ہیں، لیکن صفائی ان میں بالکل نہیں ہوتی، حالاں کہ ضرورت اس کی ہے کہ تکلف نہ ہو اور صفائی ہو۔
(دعوات عبدیت ص ۴۳ج ۱۳)
کپڑے میں ایک مادہ ہوتاہے اور ایک صورت ہیئت سو تکلف میں اکثر زیادہ دخل ہیئت کو ہوتا ہے ۔یعنی اگر کسی قیمتی کپڑے کی سادہ ہیئت بنالی جائے تو وہی قیمتی اور بھڑک دار معلوم ہونے لگتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے وسعت دی ہو تو قیمتی کپڑا پہنو، لیکن اس کی وضع بالکل سادہ رکھو، اس میں بناوٹ اور تزئین ہر گز نہ ہونے دو۔
(دعوات عبدیت ص ۴۳ج ۱۳)