مشائخی فاؤنڈیشن فنڈ ریزنگ پروگرام

            کشن گنج سے آپ کی واپسی ممبئی ہوئی؛ یہاں7 دسمبر کو ایک فنڈریزنگ پروگرام میں آپ نے شرکت کی؛ جیسا کہ گذشتہ صفحات میں آپ کو معلوم ہوا کہ مشائخی فاؤنڈیشن فتح گڑھ کے زیر اہتمام 400 کروڑ کے پروجیکٹ کا تعمیری کام جاری ہے، جس کے تحت عالیشان اور جدید ٹیکنالوجی اور سہولیات سے لیس رفاہی ہسپتال، اسکول و کالج کی تعمیر ہو رہی ہے۔

             فتح گڑھ کے قریب مومن برادری(چلیا حضرات) کے 156 گاؤں آباد ہیں اور یہ برادری الحمدللہ ہندوستان کے طول و عرض میں لائن ہاٹل کے طور پر اپنی خاص شناخت رکھتی ہے، ان کے ہاٹل کا کاروبار نہایت کامیاب ہے اور اللہ نے اس میں بڑی برکت رکھی ہے، ان کی خاصی تعداد ممبئی میں آباد ہے۔فنڈ ریزنگ کا یہ پروگرام ان کے مابین تھا۔الحمدللہ ممئی میں10کروڑ کی خطیر رقم سے ان لوگوں نے اس پروجیکٹ کا تعاون کیا۔

 جامعہ کے قدیم فاضل اور سابق استاذ کے صاحبزادی کانکاح

             8 دسمبر کو آپ سلوڑ پہنچے، یہاں جامعہ کے قدیم ممتاز فاضل اور مایہٴ ناز و مقبول سابق استاد حضرت مولانا قاری مختار صاحب چار نیر کی دختر ِنیک اختر کے نکاح کی مجلس تھی، آپ نے بچی کا نکاح پڑھایا اور نکاح سے متعلق عوام میں نہایت عمدہ خطاب کرتے ہوئے ،نکاح کو آسان کرنے پر زور دیا۔

 اصلاح معاشرہ و تعلیمی بیداری پروگرام اندھاری

            سلوڑسے آپ اندھاری کے لیے روانہ ہوئے؛ یہاں جامعہ کے تعاون سے ایک عالیشان مسجد اپنی تکمیلی مرحلے کو پہنچ رہی ہے، یہاں اصلاح ِمعاشرہ اور تعلیمی بیداری کے عنوان سے ایک عظیم پروگرام منعقد کیا گیا تھا، جس میں تعلیمی بیداری مشن کے ساتھ مسجد کے تعاون پر ترغیبی خطاب بھی آپ سے مطلوب تھا، آپ نے ہر سہ موضوع کو نہایت خوش اسلوبی سے اپنے خطاب میں جمع فرمایا اور الحمدللہ عوام نے مسجد کی تعمیر کی تکمیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور تعلیمی میدان میں انقلاب لانے کا عزم مصمم اور پر زور اظہار کیا۔ بیان کے اہم نکات پیش خدمت ہیں۔

ایمان اور نیک اعمال کی اہمیت:

            آپ نے اسلام کے بنیادی اصولوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ: ایمان کائنات کی سب سے قیمتی نعمت ہے اور یہ دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی کی کنجی ہے۔ زندگی کا مقصد محض ”کھانا، پینا اور مر جانا“ نہیں بلکہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے ،اللہ کی رضاکے مطابق زندگی بسر کرنا ہے۔

موت اور حساب کتاب:

            آپ نے موت کی حقیقت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ ہر انسان کی موت کا وقت پہلے سے مقرر ہے، جیسے کسی چیز کی میعاد ختم ہونے کی تاریخ۔

            آپ نے اس کافر کاواقعہ ذکر کیاجو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بوسیدہ ہڈی لے کر آیا تھا اور قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونے پر سوال اٹھایا تھا۔جس پر آپ ﷺ نے جواب دیا تھاکہ اگر اللہ انسان کو پہلی دفعہ بغیر نمونے کیمٹی سے پیدا کر سکتا ہے تو وہ انہیں دوبارہ زندہ کرنے پر بہ آسانی قادر ہے۔ آپ نے مزید چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ: دنیا کے تمام سائنسدان مل کر بھی ایک مکھی پیدا نہیں کر سکتے، یہ اللہ کی قدرت کو ظاہر کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہمیں اللہ کی قدرت اور قیامت کے دن کو تسلیم کرنا چاہیے۔

