معارفِ با ند وی

عقل کی فضیلت:

            ۱- جو زیادہ عقل مند ہے، وہ دنیا و آخرت میں کم عقل سے فضیلت رکھتا ہے۔

 (الحدیث)

            ۲- شیطان پر کوئی چیز ایک عاقل مومن سے زیادہ شاق نہیں، حالاں کہ وہ سو جاہلوں کو برداشت کرلیتا ہے۔

            ۳- لقمان علیہ السلام کا قول ہے: اللہ کے معاملہ میں سب سے زیادہ عقل سے کام لینے والے کے اعمال بھی سب سے اچھے ہوتے ہیں، جس عبادت میں عقل کو کام میں لایا گیا، اس سے زیادہ کوئی عبادت اللہ تعالیٰ کی نہیں ہوسکتی۔

            ۴- مطرف فرماتے ہیں کہ: بندہ کو ایمان کے بعد عقل سے زیادہ کوئی افضل چیز نہیں دی گئی۔

            ۵- حضرت معاویہ فرماتے ہیں کہ لوگ حج، عمرہ، جہاد، نماز، روزہ، سب ہی کچھ کرتے ہیں، مگر اجر میں سب برابر نہیں، قیامت میں عقلوں کی تعداد کے مناسب ہی ان کو اجر دیا جائے گا۔

 (بیاض صدیقی)

اشتقاقِ عقل:

            ثعلب کا قول ہے کہ اس کے اصل معنی امتناع (روکنا) ہیں کہا جاتا ہے، عقلت الناقلة اور عقل بطن الرجل۔

 (بیاض صدیقی)

عقل کی حقیقت:

            حضرت امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ عقل انسان کی ایک طبعی صفت ہے، جو اس کی ماہیت کے ساتھ گڑی ہوئی ہے اور یہی تعریف محاسبی سے منقول ہے، محاسبی کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ عقل نور ہے۔

            دوسرے حضرات نے تعریف کی ہے کہ عقل علوم ضروریہ کی ایک نوع ہے اوروہ ایسا علم ہے، جس سے جائز امور کا جواز اورمحالات کا محال ہونا منکشف ہوجائے۔

            بعض کے نزدیک عقل جوہر بسیط ہے، بعض کا قول ہے کہ عقل ایک شفاف جسم ہے، ایک اعرابی نے کہا کہ عقل تجربات کا نچوڑ ہے، جو بہ طور غنیمت ہاتھ لگ جائے۔

            تحقیق یہ ہے کہ عقل کا اطلاق مشترک طور پر چار معنوں پر ہوتا ہے۔

            ۱- وہ وصف جس کے ذریعہ سے انسان دیگر بہائم سے ممتاز ہوجاتا ہے اور یہ ایسا وصف ہے، جس سے انسان میں علوم ِنظریہ کے قبول کرنے کی استعداد ہوتی ہے۔

            ۲- اس علم پر اطلاق ہوتا ہے، جو طبیعت انسانی میں رکھا گیا ہے، جس سے جائز شئ کا جواز اور محال کا محال ہونا ثابت ہوتا ہے۔

            ۳- اس علم پر اطلاق ہوتا ہے، جو تجربات سے حاصل ہوتا ہے۔

            ۴- اس قوت کے منتہا پر بھی اطلاق ہوتا ہے، جس کو گڑی ہوئی چیز کہا گیا ہے۔

 (بیاض صدیقی)

عقل کا محل و مقام:

            امام احمد  سے مروی ہے کہ اس کا مقام دماغ ہے، یہی امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ ایک جماعت کی رائے ہے کہ اس کا مقام دل ہے، یہ حنابلہ کا قول ہے۔ امام شافعی سے بھی یہی قول مروی ہے، وہ حق تعالیٰ کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں:

             ﴿فتکون لہم قلوب یعقلون بہا ﴾- الی قولہ تعالیٰ ﴿ولکن تعمی القلوب التی في الصدور﴾

 (پ: ۱۷/ الحج:۴۶)

            یہاں قلب عقل کے معنیٰ میں ہے، جس طرح ظرف بول کر مظروف مراد لیتے ہیں، اس لیے کہ قلب عقل کا محل ہے۔

(بیاض صدیقی بحوالہ از لطائف علمیہ)

عاقل اور ذکی کی علامات:

            یہ علامات دو قسم کی ہیں:

            (۱) جو باعتبار صورت کے ہیں۔

             (۲) جو معنوی ہیں اور احوال وافعال سے متعلق ہیں۔

بعض حکما کا قول:

            حکما کا قول یہ ہے کہ معتدل مزاج اور اعضا میں تناسب کا ہونا عقل کی قوت اور ذہانت کی دلیل ہے، موٹی گردن دلالت کرتی ہے دماغی قوت اور اس کی زیادتی پر، جس کی آنکھ جلدی جلدی حرکت کرتی ہو، وہ مکار اور حیلہ باز چور ہے اور سیاہ پتلی والی آنکھ زیادہ اچھی ہے، جب سیاہ آنکھ زیادہ چمکیلی نہ ہو اور اس میں زردی اور سرخی نہ ظاہر ہوتی ہو، تو وہ بلند حوصلہ طبیعت پر دلالت کرتی ہے، چھوٹی آنکھ اور اندر کو گڑی ہوئی ہو، وہ مکار اور حاسد ہوگا، لاغر چہرہ ا ور پستہ قد میں مہربانی کا زیادہ اظہار ہوتا ہے، معتدل قد والے لوگوں کے حالات صالح ہوتے ہیں۔

            (یہ بعض حکما کا قول ہے، جو تجربات پر مبنی ہیں، یقینی نہیں، اس کے خلاف بھی ہوسکتا ہے۔)

            حضرت ذوالنون  کا ارشاد ہے کہ جس میں پانچ صفات پاوٴ اس کے لیے سعادت کی امید رکھو، خواہ موت سے دو گھڑی قبل اس کو نصیب ہو۔

            ۱- استوائے خلق یعنی اعضا کا تناسب اور مزاج معتدل ہونا۔

             (۲) روح یعنی خون کا ہلکا ہونا۔     

            (۳) عقل رسا۔

             (۴) صاف توحید جو شائبہ شرک جلی وخفی سے پاک ہو۔

            (۵) پاکیزہ طبیعت۔