حذیفہ وستانوی
علم کی برکت اور اللہ کے فضل سے بہت دنیا دیکھنے کا موقعہ میسر آیا۔ ۲/ فروری۴ ۲۰۲/ کو مسابقہ ”بور سعید الدولیہ“ مصر کی دعوت پر شرکت کا موقعہ ملا، دراصل دنیا کے ۱۶/ عالمی مسابقات کے لیے ایک ادارہ تشکیل دیا گیاہے، جس کا ایک ممبر بندے کو بھی بنایا گیاہے۔ وللہ الحمد علی ذالک۔
مصر کی معاشرتی تصویر:
مصر کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے یہ عربوں کا ہندوستان ہے۔ بہت ساری چیزوں میں ہندوستان کے کافی مشابہ پایا۔ مثلاً: گندگی، راستوں میں کتوں کی کثرت ،بیل گاڑی کی طرح گھوڑا گاڑی، موسیقی کا عام رواج ، عورتوں میں بے پردگی، خراب راستے ،ہوٹلوں وغیرہ کے پاس مانگنے والے، کھیتی باڑی، دھول مٹی کی بہتات، پرانی عمارتیں، جگہ جگہ بھیڑ بھڑکاّ ،بچوں اور جوانوں کا راستوں پر ہلا ّگلاّ، دھمال مستی کرنا، موٹر سائیکل کی کثرت، پرانی اور ٹوٹی پھوٹی گاڑیاں اور بہت کچھ۔
مسلم ملک اور اسلامیت نہ دارد:
مسلم ملک ہونے کے باوجود اسلامیت بہت کم نظر آئی۔قرآن کی ترتیل کے ساتھ تلاوت میں ان کا کوئی ثانی نہیں، مگر عربی زبان کا جو جنازہ نکالا ہے کہ بس! اللہ ہی ہدایت دے؛ایسی عامی کہ بہت مشکل سے سمجھ میں آتی ہے۔ قاریوں اور علما کے چہروں پر یا تو ڈاڑھیاں نہیں ہیں اور ہیں تو خشخشی۔
قرآن کے افتتاحی پروگرام میں موسیقی ،فل میک اپ میں سٹیج پر عورتیں ،مرد و زن کا مسجدوں اور پروگراموں میں عام اختلاط، بڑی حیرت ہوئی! اللہ ہمارے مشائخ و اکابرین کو اجر ِعظیم سے نوازے کہ انہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی اقلیت کے باوجود دین کے عملی میدان میں نرمی نہیں کی۔
میرا بیٹا سفر میں ساتھ ہے، اس نے یہ سب دیکھ کر کہا: کہ ابا! شیخ عبدالوہاب نجدی نے اچھا کیا، سختی کی، تو بلاد الحرمین اس طرح کے خرافات سے محفوظ رہے۔ اگرچہ عقیدہ کے باب میں ان سے بعض امور میں اتفاق نہیں، پھر بھی مجھے اپنے بیٹے کے اس تجزیہ سے بہت خوشی ہوئی کہ ماشاء اللہ! الحمدللہ! ہمارے درس ِنظامی اور گھریلو تربیت کی برکت سے اتنی عمر میں کتنی معتدل دینی فکر ہے، اللہ ہمیشہ اس پر استقامت کی نعمت سے نوازے۔(آمین)
مصر ی مسلمانوں کی دینی حالت:
اس سے قبل ذکر کیا گیا کہ رہن سہن اور وضع قطع میں مصر اور ہندوستان میں بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے، البتہ مصر میں مسلمانوں کے حالات اور ان کی دینی حیثیت پر اگر گفتگو کی جائے، تو انتہائی حیرت انگیز انکشافات سامنے آتے ہیں، تو آیئے! اس پر روشنی ڈالتے ہیں ۔
مصر کا یہ بہت مختصر سفر رہا ،مشکل سے ایک ڈیڑھ دن پر مشتمل تھا۔ ہمیں پہلی تاریخ کو مصر جانا تھا، جس کے لیے ہم ”اکل کوا“ سے نکل بھی گئے، مگر ایک ایمرجنسی کی وجہ سے واپس لوٹنا پڑا، لہٰذا دوسرے دن سفر ہوا، صبح سویرے قاہرہ کے ہوائی اڈے پر اترے، جب ہوائی جہاز سے اتر کر ہوائی اڈے پر قدم رکھا، تو سب سے پہلا تأثر ہوا کہ صفائی ستھرائی کا فقدان ہے اور آگے چلنے کے بعد یہ تأثر بالکل درست ثابت ہوا، جب ایمگریشن پر آئے تو بے ترتیبی سے نظم و نسق میں خلل کا بھی اندازہ ہوا۔
مصر کی زبان:
عربی سے مناسبت کی وجہ سے کتابوں میں پڑھا تھا کہ یہاں عامی اور فصیح عربی کے سلسلے میں ایک صدی قبل کافی بحث و مباحثہ ہواتھا، موڈرن فکر اور جدت پسند طبقہ عامی لہجے کے رواج کا داعی تھا اور متدین فکر کے رافضی وغیرہ فصیح عربی کے حق میں تھے۔ ایک تختی پر لکھا تھا” ترانزیت“ گویا عربی رسم الخط میں بغیر کسی ترمیم کے سیدھا انگریزی کلمہ لکھ دیا گیا تھا، جس سے عامی لہجے کے شیوع کا اندازہ ہوا، بعد میں قاہرہ کی بہت ساری تختیوں نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کردی۔
مصریوں کی وضع قطع:
