مسکان کاچٹانی ایمان

بہ قلم:شفیع احمدقاسمی#اِجرا،مدھوبنی/استاذجامعہ اکل کوا

بنتِ حواکی قربانیاں:         

            تاریخ کے سمندرمیں غوطہ زنی کر نے پریہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے اوراِس حقیقت سے انکارکے سبھی راستے بند ہو جاتے ہیں کہ حق وباطل کی لڑائی روزِ اول سے جاری ہے اورقیامت تک یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے ۔کفرواسلام کا معرکہ روزِ اول سے ہے ،جس میں یہ بات بھی ہمیں دیکھنے کوملتی ہے کہ ابتلاوآزمائش کی سخت گھڑی اور مشکل ترین وقت میں شاہین صفت عورتوں اوربناتِ حوانے اپنی بساط،ہمت اورمقدرت کے مطابق؛ بل کہ یہ کہا جائے کہ کبھی کبھار مردوں سے بھی چند قدم آگے بڑھ کراشاعتِ اسلام اورحفاظت دین کے فریضے کو پورا کرنے میں ایک مثالی کردار ادا کیا ہے توشایدغلط نہیں ہوگا۔تاریخ ونصوص کے صفحات اُن کے حسین کارناموں اور بے لوث قربانیوں کواب بھی سلام پیش کرتے ہیں۔

حکومت کاتھرمامیٹر:

            میںآ پ کوایک بات بتاناچاہتاہوں کہ اگرآپ کسی چیزکادرجہ حرارت معلوم کرنا چاہیں تو تھرما میٹر کی مدد لینی پڑے گی ،ورنہ کچھ بھی پتانہیں چلے گا۔ٹھیک اِسی طرح حکومت وقت بھی آئے دن تھرمامیٹرلگاتی رہتی ہے ۔کبھی شاہ بانو کیس کا،کبھی متبنیٰ بل، کبھی تین طلاق، کبھی قرآن کی بے حرمتی،کبھی لوجہاد،کبھی پیغمبراسلام پربدزبانی،کبھی این پی آر،کبھی سی اے اے اوراین آرسی،کبھی مندر،کبھی مسجدتوکبھی قبرستان!!! اوراب ایک نیاشوشہ چھوڑا ہے۔ یعنی حجاب پر پابندی؛اِن جیسے معاملات کو اٹھاکرہماری حرارت کاتجربہ کرناچاہتی ہے۔وہ اِسی طرح کے تھرمامیٹرپر ہماری غیرتِ ایمانی اور دینی واسلامی حرارت کوناپتی ہے۔وہ یہ جاننے کی کوشش کرتی ہے کہ ہم سورہے ہیں یا جاگ رہے ہیں؟ہم میں بیدار ہونے کی صلاحیت موجود بھی ہے یانہیں؟

اسلامی فرزانوں کی شانِ امتیازی:

            جب ہم تاریخی صفحات کامطالعہ کرتے ہیں تومعلوم ہوتاہے کہ صدائے حق بلندکرنا،باطل کے سامنے بے خوف ہوکرڈٹ جانا،اغیارکوہتھیارڈالنے پرمجبورکردینا،غیراللہ سے بالکل لا تعلق اوربے پروا ہوکرایک رب کی محبت میں دیوانہ واراپنے مقصد اور حصولِ منزل میںآ گے بڑھتے چلے جانااسلام کے فرزانوں،دیوانوں، مستانوں اوراسلام و ناموسِ رسالت پر مر مٹنے والوں کی امتیازی شان رہی ہے اورہرزمانہ میں ایسی تاریخ رقم کرنے کا دستور اور چلن رہاہے اوراِن شاء اللہ اِلیٰ یوم النشور چلتارہے گا۔

سلطان ٹیپونے کہاتھا:        

