مولانا مظفر حسین اور مولانا رشید احمد صاحبؒ کی سادگی وبے تکلفی :
فرمایا : حضرت مولانا مظفرحسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ بالکل سادہ مزاج تھے، پیدل سفر کیا کرتے تھے۔ اور جب سفر کرنا ہوتا تھا، تو تہجد کے بعد فجر سے قبل ہی سفر شروع کردیتے تھے۔ ایک مرتبہ سفر کر کے گنگوہ حضرت مولانا رشید احمد صاحبؒ کے پاس تشریف لے گئے۔
حضرت گنگوہیؒ ان سے چھوٹے ہیں، حضرت مولانا نے فرمایا مولوی عبدالرشید مجھے فجر سے پہلے سفرکرنا ہے، انہوں نے جواب دیا جی حضرت! اسی وقت ناشتہ تیار ہو جائے گا، فرمایا ناشتہ تیار مت کرانا جو باسی رکھا ہو وہی دے دینا ۔فر مایا: بہت اچھا، پھر تہجد کے وقت حضرت مولانا ایک پیالے میں دال اور سوکھی روٹی لے آئے۔ حضرت مولانا مظفر صاحبؒ نے فرمایا کہ کھاؤں گا نہیں کھانے میں دیر لگے گی، لے جاؤں گااور آگے جا کر کھالوں گا۔ مولانا نے فرمایا بہت اچھا، پیالہ میں دال دینا چاہا، فرمایا: پیالہ میں نہیں، ماش کی دال ہے، اسی روٹی میں رکھ لوں گا، پھر اس کو رکھ کر باندھ کر تشریف لے گئے۔
جب حکیم صاحب کے پاس پہنچے تو ان سے فرمایا کہ بھائی مولوی رشید احمد بہت اچھے آدمی ہیں۔ حکیم صاحب نے فرمایا جی واقعی بڑے اچھے بزرگ آدمی ہیں۔ پھر دوبارہ مولانا نے فرمایا کہ مولوی رشید احمد صاحبؒ بہت اچھے آ دمی ہیں، حکیم صاحب نے فرمایا جی بہت اچھے آ دمی ہیں۔ حضرت مولانا نے پھر تیسری بار فرمایا مولوی رشیداحمد صاحب بہت ہی اچھے آدمی ہیں،تب حکیم صاحب نے عرض کیا کہ آخر کون سی ایسی بات ان میں اچھائی کی آپ نے دیکھی جو بار بار فرمارہے ہیں؟میں بھی تو کہہ رہا ہوں بہت اچھے ہیں۔ حضرت مولانا نے فرمایا کہ میں نے ان سے کہا کہ مجھے فجر سے پہلے جانا ہے، فرمایا بہت اچھا ،رکنے پر بالکل اصرار نہیں کیا۔ میں نے کہا صاحب تازہ کھانا مت بنواؤ جو باسی رکھا ہے وہی لے آؤ، کہا بہت اچھا۔ میں نے کہا کھاؤں گا نہیں لے جاؤں گا کہا بہت اچھا، کسی بات پر اصرار نہیں کیا۔ ہر بات کو مان لیتے ہیں بالکل تکلف نہیں کرتے، اصرار نہیں کرتے بہت اچھے آدمی ہیں۔