معارفِ تھانویؒ

عمل وتقویٰ کے بارے میں طلبہ کی کوتاہی:تقویٰ زیادتِ علم کا سبب ہے، طلبہ کو اس کا بالکل اہتمام نہیں ۔اس میں وہ بے حد کوتاہیاں کرتے ہیں ،ان کو تا ہیوں کی تفصیل میں کہاں تک کروں اور کس کس بات کو بتاؤں؟ ذرا کوئی شخص دوہفتہ کسی محقق کے پاس رہے اور اس سے اپنی اصلاح کی درخواست کرے اور وہ محقق بھی ایسا ہو جوبے تکلف روک ٹوک کرتا ہو، تب ان کو اپنی کوتاہیوں کی حقیقت معلوم ہو۔طلبہ میں جو تقویٰ کی کمی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ خدا تعالی سے خوف نہیں ہے۔ اب تو یہ حالت ہے کہ جس کام کو کر نا چا ہتے ہیں اس کو گھیر گھار کر جائز کر لیتے ہیں، گو دل میں جانتے ہیں کہ ناجائز ہے۔ (التبلیغ ص ۱۳۴ ج ۱۲ کوثر العلوم)

            بعض طلبا کہتے ہیں کہ ہم تو ابھی بچے ہیں یا درکھویہی عمر ہے تمہاری پختگی کی ،جس بات کی اب عادت ہو جائے گی وہ کبھی نہ چھوٹے گی، اسی واسطے تو ارشاد ہے :’’ مرواصبیانکم إذا بلغوا سبعا ‘‘  یعنی اپنے بچوں کو نماز کا حکم کرو جب وہ سات برس کو پہنچ جا ئیں ؛حالاںکہ نماز فرض ہوتی ہے بلوغت کے بعد اور بالغ ہوتا ہے اکثر پندرہ برس کی عمر میں اورحکم سات برس کی عمر سے پڑھوانے کا ہے ،تو وجہ اس کی یہی ہے کہ عادت پڑے گی۔ (دعوات عبدیت ص۱۲۷ ج۵ا، المجازفۃ)

طلبا سے چندصاف صاف باتیں:میں نہایت ادب سے تھوڑا سا خطاب طالب علموں سے کرتا ہوں کہ آپ کی ضرورت محض علم وعمل کی وجہ سے ہوئی ،ورنہ آپ کوئی چیز نہیں ۔اور یا درکھو جتنا لطیف کھانا ہوتا ہے اس میں زیادہ اور جلدی بد بو ہو جاتی ہے۔ پس جس طرح بحالت درستی نافع الوجود ہیں، اسی طرح نادرستی میں مضر اور سبب فسادبھی ہوں گے۔ اس لیے آپ کو اپنی اصلاح کرانا ضروری ہے اور آپ کی اصلاح کے دو طریق ہیں :ایک تو یہ کہ زمانۂ تحصیل میں استاد دین دار ڈھونڈ یئے، بددین استاد ہرگز اختیار نہ کرو۔ یہی طالب علمی کا وقت ہے تخم پاشی کا، پھر اس کے بعد کچھ دنوں پڑھ کر کسی اہل اللہ کی چندے صحبت اختیار کرو ،تب تم خادمِ دین بن سکو گے پھر لوگ تمہارے قدم دھوئیں گے۔(دعوات عبدیت ص ۸۵ الضرورۃ العلما)

             آج کل طلبہ نے خیال کر رکھا ہے کہ درسیات سے فارغ ہو کر پھر عمل کا اہتمام کریں گے، یہ بالکل شیطانی وسوسہ ہے جس کی وجہ سے عمر بھر بھی عمل کی توفیق نہیں ہوتی۔ یادرکھو !ہر چیز کا پہلی بار جو اثر ہوتا ہے وہ پھر نہیں ہوا کرتا۔ جب علم حاصل کرنے کے وقت کسی کام کا ثواب یا گناہ معلوم ہوتاہے اس وقت دل پر ایک خاص اثر ہوتا ہے۔ اگر اس اثر سے اس وقت کام لیا گیا اورعمل کا اہتمام کرلیا گیا تب تو اثر آئندہ باقی رہتا ہے، ورنہ پھر قلب سے زائل ہو جاتا ہے اور دوبارہ آسانی سے پیدا نہیں ہوتا۔جب پڑھنے کے زمانہ میں تم احادیث و قرآن کی ورق گردانی کرتے چلے گئے اور ترغیب وتر ہیب کا اس وقت تمہارے دل پر اثر نہ ہوا، تو آئندہ کیا امید کی جاسکتی ہے کہ تم اس سے متاثر ہو گے؟ جب پہلے ہی تم نے یہ خیال کر کے آنکھیں بند کر لیں کہ یہ وقت ان پرعمل کرنے کا نہیں، تو عزیزِ من یہ امید مت کرنا کہ درسیات سے فارغ ہوکر پھر اس کا کچھ اثر بھی تمہارے دل پرہوگا، جب تمہارے نفس نے پہلی ہی بار اسے ٹال دیا پھر کیا اثر قبول کرے گا ۔ (آداب المتعلمین بحوالہ حکیم الامت ص ۱۰۷)

۲۶؍ ویں قسط :