معارفِ تھانویؒ

نوافل و مستحبات کی طرف سے اہل علم کی بے رغبتی :

                اکثر طالب علم میں یہ مرض پیدا ہوجاتا ہے کہ مستحبات کی قدر نہیں رہتی ؛جب تک میں نے ’’منیۃ المصلی‘‘ نہیں پڑھی تھی تو نفلیں پڑھا کرتا تھا ۔جب منیہ پڑھ لی اور اس میں مستحب کی تعریف پڑھی تو نفس کے کید میں آکر یہ خیال ہوا کہ اگر امرمستحب نہ کریں گے تو کچھ مواخذہ تو ہوگاہی نہیں،اس لیے بہت سے مستحبات ترک ہونے لگے نفس میں عجیب عجیب کید ہیں ۔ نفس شیطان سے بھی بڑھ کرہے ؛کیوں کہ اس کو بھی نفس ہی نے تو خرابی میں ڈالا تھا ۔

                طالب علموں کی تو یہ حالت ہے کہ جہاں کسی عمل کے استحباب کا حکم معلوم ہوا بس فضائل کو چھوڑ دیا۔ جہلا تو مستحبات کو کربھی لیتے ہیں، مگر لکھے پڑھے بالکل نہیں کرتے۔ الا ماشاء اللہ !یہ نفس کا بڑا کید ہے، جس نے اہلِ علم کو بہت سی برکات سے محروم کر رکھا ہے ۔ اس سے بچنا چاہیے اور مستحبات و فضائل کی بھی بے قدری نہ کرنا چاہیے۔

(التبلیغ :ج ۸/ص ۱۷)

نوافل کی اہمیت:

                لوگ نفل کو ایک زائد چیز سمجھتے ہیں۔ خاص کر اہلِ علم اِس غلطی میں زیادہ مبتلا ہیں ؛کیوں کہ طالب علموں کو شروع سے نفل کا حکم یہ بتایا جاتا ہے کہ جس کے کرنے میں ثواب ہواور نہ کرنے میں کچھ گناہ نہ ہو۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب یہ بات ہے تو یہ عمل نہ کرنے میں کیا با ت ہے؟ یہاں تک بھی غنیمت تھا ؛مگر غضب یہ کہ اس کا ترجمہ دوسرے لفظوں میں یوں کرلیا کہ نفل کوئی مہتم بالشان نہیں ۔ چلیے چھٹی ہوگئی گویا شریعت میں نوافل کا بیان فضول ہے ۔

                خوب سمجھ لیجیے کہ نفل بے کار اور فضول چیز نہیں ہے ،بل کہ مہتم فرائض ہونے کی وجہ سے ایک مہتم بالشا ن چیز ہے؛ نیز خاص محبت کی ایک علامت ہے ۔میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں: فرض کرو ایک ملازم ہے جس کو کھانا پکانے کے واسطے رکھا گیا ہے اور وہ ایسا قانونی ہے کہ کھانا پکاکر چل دیتا ہے اور ایک دوسرا ملازم ہے کہ اسی کام کے لیے وہ بھی رکھا گیا ہے؛ مگر اس کی حالت یہ ہے کہ جب کھانا پکاچکتا ہے تو آقا کو پنکھا جھلنے لگتا ہے اور بھی خدمت کردیتا ہے ، ان دونوں میں فرق ہے یا نہیں ؟

                ضرور فرق ہے اس دوسرے آدمی کی قدر آقا کے دل میں یقینا زیادہ ہوگی؛ بل کہ اس کی ان زائد خدمتوں کی قدر بعض دفعہ اصل کام سے بھی زیادہ ہوتی ہے؛ کیوں کہ منصبی کام کا تو ضابطہ ہے کہ خانہ پری ہے اور نوکر سے زبردستی اور ٹھوک بجاکر لیا جاتا ہے۔ اور یہ زائد خدمات محبت اور خلوص کی دلیل ہے محبت اور خلوص کا نتیجہ دوسرے کی طرف سے بھی محبت اور خلوص ہی ہوتا ہے تو اس دوسرے شخص سے آقا کو خاص محبت ہوگی اور بلفظِ دیگر یہ دوسرا نوکر محبوب ہوگا اور پہلا آدمی نوکر اور مزدور ہوگا ۔ یہ حقیقت ہے نفل کی ۔

                پس اگر اِسی طرح جو شخص احکامِ شرعی میں سے صرف فرائض کو ادا کرے۔ پانچ وقت کے فرائض ہی پڑھے اور زکوٰۃ بہ قدرِ واجب ہی دے دیا کرے۔ کوئی نفل اور خیر خیرات نہ کرے تو وہ ضابطہ کا نوکر ہے اس سے ٹھوک بجاکر کام لیا جائے گا اور ذرا سا بھی قصور ہوگا تو گرفت سے نہ چھوڑا جائے گااور کسی طرح یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کو حق تعالیٰ سے محبت ہے ۔

                صاحبو!  محبت کی علامت سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ آدمی نفل طاعات کی کثرت کرے ۔پس نفل بھی ایک ضروری چیز ہوئی اب تو سمجھ میں آگیا ہو گا کہ نوافل کس درجہ کی چیز ہے ۔

(التبلیغ وعظ امید رحمت :ج ۱/ص ۱۱۴)