تنقیدسے نہیں،تقلیدسے کام بنتاہے:حضرت نے فرمایا:شیخ پرنکیراوراعتراض نہیںکرناچاہیے ،اس سے بڑانقصان ہوتاہے ۔ایساشخص ہمیشہ محروم رہتاہے ۔جوکچھ حاصل ہوتاہے تنقیدسے نہیں،بل کہ تقلیدسے حاصل ہوتاہے اورتقلیدہی سے کام بنتاہے،اِس کے بغیرترقی نہیںہوتی؛البتہ کسی مسئلہ کی تحقیق کرنااوراطمینان کے لیے سمجھنایہ دوسری بات ہے؛ لیکن تنقیداور اعتراض مضرچیزہے ۔
ایک صاحب کااشکال اوراس کاجواب:وہ مہمان صاحب فرماتے تھے کہ یہ ذکروغیرہ اِس طرح اجتماع واہتمام کے ساتھ سمجھ میںنہیںآتا۔اگر کوئی اٹھ جائے تواس پرنکیرکی جاتی ہے ،سختی سے ذکرکرایاجاتاہے،کسی امرِمندوب پراگراصرارکیاجائے تووہ بدعت بن جاتاہے ۔احقرراقم الحروف(مفتی زید مظاہری) نے عرض کیاکہ اگرامرِمندوب کواس کے درجہ سے بڑھادیاجائے توبے شک بدعت ہوجاتاہے ،لیکن جب اس کواس کے درجہ سے آگے نہ بڑھایاجائے ،بل کہ مستحب سمجھتے ہوئے عادت ڈلوانے کے لیے ،تعلیم وتربیت کے طورپراگرسختی بھی کی جائے اورطلبہ کواس کاپابندبنایاجائے تواِس میںکوئی حرج نہیں۔دیکھیے چھوٹے سات سالہ بچے سے نمازپڑھوانے کاحکم حدیث پاک میںآیاہے ۔اورنودس سال میںتومار کرنمازپڑھوانے کاحکم ہے ؛حالاںکہ ظاہرہے کہ اِس عمرمیںابھی اس پرنمازفرض نہیںہے،بل کہ نفل اورمندوب ہے ، لیکن صرف عادت ڈلوانے کے لیے اس سے نمازپڑھوائی جاتی ہے ،سختی بھی کی جاتی ہے ۔اِس سے معلوم ہواکہ امرمندوب پربھی مندوب سمجھتے ہوئے اوراس کواس کے درجہ پررکھتے ہوئے عادت ڈلوانے کے لیے نکیرکرنا اورسختی کرناجائز ہے ۔اس پروہ عالم صاحب خاموش ہوگئے اورکچھ جواب نہیںدیا۔
چوک بڑوںسے بھی ہوتی ہے :
لیکن بڑوںکی غلطی میںحتی الامکان مناسب تاویل کرناچاہیے:حضرت والامختصرالمعانی(جوفن بلاغت کی مشہورکتاب ہے)کاسبق پڑھارہے تھے۔صاحبِ کتاب نے کسی مقام پرمثال دی ہے ’’حفظتَ التوراۃ‘‘ تم نے تورات کوحفظ کرلیا۔حضرت نے فرمایاکہ معلوم نہیںیہ مثال کیوںدی ؟تورات کاذکرکیوںکیا؟حفظت القرآن ،حفظت البخاری وغیرہ کہہ دیتے یہ زیادہ بہتر تھا۔ اِسی ضمن میںفرمایاکہ چوک توہرایک سے ہوتی ہے ۔بڑوںسے بھی ہوتی ہے ،لیکن بڑوںکی غلطی میںحتی الامکان تاویل کرلیناچاہیے۔حفظت التوراۃ گویاتعجب کے لیے مثال کے طورپرکہا؛کیوںکہ قرآن پاک کا حفظ کرلیناتعجب کی بات نہیں،عام طورسے لوگ یادکرلیتے ہیں۔تورات کے حافظ نہیںہوتے اس کویادکر لینا واقعی تعجب کی بات ہے،یہ تاویل ہوسکتی ہے؛الغرض بڑوںکے قول میںجہاںتک ہوسکے تاویل ہی کرناچاہیے ۔