مصریوں کی عام وضع قطع بالکل مغربیت زدہ ہے، چاہے مرد ہوں یاعورتیں۔ خیر سفرکی کار روائیوں سے فارغ ہو کر باہر آئے، تو موسم سرد تھا اور ہمارے دیرینہ دوست شیخ صادق یمنی نے ایک یمنی نوجوان کو استقبال کے لیے بھیجا تھا، ان سے ملاقات ہوئی، گاڑی میں سوار ہوکرشہر” بور سعید “کی جانب چل دیے، راستہ میں مصری ڈرائیور سے گفتگو کے دوران عامی لہجہ سمجھنے میں بہت دشواری ہوئی، سیاق وسباق سے سمجھ کر کام چلانا پڑا۔ مسابقہ نورسعید الدولیہ مصر میں شرکت ضروری تھی ،ہم حکومت کے مہمان تھے، شہر کے گلی کوچوں پر کچرے اور گندگی کے ڈھیر اور جگہ جگہ آوارہ کتوں کو دیکھ کر افسوس اور تعجب کے ملے جلے جذبات انگڑائیاں لیتے رہے۔
بہت کم نقاب والی عورتیں (یعنی مکمل پردے والی) دیکھنے میں آئیں، البتہ فل میک اپ کے ساتھ حجاب کو عام پایا، پردے سے مکمل بے اعتنائی بھی قدرے نظر آئی۔
نمازِ جمعہ:
جمعہ کا دن تھا ،پہنچ کر فوراً ناشتہ کیا اور ناشتہ کے بعد جمعہ کے لیے” شیخ صادق یمنی“ کی رفاقت میں چل دیے، عالی شان مسجد میں داخل ہوئے تومصر کے مشہور قاریترتیلاً تلاوت کے لیے تیار تھے، ہم نے دو رکعات نفل پڑھی اور تلاوت شروع ہوگئی، تقریباً نصف گھنٹہ بہت شاندار انداز میں تلاوت ہوتی رہی، اس کے بعد وزیر الاوقاف اور مستشار الرئیس اور”بورسعید “کے ذی وجاہت اشخاص کا قافلہ آیا، جامعہ ازہر کے شیخ ِسابق عمر ہاشم وہیل چیٴر پر تشریف لائے، اذان ہوئی، جمعہ سے قبل والی سنتیں سب نے پڑھیں،شیخ عمر ہاشم کو ان کی متحرک کرسی پر ہی بلند مقام پر رکھا گیا، اذانِ ثانی ہوئی اور موصوف نے شاندار ۲/ خطبے دیے، جس میں قضیہٴ فلسطین پر روشنی ڈالی گئی اور اہل ِفلسطین کے لیے دعا بھی کی گئی؛ البتہ لفظ غزة العزہ کے استعمال سے مکمل اجتناب کیا گیا، نماز جمعہ اداکی گئی ، دورانِ خطبہ لوگ آتے رہے، اپنے گندگی سے لت پت جوتوں کو ہاتھ میں لیے ہوئے جن سے گندے پانی کے قطرات قالین اور مصلیوں کے اوپر ٹپکتے رہے، مگر کسی پر کوئی برا تأثر نہیں نظر آیا، جس پر نہایت تعجب ہوا۔
میدان الشہداء کی طرف:
”میدان الشہداء“ شہر ”بور سعید“ کے شہیدوں کی زیارت گاہ ہے، نماز کے بعد تمام مہمانوں کو اسی میدان الشہداء پیدل چلنے کو کہا گیا، زیادہ دوری نہیں تھی، وہاں پہنچ کر بعض افراد نے عربی انشودے گائے، پھر ہمارے میزبان ہم کو وہاں سے ”بورسعید“ کے سمندر کے ساحل پر گاڑیوں کے ذریعہ لے گئے، ہم لوگ پہنچے، تو موسیقی کی دھن پر وطنی گیت چل رہا تھا، ہم کچھ لوگ دوری بنا کر بیٹھ گئے۔
شیخ عبدالسلام مقبل المجیدی سے ملاقات:
شیخ عبدالسلام مقبل المجیدی سے ملاقات ہوئی ،جو یمن کے مشہور علماء میں سے ہیں، قرآنی قافلہ کے ساتھ موسیقی کی اس دھن پر افسوس کیا اور علمی گفتگومیں محو ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ وہ ایک شاندار تفسیری پروجیکٹ پر پوری ٹیم کے ساتھ مصروفِ عمل ہیں”تسویر سور القران الکریم“۔بندہ نے بھی تفسیر سے دلچسپی اور اپنے تفسیری پروجیکٹ کے بارے میں بتایا تو بہت خوش ہوئے، جس پر آگے روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا ان شاء اللہ۔بندہ نے سوال کیا کہ قطر میں کیا مشغولیت ہے ؟تو بتایا کہ جامعہ قطر کے اسلامی ڈیپارٹمنٹ میں تدریس کی خدمت انجام دے رہا ہوں۔
مختلف ممالک کے ذمے دارانِ مسابقات سے گفتگو :
وہاں سے کھانے کے لیے ہوٹل آئے، کھانے کے دوران دنیا کے مختلف مسابقات کے ذمے د ار احباب سے گفتگو ہوئی۔ بحرین، کویت، شارجہ، اتھوپیا، تنزانیہ، لیبیا، مصر، عالمی مسابقات کے ذمے دار حضرات سارے ہی دسترخوان پر موجود تھے۔
رابطة مسابقات القران الدولیة کی بنیاد :
اس موقع پر عالمی اہم شخصیات کی موجودگی میں”رابطة مسابقات القرآن الدولیة“ کی بنیاد ڈالی گئی، جس میں ۱۶/ ملکوں کے ممبران شامل ہیں، بندے کو بھی اس کا ایک ممبر بنایا گیا ہے۔ کافی اچھی مجلس رہی، کھانے کے بعد کچھ دیر آرام کے لیے کمرہ میں چلے گئے ۔
بورسعید“ عالمی مسابقہ کی افتتاحی مجلس:
