مصنف: غلام نبی کشافی تبصرہ نگار: مقصوداحمدضیا#ئی
اس گلوبلائی زیشن کے دور میں جہاں مادی وسائل اور اسباب کی فراہمی کے ذریعہ انسان میں سہولت کاری اور عجلت پسندی کا جذبہ بڑھتا ہی جارہا ہے، تو وہیں فطری حقیقی مقاصد کی تکمیل میں سرد مہری، سست کاری اور کم ہمتی، بد شوقی، دین بیزاری ایک عادت و فطرت کے طور پر نمایاں دکھائی دے رہی ہے؛ اس مرض باطنی کی تشخیص اور اس کے بنیادی محرکات کا ازالہ درحقیقت انسان کی اپنی سچی لگن، کڑھن، فکر، تدبر، تعمیری و تفکیری اسباب و وسائل کا انتخاب ہی ہے؛ اسی کا نام جزبہٴ صادقہ ہے۔
دراصل جذبہ شوق ہرکام کی شاہ کلید {Master key} ہے،اس کو آپ کامیابی کے جس مقفل دروازے پر بھی لگائیں گے بالآخر کھل ہی جائے گا۔ جذبہ شوق کے ساتھ محنت اور جستجو کو شامل کرلیں تو دلچسپی کا کام صرف کام ہی نہیں رہتا؛ کارنامہ بن جاتا ہے۔ آپ نے اگر پڑھا نہیں تو سنا ضرور ہوگا کہ اہل علم کی شوق علم اور طلب ِعلم کے لیے ریاضتیں اور محنتیں کیسی کیسی تھیں!!
بطور مثال :امام شافعی رحمہ اللہ ایک لغت کی تحقیق میں سالہا سال عرب کے دیہاتوں میں پھرتے رہے؛ جب حصول ِعلم کے لیے امام محمد رحمہ اللہ کی خدمت میں پہنچے تو ایک وقت وہ تھا کہ قلم کاغذ تک کے لیے بھی پریشان ہوئے؛ یہاں تک کہ مکان تک کی کڑیاں بیچ دیں؛ برسوں کھلے آسمان تلے برسات میں بارش اور جاڑے میں سردی کا قہر جھیلتے رہے۔ امیر المومنین فی الحدیث سیدنا امام بخاری رحمہ اللہ کی جلالتِ شان سے اہل اسلام کا بچہ بچہ واقف ہے، علم حدیث کے لیے ان کی محنت مثالی؛ جدوجہد حیران کن؛ سفر کی مشقتیں رونگٹے کھڑے کر دینے والی اور طالب علمانہ جفاکشیاں!بہ ہرحال ہمیں اعتراف ہے کہ آج مادی نعمتوں کی بہتات کے باجود ہم سے مطالعہ ٴکتب رخت سفر باندھ رہا ہے؛ کتب بینی کی عادتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ بایں ہمہ یہ دنیا سچے جوئیانِ علم اور شائقین ِکتب و مطالعہ سے خالی نہیں ہے۔ حق یہ ہے کہ انہیں مردان حر کی وجہ سے ہم جیسے کم علموں کا بھرم بھی قائم ہے؛ انہی اوصاف سے متصف صاحب مؤفق؛ ادیب اریب جناب غلام نبی کشافی صاحب ہیں۔ آں محترم کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے؛ آپ معروف اہل قلم اور ممتاز دانشور ہیں، آپ کا مطالعہ عمیق؛ نظر وسیع اور خیالات معتدل؛ نگارش باغ و بہار؛ فکر مستقیم اور تحریر کے میدان میں شہ سواری کا لوہا منوا چکے ہیں۔
علمی، ادبی اور اصلاحی مضامین آپ کے فیض ِقلم سے صادر ہو کر ملک کے مؤقر اخبارات و رسائل و جرائد میں پذیرائی حاصل کرتے رہتے ہیں؛ ہم نے بھی ان کو ان کے قلم سے ہی جانا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سالِ گذشتہ کے اوائل میں مولانا قاری جمیل احمد صاحب استاذ جامعہ ضیاء العلوم پونچھ نے ایک طالب علم کے ذریعہ جناب غلام نبی کشافی صاحب کی تصنیف ِلطیف بنام:” مطالعہ کی اہمیت اور اس کا طریقِ کار“ عاجز کو بھیجی تھی۔ عدیم الفرصتی کی بنا پر مطالعہ میں خاصی تاخیر ہوئی؛ یہ مجموعہ مصنف کے قلم سے صادر شدہ ان گہر پاروں کا ہے کہ جن کی آج بے حد ضرورت ہے؛ انداز ِبیاں شستہ و شگفتہ اور عصری مزاج و تقاضے کے مطابق ہے؛ یوں تو مطالعہ کے موضوع پر بے شمار کتابیں معرض وجود میں آچکی ہیں اور ہر کتاب اپنے اندر کوئی نہ کوئی خوبی رکھتی ہے؛ جہاں تک تعلق ہے کاتب السطور کے مطالعہ کا مجھے جن کتابوں نے مطالعہٴ کتب پر ابھارا ان میں ” متاع ِوقت اور کاروان علم “ مصنف: حضرت مولانا ابن الحسن عباسی؛ جب سے ہاتھ لگی ہے؛ یوں کہیے کہ جدا نہیں ہوئی۔ ”پاجاسراغ زندگی “ مصنف: مولانا سید ابوالحسن علی الندوی متعدد بار نظروں سے گذری۔ غبارِ خاطر مولانا ابوالکلام آزاد کی تو خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ ” سفرِحجاز“ صاحب طرز ادیب حضرت مولانا عبدالماجد دریا بادی۔ ماہنامہ” النخیل“ کراچی کی اشاعت خاص مطالعہ نمبر بنام: ”یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ“ جو مولانا ابن الحسن عباسی کی آخری تصنیف تھی۔ جس کے مطالعہ نے ایسا گرویدہ بنایا کہ عاجز کے قلم سے حاصل مطالعہ کے طور پر مستقل ایک کتابچہ بنام: ”مشک ورق “ مرتب ہوگیا۔ الحمدللہ توقع سے زیادہ اس کو مقبولیت حاصل ہوئی اور اردو زبان و ادب کے صاحب ِاسلوب نثر نگار آغا شورش کاشمیری کی مشہور و معروف تصنیفات: ”پسِ دیوارِ زنداں“ اور” بوئے گل“؛ ”نالہٴ دل“؛ ”دود چراغ محفل“۔اور جناب رضا علی عابدی صاحب کی” کتابیں اپنے آباء کی “ وہ کتابیں ہیں کہ جو کتاب دوستی کا ذریعہ بنیں۔
حقیقت یہ ہے کہ غلام نبی کشافی صاحب کی یہ شاہکار تصنیف معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی لحاظ سے بھی معیاری ہے؛ کتاب جس ذوق و شوق سے لکھی گئی ہے وہ اس کو” از دل خیزد بر دل ریزد “ کا مصداق بناتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ کتاب صرف پڑھنے ہی کے لائق نہیں بلکہ پی جانے اور عملی جامہ پہنانے کے لائق ہے؛ چناں چہ ہمدست کتاب کے سرورق کی چند سطریں مطالعہ کی اہمیت؛ افادیت اور ضرورت قاری پر دو اور دو چار کی طرح واضح کرتی ہیں اور کتاب کے مطالعے پر ابھارتی بھی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ”جس طرح انسانی جسم کی نشوونما کے لیے غذا ضروری ہے؛ بالکل اسی طرح انسانی روح کی تروتازگی کے لیے مطالعہ ضروری ہے۔
اور مطالعہ ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعہ آدمی گھر بیٹھے دنیا جہاں کی سیر و تفریح کرسکتا ہے۔ “ مصنف نے کتاب کو نوجوانوں کی طرف منسوب کیا ہے؛ چار قسم کے نوجوانوں کے ذہن و مزاج کو مدنظر رکھ کر نہایت قیمتی صلاح دیتے ہوئے توقع و امید رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” خدا نے چاہا میری یہ کتاب ایسے ہی نوجوانوں کے لیے مطالعہ کی اہمیت اور اس کے طریق ِکار کے بارے میں ایک رہنما کتاب (Guidebook) ثابت ہوگی۔ ان نوجوانوں سے میری مراد علامہ اقبال کے اس فکر انگیز شعر کے عین مطابق ہے۔ #
