جتنا بس میں ہو اتنا کرو آگے اللہ مدد کرتا ہے:
ایک مرتبہ زلیخا نے یوسف علیہ السلام کو بہکانے کی پوری کوشش کر ڈالی۔ خوب بن سنور کر سامنے آئی اور محل کے سارے دروازے مقفل کر دیئے۔ اس کے بعد یوسف علیہ السلام کو اپنے مقصد کے لیے بلایا، یوسف علیہ السلام نے انکار فرمایا اور باہر نکلنے کی کوشش کی تو دیکھا کہ دروازہ بند تالا پڑا ہوا، لیکن جتنا یوسف علیہ السلام کے بس میں تھا اتنا کیا دروازہ تک بھاگ کر آئے،اللہ تعالیٰ نے تالا کھول دیا۔ یوسف علیہ السلام آگے بڑھتے جاتے اور تالے تڑ تڑ ٹوٹ کر گرتے جاتے۔ جتنا اپنے بس میں ہو،اتنا کرتار ہے، آگے اللہ تعالیٰ غیب سے حفاظت کا انتظام فرماتا ہے ۔﴿وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہ مَخْرَجًا﴾
جو حرام سے بچتا ہے اللہ تعالیٰ حلال طریقہ سے انتظام فرما تا ہے:
بعض اسرائیلی روایات میں آیا ہے کہ بعد میں حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کی شادی ہوگئی تھی۔ دونوں ساتھ میں میاں بیوی بن کر رہتے تھے، جو حرام سے بچتا ہے اللہ تعالیٰ حلال طریقہ سے وہ چیز اس کو نصیب کرتا ہے۔ زلیخا پہلے حرام تھیں یوسف علیہ السلام نے پا کدامنی اختیار کی تواللہ تعالیٰ نے حلال کر کے ان کو پیش کر دیا۔
شاہ عبدالعزیز صاحب کے ایک شاگر دکا عجیب واقعہ اس مناسبت سے ہے کہ جوانسان گناہوں سے بچنا چاہتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کو ہزار طریقے سے بچاتااور بچنے کے طریقے اس کے دل میں القا فرماتا ہے اور ان طریقوں کااختیار کرنا آسان فرمادیتا ہے۔ اس پر حضرت نے ایک واقعہ سنایا کہ دہلی میں ایک طالب علم حضرت شاہ عبد العزیز صاحب کی خدمت میں روزانہ حدیث پڑھنے جایا کرتا تھا۔ ایک راستہ سے روزانہ اس کا گذر ہوتا تھا، ایک دن ایک مکان کے دروازے پر کھڑی ہوئی لڑکی اس کو بلانے لگی۔ یہ کیوں ادھر جاتے؟ ادھر رخ بھی نہیں کیا، لڑکی نے کہاکہ بھائی صاحب میرا ایک خط پڑھ دیجیے ۔سید ھے طالب علم تھے ، یہ سوچ کر چلے گئے کہ واقعتا کوئی خط ہوگا، یہ لوگ پڑھنانہیں جانتے پڑھ دوں گا۔ جب دروازہ پر پہنچے اس نے کہا کہ یہاں دروازہ میں کھڑے ہونا اچھا نہیں معلوم ہوتا اندر بیٹھ جایئے دومنٹ کی بات ہے چندسطر کا خط پڑھ دیجئے۔جب اندر پہنچے تو اس نے جھٹ سے تالا بند کر دیا اور کہا کہ خط مجھے نہیں پڑھوانا میں نے تو تم کو اس کام کے لیے بلایا ہے اور اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ میں مہینوں سے تمہاری عاشق ہوں،روزتم کونکلتا ہوادیکھتی ہوں آج مجھ کوموقع ملا ہے، میری بات مان لو۔ طالب علم نے کہا میں کہاں جال میں پھنسا، اس نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور کسی طرح تیار نہیں ہوا۔ لڑکی نے کہا کہ میری بات نہیں مانتے تو میں ابھی فوراً چلاتی ہوں کہ بدمعاش لڑ کا میرے گھر میں گھس آیا مجھ پر حملہ کر رہا ہے،بچ کر جانامشکل ہو جائے گا۔ اب یہ بڑے پریشان ہوئے، اس طالب علم کے دل میں اللہ نے ایک بات ڈالی۔ طالب علم نے لڑکی سے کہا اچھاذرا پانی لا ؤ منھ ہاتھ دھو لیں استنجاکر لیں۔ لڑ کی بڑی خوش ہوئی،فورا ًپانی لا کر دیا۔یہ بیت الخلا کے اندر گئے اس زمانہ میں بیت الخلا آج کل کی طرح فلش نہ تھے، بیت الخلا میں جتنا پاخانہ اور جتنی گندگی تھی کپڑے اتار کر سب اپنے بدن میں مل لی اور اسی حال میں باہر آئے اور کہا کہ ہاں بہن کہو کیا کہتی ہو؟ لڑ کی نے جب اس حال میں دیکھا تو کہنے لگی دور ہو بھاگو۔ یہ مجنون اور پاگل معلوم ہوتا ہے، پاگل سمجھ کر گھر سے باہر کر دیا،یہ جلدی سے باہر نکلے ایک در یا میں پہنچ کر جلدی جلدی کپڑے دھوئے غسل کیا اورفوراً شاہ صاحب کی خدمت میں پہنچے،کپڑے خشک نہ ہوئے تھے، گیلے کپڑے پہن کر ہی پیچھے سبق میں جا کر شریک ہو گئے۔ سبق میں کافی تاخیر ہوئی تھی تھوڑی دیر میں شاہ عبدالعزیز صاحب نے فرمایا کہ یہ خوش بو کہاں سے آ رہی ہے؟کئی مرتبہ یہ جملہ فرمایا کہ ارے یہ خوش بو اتنی عمدہ کہاں سے آرہی ہے؟ ایسی خوش بوتو کبھی سونگھی نہیں اور یہ طالب علم شرم کی وجہ سے سر نیچے کیے ہوئے تھے اور یہ سمجھ ر ہے تھے کہ میرے جسم میں جو گندگی لگی تھی اس کی بد بو ہوگی، جس کو شاہ صاحب اس طرح فرمار ہے ہیں۔ عالی ظرف لوگ اس طرح نہیں کہا کرتے کہ بد بو آ رہی ہے، برداشت کرتے ہیں یا پھر اشارہ کنایہ میں کہتے ہیں۔ سبق ختم ہونے کے بعد اس طالب علم نے حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر معذرت کی اور تنہائی میں عرض کیا کہ حضرت ایسا قصہ پیش آیا تھا، جلدی میں میں نے کپڑے دھوئے ،اس کی وجہ سے بد بور ہ گئی ہوگی۔ حضرت کو میری وجہ سے تکلیف ہوئی معاف فرمائیں، شاہ صاحب نے فرمایا بخدا! واقعی مجھ کو خوش بو آرہی تھی، میں نے ایسی خوش بو کبھی نہیں سونگھی تھی۔ تم نے گناہ سے بچنے اور اللہ کوراضی کرنے کے لیے اپنے جسم کو بد بودار کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کے عوض میں ہمیشہ کے لیے تمہارے جسم کو معطر اور خوش بو دار بنادیا؛ چناں نچہ لکھا ہے کہ ہمیشہ ان کے جسم سے خوش بو آیا کرتی تھی۔
جو حرام سے بچتا ہے اللہ اس کے لیے حلال کے دروازے کھولتا ہے:
فر مایا کوئی حرام کاموں سے بچ کر تو دیکھے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے حلال دروازے کس طرح کھولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو دل کے حال کو جانتا ہے، ایک ایسا شخص اور ایسا طالب علم ؛جس کے پاس صابن نہ ہو ، اس لیے بغیر صابن کے کپڑے دھوتا ہولیکن کسی دوسرے کا صا بن نہیں چھوتا۔
ایک شخص ننگے پاؤں چلتا پھرتا ہے، ننگے پاؤں استنجا کرلیتا ہے، لیکن کیا مجال ہے کہ کبھی کسی دوسرے کا چپل جوتا بغیرپوچھے استعمال کر لے۔ ایک شخص کے پاس پورے کپڑے پہننے کونہیں ہیں، ننگے بدن پھر رہا ہے لیکن کسی کی چوری کر کے کپڑے نہیں پہنتا۔بھوک کے مارے بے چین ہے ،لیکن کسی کا کھانا بلا اجازت چوری کر کے، خیانت کر کے نہیں کھا تا۔ کیا ایسے شخص پر لوگوں کورحم نہیں آئے گا؟ کیا ایسے شخص کے لیے اللہ تعالیٰ دروازے نہیں کھولے گا؟ لیکن یہاں تو پہلے ہی سے نیت خراب ہوتی ہے، اسی لیے برکت نہیں ہوتی اور خیر اٹھتی جارہی ہے۔