مغرب سے قبل ”بورسعید“ عالمی مسابقہ کی افتتاحی مجلس کے لیے ہم سبھی کو ایک ہال میں لے گئے، جسے بہت اچھی طرح سجایا گیا تھا، کافی دیر کے بعد پروگرام شروع ہوا، جس میں پہلے شیخ شحات مرحوم کے صاحبزادے نے بہت عمدہ تلاوت کی، اس کے بعد عربی کے بعض انشودے موسیقی کی دھن پر پڑھے گئے ،جس میں عورتیں بھی تھیں، اس کے بعد وزیر الاوروف نے ”اعجاز البیان القرآنی“ پر ایک عمدہ محاضرہ پیش کیا۔ شیخ عمر ہاشم نے عظمتِ قرآن پر شاندار خطاب پیش کیا۔ مستشار الرئیس اور وزیر الشباب و الترفیہ نے اپنے کلمات پیش کیے، کسی نے فصیح عربی زبان میں تو کسی نے عامی لہجے میں، تقریباً دو گھنٹے میں پروگرام ختم ہوا، جو افسوس ہے کہ بہت سارے منکرات پر مشتمل تھا ،مرد و زن کا اختلاط ،قرآنی محفل میں موسیقی اور عورتوں کی بے پردہ شمولیت، نمازِ مغرب میں تاخیر وغیرہ اللہ معاف فرمائے ۔
علمائے بر صغیر کا دینی تصلب:
باہر نکل کر شیخ صادق کے ساتھ تبادلہٴ خیال کے دوران شیخ صادق کہنے لگے کہ اگر ہندوستان میں ایسا کیا جائے تو زندیق کا حکم صادر ہوجائے گا، میں نے کہا بالکل !ہمارے علما نے تساہل سے کام نہیں لیا، جس کا یہ نتیجہ ہے۔ اتنے میں ایک صاحب آئے انہوں نے بھی ہماری گفتگو سنی، تو کہنے لگے کہ یہ سب یہاں صرف مصر ہی میں ہوتا ہے ۔ اور ایک جملہ بولے ”في عسل و بصل“ تو بندہ ہنسنے لگا، انہوں نے کہا :کہ آپ مراد سمجھ گئے۔( یعنی کچھ چیزیں عسل کی طرح ہیں، مگر بصل اور لہسن جیسی مکروہ چیزیں بھی مصر کا شیوہ ہیں ۔
کھانے میں جھینگا اور مسلکِ احناف:
پروگرام سے فراغت پر شیخ صادق کھانے کے لیے ہمیں ہمارے میزبان ایک ہوٹل لے گئے ، جہاں مہمانوں کے لیے سی فوڈ کا بہترین انتظام تھا۔ پہلے سوپ آیا تو میرے بیٹے نے اشارہ کیا کہ ابا اس میں کیکڑا بھی ہے، تو ہم نے اسے کنارے کردیا۔ اس کے بعد جھینگے ، مچھلی اور دوسرے قسم کے کھانے پیش کیے گئے تو شیخ عبدالسلام نے دریافت کیا کہ جھینگے کے بارے میں سنا ہے کہ احناف نہیں کھاتے؟ میں نے کہا: ہمارے برصغیر میں یہ مختلف فیہ ہے۔ یوپی وغیرہ کے علما مکروہ کہتے ہیں من نوع الدودة کیڑے کی قسم میں سے گردانتے ہوئے۔ اور علمائے گجرات من نوع السمک مچھلی کی قسم سے شمار کرتے ہوئے جائز کہتے ہیں ،تو انہوں نے سوال کیا :آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا طویل عرصے تک میں نے نہیں کھایا، مگر من نوع السمک کی تحقیق قدرے ٹھیک معلوم ہوئی، لہٰذا اب کھاتا ہوں، مگر بہت دلچسپی سے نہیں ۔
خیر سفر کے دوران عجیب عجیب طرح کے تجربات ومشاہدات سامنے آئے مثلاً: اہلِ عرب کیکڑا کھاتے ہیں،کسی نے بتایا کہ اہلِ عرب سمندر کی ہر چیز کھاتے ہیں۔بندہ دورانِ سفر گوشت وغیرہ سے حتی الامکان پرہیز کرتا ہے اور سبزی دال مچھلی وغیرہ کو ترجیح دیتا ہے، اب تو سی فوڈ کے بارے میں فکر دامن گیر ہوگئی کہ بلا تحقیق کے سی فوڈ سے اجتناب ہی بہتر ہے۔
کھانے کے بعد ہائل سعید فیملی کے ایک زیرک اور مہمان نواز فردکے ساتھ ہوٹل پہنچے، جو یمنی تاجر فیملی ہے اور بہت سخی اور متدین ہے؛ جیسا کہ شیخ صادق اور شیخ عبدالسلام نے کہا۔ شیخ عبدالسلام نے ہوٹل سے قیام گاہ کے دوران اپنے تفسیری پروجیکٹ پر روشنی ڈالی کہ شیخ حمید الدین فراہی کی فکر سے متاثر ہو کر ہم نے اس مشروع کا آغاز کیا ہے، اس میں کسی بھی سورت کو اس کے بنیادی موضوعات پر منقسم کیا جاتا ہے اور اس کو تین طریقے سے سمجھایا جاتا ہے: مجمل، متوسط اور مفصل ۔
ہوٹل پہنچ کر نمازِ عشا ادا کی، اس کے بعد سورہٴ فاتحہ، سورہٴ بقرہ پر ہوئے تفسیری کام کی کتاب پیش کی، کام کی نوعیت بتائی اور دریافت کیا کہ کونسی کتاب پسند کریں گے؟ میں نے عرض کیا علمی اور دینی کام میں یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ سب ہی پسند ہے۔تو ماشاء اللہ موصوف نے بطور ہدیہ سورہٴ فاتحہ کے تینوں حصے مجمل، متوسط اور مفصل۔ سورہٴ بقرہ کا مجمل متوسط اور مفصل تینوں جلدیں عنایت فرمائیں اور کہا کہ اس پر ابھی کام جاری ہے۔
سورہٴ بقرہ مفصل تقریباً نو یا دس جلدیں مکمل ہوں گی ان شاء اللہ !۔ لیبیا کے احباب نے بھی مجلس میں شرکت کی، کتابیں کم تھیں، تو وہ کہنے لگے کہ بھائی شیخ حذیفہ کو سب دے دیا اور ہم محروم رہے، تو انہوں نے وعدہ کیا کہ آپ حضرات کو ضرور عنایت کروں گا۔ ان شاء اللہ!
بہر حال بہت خوشی ہوئی، شیخ عبدالسلام سے مل کر اور علمی فائدہ بھی ہوا ۔جزاہ اللّٰہ خیرا فی الدارین وقدر اللّٰہ لمشروعہ التمام و الکمال۔ آمین !
