(تلخیص از:مقامِ صحابہ ؓ مفتی شفیع صاحبؒ)
لفظ ’’مشا جرہ ‘‘شجر سے مشتق ہے ‘ جس کے اصل معنی تنے داردرخت کے ہیں، جس کی شاخیں اطراف میں پھیلتی ہیں ‘با ہمی اختلافات ونزاع کو اسی منا سبت سے مشاجرہ کہا جاتاہے کہ درخت کی شاخیں بھی ایک دوسرے سے ٹکر اتی اور ایک دوسے کی طرف بڑھتی ہیں ۔حضرات صحابہ کرا م رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جواختلا فات پیش آئے اور کھلی جنگوں تک نوبت پہنچ گئی ‘ علمائے امت نے ان کی باہمی حروب اور اختلافات کو جنگ وجدال سے تعبیر نہیں کیا‘بلکہ ازروئے ادب ’’مشا جرہ ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ؛کیوں کہ درخت کی شاخوں کا ایک دُوسر ے میں گھسنا اور ٹکر انا مجموعی حثییت سے کوئی عیب نہیں؛ بل کہ درخت کی زینت اور کمال ہے ۔
ایک سوال اور جواب
اسلام میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا درجہ اور مقام جو اُوپر قرآن و سنت کی نصوص اور اُمت اور اکا بر علما کی تصریحات سے ثابت ہوچکاہے ‘اس کے بعدایک قدرتی سوال یہ پیداہوتاہے کہ جب صحابہ کرام ؓ سب کے سب واجب التعظیم اورعدل وثقہ ومتقی وپرہیزگار ہیں تو اگر ان کے آپس میں کس مسئلے میں اختلاف پیش آجائے تو ہمارے لیے طر یق کا ر کیا ہونا چاہئے ؟ یہ تو ظاہر ہے کہ دو متضاد اقوال میں دونوں کو صحیح سمجھ کر دونوں ہی کو معمول نہیں بنایا جاسکتا،عمل کرنے کے لیے کسی ایک کو اختیار کرنا دوسرے کو چھوڑنا لازم ہے، تو اس ترک و اختیار کا معیار کیا ہو نا چاہیے ؟ نیز اس میں دونوں طرف کے بزرگوں کا ادب و احترام اور تعظیم کیسے قائم رہے گی جب کہ ایک کے قول کو مرجوح قراردے کر چھو ڑا جائے گا ؟
خوصوصاً یہ سوال ان معاملات میں زیادہ سنگین ہوجاتا ہے، جن میں ان حضرات کا اختلاف باہمی جنگ وخون ریزی تک پہنچ گیا ،ان میں ظاہر ہے کہ کوئی ایک فریق حق پر ہے دوسر ا خطا پر ، اس خطا و صواب کے معاملے کو طے کرنا عمل و عقیدہ کے لے ضروری ہے ،مگر اس صورت میں دونوں فریق کی یکسا ں تعظیم واحترام کیسے قائم رکھا جا سکتا ہے ؟ جس کو خطا پر قرار دیا جائے اس کی تنقیص ایک لازم امر ہے۔
جواب یہ ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ دو مختلف اقوال میں سے ایک کو حق یا راجح اوردوسرے کو خطا یا مرجوح قراردینے میں کسی ایک فریق کی تنقیص لازم ہے ۔اسلافِ امت نے ان دونوں کاموں کو اس طرح جمع کیا ہے کے عمل اور عقیدہ کے لیے کسی ایک فریق کے قول کو شریعت کے مسلمہ اصولِ اجتہاد کے مطابق اختیار اور دوسرے کو ترک کیا ،لیکن جس کے قول کو ترک کیا ہے اس کی ذات اور شخصیت کے متعلق کوئی ایک جملہ بھی ایسا نہیں کہا جس سے ان کی تنقیص ہوتی ہو،خصوصاً مشاجراتِ صحابہ میں تو جس طرح امت کا اس پر اجماع ہے کے دونوں فریق کی تعظیم واجب اور دونوں فریق میں سے کسی کو برا کہنا ناجائزہے ،اسی طرح اس پر بھی اجماع ہے کے جنگ جمل میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ حق پر تھے ان کا مقابلہ کرنے والے خطا پرتھے ،اسی طرح جنگ ِصفین میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ حق پر تھے اور ان کے مقابل حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اوران کے اصحاب خطاپر؛البتہ ان خطائوں کو اجتہادی خطا قرار دیا، جو شرعا گناہ نہیں؛ جس پر اللہ کی طرف سے عتاب ہو ،بل کہ اصولِ اجتہاد کے مطابق اپنی کوشش صرف کرنے کے بعد بھی اگر ان سے خطا ہوگئی توایسے خطائکرنے والے بھی ثواب سے محروم نہیں ہوتے ،ایک اجر ان کو بھی ملتا ہے ۔