            اوریہی وہ جذبہٴ حریت ،شوقِ شہادت اورسرکٹاکرکام یابی کاتصورہے،جس نے کائنات کے نقشہ پر اسلامی نظام کوپھلنے پھولنے،سدابہار اورتناوردرخت بن کربڑھنے کی راہ ہموارکی۔جس سے خیمہٴ باطل میں زلزلہ، ارادوں میں جنبش ، منصوبوں میں ناکامی نے ان کی کمرہمت توڑکررکھ دی اور اُنھیں اپنے مقصد میں شکست وریخت سے دوچارہوناپڑاہے۔ کرناٹک کی سرزمین پر؛ جہاں سلطان ٹیپو شہیدابن حیدرعلی نے انگریزی فوج کوللکارتے ہوئے کہاتھاکہ:”گیدڑکی سوسالہ زندگی سے شیرکی ایک دن کی زندگی بہترہوتی ہے“۔

مسکان نے کرائی ایمان کی پہچان:

            آج اُسی سرزمینِ کرناٹک پر ایک کالج کی ہونہار،باہمت،نڈر اوربے باک ۱۹/سالہ طالبہ ”بی بی مسکان بنت حسین خان“ نے یہ بھولاہواسبق دہرایااور اپنی شیرنی جیسی دھاڑاور للکارسے اندھ بھکتوں،مفت خور گیڈروں اور کرایہ کے ٹٹووٴں کی چیخوں کو کچل کررکھ دیا۔اپنی جرأت ایمانی سے اُن کی ساری ہوانکال دی اورساتھ ہی یہ پیغام بھی دے دیاکہ

”ہم کودباسکے یہ زمانے میں دم نہیں“

            اسلام کی اُس شہزادی اور دینی بہن کی پُرجوش صدائے اللہ اکبر نے آنکھوں میںآ نسو،دلوں میں جذبہٴ حریت، زبانوں پر دعاوٴں اور تشکر کے کلمات گنگنانے پر مجبور کر دیا۔ اُس کی جرأتِ ایمانی اورغیرتِ قومی نے دلوں میں قرون اولیٰ کی یادوں کوپھرسے زندہ وتابندہ کر دیا۔ اس کے اندازِ رفتار وگفتار نے ہمیں اپنی اصل حقیقت سمجھادی اوراپنی ذمہ داری کااحساس دلا دیا۔ سونے والوں کو بیدار کیا،غفلت کی چادرتان کرسونے والوں کے لیے تازیانہٴ عبرت اورایک زندہ مثال بن گئی۔ دیش ودنیا کے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے مشعل راہ اور(Ideal) بن کرجگمگائی اور ایک نئی امیداورکام یابی کی کرن پیش کی۔اِس لیے ہم اکیلے نہیں؛ بل کہ تمام باشندگانِ دنیاکے غیرت منداور عشاقِ اسلام اس بہن کی خدمت میں دعاوٴں کی سوغات اور محبتوں کی سلامی پیش کرتے اورروشن مستقبل کے لیے تہہ دل سے دعاگو ہیں۔ اُن کی اِس ہمت پرآج پوری دنیا فخروناز کرتے ہوئے شیرنی، رضیہ سلطانہ اورجھانسی کی رانی کاخطاب دے رہی ہے۔

دنیاکے لوگ کبڑے ہوجائیں:

            قارئین!ہمیں یہ جاننابہت ضروری ہے کہ آخریہ ماحول کیوں اورکیسے پیداکیاگیا؟اِس کے پس پردہ کون سی ذہنیت ننگاناچ کررہی ہے؟اِس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہ کسی کبڑے شخض سے پوچھاگیاکہ تم کیا چاہتے ہو؟تم سیدھے ہوجاناپسندکروگے یا پھرساری دنیا کواپنی طرح کبڑے دیکھناچاہوگے؟تواُس نے دوسری شِق کواختیار کرتے ہوئے کہاکہ میری دلی تمناتویہی ہے کہ پوری دنیاوالے میری طرح کبڑے ہوجائیں۔

            بات دراصل یہ ہے کہ جن کا زاویہٴ فکرونظرتنگ وتاریک اورفاسدہوچکاہے۔جوآزادخیالی کو روشن خیالی کاچولاپہنادے،جوحیاکوبے حیائی کے گٹرمیں ڈالے، تنزلی کوترقی،اندھیرے کوروشنی سمجھنے کی غلطی کرنے لگے، حلال کو حرام کادرجہ دیں،سلیقہ مندی کوبے ہودہ پن سمجھنے لگ جائے،وضع داری اوررکھ رکھاوٴکامذاق اڑانے لگے ، ایسے لوگ عقل سے پیدل نہیں ہیں تو اور کیا ہیں؟

