11/ اکتوبر بروز جمعہ صبح 3.30پر ناظم ِجامعہ حضرت مولانا حذیفہ صاحب اپنے رفیق سفر مولانا جاوید صاحب کے ساتھ اکل کوا سے بائی کار روانہ ہوئے،یہ سفر خاصہ طویل تھا۔ فجر کی نماز جامعہ فلاح ملت دارالقرآن دیولیہ ضلع نرمدہ کی مسجد میں ادا کی۔ طویل مسافت کے بعد تقریبا 11:30 بجے ”کاکوشی“ پہنچے، دور دراز علاقوں سے بہت سارے احباب ملاقات کے لیے تشریف لائیں تھے۔ ناشتہ سے فراغت کے بعد علاقہ کے احوال پر بات چیت ہوئی۔
جامع مسجد کاکوشی:آپ نے جامع مسجد کاکوشی میں بیان فرمایا اور بیان کے بعد ایک جامع خطبہ دیا اورجمعہ کی امامت کرائی۔جمعہ کے بعد جامعہ نظیریہ کاکوشی کا معائنہ کیا اساتذہ اور طلبہ سے ملاقات کی۔پھر ظہرانہ تناول فرماکر، مختصر قیلولہ کے بعد مکتبہ جعفریہ کی وزٹ کے لیے نکل پڑے( شیعہ مکتب فکر کا بہت وسیع و عریض مکتبہ ہے جہاں ہر موضوع سے متعلق ہزاروں کتابیں موجود ہیں، مرد و زن کے لیے علاحدہ مطالعہ کا انتظام قابل تحسین ہے)۔
این ایم بالوا ہائی اسکول کی وزٹ :چھاپی سے قریب فیروزپور میں این ایم بالوا ہائی اسکول گجراتی اور انگلش میڈیم کا خوبصورت کیمپس بنا ہوا ہے، یہاں کے ذمہ داروں اور اساتذہ سے ملاقات ہوئی، اسکول کی وزٹ سے فارغ ہوکر فتح گھڑ کے لیے روانہ ہوگئے
مشائخی فاونڈیشن ہاسپٹل کا سنگ بنیاد:نماز عصر سے فارغ ہوکر ہاسپٹل کا سنگ بنیاد حضرت کے ہاتھوں عمل میں آیااور آپ نے اس کے لیے دعائے خیر فرمائی۔مشایخی فاونڈیشن کے لیے ایک صاحب خیر نے تقریبا ۳۶/یگھہ زمین وقف کی ہے؛ جہاں ایک بہترین اسکول کا تعمیری کام الحمدللہ جاری ہے، امید ہے کہ آئندہ سال سے ان شاء اللہ تعلیمی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ مشایخی فاونڈیشن کے ذمہ داروں نے جامعہ اکل کوا کے کام سے متاثر ہوکر علاقہ کے لیے ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو اسلامی تشخص کے ساتھ تعلیم اور تربیت کا مرکز ہو اور ساتھ ہی ایک بہترین ہاسپٹل جو تمام تر سہولیات سے آراستہ ہواور اس کا وزن قوم و ملت کی خدمت ہو۔
بعد نماز مغرب ایک عظیم الشان جلسہ کا انعقاد کیا گیا، جس میں چیلیا برادری جو ہندوستان بھر میں ہاٹل اور ریسٹورانٹ کے لیے مشہور ہے، ان کے تقریبا 154 گاوٴں کے ذمہ دار احباب کو اس اجلاس میں جوڑا گیا تھا۔ جلسہ میں ڈاکٹر بلال پٹیل نے علاقہ میں مسلم ہاسپٹل کی ضرورت اور مشایخی فاونڈیشن کے اغراض و مقاصد کو بیان کیا ،اس کے بعد پروفیسر ڈاکٹر سید عقیل صاحب(وی۔سی جامعہ اکل کوا) نے تعلیم کی اہمیت اور اس کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہاسپٹل کے لیے ماہر ڈاکٹرس اور مینجمینٹ کے لیے افراد تیار کرنے کے لیے ہمیں اپنے ادارے قائم کرنے ہوں گے ۔آخر میں مولانا حذیفہ وستانوی صاحب نے صدارتی خطاب فرماتے ہوئے عوام کو اپنے تجربہ کی روشنی میں اپنے ادارے قائم کرنے کا موثر اور مجرب طریقہ آسان اندازمیں سمجھایا،جسے لوگوں نے بہت پسند کیا۔آپ نے کیلکولیشن کرتے ہوئے کہا کہ اس پروجیکٹ کے لیے400 کروڑ کی ضرورت ہے، جو تقریباً تین سال کے عرصے میں پورا کرنا ہے، اور آپ حضرات کے 154 گاوں میں 5 لاکھ کی آبادی ہے، جس میں صرف2.5 ڈھائی لاکھ لوگ تین سال میں 16 ہزار روپیے دیتے ہیں،اس طرح کہ ایک فرد پہلے سال میں پانچ، دوسرے سال میں پانچ اور تیسرے سال میں چھ ہزار روپیے دے، تو آسانی سے 400 کروڑ روپے کا بجٹ علاقہ سے ہی پورا ہوجائے گا۔ ماشاء اللہ لوگوں کو یہ فارمولہ بہت پسند آیا اور سب اس کے لیے تیار ہوگئے ۔ آپ کی دعا پر پروگرام کا اختتام ہوا نماز عشائسے فراغت کے بعد کھانا تناول فرمایا اور اکل کوا کے لیے روانہ ہوگئے اور بحمد اللہ صبح فجر کی نماز اکل کوا میں ادا کی۔