رات کافی ہوچکی تھی، اپنے کمرے میں آکر لیٹا تو یاد آیا کہ سفر نامہ کم از کم شروع کردیا جائے ،لہٰذا قسط اوّل مختصر لکھ لی اور سوگیا۔
فجر سے قبل آنکھ کھل گئی، قریب ہی ایک مسجد تھی ،نمازِ فجر کے لیے وہاں پہنچا تو یہ دیکھ کر بہت کافی افسوس ہواکہ محض چار سے پانچ افراد نماز میں ہیں۔ امام صاحب مکمل ڈاڑھی شیو اور حلق کیے ہوئے تھے، پہلی رکعت میں دو غلطیاں ہوئیں اور دوسری میں بھی بندہ کو لقمے دینے پڑے۔ بہرحال مساجد کو غیر آباد پایا، اللہ ہدایت سے نوازے۔ فجر کے بعد ہم قاہرہ کے لیے نکل پڑے۔
معرض الکتاب الدولی کے لیے روانگی:
اللہ رب العزت شیخ صادق کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ گاڑی لے کر حاضر ہوگئے اور ہم قاہرہ کی جانب چل دیے، دورانِ سفر مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی، حسب ِمعمول سورہ یٰس کی تلاوت کی، شیخ صادق بھی اکثر تلاوت کرتے رہے، دو گھنٹے بعد قاہرہ پہنچے، جہاں عالمِ اسلام کے سب سے بڑے کتابی میلے میں جانا تھا ،مگر وہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا، لہٰذا ہم لوگ ناشتہ کے لیے چلے گئے ،بالکل ہندوستان کے انداز میں چھوٹی چھوٹی ناشتے کی ہوٹلیں تھیں، ایک ہوٹل میں ناشتہ کیا، شیخ صادق کہنے لگے کہ بھائی کھانا آپ کے ہندوستان کا بڑا لذیذ ہوتا ہے۔ وہاں سے” معرض الکتاب الدولی“ کی جانب روانہ ہوئے، جہاں پر شیخ احمد عبدالباری بھی انتظار میں تھے، ”قاعة ثالثہ“ میں داخل ہوئے ، دار ابن حزم پر نظر پڑی تو بندہ وہیں چلا گیا اور بڑی مقدار میں کتابیں خریدی، ماشاء اللہ! فقہ، حدیث، تفسیر، نحو، صرف، منطق، علوم القرآن و الحدیث پر بہت عمدہ کتابیں میسر ہوئیں، دیگر مکتبات سے بھی کتابیں خریدلیں، اسی دوران بارہ بج گئے ،تو شیخ صادق نے کہا کہ شیخ حذیفہ! چلنا چاہیے، ہاتھ پکڑ کر انہوں نے نکالا، میں نے کہا کہ شیخ! اللہ کے فضل اور توفیق سے بندے کو کتابوں سے بے پناہ عشق ہے، کہنے لگے یہ تو بالکل محسوس ہورہا ہے، آپ کا انتخاب بھی بہت شاندار ہے۔ شیخ احمد عبدالباری نے سوال کیا کہ یومیہ کتنے صفحات کا مطالعہ کرتے ہو؟ بندے نے کہا تقریباً دو سو، تو کہنے لگے ماشاء اللہ! بہت خوب! بندے کو بچپن سے ہی مطالعہ کی عادت اور شوق ہے۔
دو عظیم شخصیتوں سے ملاقات:
مصر کے سفر کے دوران دو عظیم شخصیتوں سے ملاقات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ،شیخ احمد عبدالباری الحلوانی اور شیخ عبدالرحمن القماش (حفظہما اللہ ورعاہما ونفع اللہ الأمة بعلومہما )
شیخ احمد عبدالباری ”اللغة العربیة لغیرالناطقین بہا“کے ماہر ہیں، شیخ نے اپنے گھر کھانے کی باصرار دعوت پیش کی، رات کا کھانا شیخ کے ساتھ تناول کیا، بہت زیادہ اہتمام کیا تھا۔ شیخ پانچویں منزل پر سکونت پذیر ہیں، لفٹ نہ ہونے کی وجہ سے جاتے ہوئے بڑی دقت ہوئی، مگر جب دیکھا کہ اپنی عمر سے پندرہ بیس سال بڑے ہوکر شیخ روزانہ کئی بار اترتے چڑھتے ہوں گے، تو ہم کیا ہیں؟!
”حلوان شہر“ کی تاریخ:
کھانے کے دوران شیخ نے ”حلوان شہر“ کی تاریخ اور امتیازات بیان کیے کہ یہ بڑا قدیم شہر ہے، حضرت عمر بن عبدالعزیر کی جائے پیدائش حلوان ہے۔ حلوان میں ”ماء الکبریت“ مشہور تھا، جو صحت کے لیے بہت مفید ہوا کرتا تھا، لوگ زمانہٴ قدیم سے اس کی تجارت کرتے تھے، حضرت عثمان عنی کو معلوم ہوا کہ پانی بیچا جارہا ہے، تو آپ نے خط لکھا کہ یہ کیا بات ہوئی تم لوگ تو پانی بھی بیچتے ہو؟؟!
اس سے معلوم ہوتا ہے یہ پانی صدیوں سے پایا جاتا ہے۔ مصر کے احوال سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے بڑے ابتر ہیں۔ مہنگائی سے لوگوں کا برا حال ہے، مگر مجبور ہیں ،لوگ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرپاتے۔