بدکاری اورگناہوں کوترقی نصیب ہو:

            یہ بات سبھی کومعلوم ہے کہ چندماہ قبل ہی حکم ران پارٹی نے شادی بیاہ کی عمرکو۱۸/سال سے آگے بڑھا کر ۲۱/سال کرکے اپنی سابقہ روایت پرمہرلگادی ہے۔اب کیاہوگاکہ لڑکااورلڑکی کے لیے بہ حیثیت میاں بیوی بن کر رہنے کے لیے ۲۱/سال کا ہونا لازمی اورضروری ہے،اِس سے کم عمرمیں اگرنکاح کرنے کی غلطی؛اگرغلطی سے بھی کر لی تویہ غیرقانونی اورساتھ رہنا قابل تعزیرجرم ہے۔پاس کردہ اِس قانون کابھونڈاپن دیکھیے کہ ۲۱/سال سے کم عمر میں اگردونوں برضاورغبت دوست (Boyfriend) یا محبوبہ (Girlfriend)بن کر رہناچاہے توکوئی حرج اور پابندی نہیں ہوگی۔ ظاہر سی بات ہے کہ اِس کا سیدھا رزلٹ یہی تونکلے گا کہ ۲۱/سال سے قبل سماج بے حیائی وناپاکی کا اڈہ بن جائے اورپوری(Society) گناہوں سے آراستہ اور بدکاری سے خوب اچھی طرح آلودہ اورگندی ہو جائے اور بے حیائی کودن دونی رات چوگنی ترقی نصیب ہو۔

قوم لوط کاسلوک:

            اب اِس کا شان دارنتیجہ یہی دیکھنے کوملے گاکہ معاشرے میں اچھے لوگوں کا رہنا اور جینا دشوارگزارگھاٹی پار کرنے برابرہوجائے گا۔ جیساکہ لوط علیہ السلام کی قوم جب ایک عظیم گندگی اورگناہوں کے دَلدَل میں گھِری اور اس پر حضرت لوط علیہ السلام نے جب نکیرکی،اُن کوروک ٹوک کیا، سمجھایااوربازرہنے کی تلقین کی تو اُن کا یہی ایک جواب تھا کہ:﴿اَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ قَرْیَتِکُمْ اِنَّھُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَھَّرُوْنَ ۔﴾کہ یہ توبڑے پاکبازاورصاف ستھرے لوگ ہیں، اِس لیے اِن کوہری جھنڈی دکھاوٴاور گاوٴں سے باہرنکال دو،اپنی سلامتی اِسی میں ہے کہ اِن کو سماج سے باہرکاراستہ دکھادو۔ گویا کہ ”نہ رہے گابانس اورنہ بجے گی بانسری“۔

خوش بواوربدبوکافرق بھی بھول گئے:

            اِن معروضات سے پتایہ چلاکہ سماج ومعاشرے کااکثریتی طبقہ جب تعفن آمیز اور بدبو دار ہو جائے،وہ خوش بواوربدبوکافرق بھول جائے توباذوق طبقہ کااُن کے ساتھ رہنا دشوار ہی نہیں، بل کہ عذاب ہو جائے گا۔ اور یہ بگڑاسماج بھی اُن پاک بازوباذوق قوموں کوبرداشت نہ کرسکے گا۔لہٰذابگڑے مزاج کے مالکان اُنہیں کبھی بھی برداشت کرنا نہیں چاہیں گے۔ اِس لیے رہ رہ کربلاوجہ بھی نئے نئے شوشے چھوڑتے اورامن وچین کی بستی میں بدبودارشگوفے کھلاتے رہیں گے، جس کی تازہ ترین مثال کرناٹک کی سرزمین پرموجودہے۔

حجاب؛برداشت نہیں:

            یہی وجہ ہے کہ جوبچیاں اور عفت مآب بہنیں حجاب یااسکارف پہن کراسکول وکالج جاتی ہیں انہیں برداشت نہیں کیاجارہاہے۔اُن کے پیٹ میں پردہ سے دردہورہاہے ،اِس لیے حجاب ہی پرسیاست کی روٹی سینکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔حجاب اورپردہ کے پردے میں اُن کوطرح طرح سے پریشان کیاجانے لگاہے۔ جب کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ پردہ کرنااورسر کا ڈھانکنا اُن مسلم عورتوں کامذہبی اور قانونی حق ہے۔کیایہ لوگ ہمیں بتائیں گے کہ سیکولرازم اوردستور ہندمیں دی گئی مذہبی آزادی کاکیامطلب ہے؟

یہ کیسی آزادی ہے؟:

            کیاایسے ہی بے تُکے کارناموں کو مذہبی آزادی یا”آزادی کی نیلم پری“ کہتے ہیں کہ بلاوجہ بھی کسی کے کھانے پینے میں اپنی ٹانگ اڑائی جائے؟کسی کے لباس ، وضع قطع اوررہن سہن پرروک لگانے کی مذموم سی حرکت کی جائے ؟کسی کی جان ومال اورعزت وآبروبھی سلامت نہ رہے؟کسی ایک خاص فرقہ کاجیناحرام کردیاجائے؟ اگر یہی سیکولرازم ہے توپھریہ بھی سمجھ لیجیے کہ ہم ایسی سیکولرازم کو پاوٴں کی جوتیوں پررکھتے ہیں۔

اقداماتِ حفاظت؛بیش قیمت کی علامت:

            اِس کے علاوہ دنیاکے اہل خرداوراہل دانش سے سوال ہے کہ ایک خاتون خصوصاً نوجوان لڑکی ؛جس کی بناوٹ ہی میں قدرت نے کشش اورجاذبیت رکھی ہے۔وہ ایک آبگینہ سے کم نہیں،وہ بیش قیمت ہیراہے، بازار کا کھیرانہیں ہے ۔لہٰذااُس کی سلامتی ،حفاظت اورسیکوریٹی بدن کوچھپانے والے لباس میں ہے ۔ایسے لباس میں نہیں،جوسبھی راہ چلنے والوں کودعوتِ دیدار دیتااورآنکھیں سینکنے کا موقع فراہم کرتاہو؟اب خودہی فیصلہ کرلیجیے کہ دونوں میں سے کس کی طرف کم ظرفوں،اوباشوں،نکموں،بدکرداروں اورغلط نگاہ والوں کی نگاہیں اٹھیں گی؟ یہ تو بالکل ظاہرسی بات ہے کہ جو چیز جتنی زیادہ قیمتی ہوتی ہے،اُس کی حفاظت کے اقدامات بھی اتنے ہی زیادہ کیے جاتے ہیں۔ کنکر،پتھراورکوئلہ کسی تجوری یا(Bank Locker)میں پوری فکرمندی کے ساتھ کبھی نہیں رکھے جاتے ،لیکن ہیرے،جواہرات ،سونے چاندی اور دیگر قیمتی چیزیں محفوظ ومضبوط بکس اور تجوریوں میں ہی رکھے جاتے ہیں ۔ اُس بیش قیمت چیزکی اہمیت وعظمت کایہی تقاضا ہے کہ اُسے ممکن حدتک اوروں کی نظروں سے چھپا کر رکھاجائے اورکسی کو کانوں کان اِس کی بھنک بھی نہ لگنے پائے۔

لیلیٰ نظر آتا ہے:

