جدید تہذیب کی چیزوں میں تین چیزیں مجھے بہت پسند ہیں:
کانپور میں ایک صاحب کے یہاں حضرت تشریف لے گئے ، کھانے کے وقت جب ہاتھ دھونے کا نمبر آیا تو حضرت نے ارشاد فرمایا:کہ جدید تہذیب میں مجھے دو چیزیں بہت پسند ہیں۔
ایک تو فلش پاخانہ ، دوسرے ہاتھ دھونے کا یہ نل (واش بیسن)
دیہات کے قدمچہ دار پاخوں میں بڑی گندگی ہوتی ہے، پاخانہ جمع ہوتا رہتا ہے، مکھیاں بھنبھنایا کرتی ہیں، بدبو ہوتی ہے، اندر جانے کا جی نہیں چاہتا، پاخانہ کرنے کی طبیعت نہیں چاہتی ، مجبوری میں آدمی جاتا ہی ہے۔ اور یہ جو نئے نئے پاخانے ایجاد ہوئے ہیں، ان کے قدمچے بالکل صاف ہوتے ہیں، گندگی سامنے جمع نہیں ہوتی صفائی رہتی ہے، اتنی بدبو بھی نہیں ہوتی اجابت ہوجاتی ہے، ورنہ بعض طبیعتیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ گندگی میں ان کو پاخانہ ہوتا بھی نہیں۔
حضرت مولانا علی میاں ندوی صاحبکا بھی یہی مزاج ہے، اسی لیے وہ تکیہ میں جنگل میں پاخانہ کرنے جایا کرتے تھے۔ ہم لوگ جب تکیہ جاتے تو ہم لوگ بھی جنگل جایا کرتے تھے، گھر میں بیت الخلا صرف عورتوں کے لیے تھا، مرد سب باہر جاتے تھے، لیکن بعد میں جب مہمانوں کی آمد ورفت شروع ہوگئی تو انتظام کرنا پڑا۔
دوسرے وقت میں احقر نے عرض کیا کہ حضرت آپ نے فرمایا تھا کہ جدید تہذیب میں مجھے دو چیزیں بہت پسند ہیں، ایک فلش بیت الخلا دوسرے ہاتھ دھونے کے نل (واش بیسن) تو اس میں کون سی خوبی اور اچھائی ہے، حضرت نے فرمایا کہ ہاتھ دھونے کے لیے ہرجگہ طشت کہاں ملتا ہے، پھر اس میں کچھ نہ کچھ چھینٹیں پڑہی جاتی ہیں، بسا اوقات ہاتھ طشت میں لگ جاتا ہے، ایک آدمی دھلانے والا ہو، اس میں بڑی تکلف بھی معلوم ہوتا ہے۔ کبھی جھک کر ہاتھ دھونا پڑتا ہے، دقت ہوتی ہے، اور اس نل (واش بیسن) میں آسانی سے ہاتھ دھل جاتے ہیں، چھینٹیں نہیں پڑتیں، سب پانی نیچے چلا جاتا ہے، آسانی سے ہاتھ دھل جاتے ہیں جھکنا نہیں پڑتا۔
گھروں کے دوازہ پر گھنٹی لگانے کی اہمیت وضرورت:
احقر(مرتب کتاب) نے عرض کیا کہ جدید چیزوں میں گھنٹی (بیل) کی منافع اورمصالح حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نے معارف القرآن میں بیان کیے ہیں اور اس کو بہت پسند فرمایا ہے، استیذان کا جو شرعی حکم ہے (یعنی یہ کہ اجازت لے کر اندر داخل ہونا) اس پر پوری طرح سے عمل ہوجاتا ہے۔ حضرت نے اس کو پسند فرمایا اور فرمایا کہ استیذان کی سنت ادا ہوتی ہے، دوسرے اگر کبھی رات کے وقت کسی کو آواز دینا ہو یا جگانا ہو تو محلہ کے دوسرے لوگوں ، پڑوسیوں کی نیند خراب ہوتی ہے، گھنٹی سے یہ فائدہ ہے کہ جس کو جگانا ہے صرف وہی جاگے گا، کیوں کہ گھنٹی کی آواز اندر پہنچ جائے گی شورنہ ہوگا اور لوگوں کی نیند خراب نہ ہوگی۔
علم کی ناقدری کیوں؟
فرمایا: جو چیز جتنی محنت اورمشقت سے حاصل کی جاتی ہے، اس کی اتنی ہی زائد قدر ہوتی ہے۔ آج کل علم کی ناقدری اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ اس کے حاصل کرنے میں محنت و مشقت نہیں برداشت کرنا پڑتی، بڑی آسانی سے علم حاصل ہوجاتا ہے، کھانے کو روٹی مل جاتی ہے، رہنے کو کمرہ مل جاتا ہے، ہر طرح کی آسائش ہے، پہلے زمانے میں نہ رہنے کا ٹھکانہ تھا، نہ کھانے کا، پڑھنے کے واسطے کتابیں تک نہ تھیں، اپنے ہاتھ سے لکھتے پھر پڑھتے تھے، کیسی کیسی مشقتیں برداشت کرکے علم حاصل کیا ہے، اس کے بعد پھر اللہ نے ان سے کام لیا ہے، انھوں نے جو کتابیں لکھی ہیں، تو ایسی زبردست کہ ہمارے لیے ان کا پڑھنا بھی دشوار ہے ۔ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت ضائع نہیں فرماتے۔
دین سے اور اللہ سے بے تعلقی کا انجام :
جلالین شریف کا درس دیتے ہوئے فرمایا زمانہ جاہلیت میں بعض لوگوں نے پیشہ ہی یہ بنالیا تھا کہ باندیوں کو خرید تے اوران سے بدکاری کراتے اور اس کی فیس خود لیتے تھے، ایک شخص نے کئی باندیاں خریدیں اور ہرایک کی علیحدہ علیحدہ فس مقرر کردی، اس باندی کی فیس اتنی اوراس کی اتنی، صحت وقوت اورحسن و جمال کے فرق سے ہر ایک کی فیس علیحدہ علیحدہ مقرر کررکھی تھی۔ جب آدمی اللہ سے بے تعلق ہوتا ہے تو اس کا یہی حال ہوتا ہے کہ اس کا کوئی کام ڈھنگ کا نہیں ہوتا، وہ تاریکیوں میں بھٹکتا ہے، ایسے شخص کو پھرہر عیب اچھا لگنے لگتا ہے، برائی میں اچھائی نظر آنے لگتی ہے، وہ تاریکی میں بھٹکتا ہے، خواہ سانپ پکڑے یا لکڑی پکڑے،کسی کو زہر تریاق نظر آنے لگے ہے، تو اس کا کیا علاج، یہ ہے ﴿ولا تکونوا کالذین نسوا اللہ الخ﴾ جو آدمی اللہ کو بھولتا ہے، وہ اپنے کو بھی بھول جاتا ہے، خدا فراموشی کا یہی نتیجہ ہوتا ہے کہ جب خدا کوبھولتا ہے تو پھر اپنے کو بھی بھول جاتا ہے۔
(مجالس صدیق )