1 – تعارف اور پس منظر: بیان کا آغاز رب العالمین کی تعریف سے ہوتا ہے، جس میں دینِ اسلام کی جامعیت اور کامل ہونے کا ذکر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور ان کے اسوہ حسنہ کی پیروی کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔
2. -چیلیا برادری کی اہمیت: بیان میں چیلیا برادری کی تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ برادری ہوٹل اور ریسٹورانٹس کے کاروبار میں آگے بڑھ چکی ہے اور اب انہیں ادارے قائم کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ مسلمانوں کو تجارت میں ترقی کرنی چاہیے تاکہ وہ دین کی خدمت بھی کرسکیں۔
3. دینِ اسلام کی جامعیت: اسلام نے زندگی کے ہر شعبے کو شامل کیا ہے اور دنیاوی و اخروی دونوں شعبوں میں رہنمائی فراہم کی ہے۔ دین اسلام کے تحت زندگی کے ہر معاملے میں ہدایت موجود ہے۔
4. – حدیث کا اہمیت اور حفاظت: بیان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تفصیلات کو حدیث کے ذریعے محفوظ کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ حدیث اور سنت کو علمائے نے محنت اور تحقیق کے ساتھ محفوظ کیا تاکہ دین کی حفاظت ہو۔
5. -فن اسماء الرجال اور علم الاسناد: حدیث کی تحقیق میں فن اسماء الرجال کا ذکر کیا گیا ہے، جس کے ذریعے لاکھوں راویوں کے بایو ڈیٹا کو محفوظ کیا گیا تاکہ احادیث کی صحت کی تحقیق کی جا سکے۔ علم الاسناد نے بھی اس عمل کو مضبوط بنایا۔
6. -نسلوں کے ایمان کی حفاظت: بیان میں موجودہ دور کے چیلنجز پر بات کی گئی ہے، خصوصاً نسلوں کے ایمان کی حفاظت کے حوالے سے۔ اگر مسلمان اپنے بچوں کے ایمان اور اسلام کی حفاظت نہیں کریں گے تو قیامت کے دن اللہ کے سامنے جواب دینا ہوگا۔
77. -جدید تعلیم کا فتنہ: بیان میں جدید تعلیم کے فتنے کا ذکر کیا گیا ہے، جس کی روشنی نے مسلمانوں کو متاثر کیا ہے۔ عیسائی دنیا بھر میں تعلیم اور خدمت خلق کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو عیسائیت کی طرف مائل کرچکے ہیں۔
8. -تعلیم اور خدمت خلق کی ضرورت: بیان میں مسلمانوں کو تعلیم اور خدمت خلق میں آگے بڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے ایمان کو محفوظ رکھ سکیں اور اپنے بچوں کو اسلامی ماحول فراہم کریں۔
9. -مدارس اور مکاتب کی ضرورت: بیان میں کہا گیا کہ ہمارے اکابرین نے 1857 کی ناکامی کے بعد مدارس و مکاتب کو قائم کیا اور دین کی حفاظت کی۔ اگر یہ مدارس قائم نہ ہوتے تو آج ہم مسلمان نہ رہتے۔
10. -جدید حالات میں دین کی حفاظت: بیان میں علماء کی کوششوں کا ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے جدید تعلیم اور فتنے سے نمٹنے کے لیے مسلمانوں کے لیے تعلیمی ادارے قائم کیے۔ یہ ادارے مسلمانوں کو دین کی صحیح راہ پر رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔
11. نوجوان نسل کا ایمان بچانے کے لیے اقدامات: بیان میں زور دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ادارے قائم کرنے ہوں گے تاکہ ان کے بچوں کا ایمان محفوظ رہ سکے۔ اس کے لیے علماء کی نگرانی میں دینی ماحول کا قیام ضروری ہے۔
12. – والدین کی ذمہ داری: بیان میں والدین کی ذمہ داری پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو صحیح اسلامی تعلیم دیں اور انہیں ایسے اداروں میں بھیجیں جہاں ان کا ایمان محفوظ رہ سکے۔
13. مالی تعاون کی اپیل: بیان میں 400 کروڑ روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے تاکہ مختلف تعلیمی اور رفاہی منصوبے قائم کیے جا سکیں۔ یہ منصوبے چیلیا برادری کے ذریعے مکمل کیے جا سکتے ہیں۔
14. – معاشرتی اعتماد کی کمی: بیان میں مسلمانوں میں آپس میں اعتماد کی کمی کا ذکر کیا گیا ہے اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ کام کرنے والوں پر اعتماد کیا جائے اور اخلاص کے ساتھ کام کیا جائے۔