            اِس لیے شریعت اسلامیہ نے عورت جیسی بیش قیمت اوراَن مول شئے کوپردہ میں محفوظ ومامون کرکے غلط نہیں کیا۔بل کہ اُس کی عزت و آبروکو نیلامی اورداغ دارہونے سے بچایاہے،حیاکی چادرکوسربازارتارتار نہیں ہونے دیا،جوذہنی بیمارہیں،وہی ملک وملت کوشرمسارکررہے ہیں۔مذہبِ اسلام نے تواُس قیمتی آبگینہ کو چکنا چور ہونے اور گندے ، اوباشوں، بدقماشوں اور لفنگوں کے پیروں تلے روندے جانے سے بچانے کاسامان کیا تو کیا یہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے؟کیایہ تہذیبِ دنیاپر احسان نہیں ہے؟؟سچی بات تو یہی ہے کہ یہ سب نفرتوں کے آتش فشاں سے نکلتے لاوے،الٹی اور گھٹیاسوچ کی کرم فرمائی ہے، جس کی بہ دولت ہم ”خردکا نام جنوں رکھ دیا جنوں کاخرد“ کے جنون میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

اِس دور کا ہر نقشہ الٹا ہی نظر آتا ہے

مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے

            اب بھی اپنی بندآنکھیں کھولواوربتاوٴکہ کیا یوروپی ممالک سے تشریف لائی ہوئی اُسی گندی تہذیب اور جدید تہذیب وثقافت (Modern Culture)کوگلے لگاوٴگے ،جس نے ماں بیٹی اوربیوی بہن کے مقدس رشتوں کوداغدارکرکے اُس کے فرق کو بھی غرق کردیا۔ جس کلچروتہذیب نے ہیرے کوبھی کھیر ا بنا دیا، تہذیب نوکی کرامت نے شمع خانہ کورونقِ شامیانہ بنادیا،جس تہذیب نے سرسے چادر ِ عصمت چھین کر بازاروں اورکی زینت بنادیا، نیم عریاں لباس پہنا کر مرکز توجہات اور سامانِ تسکین وہوس بنادیا۔جس کاشان دار نتیجہ یہ نظر آ رہاہے کہ موجودہ نسلوں میں ۶۰/ فیصد ی تعداد اُن کی ہے ،جن کواپنے حقیقی ماں باپ کاپتا ہی نہیں۔ اِس لیے اپنی صحیح پہچان کا بھی علم نہیں اور نسب وحسب سے ناواقف ہونے کے سبب وہ ذہنی تناوٴ (Depression) کا شکار ہیں۔

حجاب کوبھی بے حجاب کرتی ہیں:   

            لیکن افسوس کے ساتھ لکھ رہاہوں کہ ہراُس حکم کے متعلق ہماری عملی کوتاہی کادخل نظرآتاہے،جس کو شریعت نے مردو خواتین کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ چنا ں چہ دنیا کے نقشہ پرہزاروں نہیں، بل کہ لاکھوں ایسی خواتین دکھائی پڑتی ہیں،جو حجاب کودقیانوسیت کی ڈگری دیتی ہیں اورپردہ نہیں کرتیں ۔اور بہت ساری ایسی بہادر بھی ہیں، جنھیں پردہ ایک بوجھ اور دنیاوی ترقی کی راہ میں دیوارِچین معلوم ہوتا ہے۔

یہ کرشمے روشن خیالی کے ہیں:

            یہ جرأت مندانہ راگ وہی الاپ رہی ہیں،جو بالکل ہی آزاداورروشن خیال(Liberal) اورتعلیم جدید (Modern Education) کی مداح اوردلدادہ ہیں۔جو بڑی جرأت و بے باکی سے یہ نعرہٴ مستانہ بلند کرتی ہیں کہ”مراجسم میری مرضی‘ ‘۔یہ وہی خواتین ہیں، جو مغربی فلسفہ ، آزادیٴ نسواں کے حسین ودل ربا اعلان سے متاثر ہی نہیں، بل کہ مخمور اورآزادی کے نشہ میں چورہیں۔ جس فلسفہ اوربلندبانگ نعروں نے عورتوں کی آزادی، اُن کا حسن اور نزاکت وعفت کو چھین لیا اور یورپ کے اُن حریص ولالچی اور نکمے مردوں نے بڑی عیاری ، مکاری ؛بل کہ پوری فن کاری سے دو فائدے حاصل کرلیے۔ (۱)اپنے ذمہ بیوی کے نفقہ وغیرہ کی ذمہ داری سے سبکدوشی اور (۲) یہ کہ عورت کو بے گھر کرکے ہرجگہ آسانی سے اپنی ناجائز خواہشات کی تکمیل۔

وہ خاموشی کی چادراوڑھ لیتے ہیں:

            چنا ں چہ اِسی عملی کوتاہی کی یہ سزاہمیں مل رہی ہے کہ پردہ اسلام میں ضروری ہے یانہیں؟ آج کرناٹک ہائی کورٹ میں اِسی بات پربحث ہورہی ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ(Debit) میں مولوی نما جاہل؛بل کہ ایسے اجہل الناس بھی شریک کیے جاتے ہیں، جن سے بار بار پردہ کی فرضیت کا ثبوت قرآن وحدیث سے مانگا جاتا ہے، لیکن وہ صاحب بہادرحق نمک اداکرتے ہوئے بت بنے خاموشی ساد ھ لیتے ہیں ، تا کہ دنیا بھرمیں یہ خوش کن پیغام جائے کہ قرآن میں ایسا کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ایسے ضمیر فروش ،ملت کے سوداگر در اصل وہی اہل نفاق ہیں جنھوں نے ہردورمیں اسلام کی مضبوط جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی ناپاک کوششیں کی ہیں، جب کہ قرآن میں پردہ کی فرضیت بالکل صریح طور پرموجود ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد گرامی ہے: ﴿یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیبِہِنَّ ذَٰلِکَ أَدْنَیٰ أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ۔﴾

            اِس آیت کریمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا جارہا ہے کہ اپنی بیبیوں اور بیٹیوں اور تمام اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دوکہ اپنے اوپر اپنی چادر یں ڈال لیا کریں۔یہ ذریعہ ہوگا انھیں پہچاننے کا ،تاکہ کوئی اُن کو نقصان نہ پہنچاسکے۔

 عملی کوتاہی کی ایک کڑی یہ بھی ہے:

             پھرمردوں کی طرف سے ڈاڑھی کے سلسلے میں یہی عملی کوتاہی علی الاعلان ہورہی ہے۔۔سنتوں کے نور پر پوری ڈھٹائی سے کدال چلائی جارہی ہے،جس کی وجہ سے سرکاری ڈپارٹمنٹ اور دیگراداروں میں ملازمین کو ڈاڑھی رکھنے پر دشواری اورپریشانی جھیلنی پڑتی ہے،پھربھی آنکھ نہیں کھلتی۔اُن سے کہا جاتاہے کہ ڈاڑھی نکالنا ہوگی، ورنہ ملازمت نہیں ملے گی یااگرمل چکی ہے تو ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ جب کہ ڈاڑھی مرودو ں کے لیے حکم شریعت ، انبیائے کرام کی سنت اوربقول فقہائے کرام واجب اور ضروری ہے،جو مردوں کی زینت،شان اورپہچان بھی ہے۔چناں چہ حدیث پاک میں ہے کہ آسمان پرفرشتوں کی ایک جماعت ہے ،جو۲۴/گھنٹے یہ تسبیح پڑھتی رہتی ہے: ”سُبْحَانَ مَنْ زَیَّنَ الرِّجَالَ بِالْلُحیٰ وَالنِّسَاءَ بِالذَّوَائِبِ“یعنی پاک ہے وہ ذات؛جس نے مردوں کو ڈاڑھی اورعورتوں کوسرکے بالوں کے ذریعے زینت بخشی۔(کنوزالحقائق)

            اُن کی اِس حرکت اورالٹی چال کودیکھ کریہ تسبیح پڑھنے والے فرشتے بھی آسمان پرپریشان ہی ہوتے ہوں گے کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کررہے ہیں،جس نے مردوں کوڈاڑھی سے اورعورتوں کوبالوں سے حسن بخشا ہے۔اورنہ جانے یہ نالائق مخلوق؛ اللہ کے عطاکردہ حسن سے کیوں دوربھاگتی ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایاکہ: ”قَصُّوا الشَّوَارِبَ وَاعْفُوا الْلُحیٰ“ یعنی مونچھوں کو تراشو اور ڈاڑھی کو بڑھاوٴ۔ اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مواظبت کے ساتھ اس پررہا ہے۔

اب سکھوں کودیکھ لیجیے:

             جنھوں نے اپنے مذہب کی ضروری چیزوں کو بڑی سختی سے اپناکراپنی زندگی کااوڑھنابچھونا بنا رکھا ہے ۔ جن میں پگڑی ، ڈاڑھی ، کرپال اور چاقو وغیرہ شامل ہیں۔وہ دنیاکے جس خطے اورکونے میں بھی بسیراکریں ،لیکن وہ اُن چیزوں کو اپنے سے جدانہیں کرتے۔مذہبی شعار وعلامت کی حیثیت سے چاہے ایوانِ اسمبلی میں ہو یا ایوانِ پارلیمنٹ میں۔ فوج میں ہو یا کسی اور سرکاری دفاتر،کاروباریادنیاکے کسی بازار میں۔تاریخ شاہدہے کہ آج تک اِن چیزوں کو چھوڑنے کا مطالبہ سکھوں سے نہیں کیا گیا۔اِس کی بڑی وجہ اُن کا اپنی مذہبی علامات پر پابندی سے عمل کرناہے۔وہ سب کچھ گواراکر لیں گے ،لیکن اپنے شعائرسے اِنحراف نہیں کریں گے۔”جان جائے پر؛ وَچن نہ جائے“پرہنستے کھیلتے مر مٹیں گے،لیکن کسی حال میں جھکیں گے نہیں۔

پلٹ آوٴاسلام کی طرف:

            اے کاش ایساہوتاکہ ہم بھی اپنے شعارِ دین ،اسلامی تشخص واحکامِ شریعت کو پابندی سے روبہ عمل لائے ہوتے تو ہمیں آج کے جیسے منحوس دن اورایسے قابل افسوس حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ لہٰذا ان مخالف آندھیوں کی زدپر اوراِن نا گفتہ حالات میں مخالفینِ دین اورمعاندینِ اسلام کو بڑا طمانچہ اورکراراجواب یہی ہوگا کہ ہم بھی اپنی شریعت اور اپنے شعائر پر پوری محبت اور کامل پاسداری کے ساتھ عمل پیرا ہوجائیں۔ اورکسی ادنیٰ کوتاہی کا ارتکاب بھی ہم سے ہونے نہ پائے تو اِن شاء اللہ العزیز! یہ ظلمتوں کے خیمے گریں گے ،نا انصافی کے چراغ بجھیں گے اور آسمانِ ایمان پر صبحِ نو کا جگمگاتاسورج ایمان و یقین، عدل ومساوت اورامن وآشتی کی روشنی لے کرجلوہ گرہو گا۔ نیز شرائع دین پرعمل اوراسلام کو گلے لگانے پر ہمیں﴿ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ۔﴾کی بارگاہِ عالی سے وہ عزتیں ،رفعتیں،بلندیاں اوراقتدار ملے گا،جو قرنِ اول میں اُن اولین مجاہدین اور پاسبانِ ایمان واسلام کو ملا تھا، جنھوں نے ناموس شریعت کی حفاظت کے لیے اپنا تن من دھن قربان کردیا تھا اور ”فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ“ کا نعرہ لگاکرکام یابی وکامرانی کو اپنا گرویدہ بنالیاتھا۔

عزت وشہرت کے مینارپر:

            آج جس طرح امت کی ایک مسکان خان نے ناموس شریعت کو بچایا اور حکم شریعت کے پردہ کو محفوظ کیا ، قادرِ مطلق نے چندہی سکنڈوں میں عزت ومحبت اور شہرت کے اتنے اونچے مینارپرپہنچادیا،جہاں تک پہنچنے کے لیے بہت ساری عورتیں نہ جانے کتنے پاپڑبیل کربھی فیل ہیں اورخود کو بے آبرو بناکر اپنا سب کچھ لٹا چکی ہیں، پھر بھی اُن کے ہاتھ خالی ہیں۔ اگرہم بھی یہی چٹانی حوصلہ اورعزم لے کراٹھ کھڑے ہوں تویقینااللہ ہمیں بھی یہ سب کچھ عطا کرے گا۔ وماذلک علی اللّٰہ بعزیز!