باجماع امت ان حضراتِ صحابہ کے اس اختلاف کو بھی اسی طرح کااجتہاد ی اختلاف قرار دیا گیاہے، جس سے کسی فریق کے حضرات کی شخصیتیں مجروح نہیں ہوتیں ۔
اس طرح ایک طرف خطا وثواب کو بھی واضح کردیا گیا ،دوسری طرف صحابہ کرام کے مقام اور درجے کا پورااحترام بھی ملحوظ رکھا گیا ،اور مشاجراتِ صحابہ میں کفِ لسان اور سکوت کو اسلم قرار دے کر اس کی تاکید کی گئی کہ بلاوجہ ان روایات وحکایات میں خوض کرنا جائز نہیں، جو باہمی جنگ کے دوران ایک دوسرے کے متعلق نقل کی گئی ہیں ۔
مشاجرات صحابہ کے بارے میں سلف صالحین کے اقوال:
تفسیر قرطبی سورۂ حجرات میں آیت ’’وإن طائفتان من المؤمنین إقتتلوا ‘‘کے تحت مشاجرات صحابہ پر سلف صالحین کے اقوال کے ساتھ بہترین تحقیق فرمائی ہے، جس کا صرف ترجمہ تلخیص کے پیش نظر تحریرکیا جاتاہے :
ترجمہ :۔یہ جائز نہیں ہے کہ کسی بھی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جا ئے ، اس لیے کہ ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز ِعمل میں اجتہا د سے کام لیا تھا اور سب کا مقصد اللہ کی خوشنودی تھی ، یہ سب حضرات ؓ ہما رے پیشواہیں ، اور ہمیں حکم ہے کہ ان کے باہمی اختلافات سے کفِ لسا ن کریں ، او ر ہمیشہ ان کا ذکر بہتر ین طریقے پر کریں ، کیوںکہ صحابیت بڑی حرمت کی چیز ہے اور نبی ﷺ نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ، اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے انہیں معا ف کر رکھا ہے اور ان سے راضی ہے ، ان کے علاوہ متعدد سندوں سے یہ حدیث ثا بت ہے کہ آنحضر ت ﷺ نے حضرت طلحہ ؓ کے با رے میں فرمایا :
’’ان طلحۃ شہید یمشی علی وجہ الارض‘‘
یعنی طلحہ ؓروئے زمین ـپر چلنے والے شہید ہیں۔
اب اگر حضرت علی ؓکے خلاف حضرت طلحہ ؓ کا جنگ کے لیے نکلنا کھلا گناہ اور عصیان تھا ،تو اس جنگ میں مقتول ہوکر وہ ہرگز شہادت کا رتبہ حاصل نہ کرتے ، اسی طرح اگر حضرت طلحہؓ کا یہ عمل تاویل کی غلطی اور ادائے واجب میں کوتاہی قرار دیا جاسکتا تو بھی آپ کو شہادت کا مقام حاصل نہ ہوتا ؛کیوںکہ شہادت تو صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کوئی شخص اطاعتِ ربانی میں قتل ہوا ہو، لہذا ان حضرات کے معاملے کو اسی عقیدے پر محمول کرنا ضروری ہے ،جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔
اسی بات کی دوسری دلیل وہ صحیح اورمعروف ومشہور احادیث ہیں، جوخود حضرت علیؓ سے مروی ہیں اورجن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’زبیر کاقا تل جہنم میں ہے ‘‘۔
نیز حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ صفیہ کے بیٹے کو جہنم کی خبردے دو، جب یہ بات ہے تو ثابت ہوگیاکہ حضرت علی اورحضرت زبیر اس لڑائی کی وجہ سے گناہ گار نہیں، اگرایسا نہ ہوتو حضور صلی علیہ وسلم حضرت طلحہ کو شہید نہ فرماتے ، اورحضر ت زبیرکے قاتل کے بارے میں جہنم کی پیشین گوئی نہ کرتے ،نیز ان کاشمار عشرۂ مبشرہ میں ہے ،جن کے جنتی ہو نے کی شہادت تقریباًمتواتر ہے ۔
اسی طرح جوحضرا ت صحابہ ان جنگوں میں کنارہ کش رہے ،انہیں بھی تأویل میں خطا کار نہیں کہا جاسکتا ، بلکہ ان کا طرز ِعمل بھی اس لحاظ سے درست تھاکہ اللہ نے ان کواجتہاد میں اسی رائے پر قائم رکھا ،جب یہ بات ہے تو اس وجہ سے ان حضرا ت پر لعن طعن کرنا ، ان سے براء ۃ کا اظہار کرنا اور انہیں فاسق قرار دینا، ان کے فضائل ومجاہدات اوران کے عظیم دینی مقامات کوکالعدم کردینا کسی طرح درست نہیں ہے ۔بعض علماسے پوچھاگیاکہ اس خون کے بارے میں آپ کی کیارائے ہے، جوصحابہ کرام کہ باہمی مشاجرات میں بہایاگیا ؟توانہوں نے جواب میںیہ آیت پڑھ دی کہ :
