طلبا کی غلطی اورنفس وشیطان کا دھوکہ:
بعض طلبا یہ خیال کرتے ہیں کہ ابھی تو ہمارا تحصیل عمل کا زمانہ ہے، اس میں عمل کی چنداں ضرورت نہیں،یہ سراسر شیطانی دھوکہ ہے۔ نصوص نے وجوب احکام میں طلبا وعلما میں کہیں فرق نہیں کیا۔ البتہ اعمال زائدہ جیسے طویل اور ازدیاد مجاہدات وریاضیات کہ ان میں مشغول ہونے سے طالب علم کے لیے مطالعہ اورتکرارِ سبق افضل ہے۔
طلبا سے چند صاف صاف باتیں:
میں نہایت ادب سے تھوڑا سا خطاب طالب علموں سے کرتا ہوں کہ آپ کی ضرورت محض علم وعمل کی وجہ سے ہوئی، ورنہ آپ کوئی چیز نہیں۔ اور یاد رکھو جتنا لطیف کھانا ہوتا ہے، اس میں زیادہ اور جلد بدبو ہوجاتی ہے۔ پس جس طرح بحالت درستی نافع الوجود ہیں، اسی طرح نادرستی میں مضر اور سبب فساد بھی ہوں گے، اس لیے آپ کو اپنی اصلاح کرانا ضروری ہے ۔ اور آپ کی اصلاح کے دو طریق ہیں: ایک تو یہ کہ زمانہ تحصیل میں استاددین دار ڈھونڈیئے، بد دین استاد ہر گز اختیار نہ کرو ۔ یہی طالب علم کا وقت ہے تخم پاشی کا پھر اس کے بعد کچھ دنوں میں پڑھ کر کسی اہل اللہ کی چندے صحبت اختیار کرو، تب تم خادم دین بن سکوگے، پھر لوگ تمہارے قدم دھوئیں گے۔
(دعوات عبدیت :ص۸۵/ ج: ۱۱/ ضرورة العلماء)
آج کل طلبہ نے خیال کر رکھا ہے کہ درسیات سے فارغ ہوکر پھر عمل کا اہتمام کریں گے، یہ بالکل شیطانی وسوسہ ہے، جس کی وجہ سے عمربھر بھی عمل کی توفیق نہیں ہوتی۔ یاد رکھو ہر چیز کا پہلی بار جو اثر ہوتا ہے وہ پھر نہیں ہواکرتا۔ جب علم حاصل کرنے کے وقت کسی کام کا ثواب یا گناہ معلوم ہوتا ہے ، اس وقت دل پر ایک خاص اثر ہوتا ہے۔ اگراس اثر سے اس وقت کام لیا گیا اور عمل کا اہتمام کرلیا گیا تب تو اثر آئندہ باقی رہتا ہے، ورنہ پھر قلب سے زائد ہوجاتا ہے اور دوبارہ آسانی سے پیدا نہیں ہوتا۔ جب پڑھنے کے زمانہ میں تم احادیث وقرآن کی ورق گردانی کرتے چلے گئے اور ترغیب وترہیب کا اس وقت تمہارے دل پر اثر نہ ہوا تو آئندہ کیا امید کی جاسکتی ہے کہ تم اس سے متاثر ہوگے۔جب پہلے ہی تم نے یہ خیال کرکے آنکھیں بند کرلیں کہ یہ وقت ان پرعمل کرنے کا نہیں تو عزیز من یہ امید مت کرنا کہ درسیات سے فارغ ہوکر پھر اس کا کچھ اثر بھی تمہارے دل پر ہوگا جب تمہارے نفس نے پہلی ہی باراسے ٹال دیا پھر کیا اثر قبول کرے گا۔
(آداب المتعلمین بحوالہ حکیم الامت ص ۱۰۷)