معارفِ با ند وی

تصنیف تالیف کرنے والوں کے لیے ضروری ملفوظ :

            فرمایا: اِس وقت بخاری شریف کی کتاب الایمان وکتاب العلم کی شرح لکھ رہا ہوں ، خدا کرے پوری ہوجائے ۔ مرنا تو ہرایک کو ہے کس کو نہیں جانا ، لیکن جی چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اتنا ضرور پورا کردے۔ اب تک کتاب پوری ہوجاتی ، لیکن جہاں لکھنے بیٹھتا ہوں اورذہن چلنے لگتا ہے، تو کہیں تعویذ والے آجاتے ہیں اورکبھی سفر پیش آجاتا ہے ۔ سفر میں اتنی سب کتابیں لے جانا بہت دشوار ہے ، ورنہ میں تو سفر میں بھی لکھتا رہتا، ” سلم“ کی شرح میں نے سفر ہی میں اسٹیشنوں پربیٹھ کر لکھی ہے ۔

            تھوڑی کتابیں ہوتی تھیں،پھیلالیں اوربیٹھے بیٹھے لکھاکرتاتھا۔اس وقت میری نگاہ بہت تیزتھی، دوررکھی ہوئی کتاب بھی دیکھ لیتاتھا۔لوگ تماشادیکھتے تھے کہ یہ کون ہے اورکیاکررہاہے؟کتابیں پھیلارکھی ہیں۔ کبھی یہ کتاب اورکبھی وہ کتاب اورمیں برابرلکھتارہتاتھا۔لیکن بخاری شریف کی اتنی شروحات اوراردوعربی کی اتنی تقریریں کہاں کہاں لادے پھروں؟کام اتنامشکل اورپھیلاہواہے کہ پہلے ساری شروحات دیکھنا،ساتھ میں اردو تقریریں بھی دیکھنا،پھراُس کاخلاصہ آسان زبان میں لکھناکہ مختصربھی ہو،جامع بھی ہواورآسان بھی ہوبہت مشکل کام ہے ۔خدا کرے یہ پوری ہوجائے تو بہت بڑا کام ہوجائے ۔ بخاری پڑھنے والوں کا تو فائدہ ہوگا ہی ویسے بھی یہ ایک بہت مفید علمی کا م ہے ۔ کچھ دنوں کا اور موقع مل جائے تو ان شاء اللہ آسانی سے پوری ہوجائے گی ۔ (الحمدللہ کتاب پوری ہوگئی ، ” تسہیل الباری شرح بخاری “ کے نام سے طبع ہوچکی ہے)۔

            حضرت مولانا عبد الحئ صاحب فرنگی محلی  کتابیں اس طرح لکھا کرتے تھے کہ ایک خادم بیٹھا رہتا تھا حکم دیا فلاں کتاب اٹھاکر لاوٴ۔ وہ لے آیا وہ موقع اورمضمون تلاش کرکے دے دیا ،حضرت مولانا اس کو دیکھ کر نقل کردیتے تھے ۔ آسان کام تھا ، یہاں تو کتاب بھی خود ہی نکالو، تلاش بھی خود کرو اور پھر نقل بھی کرو ، اس لیے مشکل کام ہے۔ اور مشغولی بڑھتی جارہی ہے ، لیکن شاید اللہ تعالیٰ اسی مشغولی میں پوری فرمادے ۔ ایک دن خوب موقع مل گیا توفجر سے لے کر ظہر تک اور ظہر سے عصر تک اور پھر عصر سے مغرب اور مغرب سے عشا تک برابر لکھتا رہا ۔ اسی طرح اگر چند روز کا اور موقع مل جائے تو ان شاء اللہ بہت جلدپوری ہوجائے گی۔ جب تک کام کی دھن نہیں ہوتی کام نہیں ہوتا۔

            ایک صاحب نے عرض کیا کہ ایک لکھنے والے کو مقرر کرلیجیے آپ بولتے جائیں وہ لکھتا جائے ۔ حضرت نے فرمایا ہو نہیں پاتا ، خود لکھنے کی بات کچھ اور ہی ہوتی ہے ۔بسا اوقات کتاب دیکھتے وقت ذہن میں ایک مضمون اور اس کو لکھنے کی خاص ترکیب ہوتی ہے کہ اس طرح لکھنا ہے ، لیکن جب لکھنے بیٹھوتو ذہن میں دوسری نئی باتیں آجاتی ہیں ، ترتیب بھی دوسری آجاتی ہے ، املا کرنے میں یہ بات نہیں ہوتی ۔ اپنا اپنا مزاج ہے ۔