حلوان چند سالوں قبل تک انڈسٹری کے اعتبار سے بہت مستحکم تھا، مگر موجودہ صدر نے اسے بالقصد کمزور کیا ہے، صفائی ستھرائی میں دوسرے شہروں کے مقابلے میں” حلوان“ بہتر محسوس ہوا، رات کافی ہوچکی تھی، قاہرہ واپس ہوتے ہوتے رات کے ایک بج چکے تھے، مگر تمام دوکانیں کھلی ہوئی تھیں؛ مرد، عورت اوربچوں کی، دن کی طرح چہل پہل تھی، معلوم ہوا کہ رات دیر تک جاگتے ہیں اور صبح دیر تک سوتے رہتے ہیں، فجر بھی آرام سے اٹھنے کے بعد ادا کرتے ہیں ،کیوں کہ فتویٰ صادر ہوا ہے کہ جب آنکھ کھلے نماز پڑھنے سے ادا ہی ہوگی۔ تعجب ہوا! شاید اس حدیث کا سہارا لیا گیا، جس میں ہے کہ اگر بلا ارادہ کسی کی آنکھ نہیں کھل سکی وہ اٹھ کر فوراً نماز ادا کرے، مگر اس کو اس طرح عموم پر محمول کرنا ضرورت سے زیادہ رخصت دینا ہے، اس لیے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کوئی پابندی سے فجر ادا کرتا رہے، فجر میں بیدار ہونے کے اسباب اختیار کرے ،مگر اس کے باوجود کبھی اگر آنکھ نہ کھل سکے تو اٹھ کر فوراً ادا کرے ،مگر اس میں یہ نہیں ہے کہ وہ قضا نہیں ہوگی، وقت کے نکل جانے سے سے قضا تو بہر صورت ہوجائے گی، مگر عادتِ مستمرہ کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ ثواب ادا کا، مل جائے!اگر جان بوجھ کر کوئی تاخیر سے سوئے اور اٹھنے کی کوشش نہ کرے اور تاخیر کی عادت بنالے تو یہ سب کہاں سے ثابت ہوتا ہے؟!؟
مصلیوں سے خالی مسجدیں:
ایک اور بات کہ مسجدیں بڑی عالیشان مگر مصلی نہ دارد، کیوں ؟تو پتا چلا کہ یہ فتویٰ دیا گیا ہے کہ جہاں ہیں وہیں نماز ادا کرلیں ،چاہے دور ہی کیوں نہ ہوں، جماعت میں شرکت شمار ہوگی، لہٰذا مائک میں نمازہوتی ہے اور اپنی اپنی دوکانوں اور گھروں ہی میں جماعت میں شریک ہو کر نماز ادا کر لیتے ہیں؟ بہر حال علماء کے پاس ڈگریاں تو ہیں مگر علم، اس کا نور اور برکت نہیں، تقویٰ و تزکیہ نہیں، صحبت کا فقدان ہے، لہٰذا آزادی زیادہ ہے، علماء کی ان کمیوں، کوتاہیوں سے پورے معاشرے میں سہولت پسندی عام ہے۔ الحمدللہ! ہمارے یہاں فقہ میں تصلب کا فائدہ ہے کہ عوام میں احکام سے مصالحت و مفاہمت کا ماحول نہیں۔ فالحمدللہ علی ذالک۔
صبح فجر کی نماز کے لیے بیدار ہوئے، نماز وغیرہ سے فراغت کے بعد ہمارے رفیقِ سفر مولانا سلمان رحیمی نے چائے تیار کی، چائے پینے کے بعد ہم شیخ عبدالرحمن القماش کی ملاقات کے لیے چل دیے۔
رہائش گاہ سے نیچے آئے، پوارا قاہرہ محوِ خواب تھا، دوکانیں بند تھیں،وقت صبح۳۰:۷ ہور ہا تھا، پر کوئی زیادہ چہل پہل نہیں تھی، گوگل میپ میں رہائش گا ہ ۲/ کیلومیٹر بتا رہا تھا، تو پیدل ہی چل دیے۔
راستہ میں جب گلیوں سے گزرہوا تو عجیب مناظر تھے، جگہ جگہ کتے، گاڑیوں پر آرام سے سو رہے تھے، بلیاں بہ کثرت نظر آرہی تھیں، چوہے ہی نہیں، منگس بھی خوب گلیوں میں ٹہل رہے تھے، جگہ جگہ گندگی عام تھی، کافی آگے چلنے کے بعد رکشے پر سوار ہونا پڑا، نصف راستہ رکشے سے طے کیا، جس کو” ٹک ٹک“ کہتے ہیں، مسجد عمر بن عبدالعزیز کے پاس اترے، شیخ قماش کو کال کی، مسجد کے بالکل سامنے ہی ایک پرانی بلڈنگ میں ان کا فلیٹ ہے، چند ہی منٹوں میں وہ تشریف لائے اور بڑے پرجوش انداز میں استقبال کیا اور ان کے گھر کی جانب ان کے ہمراہ چل دیے۔
شیخ عبدالرحمن القماش سے پہلی ملاقات:
آج سے تقریباً دس سال قبل انٹرنیٹ پر ایک تفسیر نظر سے گزری” الحاوی فی التفسیر“ کے نام سے، جب بندہ کے ذمے ترجمہٴ قرآن کریم کی تدریس تھی، میں نے اسے ڈاؤن لوڈ کیا ،مگر فائل نہیں کھل سکی ،مولانا مہر علی صاحب کو کہا جو ہمارے یہاں عا لمیت اور فضیلت کے طلبہ کو تقریبا ۲۵/ سال سے زیادہ عرصہ ہوا کمپیوٹر سکھاتے ہیں، بندے نے بھی عربی اردو ٹائپنگ موصوف سے ہی سیکھی تھی، جب عربی پنجم یا ششم میں تھا، بہرحال کافی جد و جہد کے بعد وہ کامیاب ہوئے، فائل کھل گئی اور الحمدللہ بہت فائدہ ہوا۔ ماشاء اللہ ۸۴۰/ جلدوں میں قرآن کی تفسیر تھی ۳۰/ جلدں تک تو صرف سورہٴ فاتحہ ہی کی تفسیر تھی۔ بندہ نے” النور“ میں اس کی تلخیص بھی کی ہے ۔
بندہ نے مؤلف کا سراغ لگایا، تو معلوم ہوا کہ متحدہ عرب امارات کی مسجد ”پورسلی“ میں امام جو راس الخیمہ میں واقع ہیں، بندے نے بہت کوشش کی ان سے ملنے کی، مگر کامیابی نہیں مل سکی، ابھی تین سال قبل ان کا نمبر نیٹ سے دستیاب ہوا، تو ان سے واٹس ایپ پر رابطہ کیا، بات چیت ہوئی، اسی دوران کورونا حائل ہوگیا ،بندہ نے پوچھا : آپ کی عمر؟ تو پچاس کے آس پاس بتایا، بندہ کو خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی ،خوشی اس پر کہ ماشاء اللہ ابھی تو پچاس کے لگ بھگ عمر ہے، چلو ملاقات ہوگئی ،معمر نہیں ہیں اور حیرت اس پر کہ اتنا بڑا کام اتنی کم عمری میں کیسے کیا ہوگا؟!