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ؛ ضرب ہے کاری
آئیے! کتاب کی ورق گردانی کرتے ہیں؛ کتاب کے معرضِ وجود میں لانے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ” 2018ء کے آخر میں ایک عزیز عاصم رسول صاحب نے میرے ذاتی مطالعہ کے طریق ِکار کے بارے میں سوال کیا تھا تو میں نے اس سوال کے جواب میں لکھنا شروع کر دیا۔ اور خیال تھا کہ میں اس سوال کا جواب دو تین قسطوں میں دوں گا، لیکن میں لکھتا گیا اور پھر قارئین کی طرف سے بہت سارے سوالات بھی سامنے آتے گئے اور میں جوابات دیتا گیا؛ یہاں تک کے اب اس سلسلہ کو مشکل سے سمیٹتے ہوئے اس کی سو قسطیں آپ کے سامنے آچکی ہیں اور میرا یہ قسط وار مضمون ” مطالعہ کی اہمیت اور اس کا طریق کار “ کے عنوان سے نوجوانوں کو بہت پسند آیا اور اب نوجوانوں نے کتابی صورت میں بھی شائع کرنے پر زور دیا ہے۔ ” ان سطور سے قاری کو مطالعہ کے ساتھ ساتھ تحریری کام کرنے کا ایک منفرد طریقہ بھی دریافت ہوجاتا ہے۔ آگے فرماتے ہیں کہ اس سے پہلے میری ایک کتاب حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب نے اپنی لاگت سے اور اپنے ہی ادارہ نعمانی اکیڈمی لکھنوٴ سے شائع کی تھی۔ “
جس سے پتا چلتا ہے کہ اصاغر ہی نہیں بلکہ اکابر مشائخ کے یہاں بھی غلام نبی کشافی صاحب کی نگارشات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے؛ چناں چہ کتاب کا پہلا مضمون مطالعہ کی اہمیت کیا ہے؟ سے معنون ہے، جس میں جناب عاصم رسول صاحب کے سوال کہ مصنف کے ذاتی مطالعہ کا طریق کار کیا ہے؟ جوابی مضمون کے حاصل مطالعہ میں فرماتے ہیں ” کہ میرا جو حاصل مطالعہ ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ فضائل کی زبان میں بات کو سمجھتے ہیں ان کی تعداد کثیر ہے اور جو لوگ دلائل کی زبان میں بات کو سمجھتے ہیں ان کی تعداد قلیل ہے؛ لیکن جو لوگ نہ فضائل کی زبان سمجھتے ہیں اور نہ دلائل کی زبان؛ بل کہ وہ صرف اپنی ہی من مانی کرتے ہیں تو اسی کو جہالت کہا جاتا ہے اور جہالت ہی کا دوسرا نام ضلالت ہے اور جس کا انجام بالآخر ہلاکت ہے“۔
پوری کتاب خوبیوں کا گل دستہ ہے دوران ِمطالعہ محسوس ہوتا ہے کہ قاری میں ذوق ِمطالعہ پیدا کرنے کے لیے مصنف نے اپنی پوری صلاحیت تج دی ہے؛ مضامین میں جابجا مطالعہ میں ماحول کے ساتھ ان کرداروں کو بھی زیر ِقلم لایا ہے کہ جو ذوق ِمطالعہ پیدا کرنے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں؛ ان رکاوٹوں سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ جو شائقین کتب کے لیے راستے کا روڑا بنتی ہیں اہم بات یہ کہ مطالعہ کے لیے سوچ و فکر کے درست استعمال کے لیے بھی اہم ترین مشورے دیئے ہیں؛ مصنف نے کتاب میں جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی مگر نہایت قیمتی تحریریں بھی لکھی ہیں۔ ذیل میں چند نمونے ہدیہٴ قارئین ہیں۔