’’تلک أمۃ قد خلت لھاماکسبت ولکم ماکسبتم ولاتسئلون عماکانوایعملون ‘‘۔
ترجمہ :۔یہ ایک امت تھی جوگزرگئی ،اس کے اعمال اس کے لیے ہیں ،اورتمہارے اعمال تمہارے لیے ہیں،اورتم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کیاجائے گا۔
کسی اوربزرگ سے یہی سوال کیا گیا توانہوں نے کہا:
’’یہ ایسے خون ہیں کہ اللہ نے میر ے ہاتھوں کو اس میں (رنگنے سے )بچایا ،اب میں اپنی زبان کو ان سے آلودہ نہیں کر وں گا‘‘ ۔مطلب یہی تھا کہ میں کسی ایک فریق کوکسی معاملے میں یقینی طورپر خطا کارٹھہرانے کی غلطی میں مبتلانہیں ہو‘نا چاہتا۔
(صحیح طریقہ)مشاجرات صحابہؓ میں سکوت اختیار کرنا ہے۔
یہ مختصر تحریر مقام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین حضرت مفتی شفیع صاحبؒ سے تلخیص کرکے نذرقارئین کی گئی ہے۔اس میں مفتی صاحب نے سلف وخلف،متقدمین ومتأخرین علمائے امت کے عقائد واقوال کا جن میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عدل وثقہ ہونے پر بھی اجماع واتفاق ہے اوراس پر بھی کہ ان کے درمیان پیش آنے والے مشاجرات میں خوض نہ کیا جائے یا سکوت اختیار کریں یا پھر ان کی شان میں کوئی ایسی بات کہنے سے پرہیز کریں جس سے ان میں سے کسی کی تنقیص ہوتی ہے۔
صحابہ کرام ؓمعصوم نہیں،مگر مغفور ومقبول ہیں:
اسی کے ساتھ ان سب حضرات کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ صحابہ کرامؓ،انبیاء علیہم السلام کی طرح معصوم نہیں،ان سے خطائیں اورگناہ سرزد ہوسکتے ہیں اورہوئے ہیں،جن پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حدود اورسزائیں جاری فرمائی ہیں،احادیثِ نبویہ میں یہ سب واقعات ناقابل انکار ہیں۔مگر اس کے باوجود افرادِ امت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بہ چند وجوہ خاص امتیاز حاصل ہے۔
۱:…اول یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت سے حق تعالی نے ان کو ایسا بنادیا تھاکہ شریعت ان کی طبیعت بن گئی تھی ،خلاف شرع کوئی کام یا گناہ ان سے صادر ہونا انتہائی شاذ ونادر تھا؛ان کے اعمال صالحہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوردین اسلام پر اپنی جانیں اورمال واولاد سب کو قربان کرنا اورہر کام پر اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضیات کے اتباع کو وظیفۂ زندگی بنانا اوراس کے لیے ایسے مجاہدات کرنا، جس کی نظیرپچھـلی امتوںمیں نہیں ملتی،ان بے شمار اعمال صالحہ اورفضائل وکمالات کے مقابـلے میں عمر بھر میں کسی گناہ کا سرزد ہوجانا اس کو خود ہی کالعدم کردیتا ہے۔
۲:…دوسرے ،اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وعظمت اورادنی گناہ کے صدور کے
وقت ان کا خوف وخشیت اورفوراً توبہ کرنا ؛بل کہ اپنے آپ کو سزا جاری کرنے کے لیے پیش کردینا اوراس پر اصرار کرنا۔روایات حدیث میں معروف ومشہور ہیں،بحکم حدیث توبہ کرلینے سے گناہ مٹادیا جاتا ہے اورایسا ہوجاتا ہے کہ کبھی گناہ کیا ہی نہیں۔
۳:…قرآنی ارشاد کے مطابق انسان کے حسنا ت بھی اس کی سیٔات کا خود بخود کفارہ ہوجاتی ہیں۔
’’ان الحسنات یذہین السیئات‘‘۔
۴:اقامت دین اورنصرت اسلام کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتہائی عسرت وتنگ دستی اورمشقت ومحنت کے ساتھ ایسے معر کے سرکرنا کہ اقوام عالم میں ان کی نظیر نہیں۔
