حضرت کی طالب علمی اور امتحان کا عجیب واقعہ :
منطق کی کتاب شرحِ تہذیب کا سبق پڑھاتے ہوئے حضرت نے ارشاد فرمایا: کہ یہ سبق بہت اہم اور مشکل مقامات میں سمجھا جاتا ہے ، جب میں پانی پت میں پڑھتا تھا میرے ایک ساتھی جو میرے گہرے دوست بھی تھے ، و ہ بھی پڑھتے تھے ، لیکن ہم لوگوں کی دوستی صرف پڑھنے پڑھانے والی ہوتی تھی ۔ پڑھنے کے سلسلے میں وہ ہمیشہ کوشش کرتے تھے کہ یہ مجھ سے آگے نہ بڑھنے پائے، میں ہمیشہ ان سے آگے رہوں۔ شروع شروع میں منطق وفلسفہ کی طرف میری رغبت بہت کم تھی ۔ اس کی طرف زیادہ توجہ نہیں کرتا تھا، بس درس میں کتابیں پڑھ لیتا ، زیادہ محنت نہ کرتا تھا ، منطق وفلسفہ میں تو بعد میں محنت کی ہے ۔مراد آباد جاکر منطق و فلسفہ پڑھا ہے اس زمانہ میں وہاں منطق وفلسفہ کا بڑا زور تھا اور مجھے چوں کہ ہر فن پڑھانا تھا اس لیے ہر فن کو محنت سے پڑھا تھا۔ منطق و فلسفہ کی تمام اہم کتابیں شرح چغمینی وغیرہ وہیں پڑھی ہیں ۔ اب تو ان کتابوں کا لوگ نام تک نہیں جانتے اور بہت سی کتابوں کی واقعی اب ضرورت بھی نہیں ۔ پانی پت میں جب میں پڑھتا تھا اس وقت منطق وفلسفہ میں مہارت تو تھی نہیں ،میرے ساتھی مولانا اسلام الحق صاحب جو بہار کے رہنے والے تھے وہ بڑے تیز تھے اور اس وقت منطق وفلسفہ کا امتحان لینے کے لیے جو ممتحن آتے تھے ، بڑا سخت امتحان لیتے تھے۔ مولانا بشیر احمد صاحب ، مولانا نصیر احمد صاحب اور مولانا ابو الوفا صاحب جیسے لوگ امتحان لیا کرتے تھے؛چناںچہ مولانا ابو الوفا صاحب امتحان لینے کے لیے تشریف لائے، ان کا معمول تھا کہ طالب علم سے کہتے کہ جہاں سے جی چاہے کتاب کھولو۔ طالب علم کو اختیار دے دیتے تھے ، لیکن پھر پوچھتے تھے اچھی طرح ، اتفاق سے امتحان کے وقت ‘میں مولانا اسلام الحق صاحب کے بغل میں بیٹھ گیا ۔جب ان سے کتاب کھولنے کو کہا گیا تو انہو ںنے یہی مشکل مقام کھول کردے دیا (جو آج تم لوگوں کو پڑھنا ہے ) مولانا اسلام الحق صاحب کو تو پوری کتاب پختہ یاد تھی ،میرے لیے مشکل تھی ۔ان کو معلوم تھا کہ یہ مشکل مقام ہے اور اس کو یاد نہیں ہے ، مولانا ابو الوفا صاحب نے فرمایا بھی کہ یہی مقام ملا تھا کھولنے کے لیے ، بہر حال امتحان ہوا ، اس کے بعد میرا نمبر تھا میں ڈر رہا تھا ،لیکن اللہ کا کرنا جب میرا نمبر آیا تو مولانا نے ایک ورق الٹ دیا وہ آسان تھا اور مجھے خوب یاد تھا، اس لیے خوب بتلایا اور اچھے نمبروں سے پاس ہوا ۔
اس کے بعد قدوری اورکافیہ کا امتحان ہونا تھا۔مولوی اسلام الحق صاحب ذہین آدمی تھے ، انہوں نے کافیہ کا زبانی امتحان دیا جب میرا نمبر آیا تو میں نے پہلے کتاب کھول کر دے دی ۔کیوں کہ ان کا معمول ہی یہی تھا کہ طالب علم سے کہتے تھے کہ جہاں جی چاہے کھولو، لیکن مولانا نے مجھ سے فرمایا کہ تمہارے ساتھی نے تو کافیہ ، قدوری کا امتحان زبانی دیا ہے تم کتاب کھول کر دے رہے ہو ؟میں نے عرض کیا کہ میرا بھی زبانی لے لیجیے ! ان دونوںکتابوں میںمیں نے خوب محنت کی تھی، اس کی عبارت تک مجھے زبانی یاد تھی ، چناں چہ میں نے کتاب بند کردی اور زبانی امتحان دیا اور اچھے نمبروں سے پاس ہوا ۔امتحان کے بعد مولانا ابو الوفا صاحب نے فرمایا کہ اگر میں قسم کھالوں کہ دیوبند میں بھی ایسے طلبہ نہیں ہوںگے تو حانث نہ ہوںگا۔