دو سال قبل بندہ نے انہیں عربی میں چند سوالات بھیجے تھے، ماشاء اللہ اس کے تفصیلی جوابات دیے تھے، مولانا عبدالوہاب مدنی نے اسے انٹرویو کی شکل دی تھی اور” النور“ میں وہ شائع بھی ہوا، اس کے بعد بندہ کے دل میں آیا کہ اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، ان کی تکریم ہونی چاہیے، ابھی نومبر۲۰۲۳ء میں انہیں دعوت پیش کی کہ ”افضل شخصیة قرآنیة فی القرن الخامس عشر الہجری“ کے نام سے آپ کو ہم ایوارڈ دینا چاہتے ہیں، تو موصوف نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس تفسیر پر بندہ نے مزید کام کیا ہے اور اب وہ چوبیس لاکھ سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ اگر۰۰۰ ۱/ ہزار صفحہ کی بھی جلد بنائی جائے ،تو چوبیس سو سے زائد جلدیں بنتی ہیں، موصوف نے بندہ کو یہ اضافہ شدہ برقی نسخہ بھی ارسال کیا، مگر کسی وجہ سے ویزا کی ترتیب نہ بن پائی، اس لیے دسمبر کے” کل ہند مسابقہ “میں موصوف کی شرکت نہ ہوسکی، بہرحال ہماری ان کی ملاقات ہندوستان میں نہیں، بل کہ مصر میں مقدر تھی اور الحمدللہ فروری کی ۶/ تاریخ کی صبح ہم ان کے گھر پہنچ گئے۔
شیخ عبدالرحمن القماش کے ساتھ علمی نشست:
موصوف بڑے ہی متواضع ہیں، زہد و تقوی کے پیکر ہیں، بے پناہ علمی صلاحیت کے مالک ہیں، دینی غیرت و حمیت اور امت کا درد رکھتے ہیں، کافی دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی، حالاتِ حاضرہ پر بھی تبادلہ خیال ہوا، ماشاء اللہ امت کے مسائل اور مشکلات سے مکمل واقفیت رکھتے ہیں۔ آپ سے گفتگو کے دوران مندرجہ ذیل باتیں زیر بحث آئیں۔
- آپ کو تفسیر سے بہت زیادہ دلچسپی ہے، ایک نہیں تفسیر پر چار موسوعات آپ نے تیار کی ہیں ،خود بہت زیادہ دولت نہیں رکھتے، بل کہ اس وقت تو کافی معاشی دشواری سے گزررہے ہیں، مگر پھر بھی اپنی زندگی کی ایک تمنا پوری کی اور صعید کے کسی دیہات میں مسجد تعمیر کی ہے، جس پر بہت خوش ہیں ۔
- فلسطین کے معاملے پربہت سنجیدہ ہیں ۔
- ایک صاحب نے متدین ہو کر بھی آپ کو تجارت کے نام پر دھوکہ دیا ہے، جس پر بہت ملال رکھتے ہیں،موصوف کی آرزو ہے کہ بلاد الحرمین میں سے کہیں منتقل ہوجائیں ۔
- ”مشکوٰة “کے نام سے اسلامی کتابوں کی ویب سائٹ کو سعودی کے بند کرنے پر افسوس ۔
تفسیری چار موسوعات کی نوعیت:
”جنة المشتاق فی تفسیر کلام ملک الخلاق لعبدالرحمن القماش “جو ۲/ ملین چار لاکھ سے زائد صفحات پر مشتمل اب تک کی سب سے ضخیم تفسیر ہے، مان لو کہ ساری تفسیروں کو بس جمع کردیا ہوگا، تب بھی بڑا کارنامہ ہے، جو اللہ نے آپ سے لیا۔ کیوں کسی اور نے یہ کام نہیں کیا؟ بندہ نے جو مطالعہ کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض کیف ما اتفق صرف جمع نہیں کیا!بل کہ بہت عمدہ انتخاب کرکے اسے عمدہ ترتیب دی، شاملہ پر دستیاب ہے” الحاوی فی التفسیر یا جنة المشتاق“ کے نام سے نیٹ پر سرچ کرکے آپ ڈاوٴن لوڈ کرسکتے ہیں۔
شیخ عبدالرحمن القماش نے ۲۰۰۳ء سے لے کر۲۰۴۲ء یعنی ۱۲/ سال کے دوران چار ضخیم تفاسیر مرتب کی جن کی تفصیل یہ ہے :
۱-کنز الطالبین المہذب لموسوعة روضات العالمین الجامعة للطائف کتاب رب العالمین جس کے صفحات کی تعداد 256470ہے۔
۲-موسوعة لطائف التفاسیر المسماة روضات العالمین الجامعة للطائف کتاب رب العالمین صفحات: 555585
۳-موسوعة القماش فی لطائف التفاسیر المسماة مشارق الانوار فیما حوتہ التفاسیر من لطائف والأنوار نکات وأسرارہ صفحات:187429
۴- الحاوی فی تفسیر القرآن الکریم و علومہ المسماة جنة المشتاق فی تفسیر کلام الملک الخلاق۔ (النسخة الملیونیة مجلد) صفحات: 2,406,777
گفتگو کے دوران مسجد بورسلی کا تذکرہ آیا، تو معلوم ہوا کہ کویت کی ایک مالدار فیملی نے بنائی ہے، تو بندہ نے کہا کہ میں شیخ عادل بورسلی کو جانتا ہوں!! تو بہت خوش ہوئے کہ عجیب اتفاق ہے!( عادل بورسلی کی جانب سے ہمارے یہاں پاتھری مہاراشٹرا میں لڑکیوں کا مدرسہ بنا ہے) آپ کہنے لگے وہ اذان بہت اچھی دیتے ہیں، تو میں نے کہا بالکل درست پھر تو وہی ہیں۔
فلسطین اور مسلم حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی:
اسی دوران فلسطین کا ذکر چِھڑ گیا ،تو بڑے درد کے ساتھ مسلم حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی پر افسوس کرنے لگے کہ غیروں سے زیادہ اہلِ فلسطین کو تکلیف پہنچانے والے ہمارے ہی حکمران خود ہیں، جو چار ماہ سے صرف خاموش ہی نہیں اسرائیل کی مدد میں لگے ہوئے ہیں۔
اپنی مقبولیت کی وجہ سے راس الخیمہ سے مصر لوٹائے جانے کا قصہ بھی بڑے درد سے سنایا، مگر ماشاء اللہ دین پر استقامت زبردست ہے ۔