15. مولانا عبدالکریم طارق کا واقعہ: بیان میں مولانا عبدالکریم طارق کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے جس میں ایک خاتون کی قوم پرستی اور تعلیم کی محبت کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ مثال مسلمانوں کو اپنی قوم کی ترقی کی جانب توجہ دلانے کے لیے دی گئی ہے۔
16. – دینی ادارے قائم کرنے کی ضرورت: بیان میں کہا گیا کہ چیلیا برادری کو ہسپتال، اسکول اور دیگر رفاہی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کے ایمان اور اسلامی تعلیمات کو محفوظ رکھ سکیں۔
17. – فرض عین کی تشریح: بیان میں امام غزالی کی تشریح کو بیان کیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ فرض عین علم وہ ہے جو انسان کے عقیدے کو درست کرے، عبادت کو صحیح بنائے اور معیشت کو درست کرے۔
18. – دنیاوی اور دینی تعلیم میں توازن: بیان میں زور دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم دونوں میں توازن قائم کرنا چاہیے۔ علماء کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز اور انجینئرز کی تعلیم بھی ضروری ہے۔
19. – نئی نسل کی تربیت: بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نئی نسل کی تربیت دینی ماحول میں ہونی چاہیے اور انہیں دنیاوی تعلیم بھی دینی چاہیے تاکہ وہ ایمان اور دنیاوی ترقی دونوں میں کامیاب ہو سکیں۔
20. -خود انحصاری کی ضرورت: بیان میں مسلمانوں کو خود انحصاری پر زور دیا گیا ہے۔ انہیں دنیا میں کسی کے محتاج بننے کے بجائے خود کفیل ہونا چاہیے اور اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔
21. -علم و سائنس کی اہمیت: بیان میں علم اور سائنس کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی آگے بڑھنا چاہیے تاکہ وہ دنیا کی قیادت کر سکیں اور انسانیت کی خدمت کرسکیں۔
22. – قیادت کا فقدان: بیان میں مسلمانوں کے قیادت کے فقدان کا ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر مسلمان قیادت پر ہوتے تو دنیا میں بہت سے مسائل، جیسے بیماریوں اور اخلاقی بگاڑ، کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔
23. – امامت اور قیادت کا فریضہ: بیان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امامت کا ذکر کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو اپنی ذمہ داری یاد دلائی گئی ہے کہ انہیں بھی دنیا میں امامت اور قیادت کا فریضہ ادا کرنا چاہیے۔
24. – اسلامی اسکولنگ سسٹم کی ضرورت: بیان میں اسلامی اسکولنگ سسٹم کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے تاکہ مسلمان بچے اپنے ایمان پر مضبوط ہوں اور دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کریں۔
25. – اجتماعی فکروں کی ضرورت: بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اجتماعی طور پر اپنی فکروں کو دین کے مطابق ڈھالنا چاہیے اور اپنے بچوں کے ایمان کی حفاظت کے لیے منظم منصوبے بنانے چاہئیں۔
26.اسلامی حدود میں رہ کر خدمت خلق: بیان میں مسلمانوں کو خدمت خلق کی ترغیب دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ انہیں اسلام کی حدود میں رہتے ہوئے رفاہی کام کرنے چاہئیں تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل ہو۔
27. اختلافات سے بچنے کی دعا: بیان کے اختتام پر دعا کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اختلافات اور فتنوں سے محفوظ رکھے اور انہیں اجتماعی طور پر دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ خلاصہ بیان کے بنیادی نکات پر مشتمل ہے جو امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت، ان کے چیلنجز، اور نسلوں کے ایمان کی حفاظت کے حوالے سے ہے۔