ایمان کو درپیش چیلنجز:

            آپ نے کہا ایسے دنیاوی ماحول میں ایمان کو برقرار رکھنا ایک مشکل امر ہے، جہاں فتنوں اور دلکشائیوں کا راج ہو۔ آپ نے اس دور میں ایمان پر زندگی گزارنے کو ”کانٹوں کی وادی” سے تشبیہ دی، جہاں مال و دولت اور دنیاوی تعیشات انسان کو ایمان کی راہ سے بھٹکا سکتے ہیں۔ آپ نے خاص طور پر موبائل فون کے منفی اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ اس کا غیر محتاط استعمال لوگوں کو دینی فرائض سے غافل کر رہا ہے اور ان کے ایمان کو کمزور کر تا جارہا ہے۔

            آپ نے ان فتنوں اور چیلنیجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مساجد کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اور یاد دلاتے ہوئے کہا کہ موبائل پر ضائع کیے جانے والے وقت کو مساجد میں نماز ،ذکر وغیرہ میں لگاکر اپنے ایمان کو محفوظ اور مضبوط کیا جائے درس قرآن و حدیث اور مسائل کو جانا جائے۔ اذان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پیدائش کے وقت اذان سننے کا ایک مسلمان کے ایمان پر کیسا دیرپا اثر ہو سکتا ہے،تو دن بھر میں پانچ آذان کا اہتمام اس کی زندگی پر کیا کچھ اثر ڈالے گا!؟

نیک اعمال کی قدر:

            آپ نے مسجد کی تعمیر اور خیرات جیسے نیک اعمال میں حصہ لینے کی ترغیب دلاتے ہوئے کہا کہ:” اللہ مسجد بنانے میں مدد کرنے والوں کو اجر دیتا ہے، چاہے وہ ایک اینٹ کا حصہ دار ہی کیوں نہ بنے“۔ آپ نے ایک غریب صحابی کی کہانی بیان کی، جنہوں نے تھوڑے سے کھجور کے ذریعہ خیرات میں حصہ لیا، لیکن ان کے اخلاص کی قوت نے انہیں ان لوگوں سے زیادہ اجر دلا یا، جنہوں نے بڑی مقدار میں مال دیا تھا۔

            آپ نے کہاکہ: نیک اعمال، جیسے صدقہ، نماز، اور عبادت، آخرت کی اصل کرنسی ہیں۔ دنیاوی مال و دولت قیامت کے دن کسی کام نہ آئے گا۔

اتحاد اور معافی:

            آپ نیمسلمانوں کے درمیان اتحاد اور معافی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ: دوسروں کو معاف کرنے سے قیامت کے دن اللہ کی معافی حاصل ہوگی۔

            آپ نے ایک صحابی کا واقعہ سنایا ،جنہیں جنت کی بشارت دی گئی تھی۔ جب ایک اور صحابی نے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا ،تو انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کی واحد عادت یہ تھی کہ وہ دل کو صاف رکھتے تھے اور دوسرے مسلمانوں کے خلاف کوئی بدگمانی نہیں رکھتے تھے۔ اس سے آپ نے پاکیزہ دل رکھنے اور دوسروں کے لیے منفی جذبات سے بچنے کی اہمیت کو ظاہر کیا۔

نتیجہ: اللہ کو راضی کرنے والی زندگی

            آپ نے اپنا خطاب اس بات کی پرزوریاد دہانی کے ساتھ ختم کیا کہ زندگی کا مقصد اللہ کو راضی کرنا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دینی فرائض کی تکمیل، اچھے کردار، اور دوسروں کے ساتھ مہربانی اور شفقت کے رویے کو ترجیح دیں۔ آپ نے سامعین کواپنی روحانی ترقی پر توجہ دینے اور قیامت کے دن کی تیاری کرنے کی ترغیب دی کہ، جب انہیں اس دنیا میں کیے گئے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ اور آپ نے خصوصی تلقین کی کہ دنیاوی فتنوں، جیسے دولت اور ٹیکنالوجی، کو اللہ کے ساتھ اپنے تعلق اور بطور مسلمان اپنی ذمہ داریوں پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