یہود کے بارے میں اللہ کی ناراضگی اور شدید غضب کے لیے بڑا جاندار استدلال پیش کیا کہ پورے قران میں اللہ نے ”کرہ “کا لفظ استعمال نہیں کیا، ”ان اللہ لایحب“ جیسیے الفاظ بہ کثرت ہیں۔ ” کرہ “کا لفظ ایک ہی جگہ پر یہود ہی کیے لیے استعمال ہوا ہے، ﴿وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَہُ عُدَّةً وَلَٰکِن کَرِہَ اللَّہُ انبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ وَقِیلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِین﴾َ (توبہ:۴۶) کہا: اس لیے یہ بڑی رذیل قوم ہے، اپنے آپ کو اعلیٰ تصور کرتے ہیں، باقی سب کو گدھے اور خنزیر گردانتے ہیں، چاہے وہ کوئی بھی ہو، یہاں تک کے بائڈن کو بھی، کیوں کہ وہ بھی یہودی نہیں ہے۔ میں نے کہا : ﴿ لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْأُمِّیِّینَ سَبِیلٌ وَیَقُولُونَ عَلَی اللَّہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُونَ ﴾(أل عمران:۷۵) کہا ہے قرآن نے ،تو شیخ نے کہا:جی بالکل درست فرمایا۔
پھر مزید مانوس ہوگئے تو اپنی شخصی پریشانی بھی بیان کردی، کہنے لگے کہ اسکندریا کے ایک شخص نے مجھ سے راس الخیمہ میں دوستی کی، چار سال تک پانچوں نمازیں صف اول میں پڑھتا رہا، ڈارھی بھی ماشاء اللہ لمبی رکھی تھی، اس نے تدین کے پردے میں مجھے دھوکہ دیا، بڑی مشکل سے ایک ایک پیسہ جمع کیا تھا، وہ لے کر غائب ہوگیا۔گفتگو کے دوران کہنے لگے کہ علم کی اب کوئی قدر نہیں ہے، بندہ بلاد الحرمین میں رہ کر آخری زندگی گزارنے کا خواہاں ہے۔ اللہ موصوف کے لیے کوئی سبیل نکال دے، بندہ نے سوال کیا کہ حج عمرہ ہوا؟ تو جواباً عرض کیا کہ جی سر حج ہوگیا ہے، مگر ابھی بھی دل نہیں بھرا ہے ۔
علمائے ربانیین زیرِ حراست اور علمائے سلاطین زیرِ عاطفت:
سعودی زیر گفتگو آیا تو بہت متأسف ہوئے کہ علمائے ربانیین زیرِ حراست لے لیے گئے ہیں اور علمائے سلاطین آزاد گھوم رہے ہیں اور کہنے لگے کہ” مشکوة“ کے نام سے ویب سائٹ تھی، اسے سعودی حکومت نے بند کروادیا، جب کہ اس پر ہزاروں کتابیں تھیں، میں نے کہا تو کتابوں کا کیا ہوا؟ کہنے لگے کہ سب ضائع ہوگئیں !!! فلاحول و لا قوة إلا باللہ العلی العظیم۔بندہ نے بھی اس ویب سائٹ سے بہت استفادہ کیا ہے ۔
آپ نے کہا کہ غزہ کے لیے عشاء اور فجر میں ہم قنوت نازلہ کا اہتمام کررہے ہیں اور کہا کہ بندہ نے کافی عرصہ قبل اپنی حیثیت کی مطابق غزہ کی کچھ مدد کی تھی، تو اس کی برکت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت بھی ہوئی، آپ نے سراہا کہ یہ آپ نے بہت اچھا کام کیا، ماشاء اللہ ۔پھر کہنے لگے کہ اہلِ غزہ کی مدد پوری امت پر واجب ہے ،مگر افسوس کہ امت غفلت میں پڑی ہے ۔
اس کے بعد کہنے لگے کہ میں تو اہلِ غزہ کی پل پل کی خبریں رکھتا ہوں اور اپنے حلقہٴ احباب کو بھی مطلع کرتا رہتاہوں اور کچھ لکھتا بھی ہوں اپنے بس میں جتنا ہوسکتا ہے کرتا ہوں۔ جزاہ اللہ خیرا۔
اور پھر کہنے لگے کہ علماء نے جو لکھاہے کہ حدیث میں ہے علماء کی روشنائی شہید کے خون سے زیادہ وزنی ہوگی جب کہ خون قیمتی ہے اور روشنائی ادنیٰ درجہ ،مگر پھر بھی اتنی وقعت قابلِ رشک ہے۔
سفر سے حاصل شدہ اسباق:
راستہ میں کھانا کھایا اور ہوائی اڈہ پہنچے، اس دوران شیخ صادق سے بات کرتے ہوئے دریافت کیا، شیخ اسلام پر فکری یلغار کے لیے یوروپی اقوام نے چار خطوں کا انتخاب کیا، مصر، ہندوستان، ترکی اور حجازِ مقدس، مگر اللہ نے ہر جگہ اسلامی تحریکات کو کھڑاکیا، آپ کی نظر میں کامیاب ترین تحریک کس خطے کی ہوسکتی ہے؟ قدرے سوچنے کے بعد کہا کہ ہندوستان ،میں نے کہا بالکل صحیح۔ اس سفر کے بعد بندے نے گویا چاروں خطوں کا مشاہدہ کرلیا اور علی وجہ البصیرہ کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان کی اسلامی تحریکات کامیاب رہیں، اس لیے کہ یہاں چار طرح کی محنت ہوئی، مدارسِ اسلامیہ کے ذریعہ علما وجود میں آئے، گویا دینی قیادت زندہ رہی۔ مکاتب کے ذریعہ بچوں میں دین کو زندہ رکھاگیا، دعوت و تبلیغ کے ذریعہ بڑوں میں دین زندہ ہوا اور خانقاہوں کے ذریعہ خواص کا تزکیہٴ نفس ہوا۔ اس طرح کوئی بھی طبقہ احیائے دین سے چھوٹ نہ سکا ۔
دوسری کامیاب تحریک نجدی ہے۔ جسے سیاست کے زور پر فروغ دیا گیااور باقی رکھا گیا، اب چوں کہ سیاست وہ نہیں، لہٰذا بگاڑ نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے ،اللہ خیر مقدر فرمائے۔ وہاں عقیدہ اور قانون میں سختی کے ذریعے کوشش ہوئی، جو ،اب کمزور ہوتی نظر آرہی ہے۔
تیسری کامیاب تحریک ترکی ۔ترکی میں تصوف اور سائنسی اسلوب کے ذریعہ کوشش ہوئی، جو اب سو سال بعد اثر دکھا رہی ہے ۔
چوتھی تحریک ۔مصر میں محض تعلیم یافتہ طبقہ میں دین کو زندہ رکھنے کی سعی ہوئی، جس میں کافی لچک تھی، لہٰذا یہ سیاست تک پہنچنے کے بعد کمزور پڑ گئی اور اب بگاڑ میں شدت پیدا ہورہی ہے کہ علما بھی سہولتیں فراہم کررہے ہیں۔
نماز ِفجر اور داڑھی سے متعلق مصری علماء کا فتویٰ:
فجر کے بارے میں ہمارے طلبہ نے جو وہاں زیرِ تعلیم ہیں: قاری شفیق مارول کے صاحبزادے عمار سلمہ اور ان کے رفقاء نے بتلایا کہ فجر سے متعلق یہاں یہ فتویٰ ہے کہ جب آنکھ کھلے پڑھ لو تو ادا ہوجائے گی، ڈاڑھی کے بارے میں بھی حلق کی اجازت وغیرہ ۔