” میں عمل سے خالی انسان ہوں “ کے تحت لکھتے ہیں: کہ ” میں نے قرآن ہاتھ میں لیا؛ تو مجھے قرآن پڑھنا آیا؛ میں نے حدیث کی کتاب اٹھائی تو مجھے حدیث پڑھنی آئی؛ میں نے سیرت کی کتاب اٹھائی تو مجھے سیرت سمجھ میں آئی؛ میں نے فقہ کی کتاب اٹھائی تو مجھے فقہ کا علم حاصل ہوا؛ پھر تاریخ؛ سوانح؛ فلسفہ؛ علم کلام؛ علم بلاغہ؛ منطق؛ صرف و نحو؛ زبان و ادب؛ شعر و شاعری؛ سفرنامے؛ ہر موضوع پر ہر طرح کی کتابیں؛ مضامین؛ مراسلے؛ خطوط؛ مقالے؛ ہر تحریر غور و فکر کے ساتھ پڑھی؛ خوب میری سمجھ میں آتی رہی؛ لیکن بس ایک کام مجھ سے نہ ہوسکا کہ میں عمل صالح نہ کر سکا۔ (ص: 24)
” قلم کار بننے کی آرزو رکھنے والوں کے نام“ لکھتے ہیں کہ لوگ پڑھتے نہیں مگر لکھنے کی چاہت بہت ہے؛ غور و فکر کرتے نہیں مگر دانشور بننے کے خواب دیکھتے ہیں؛ طنز؛ تعریض؛ تنقیص کا نام علمی تنقید رکھ دیا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم اختلاف رائے کرتے ہیں؛ اختلاف اور مخالفت تنقید اور تعییب ان کی قاموس میں مترادف الفاظ ہیں۔ ایسے بھی بہت دیکھے ہیں؛ جو اپنی محبوب شخصیات کو معصوم عن الخطاء اور ناپسندیدہ شخصیات کو راندہٴ درگاہ سمجھتے ہیں؛ میں بس حیران ہوں؛ پریشان ہوں؛ نہیں سمجھ میں کچھ آتا۔ #
کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا
میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا
(ص: 30)
” میرا سیکھنے کا عمل “ کے تحت لکھتے ہیں میرا ماننا ہے کہ جب میں بولتا ہوں؛ تو کچھ نہیں سیکھتا ہوں اور جب میں سنتا ہوں تو کچھ نہ کچھ سیکھ لیتا ہوں؛ لیکن جب میں پڑھتا ہوں تو بہت کچھ سیکھتا ہوں۔ اس لیے میں مطالعہ کو ہی زیادہ ترجیح دیتا ہوں؛ اور اپنے علم میں روز اضافہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ (ص: 36)
” یہ رفتار زمانہ کی ” قیمتی اشعار درج کیے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔ #
لمحہ لمحہ یہ زندگی اختتام کی اورجاتی ہے
سوچتا کون کہ کس انجام کی اور جاتی ہے
گردش حالات میں یہ رفتار زمانہ کی کشافی
کسے یہ احساس کس گام کی اورجاتی ہے۔
(ص : 39)
علم دوست حضرات کو انتہائی قیمتی مشورہ دیا ہے کہ ” جب مطالعہ کی نیت اور طریق ِکار صحیح اور ساتھ میں عمل کرنے کا عزم بھی کار فرما ہو تو ایسے شخص کااللہ تعالیٰ مطالعہ ضائع نہیں کرے گا؛بل کہ وہ اس کے مطالعہ کو اس کے لیے ہدایت کا ذریعہ اور دنیا و آخرت کے لیے نفع بخش بنا دے گا؛ لیکن غلط مطالعہ یا محض ذہنی تفریح کے لیے مطالعہ؛ فائدہ کے بجائے نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن ِمجید اور اُسوہ حسنہ سے محبت ایک لازمی امر ہے۔ ورنہ پھر علامہ اقبال کی زبان میں یہی کہنا پڑے گا۔ #
ترے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
(ص: 37)
” فکری اور تحریری قابلیت کے لیے معیاری کتابوں کا مطالعہ ناگزیر “ بے حد اہم باتیں لکھی ہیں فرماتے ہیں: ” حقیقت یہ ہے کہ مطالعہ کتب بینی عالم؛ مقرر اور قلم کار کے لیے اتنا ہی ضروری ہے۔ جتنا کہ زندہ رہنے کے لیے کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور صحت کی سلامتی کو بر قرار رکھنے کے لیے اچھی اور مقوی غذاؤں کی ضرورت ہوتی ہے اور ناقص غذاؤں سے صحت کو یقینی طور سے نقصان کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح فکر و خیال کی تعمیر اور بلندی کے لیے معیاری اور علمی کتابوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب کہ غلط اور گمراہ کن کتابوں سے آدمی کی ذہانت و فطانت غلط راہ پکڑتی ہے اور وہ انکار و الحاد کے بت تراشنے لگتا ہے اور اس طرح سے وہ خدا اور اس کے دین ِحق سے ہی بہک جاتا ہے۔ آپ مطالعہ کریں؛ یہ حصول علم کے لیے ضروری بھی ہے لیکن اس سے آپ دین سیکھیں اور خدا کی پہچان حاصل کریں اور اپنی شخصیت کی تعمیر کریں یہ بہت ضروری ہے۔“ (ص: 74)
” مولانا ابوالکلام آزاد کا “ ایک فکر انگیز قول کتاب کی اہمیت اور نافعیت میں اضافہ کرتا ہے۔ فرمایا کہ ”ہمیں وہ اسلام نہیں چاہیے جو بوقت ِنکاح خطبہ اور بوقت نزع یٰسین پڑھنے کے کام آئے اور باقی تمام معاملات زندگی میں یورپ کے دسترخوان کی چھوڑی ہوئی ہڈیوں پر گذارہ کریں۔ “ (ص : 75)
” ہماری اردو صحافت زوال کی زد میں “ فرمایا کہ عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے۔ ” لکل عروج زوال“ اور اسی بات کو بطور ترجمہ کے فارسی محاورہ اس طرح آیا ہے۔ ”ہرکمال را زوال است “۔ یعنی ہرکمال اور ہر عروج کا ایک زوال بھی ہوتا ہے؛ جو سب کا تہس نہس کر دیتا ہے اور ان دونوں ہم معنی محاوروں کا اطلاق کشمیر کی موجودہ اردو صحافت پر بھی ہوتا ہے؛ مثال کے طور پر آج کل اخبارات و رسائل میں شعر و شاعری اور غزلیات کی بھرمار ہوتی ہے اور ان کو دیکھ کر ذہنی و فکری طور پر ہمارے اہل علم و و دانش بہت نیچے جاچکے ہیں؛ جہاں سے ان کا ابھرنا اگر ناممکن نہیں، مگر مشکل ضرور ہوگا؛ چناں چہ کسی نے موجودہ دور کے پرنٹ میڈیا کی بہترین ترجمانی اپنے اس شعر میں کی ہے۔ (ص: 88)
# غزل کے مضامین مل جائیں گے
کسی دن کا اخبار اٹھا لیجیے!
غلام نبی کشافی صاحب کی کتابوں سے کس قسم کی وجدانی وابستگی اور رشتہ ہے؟ اس سلسلہ میں اولاً ایک دلچسپ واقعہ ذکر کیا ہے فرمایا کہ ریاست جموں و کشمیر کے معروف عالم دین حضرت مولانا مفتی نذیراحمد قاسمی صاحب سے پچھلے دس بارہ سالوں سے میں متعارف ہوں اور وہ باصلاحیت عالمِ دین اور لائق مفتی ہیں اور میں ان کی دل سے عزت کرتا ہوں اللہ تعالٰی ان کے علم و تفکر میں برکت عطا فرمائے۔ نماز عیدالفطر حضرت مفتی صاحب کی اقتداء میں ادا کرنے کے بعد عوام کی جم ِغفیر میں مفتی صاحب سے معانقہ، دعا و سلام اور پھر مفتی صاحب کا نیلے رنگ کی ” خطبات جمعہ ” کتاب کشافی صاحب کو ہدیہ کرنا۔ فرماتے ہیں کہ میں ان کی اس عزت افزائی سے انتہائی ممنون ہوا؛ جو لوگ ان سے ملنے کے لیے آوا جاہی کر رہے تھے وہ میری طرف حیرانی سے دیکھ رہے تھے اور شاید وہ میرے بارے میں سوچ رہے تھے کہ اس نالائق کے چہرے پر آدھے انچ کی داڑھی ہے اور سر پر ٹوپی بھی نہیں ہے اور مفتی صاحب سے ملنے میں سبقت لے گیا اور مفتی صاحب اس کے لیے منبر سے نیچے اتر آئے۔ اور ان سے کتاب بھی حاصل کر لی لیکن میں کسی کی طرف دھیان نہ دیتے ہوئے وہاں سے خاموشی سے نکل گیا۔ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے میرا مقصود صرف یہ واضح کرنا تھا کہ یہ میرے مطالعہ کا ذوق و شوق ہی کا نتیجہ تھا کہ میں نے کتاب صرف دیکھنی چاہی تھی؛ مگر مل گئی اور بنا کسی معاوضہ کے۔ قاری کو بھی صلاح دیتے ہیں کہ آپ بھی مطالعہ میں ڈوب جائیے تو کتابیں آپ کے پاس کسی نہ کسی بہانے اپنے آپ پہنچ جائیں گی۔(ص:102)
” مطالعہ انسانی زندگی کو جلا بخشتا ہے“ عنوان کے تحت مطالعہ کرنے کے فوائد کچھ یوں بیان کیے ہیں کہ ”مطالعہ ذہن کو کھولتا ؛ نتائج سے باخبر کرتا؛ دانائی کی باتوں پر مطلع کرتا؛ زندگی کے پوشیدہ راز کھولتا؛ فصیح اللسان بناتا؛ صاحب ِقلم بناتا؛ غور فکر کی صلاحیت بڑھاتا؛ علم کو مستحکم و پختہ کرتا؛ شکوک و شبہات کو ختم کرتا؛ خیالات کو مکدر ہونے سے بچاتا؛ تنہا شخص کا غم دور کرتا؛ ذہنی ارتکاز سے مالا مال کرتا؛ خدا پر کامل یقین پیدا کرتا؛ مقامِ عبدیت سے نوازتا ہے۔
مطالعہ نہ کرنے کے نقائص کچھ اس طرح بیان کیے ہیں کہ ” ترک مطالعہ ذہن کو زنگ لگاتا؛ غور و فکر کرنے پر قد غن لگاتا؛ علم میں کمی کرتا؛ عمل میں کوتاہی لاتا؛ زبان کے لیے رکاوٹ بنتا؛ دل میں خلل ڈالتا؛ عقل میں فتور پیدا کرتا؛ فکر و نظر کو خشک کرتا؛ خیالات کو پراگندہ کرتا؛ شبہات کو جنم دیتا؛ سوچ کو پژمردہ بناتا؛ خدا سے دور کرتا؛ شیطان سے قریب کرتا؛ غم سے چور کرتا؛ تنہائی پر مجبور کرتا؛ جینے سے محروم کرتا؛ غفلت کی نیند سلاتا؛ جہالت مقدر کرتا ہے۔ (ص: 152)
کتابوں پر تبصرے کیسے لکھے جاتے ہیں؟ بھی خاصے کی چیز ہے۔ (ص: 153) اہل ذوق کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ اگر بہترین قلمکار بننا چاہتے ہیں تو کتابوں کا صحیح انتخاب کرو۔ (ص: 156) ” راز کی باتیں ” پڑھ کر لگا جیسے کسی رہبر کامل نے کام یاب زندگی کے راہنما اصول رقم کر دئیے ہوں فرمایا کہ ” جب آپ کسی دوسرے شخص سے کہتے ہیں کہ میں آپ کو ایک راز کی بات بتاتا ہوں، مگر اس شرط پر کہ آپ اس بات کو کسی دوسرے کے سامنے ظاہر نہیں کریں گے، تو گویا اس راز کی بات کو فاش کرنے کی شروعات آپ نے خود کی ہے اور اب کوئی گارنٹی نہیں کہ دوسرے شخص کے پاس بھی وہ بات راز بن کر رہ جائے اگرچہ بظاہر یہ چھوٹی سی بات ہے، مگر باہمی معاملات میں اس طرح کی باتیں بعض اوقات کسی بڑے فتنے کی موجب بن جاتی ہیں؛ اس لیے بات اتنی ہی کرنی چاہیے جتنی ضروری ہے اور اپنے رازوں کو فاش کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے کہ کہیں اپنی ہی کہی ہوئی بات آپ کے لیے مشکل کھڑی نہ کر جائے۔ اور آپ کو پچھتانا پڑے۔ (ص: 164)
”مضمون نگاری کا فارمولہ “ اہل قلم کے لیے انمول تحفہ؛ بہترین رہبری کی ہے۔ اور آخر میں فرمایا کہ پھر دیکھنا آپ کی ہر بات میں وزن ہوگا۔ گہرائی ہوگی؛ قدر و قیمت ہوگی اور پھر عوام نہیں خواص بھی آپ کے قدر دان ہوں گے۔ (ص: 169)
ناول نہیں قرآن پڑھنے کی عادت ڈالو :
” ناول نہیں قرآن پڑھنے کی عادت ڈالو “ ایک نوجوان نے مطالعہ کے حوالے سے سوال کیا تھا کہ ”مطالعہ کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ “اس کا جواب کشافی صاحب نے دیا ہے جس کے تحت مضمون میں منجملہ باتوں کے لکھا ہے کہ ” مولانا مفتی احمد خانپوری صاحب نے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی ایک کتاب کے پیش لفظ کے تحت علمی کتاب کی پہچان کے بارے میں لکھا ہے کہ کسی علمی کتاب میں تین باتیں بطور خاص دیکھنی ہوتی ہیں؛ ایک اس کا مواد اور ماخذ۔ دوسرے اس کتاب میں نتائج کا استخراج اور موضوع کا تحلیل و تجزیہ۔ تیسرے ترتیب و اسلوب بیان۔(آسان علم کلام)(ص: 11)
مصنف نے کتاب کو نوجوانوں سے منسوب کیا ہے اور اول تا آخر نوجوانوں کو یاد بھی رکھا ہے۔ فرمایا کہ ”جو نوجوان خیالی خواب دیکھنے کے بجائے اپنی استطاعت اپنی صلاحیت اپنی اہلیت اپنی قابلیت اور اپنی لیاقت کو دیکھتے ہوئے اپنے مطالعہ و تحقیق کو ایک پر عزم عمل بنائیں اور اپنے پیش رو حق پرست علماء کے نقش ِقدم پر چلیں تو یقینی طور پراللہ تعالٰی ان کے نیک جذبات اور عزائم کو شرف ِقبولیت بخش کر ان کو اپنے دین کی خدمت کرنے کے لیے ضرور منتخب فرمائے گا۔ (ص : 327)
سرِوَرَق کی طرح کتاب کی پشت پر درج تحریر بھی قاری کو کتاب پڑھنے کی دعوت دیتی ہے فرماتے ہیں کہ ”مطالعہ حصول علم کا واحد ذریعہ ہے؛ جس سے ہم قرآن، حدیث، سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ؛ سیرت صحابہ کرام؛ تاریخ انسانیت کے عظیم لوگوں کے علمی تجربات اور مشاہدات سے استفادہ کرسکتے ہیں اور اسی مطالعہ کے ذریعہ ہم ہر دور کے بلند پایہ مصنفین اور علماء کے ذہنی و فکری ہم سفر بن سکتے ہیں؛ میری یہ کتاب ” مطالعہ کی اہمیت اور اس کا طریق کار“ کے بارے میں میرا ہرگز دعویٰ نہیں ہے کہ میں نے اپنی کتاب میں مطالعہ کی اہمیت اور اس کے طریق کار کے بارے میں مکمل معلومات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے؛ بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ میں نے اس کتاب میں مطالعہ کے حوالے سے کچھ ضروری باتیں لکھی ہیں؛ جن سے مطالعہ کے شائقین کو علمی سفر کو جاری رکھنے میں کچھ مدلل باتیں مل سکے اس سے زیادہ میرا دعویٰ نہیں ہے۔
آخری بات:
صاحبِ تصنیف محترم جناب غلام نبی کشافی صاحب کی تحریروں میں بطور ِخاص نسل ِنو کی ذہنی و فکری شعور کی تربیت کو ترجیح دی گئی ہے اور دی بھی جاتی ہے؛ جو آں موصوف کی بلاشبہ قابل تعریف کوشش ہے؛ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہماری نوجوان نسل کو رہبری کی ضرورت ہے اگر توجہ نہ دی گئی تو نتیجہ وہی ہوگا؛ جو اُن دریاؤں کا ہوتا ہے؛ جن سے کھیتیاں سیراب نہیں کی جاتیں؛ وہ دریا کسی جھیل یا سمندر میں جاگرتا ہے یا ریگستان میں جذب ہوکر رہ جاتا ہے؛ جن صلاحیتوں کو بر وقت استعمال میں نہیں لایا جاتا وہ اپنی سمتیں؛ فکر کے پیمانے؛ سوچ کے دریچے اور غور کی جہتیں؛ بدل دیتی ہیں۔ لہذا ضرورت ہے کہ اسلام کی بہترین دماغ کو تربیتی سانچے میں ڈھال کر قوم کی تعمیر و ترقی کے لیے ناقابل تسخیر قلعہ تعمیر کیا جائے؛ ایک فعال اور متحرک جماعت اور اس جماعت میں کام کرنے کی ایسی Speed اور Sprit پیدا کر دی جائے؛ تاکہ زور دار آندھیاں اور خوفناک موجیں؛ ان کے پایہٴ ثبات میں لغزش نہ پیدا کرسکیں۔
بہ ہرحال جناب غلام نبی کشافی صاحب کی یہ کتاب مجھے پسند آئی؛ دوران مطالعہ یہ داعیہ پیدا ہوا کہ دوسرے علم دوستوں کو بھی استفادہ کی طرف راغب کیا جائے؛ بایں وجہ یہ مضمون مرتب ہوگیا؛ خطاء و خامی داخل فطرت ہے علم دوست احباب اور مصنف محترم سے امید ہے کہ زیر نظر تبصرہ جو ایک طالب علمانہ کاوش ہے میں اگر کہیں کوئی کمزوری محسوس کریں تو اسے کاتب ِحروف کی نقل و تعبیر کی کمزوری سمجھیں اور در گذر فرما دیں؛ مشمولات کی تعداد 103 اور صفحات 328 ہیں؛ قیمت کے لحاظ سے کتاب لیتی کم اور دیتی زیادہ ہے؛ کتابت و طباعت اگر مولانا نور عالم خلیل امینی یا مولانا ندیم الواجدی دیوبند کی کتابوں کی جیسی ہوتی تو اچھا تھا۔
خیر” پسند اپنی اپنی“؛ کتاب کے آخر میں مصنف کی چند دیگر کتابوں کے نام بھی درج ہیں؛ جنہیں ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے۔
(1) کیا قرآن کو حدیث کے بغیر سمجھنا ممکن ہے؟
(2) مولانا وحیدالدین خان اور دعوائے مسیحیت و مہدویت۔
(3) مولانا وحیدالدین خاں کی تنقیدی موشگافیاں۔
(4) کشمیر میں عیسائیت کی طرف بڑھتا ہوا رجحان کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ؟
(5) مہراورتھان کیا یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں؟
(6) عصر کے بعد نماز جنازہ پڑھنے کا مسئلہ۔
(7) شب ِبرات کی شرعی حیثیت۔
(8) تحفہ رمضان۔
اہل علم سے بندہ کی سفارش ہے کہ اس کتاب کو اپنی عالمانہ التفات سے نوازیں اور دینی و عصری دانش گاہوں کے کتب خانوں اور لائبریوں تک اس کی رسائی کو ترغیب و ترہیب کے ذریعہ ممکن بنائیں۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت مصنف محترم کے تمام علمی کاموں میں خوب برکتیں عطا فرمائے اور ہم سب کو اخلاص و قبولیت کے ساتھ خدمت دین کی توفیق ارزانی فرمائے۔
مقصود احمد ضیائی خادم التدریس جامعہ ضیاء العلوم پونچھ (جموں و کشمیر)