۵:-ان حضرات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے درمیان واسطہ اور رابطہ ہونا ، کہ باقی امت کو قرآن وحدیث اور دین کی تمام تعلیمات انہیں حضرات کے ذریعہ پہنچی ، ان میں خامی وکوتاہی رہتی تو قیامت تک دین کی حفاظت اور دنیا کے گوشے گوشے میں اشاعت کا کوئی امکان نہیں تھا ، اس لیے حق تعالیٰ نے آنحضرت ؐکی صحبت کی برکت سے ان کے اخلاق وعادات ،ان کے حرکات و سکنات کو دین کے تابع بنادیا تھا ، ان سے اول تو گناہ صادر ہی نہ ہوتا تھا ، اور اگر عمر بھر میں کبھی شاذ و نادر کسی گناہ کا صدور ہوگیا ،تو فوراً اس کا کفارہ توبہ واستغفار اور دین کے معاملے میں پہلے سے زیادہ محنت ومشقت اٹھا کر کردینا ان میں معروف ومشہور تھا ۔
۶:… حق تعالیٰ نے ان کو اپنے نبی ؐ کی صحبت کے لیے منتخب فرمایا اور دین کاواسطہ اور رابطہ بنایاتو ان کو یہ خصوصی اعزاز بھی عطا فرمایا کہ اسی دنیا میں ان سب حضرات کی خطائوں سے درگزراور معافی اوراپنی رضاء ورضوان کا اعلان کردیااور ان کے لئے جنت کا وعدہ قرآن کریم میں نازل فرمادیا ۔
۷:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو ہدایت فرمائی کہ ان سب حضرات سے محبت وعظمت علامت ایمان ہے،اور ان کی تنقیص وتوہین خطرئہ ایمان اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذاء کا سبب ہے ۔
یہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر ان کے معصوم نہ ہونے اورشاذونادر گناہ کے صدور کے باوجود ان کے متعلق امت کا یہ عقیدہ قرارپایا کہ ان کی طرف کسی عیب وگناہ کی نسبت نہ کریں ،ان کی تنقیص وتوہین کے شائبہ سے بھی گریز کریں ،ان کے درمیان جو باہمی اختلاف اور مقابلہ تک کی نوبت آئی ان مشاجرات میں اگر چہ ایک فریق خطاء پر ،دوسراحق پر تھا،اور علمائے امت کے اجماع نے ان مشاہدات میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کاحق پر ہونا اور ان کے بالمقابل جنگ کرنے والوں کا خطاء پر ہونا پوری صراحت ووضاحت کے ساتھ بیان کردیا،لیکن ساتھ ہی قرآن وسنت کی نصوص مذکورہ کی بناء پر اس پر بھی سب کااجماع واتفاق ہواکہ جوفریق خطا پر بھی تھااس کی خطا بھی اوّلا اجتہادی تھی جو گنا ہ نہیں ،بلکہ اس پر ایک اجر ملنے کا وعدہ حدیثِ صحیح میں مذکور ہے،اور اگر قتل وقتال اور جنگ کے ہنگاموں میں کسی سے و اقعی کوئی لغزش او ر گناہ ہوا بھی ہے تو وہ اس پر نادم و تائب ہوئے ،جیسا کہ اکثر حضرات سے ایسے کلمات منقول ہیں (اگلے صفحات پران کا ذکر کیا جائے گا)۔
اقوالِ اکابر:
قرآنِ کریم نے ان کی مدح وثناء اور ان سے ٖ ا للہ تعالٰی کے راضی ہونے کا بھی اعلان فرمادیا، جو عفو ودرگزر سے بھی زیادہ اونچا مقام ہے۔
جن حضرات کے اتفاقی گنا ہوں اور خطا وں کو بھی حق تعا لیٰ معا ف کر چکا تو اب کسی کو کیا حق ہے کہ ان گنا ہو ں اور خطائوں کا تذکرہ کر کے اپنا نا مۂ اعمال سیاہ کرے اور اس مقدس گروہ پر امت کے اعتقاد واعتماد میں خلل ڈال کر دین کی بنیادو ں پر ضرب لگا ئے ، اس لئے سلف صالحین نے عموما ان معاملا ت میں کفِ لسان اور سکوت کو ایما ن کی سلا متی کا ذریعہ قرار دیا۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے بلا استثنا سب صحابہ کرامؓ کے حق میں فرمایا: وہ پاک دل، عادات واخلاق میں سب سے بہتر ،اللہ تعالی کے منتخب بندے ہیں، ان کی قدر کرنا چاہیے۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے قتالِ صحابہؓ کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ:یہ معاملہ ایساہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ اس میں حاضر اور موجود تھے او ر ہم غائب ،وہ حالات ومعاملات کی صحیح حقیقت جانتے تھے ،ہم نہیں جانتے ،اس لیے جس چیز پر وہ متفق ہو گئے ہم نے ان کا اتباع کیا اور جس چیز میں ان کا اختلاف ہو ا اس میں ہم نے توقف اور سکوت کیا۔
(روایت نمبر ۱۱۴ ز قرطبی)
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے ہمارے مشاجرات صحابہ میں گفتگوکرنے کے متعلق فرمایا یہ وہ خون ہیں جن سے اللہ نے ہمارے ہاتھوں کو پاک رکھا ہے (کیونکہ ہم اس وقت موجود نہ تھے ) اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنی زبانوں کو بھی اس خون سے آلودہ نہ کریں ؛یعنی کسی صحابہ پر حرف گیری نہ کریں اور کوئی الزام نہ لگائیں ؛بل کہ سکوت اختیار کریں۔
(روات نمبر ۱۵شرح مواقف )
امام مالک ؒکے سامنے جب ایک شخص نے بعض صحابہ اکرم کی تنقیص کی تو آپ نے قرآن کی آیت والذین معہ سے لیغیظ بھم الکفار تک تلاوت فرمائی اور کہاکہ جس شخص کے دل میں کسی صحابی کی طرف سے غیظ ہو وہ اس آیت کی زد میںہے ۔ ذکرہ الخطیب ابوبکر۔ اور حضرت امام مالک ؒ نے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا جو صحابہ کرام کی تنقیص کرتے ہیں کہ : یہ وہ لوگ ہیں،جن کا اصل مقصد رسول اللہ ﷺکی تنقیص ہے ،مگر اس کی جرأت نہ ہوئی تو آ پﷺ کے صحابہ کی برائی کرنے لگے؛ تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ معاذاللہ خود رسول اللہﷺبرے آدمی تھے ،اگر وہ اچھے ہو تے تو ان کے صحابہ بھی صالحین ہوتے۔
(الصارم المسلول ابن تیمیہ ؒ)
امام احمد بن حنبل ؒنے فرمایا کسی مسلمان کے لیے جائزنہیں کہ صحابہ کرام کی برائی کا تذکرہ کرے یا ان پر کسی اور نقص کا طعن کرے اور اگر کوئی ایسی حرکت کرے تو اسے سزا دینا واجب ہے اور فرمایا: جس شخص کو کسی صحابہ کا برائی کے ساتھ ذکر کرتے دیکھو،تو اس کے اسلام وایمان کو متہم ومشکوک سمجھو۔
اور ابراھیم بن میسر ہ ؒکہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو کبھی نہیں دیکھا کہ کسی کوخود مارا ہو مگر ایک شخص جس نے حضرت معاویہ ؓپر سب وشتم کی اس کو انہوں نے خود کوڑے لگائے۔
( رواہ اللالکائی ذکرہ ابن تیمیہ فی الصارم المسلول )
امام ابو زرعہ عراقی ؒاستاذ مسلم ؒ نے فرمایا: کہ تم جس شخص کو کسی صحابی کی تنقیص کرتے دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے جوقرــآن وسنت سے امت کا ا عتماد زائل کرنا چاہتاہے ٗاس لیے اس کو زندیق اور گمرا ہ کہنا ہی حق وصحیح ہے ۔
یہ تو چند اسلاف امت کے خصوصی ارشادات ہیں اس کے علاوہ مذکور الصدرعبارات میں اس امت کا اجمالی عقید ہ بتلا یا ہے، جس سے انحراف کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ۔
مشاجراتِ صحابہ کے معاملہ میں صحابہ وتابعین اور ائمہ مجتہدین کا عقیدہ اور فیصلہ ہے کہ خواہ اس وجہ سے کہ ہم ان پو رے حالات سے واقف نہیں،جن میں یہ حضرات ِصحابہ گزرے ہیںیا اس وجہ سے کہ قرآن و سنت میں ان کی مدح و ثنا اور رضوانِ خداوندی کی بشارت اس کو مقتضی ہے کہ ہم ان سب کو اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے سمجھیں اور ان سے کوئی لغزش بھی ہوئی ہے تو اس کو معاف قرار دے کر ان کے معاملے میں کوئی ایسا حرف زبان سے نہ نکالیں، جس سے ان میں سے کسی کی تنقیص یا کسر ِشان ہوتی ہو، یا جو ان کے لیے سبب ایذا ہوسکتی ہے ، کیوں کہ ان کی ایذا ء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا ء ہے ۔ بڑ ا بد نصیب ہے وہ شخص جو اس معاملے میں محقق مفکر بہادری کا مظاہرہ کرے اور ان میں سے کسی کے ذمہ الزام ڈالے۔
سبّ وشتمِ صحابہؓ کا شرعی حکم: (بقیہ صفحہ نمبر…۲۸)
۱-صحابہ کا مرتبہ اور اُن کے خصوصی اوصاف کا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے: {لیَغیظ بہم الکفارَ} [الفتح: ۲۹] (تاکہ دِل جلائے اُن کے ذریعے کافروں کا)۔
اِمام مالکؒ فرماتے ہیں: جس کے دِل میں کسی بھی صحابی کی طرف سے کچھ بھی غیظ اور کھوٹ ہوگا، وہ اِس آیت کا مصداق ہے۔ یعنی اُس کے اندر کفر کی بو پائی جاتی ہے، اِسی وجہ سے وہ صحابہ سے جلتا ہے۔
مفسر قرطبیؒ امام مالک کے قول کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لقد أحسن مالک في مقالتہ، وأصاب في تأویلہ، فمن نقص واحداً منہم، أو طعن علیہ في روایتہ فقد ردَّ علی اللّٰہ رب العالمین، وأبطل شرائع المسلمین …۔ اس کے بعد امام قرطبی نے سبِّ صحابہ کی ممانعت میں بہت سی آیات واَحادیث بھی پیش کیں، اور اِس بارے میں اہل السنۃ والجماعۃ کے مسلک کو پوری وضاحت کے ساتھ محقق فرمادیا ہے (تفسیر قرطبی ۱۶؍۲۹۷)۔
۲- مختلف اَحادیث میں ’’سبِّ صحابہ‘‘ (صحابہ پر تنقید وتبصرے) کی ممانعت وارِد ہوئی ہے، جب کسی عام مسلمان کا ’’سِباب‘‘ فسق ہے، تو صحابۂ کرام کا سباب تو انتہائی خطرناک درجے تک پہنچتا ہے، مشہور محدِّث امام ابو زرعہ رازیؒ فرماتے ہیں: جس شخص کو کسی صحابی کی تنقیص کرتے دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ بددین اور زندیق ہے، جو ہمارے گواہوں کو مجروح اور ہمارے دین وعقیدے کو مشکوک کرنا چاہتا ہے (الکفایہ للخطیب البغدادی ص ۴۹)۔
واضح رہے کہ سبّ اور شتم: یہ دونوں عربی الفاظ ہیں، جن کے معنی ہیں: نقد وتبصرہ، اور برا تذکرہ۔ اِس لیے اِن الفاظ کو بازاری قسم کی گالم گفتار کے لیے خاص سمجھنا درست نہیں۔
۳- پھر یہاں ایک بات اور سمجھنے کی ہے، وہ یہ کہ ایک چیز ہے غیبت، دوسری چیز ہے بہتان، صحیح احادیث میں یہ وضاحت وارِد ہوئی ہے کہ کسی مسلمان کے اندر یقینی طور پر موجود عیب کو بلاضرورتِ شرعیہ بیان کرنا غیبت کہلاتا ہے، جس کا حکم سبھی کو معلوم ہے، جب کہ غلط طور پر اُس کی طرف کسی برائی کے اِنتساب کو بہتان کہتے ہیں، جو غیبت سے بھی بدتر چیز ہے۔
تو صحابہ سے متعلق: کسی بھی قسم کا منفی اِظہارِ رائے، کم اَز کم غیبت کے زمرے میں تو بہرحال آتا ہے۔ لہٰذا جس طرح اپنے نسبی باپ دادا کی خطاؤں اور لغزشوں کو جانتے بوجھتے بھی چھپایا اور نظر انداز کیا جاتا ہے، اُس سے کہیں زیادہ اپنے روحانی، ایمانی، علمی اور عملی آباء واجداد کی پردہ پوشی اور اِغماض کی ضرورت ہے۔
۴- امام اعظم ابوحنیفہؒ نے اپنے عقائد کے مجموعہ ’’الفقہ الاکبر‘‘ ص ۴۳میں یہ بات ذکر فرمائی ہے کہ ’’ہم لوگ کسی بھی صحابی کا تذکرہ نہیں کرتے مگر خیر کے ساتھ‘‘۔
۵- سیدنا حضرت علیؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اہل جمل و صفین کے متعلق نامناسب کلام کررہا ہے توفرمایا: ان کے بارے میں بھلائی کے علاوہ کچھ نہ کہو، ان لوگوں نے سمجھا ہم نے ان کے خلاف بغاوت کی ہے، اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے، اس لیے ہم ان سے قتال کررہے۔ (منہاج السنۃ: ۲؍۶۱)۔
غلط فہمی کا ازالہ:
اِمام اِسحاق بن راہویہؒ سے نقل کیا جاتا ہے کہ سیدنا حضرت امیر معاویہؓ کے فضائل میں کوئی صحیح حدیث وارِد نہیں ہوئی ہے!!
أ: اِس سلسلے میں پہلی بات تو یہ عرض ہے کہ ’’فضائل‘‘ کا باب تو ایک اِضافی چیز ہے، نہ معلوم کتنے صحابہ اور صحابیات، بناتِ طیبات، بلکہ بہت سے انبیائے کرام علیہم السلام کی ذواتِ قدسیہ ایسی ہیں کہ اُن کے نام اور شخصیت کی تعیین کے ساتھ، کوئی حدیث وارِد نہیں ہوئی ہے، تو اِس میں نقص کون سا ہے؟ کیا کسی ذات کی فضیلت کے لیے تنہا اُس کا (نبی، یا) صحابی ہونا کافی نہیں؟
ب: دوسری بات یہ کہ امام اِسحاق بن راہویہ کا یہ اِرشاد ایک محدِّثانہ اصطلاح کے پس منظر میں ہے، تفصیل کا موقع نہیں، خلاصہ اُس کا یہ ہے کہ اصطلاحی صحت کی نفی سے، نہ ثبوت کا اِنکار لازم آتا، نہ ضعف کا اِثبات، لہٰذا ’’حسن‘‘ ہونے کا احتمال باقی رہتا ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ وغیرہ محققین نے اس کی صراحت فرمائی ہے، اور علامہ عبدالحئی لکھنویؒ نے ’’الرفع والتکمیل‘‘ (ص ۱۹۱-۱۹۸) میں اِس پر مستقل فصل بھی قائم فرمائی ہے۔
ج: چنانچہ حضرت امیر معاویہؓ کے فضائل میں امام ترمذیؒ نے ایک حدیث کی تخریج فرماکر، اُس پر ’’حسن‘‘ ہونے کا حکم لگایا ہے، حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ’’قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لِمُعاویۃ: اللہم اجعلہ ہادیاً مَہدیاً، واہدِ بہ‘‘ [جامع ترمذی: ۳۸۴۲]۔
د: اِس کے علاوہ بابِ فضائل میں تو باتفاقِ محدثین حدیثِ ضعیف بھی معتبر ہے، اور حضرت معاویہؓ کے فضائل ومناقب میں ضعیف احادیث تو کئی ایک موجودہیں۔
ھ: پھر اِس کے علاوہ وہ بحری غزوہ، اور غزوۂ قسطنطینیہ وغیرہ سے متعلق ایسی احادیث بھی ہیں جن میں دی گئی بشارتوں کے آپ باجماعِ اہلِ حق،اولین مصداق ہیں۔
سن کر تمہارا نام مسلماں تو کھل اٹھے
لیکن عدوئے دین کا چہرہ بگڑ گیا
وہ حضرت معاویہؓ کی حضرت علیؓ سے جنگ
پائے خطا تھا رہِ جنت پے پڑگیا
خاتمہ:
امید کہ بتوفیقہ تعالیٰ وعونہ مذکورہ بالا تفصیلات اور معروضات سے ’’مقامِ صحابہ‘‘ اور اُس کی اہمیت کا مضمون ’’حقائق اور دلائل کی روشنی میں‘‘ اچھی طرح واضح ہوگیا ہوگا،گذشتہ سطور میں جو کچھ عرض کیا گیا اُس کا خلاصہ شارحِ صحیح مسلم اِمام نوویؒ (باب فضائل الصحابہ) کے الفاظ میں یہ ہے:
’’قال الامام ابو عبد اللہ المازِری: اختلف الناس فی تفضیل بعض الصحابۃ علی بعض، فقالت طائفۃ: لا نفاضل، بل نمسک عن ذلک، وقال الجمہور بالتفضیل.
ثم اختلفوا: فقال اہل السنۃ افضلہم ابو بکر الصدیق ، قال ابو منصور البغدادی: اصحابنا مجمعون علی ان افضلہم الخلفاء الاربعۃ علی الترتیب المذکور، ثم تمام العشرۃ، ثم اہل بدر، ثم احد، ثم بیعۃ الرضوان، وممن لہ مزیۃ: اہل العقبتین من الانصار، وکذلک السابقون الاولون، وہم من صلی الی القبلتین، او اہل بیعۃ الرضوان، او اہل بدر.
… واما عثمان رضی اللہ عنہ فخلافتہ صحیح بالاجماع، وقتِل مظلوما، وقتلتہ فسقۃ، لان موجبات القتل مضبوطۃ، ولم یجرِ منہ رضی اللہ عنہ ما یقتضیہ، ولم یشارک فی قتلہ احد من الصحابۃ، واِنما قتلہ ہمج ورِعاع من غوغاء القبائل وسفِلۃ الاطراف والارذال، تحزبوا وقصدوہ من مصر، فعجزت الصحابۃ الحاضرون عن دفعہم فحصروہ حتی قتلوہ رضی اللہ عنہ.
واما علی رضی اللہ عنہ فخلافتہ صحیحۃ بالاجماع، وکان ہو الخلیفۃ فی وقتہ، لا خلافۃ لغیرہ.
واما معاویۃ رضی اللہ عنہ فہو من العُدول الفضلاء والصحابۃ النجباء رضی اللہ عنہ.
واما الحروب التی جرت فکانت لکلِ طائفۃ شبہۃ اعتقدت تصویب انفسِہا بسببہا، وکلہم عدول رضی اللہ عنہم، ومتأوِلون فی حروبہم وغیرہا، ولم یخرِج شی من ذلک احدا منہم عن العدالۃ، لانہم مجتہدون اختلفوا فی مسائل من محل الاجتہاد، کما یختلف المجتہدون بعدہم فی مسائل من الدمائِ وغیرہا، ولا یلزم من ذلک نقص احد منہم.
واعلم ان سبب تلک الحروب ان القضایا کانت مشتبہۃ، فلِشدۃ اشتباہہا اختلف اجتہادہم، وصاروا ثلاثۃ اقسام:
۱- قسم ظہر لہم بالاجتہاد: ان الحق فی ہذا الطرف، وان مخالفہ باغ، فوجب علیہم نصرتہ وقتال الباغی علیہ فیما اعتقدوہ، ففعلوا ذلک، ولم یکن یحل لمن ہذہ صفتہ التاخر عن مساعدۃ اِمام العدل فی قتال البغاۃ فی اعتقادِہ.
۲- وقسم عکس ہولاء، ظہر لہم بالاجتہاد: ان الحق فی الطرفۃ الآخر، فوجب علیہم مساعدتہ وقتال الباغی علیہ.
۳- وقسم ثالث اشتبہت علیہم القضیۃ، وتحیروا فیہا، ولم یظہر لہم ترجیح احد الطرفین، فاعتزلوا الفریقین، وان ہذا الاعتزال ہو الواجب فی حقہم، لانہ لا یحل الاقدام علی قتالِ مسلم حتی یظہر انہ مستحق لذلک، ولو ظہر لہولاِء رجحان احدِ الطرفین، وان الحق معہ؛ لمَا جاز لہم التاخر عن نصرتہ فی قتال البغاۃ علیہ، فکلہم معذورون رضی اللہ عنہم.
ولہذا اتفق اہل الحق ومن یعتد بہ فی الاجماع علی قبول شہاداتہم وروایاتہم وکمال عدالتہم رضی اللہ عنہم اجمعین.‘‘۔
اَب آخر میںہم اپنے معاصر بزرگوں میں سے نابغۂ عصر حضرت الشیخ محمد عوامہ حفظہ اللہ کی تحقیق کردہ ’’تدریب الراوی‘‘ میں، ’’معرفۃ الصحابۃ‘‘ کی بحث کے آخر میں، شیخ حفظہ اللہ کے قلم حقیقت رقم سے لکھے گئے پندرہ صفحاتی (۵؍۱۷۱- ۱۸۶ ) طویل ترین حاشیے کا ابتدائی حصہ کا خلاصہ پیش کرنا چاہتے ہیں، فرماتے ہیں:
’’فی الجملہ تعددِ اقوال اور اِختلافِ آراء سے کون سا علمی موضوع خالی ہے؟ معاند اور فتنہ پرور قسم کے لوگوں کو جب کوئی بات نہیں ماننی ہوتی، تو اِسی طرح کے اختلافات کا سہارا لے کر، مسلَّمہ حقائق کا اِنکار کرنے لگتے ہیں، جب کہ جو لوگ انصاف اور حق کے طالب ہوتے ہیں وہ ہر مسئلہ میں جمہورِ امت اور سوادِ اعظم کے قول کو اختیار کرکے فکر وعمل ہر اعتبار سے یکسو رہتے ہیں‘‘۔
واللّٰہ الموفق، وہو المستعان، ولا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ العلي العظیم، إن أرید إلا الإصلاح ما استطعت، وما توفیقي إلا باللّٰہ، علیہ توکلت وإلیہ أنیب، ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ ہدیتنا، وہب لنا من لدنک رحمۃً، إنک أنت الوہاب، اللّٰہم إیاک نعبد وإیاک نستعین، اہدنا الصراط المستقیم، صراط الذین أنعمت علیہم، غیر المغضوب علیہم ولا الضالین، آمین، وصلی اللّٰہ تعالی علی خیر خلقہ محمد وآلہ وأصحابہ أجمعین، وآخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین۔