خلاصہٴ کلام یہ کہ برصغیر کی احیائی تحریک سب سے کامیاب ہے، اس لیے کہ اس نے ہر طبقہ پر محنت کی نیچے سے لے کر اوپر تک، دوسرے خطوں کے لیے بھی یہ قابلِ تقلید ہے اور ہمارے لیے بھی ضروری ہے کہ مدارس، مکاتب، دعوت وتبلیغ اور خانقاہی نظاموں کو مزید مستحکم اور موٴثر بنانے کی کوشش کریں، تاکہ ان کے اثرات ماند نہ پڑنے پائیں اور بدستور مزید منظم ہو کر سامنے آئیں۔
یونیورسیٹیز کے بچوں کو الحادِ جدید کے حملوں سے بچانے کی فکر:
اب ضرورت ہے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے مسلمان بچوں کو الحاد جدید کے نئے حملوں سے بچانے کے فکر کی جائے اور اس کے لیے پروگرام بنائے جائیں۔ اور اس کے لیے مؤثر اسلامی اسکول کا ماڈل تیار کیا جائے، اسی طرح عصری تعلیم اسلامی ماحول کے ماڈل کو رائج کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے والد صاحب کے شیخ عارف باللہ قاری صدیق صاحب باندوی نوراللہ مرقدہ نے یہ فکر اور ماڈل دیا تھا” عصری تعلیم دینی ماحول میں“ اس کامیاب ماڈل کو مزید بہتر بناکر عام کیا جائے، جس کے لیے مسلمان تاجر حضرات ِعلماء اور ماہرینِ تعلیم کے ساتھ مل کر مضبوط قدم آگے بڑھائیں۔ امید کہ بڑا کام ہوگا ان شاء اللہ! ۔
دینی اعتبار سے مصر کے حالات:
مصر کے دینی اعتبار سے ابتر حالات کے بارے میں لکھنا تھا ،جلد بازی میں رہ گیا تو سوچاکہ مستقل اس پر روشنی ڈالی جانی چاہیے۔
امتِ مسلمہ آج سے چار سو سال قبل انتہائی مضبوط امت تھی، جسے منتشر کرنے میں دشمنِ دین حق کو تین صدیاں لگیں، فرق وسد یعنی Divide and Rools ”لڑاؤ اور حکومت کرو “ کے ناپاک اصول پر عمل کیا، ایک طرف عربوں میں قومیت کا بیج بویا ، ،اسی طرح مصریوں یونانیوں اور بلغاریوں کو قومیت کے نام پرترکوں سے لڑوایا، پھر ہر جگہ کی اسلام سے پہلے والی تہذیبوں کو قبروں سے اکھاڑ کر زندہ کیا۔ عراق میں بابلی، ایران میں مجوسی اور مصر میں فرعونی و قبطی تہذیب کو زندہ کیا، قاہرہ کے ہوائی اڈے سے باہر آتے ہی فرعونی و قبطی مجسمہ بنا ہوا ہے اور جگہ جگہ اس کی تصویریں اور مجسمے بنے ہوئے ہیں،” بورسعید“ شہر میں بھی عورتوں کے مجسمے بنے ہوئے ہیں، اس سے ان کے قدیم تہذیب سے وابستگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
جدت پسند طبقہ کو فرانس اور یورپ بھیج کر موڈرنزم سے متأثر کروایا۔ رفاعہ طہطاہوی وغیرہ نے ناچ گانے اور آزادی ٴنسواں کی تحریک یہیں سے چلائی، طہٰ حسین ،احمد امین وغیرہ نے اسلامی تہذیب سے بغاوت کا اعلان یہیں سے کیا، گویا مغربیت کا عالم اسلام میں پہلا پڑاؤ مصر ہی رہا ہے۔
خلافتِ عثمانیہ سے انیسویں صدی کے اوائل میں بغاوت کا آغاز بھی مصر ہی سے ہوا۔ محمد علی نے بغاوت کی، اس کے بعد سنتِ رسول کا نرم انداز میں انکار اور جدید سائنس سے مرعوبیت کے ساتھ معجزات کا انکار، بے اصولی کے ساتھ قرآن کی سائنسی تفسیر کا آغاز بھی جمال الدین افغانی، محمد عبدہ اور رشید رضا مصری کے حلقے نے یہیں سے کیا، گویا تعلیمی، سیاسی اور معاشرتی تمام میدانوں میں مغربی تہذیب سے مصالحت کا عالم اسلام میں پہلا مرکز مصر ہی ہے۔آج دو صدی کے بعد وہاں کے عوام اور علما کا دین کے ساتھ کمزور تعلق اسی کا نتیجہ ہے، لہٰذا مسلمانوں کے لیے اس میں عبرت کا سامان ہے کہ اپنے دین کے اصولوں سے مصالحت کی راہ اختیار کرنے سے بچنا چاہیے ورنہ مسلمان معاشرہ کہیں کا نہیں رہتا ۔
بندہ حیرت زدہ ہے کہ ترقی کے نام پر چلائی گئی تمام تر تحریکات کے باوجود مصر کسی بھی میدان میں ترقی نہیں کرسکا ،بل کہ’ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘ جیسی صورتِ حال ہوئی۔ قرآن کا فرمان صحیح صادق آیا:﴿ وَاَنْتُمُ الْْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ﴾کہ مومن رہے تو سربلندی ملے گی۔ حضرت عمر نے اسی کو آسان کر کے دوٹوک الفاظ میں سمجھایا:” أعزنا اللہ بالإسلام ولو ابتغینا العزة بغیر الاسلام لأذّلنا اللہ“ کہ اللہ نے ہمیں اسلام کی برکت سے عزت دی ہے، اگر ہم نے اسلام کو چھوڑکر کسی اور راستے سے عزت کے حصول کی کوشش کی تو اللہ ہمیں ذلیل کرکے چھوڑے گا۔
حضرت امام مالک نے بھی صحیح کہا :لن یصلح آخر ہذہ ألامة إلا بما صلح بہ أولہا جس طریقہ پر چل کر رعیت اوّل نے ترقی حاصل کی ہے آخری دور کے مسلمان بھی اسی طریقے پر چل کر ترقی اور صلاح و فلاح کے حصول میں کامیاب ہوں گے۔ الحمدللہ الذي شرح صدری بالإسلام ۔
تمام تعریفیں اس رب ذوالجلال کے لیے سزاوار ہیں، جس نے اسلام پر مجھے شرح ِصدر جیسی انتہائی عظیم نعمت سے مالا مال کیا۔ میرے پاس اس نعمت کے شکر کے لیے الفاظ نہیں، میں کیسے تیرا شکر ادا کروں یارب! اتنا ضرور کرسکتاہوں کہ دو رکعت نماز پڑھوں محض تیری توفیق سے ۔
بہرحال بندہ نے ہوائی سفر کے چھ گھنٹے کے دوران سفر نامے کو مکمل کیا محض اللہ کی توفیق سے، اللہ قبول فرمائے اور اپنی رضا والے راستے پر چلنے کی اخلاص کے ساتھ توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین!