مسلماں نہیں راکھ کاڈھیرہے
شفیع احمدقاسمی#اِجرا،مدھوبنی/استاذجامعہ اکل کوا
شان مسلم کی قصیدہ خوانی،اقبال کی زبانی:
ساری دنیاکواچھی طرح سے پتاہے کہ اِس وقت جہادِ فلسطین کہہ لیجیے یاکفرواسلام کی معرکہ آرائی یا پھر حق وباطل کی کش مکش جاری ہے ،جس کاسلسلہ تخلیق آدم سے شروع ہوگیاتھا۔چناں چہ فلسطین واسرائیل کی حالیہ جنگ وجارحیت کے تناظر میں آج کاعنوان دیکھ کر بہت ممکن ہے کہ وہ قارئین ؛جنھوں نے کبھی شاعرِ الہامی علامہ اقبال کایہ شعر پڑھا یا کسی کی زبانی سناہو ، وہ ضرور چونک پڑیں گے یاہوسکتاہے کہ تھوڑی دیر کے لیے سکتے میں بھی آجائیں ۔کیوں کہ شاعرمشرق علامہ اقبال نے تواپنی شاعری میں شانِ مسلم کی یوں قصیدہ خوانی کی تھی کہ
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
ایک عربی مقولہ کی صداقت:
کوئی کچھ بھی کہے ،لیکن موجودہ وقت کی حقیقت بھی یہی ہے ،جس سے کسی طرح کی چشم پوشی نہیں کرسکتے۔کیوں کہ عربی زبان کاایک مقولہ بھی اِس کی صداقت پربھرپورروشنی ڈالتاہے اوروہ یہ ہے کہ ” تتبین الاشیاء باضدادہا“ یعنی چیزوں کی حقیقت کاپتااُس کی ضدسے ہی چلتاہے ۔کھرے کھوٹے کاعلم اُس وقت تک ناممکن ہوتاہے ،جب تک کہ دونوں صورتیں سامنے نہیں آجاتیں۔مخلصین ومنافقین کا کردار تضادبیانی سے ہی نکھر کر سامنے آتا ہے ،جیساکہ نقشہٴ کائنات پر اِس وقت دیکھنے کو مل رہا ہے۔
خواہ مخواہ کی اظہارِ بے چینی:
دنیاکے۵۷/مسلم ملکوں اوراس کے حکمرانوں نے اپنے طورپر فلسطین واسرائیل کی خون آشام جنگ، پھیلی ہوئی تباہ کاریوں ،عالمی پیمانے پرپائی جانے والی کرب ناک صورت حال اوربدامنی کو لے کر اپنی تشویش اور خواہ مخواہ کی بے چینی کا اظہار کیا تھا،جسے حالاتِ حاضرہ کے پس منظرمیں زبانی جمع خرچ بھی کہا جا سکتا ہے۔ چناں چہ حالیہ دنوں میں سعودی عرب کے شہر ”ریاض“ میں اوآئی سی؛یعنی (Organisation of Islamic Cooperation) ”اسلامی تعاون کی تنظیم“ کا اجلاس عمل میں آیا تھا، جس میں ۵۶/مسلم ممالک کے سبھی سربراہان اوراعلیٰ حکام نے شرکت کی تھی،لیکن دنیانے کھلی آنکھوں سے یہ بھی دیکھ لیاکہ آپسی رسہ کشی اور فضول بحث ومباحثہ کی نذرہوکراِس اجلاس کا نتیجہ بھی ”ڈھاک کے تین پات“ہی رہا۔
”بہت نکلے مِرے ارمان ،لیکن پھربھی کم نکلے“
اوآئی سی کی حقیقت :
آگے چلنے سے پہلے اوآئی سی کی حقیقت اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ یہ کیابلائے ناگہانی یاشیریں فرہادکی کہانی ہے؟کرہٴ ارضی یا دنیا کے نقشے پر او آئی سی کی وہی حیثیت ہے،جوکسی محل کے باہرباڑے کی ہواکرتی ہے۔ کیوں کہ باڑے میں بدقسمتی سے جوبھی مخلوق رکھی یا باندھی جاتی ہے،اُس کوکبھی بھول کربھی ان فیصلوں میں شریک نہیں بنایاجاتا،بلکہ اُن کے فیصلوں کی ہواتک نہیں لگنے دی جاتی ،جومحل کے اندرکی دنیا میں من مانے طور پر کیا جاتا ہے ۔ باڑے میں بند کی ہوئی یاباندھی ہوئی اُن مخلوقات پرجتنے بھی ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جائیں، لیکن یہ مخلوق کبھی آپس میں مل کر ارشاد باری تعالیٰ :﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا﴾کی روشنی میں اللہ کی رسی کومضبوطی سے تھامنے کی غلطی نہیں کرتی۔انسان ہوکریااشرف المخلوقات کی سندپا کر کوؤں سے بھی اتحادواتفاق کا سبق نہیں سیکھیں گے۔یہ لوگ بِلاچوں چرا ہمیشہ محل اوراہل محل کی غلامی میں ہی زندگی بسر کرناپسندکرتے ہیں۔ یہ ہمیشہ محل والے کے دست نگررہناجانتے اوراِس پربھی ”صاحبِ فنافی الزوجہ “کی طرح خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں۔ اِس لیے کہ تاک جھانک کرنے کی جسارت کریں گے توپھرامریکہ و برطانیہ اور فرانس کی اسرائیل پرستی کاوہ کیا جواب دیں گے؟یہ ایسے لوگ ہیں،جن کی اپنی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوتی۔ یہ ایک پالتوزرخریدریوڑہے،جس میں آئے دن برکت ہورہی ہے ۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ریوڑکی تعدادچاہے جتنی بھی ہو ، لیکن وہ ریوڑہی رہتا ہے۔وہ کبھی مالک کے سامنے اپنی زبان کھولنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ اِس لیے بڑی طاقتیں اُن کواپنی مرضیات کے مطابق جس طرف چاہتی ہیں،اُسی طرف ہانک دیتی ہیں،موم کی گڑیا کی طرح جس سانچے میں جب چاہے، ڈھال دیتی ہیں۔اس لیے اِن سے ایسی خوب صورت امید رکھنا کہ امریکہ واسرائیل کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہوں گے، یہ سراسرکھلی حماقت ہے ۔ یہ غزہ یافلسطین کے بچوں اور بوڑھوں کی کیاخاک حفاظت کریں گے، جوخود کھانسنے سے پہلے اور چھینکنے کے بعد، کسی سے دوستی یا دشمنی نبھانے سے قبل بحر اوقیانوس کے اُس پار دیکھتے ہیں اور پھر وہاں سے جو حکم ملے اُسی پر ”آمنا وصدقنا“ کہتے یا اُن کے اشاروں پرایمانِ کامل رکھتے ہیں ۔
”سرتسلیم خم ہے،جومزاجِ یارمیں آئے“
یہ ایسے دلاورہیں:
موجودہ حالات میں۵۷/مسلم ممالک کے سربراہان یایورپی غلامان؛جن کامعیارِ زندگی زمینی سطح پر کسی جنت سے کم نہیں،مگرمقام شرم اوروقتِ ماتم یہ ہے کہ اُن ملکوں میں(الاماشاء اللہ۔) ایک بھی ایسانظر نہیں آتا جو اسرائیل یااُس کے مغربی آقاؤں اورہمنواؤں کوترچھی آنکھ بھی دیکھنے کی جرأت کرسکے۔یہ چشم کور ِمحروم حکمران ۴۵/کیلومیٹرکے مختصررقبہ والے غزہ اور۲۷۰۲۴/کیلومیٹررقبے پرپھیلے ہوئے فلسطینی مصیبت زدگان کی کیا خاک مدد کر سکیں گے؟یہ تو خود ایسے دلاوراورصاحب بہادر ہیں کہ اِردگردبسنے والے اسرائیلیوں سے توبالکل بھی نہیں ڈرتے ، لیکن غزہ کی محصور پٹی کے شہدائے کرام اورمجاہدین ذی احترام سے ضرور ڈرتے ہیں۔یہ بالکل حقیقت ہے، جو اِس وقت ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
گرم پراٹھادے :
فلسطینی سرزمین کوظالموں کے آہنی پنجوں سے آزادی دلانے اورمسجداقصیٰ کی بازیابی کے لیے ”صلاح الدین ایوبی“ جیسا جرنیل بن کر پوری زندگی گھوڑے کی پیٹھ پرگزارنی پڑتی ہے،خوردونوش اورنسشت وبرخاست فوج کے ساتھ کرنا پڑتاہے، ہر وقت جان ہتھیلی پر اور بستر زمین کے سینے پرسجاناپڑتاہے تب کہیں جاکرقبلہٴ اول یا بیت المقدس کو آزادی کاسورج دیکھنے کو ملتا ہے ۔کیاکوئی کہہ سکتاہے کہ سونے چاندی سے بنی اوربم پروف گاڑیوں،شان دار اور آراستہ وپیراستہ خواب گاہوں اورآرڈرپرتیارشدہ جہازوں میں ہَلکورے لینے والے بھی فلطسین کوظالمین وغاصبین کے خونی چنگل سے آزادکرا پائیں گے؟جن کامقصدِ زندگی ہی غیروں کی چاپلوسی کرنا، لندن،پیرس،دبئی اوربارسلونا وغیرہ میں امریکی محلات اورفلیٹوں کاحصول ہو،جن کی اولادیں پیدائش سے پہلے ہی کھرب پتی ہوجاتی ہوں اور جن کے دسترخوانوں پرمرغ مسلّم،بکروں اوراونٹوں کے گوشت کے انبار لگے ہوں، اُن سے ایسی امیدیں باندھنا بھی بے وقوفوں کی جنت سجانے کے برابرہے ۔اِس لیے حالات کودیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ اُن کے دل کے نہاں خانے سے تو یہی دعا برآمد ہوتی ہوگی کہ الٰہی!
پایا ہے جو غیروں نے مجھ کو وہی داتا دے
محروم بتاشہ ہوں تو پوری و حلوہ دے
ہاں! مرغ مسلّم دے ، ہاں گرم پراٹھا دے
سوکھی ہوئی آنتوں کو فوراً ہی جو چکنا دے
جہاں پر:
تیل کی کمائی پراپنی عیش وعشرت کامحل تعمیرکیاجاتاہو،جہاں فلسطین کانام لینے پر اماموں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہو، جس سرزمینِ مقدس سے برقعہ،حجاب اورجبے میں ملبوس ہوکردنیاکواپنے بے غیرت ہونے کا پیغام دیا جاتا ہو، جہاں توحیدی سرزمین کوشیطان کااڈہ بنادیاگیاہو،جہاں عالم اسلام کے مرکزتوجہ خادم الحرمین کا لقب پانے والے محمدبن سلمان کی زیرسرپرستی موسیقی اوررقص وسرورسے بھرپورتفریحی میلے کا انعقاد کیاجاتااور کھیلوں کا میدان سجایاجاتاہو،جس جگہ پرمسلم نوجوان خاتون بھی نیم عریاں لباس پہن کر ناچتی اورتھرکتی ہوئی شریعت کامذاق اڑاتی ہو، جہاں شیطانی اورغیرملکی نچنیوں کو دعوتِ رقص دی جاتی ہو، طبلے کی تال پرامریکہ وفرانس اوربرطانیہ سے درآمدشدہ حسینائیں جس پاک سرزمین پرکمریں لچکاتی ہوں،جہاں ایک فاحشہ عورت کوغلاف کعبہ بنانے کے مراحل کے مقام پربلایاجاتاہو،جہاں خلیجی ممالک کے نظریاتی طورپر اسرائیلی حکمران اپنی نوخیزکلیوں اور دوشیزاؤں سے غزہ وفلسطین کی لاشوں پرڈانس کروا رہے ہوں،امریکی اشاروں پربچوں،عورتوں اوربوڑھوں کاقتل عام کرواتے ہوں،وہ اسلام کوبدنام کرنے والے اور امریکہ وبرطانیہ کے غلام اوربندہٴ بے دام تو ہو سکتے ہیں، لیکن مظلومین کے نجات دہندوں کی فہرست میں اپنانام ہرگز نہیں لکھواسکتے۔ایسے بے غیرت اورہواکے دوش پر چلنے اور ڈالروں پرپلنے والے حکمران کسی کی حفاظت کافریضہ نہیں انجام دے سکتے ۔
ہاتھ ملاتے رہیے:
غزہ وفلسطین کے حوالے سے افسوس اِس بات کاہوتاہے کہ امت مسلمہ پرشرعاًجوذمہ داری عائدتھی ،وہ اُسے ادا کرنے میں مکمل طورپرناکام دکھائی دیتی ہے۔اِس وقت مسلمان روایت کی روشنی میں”جسد واحد“ اور ”بنیان مرصوص “ ہونے کے باوجود بھی﴿وَقُلُوْبُہُمْ شَتّٰی﴾کی تصویرنظرآتے ہیں۔
”دل ملے یا نہ ملے ،ہاتھ ملاتے رہیے“
حالاتِ حاضرہ میں مسلم ممالک کے حکمران و حکام اپناجوکردار دنیاکے پردے پرپیش کررہے ہیں، وہ بلاشک وشبہ افسوس ناک اورمستقبل کے لیے کچھ زیادہ ہی خطرناک ہے،جس کابھگتان کسی دن توعقل سے پیدل اُن ناہنجاروں کوادا کرناہی پڑے گا، کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ خدا کی لاٹھی میں کبھی آواز نہیں ہوتی،لیکن جب برستی ہے توپھر ظالمین وغاصبین اورمعاندین کوکہیں جائے پناہ بھی نہیں ملتی۔ اِس لیے ہمیں امیدہے کہ انصاف کاسورج کسی دن ضروراپنی چمک دکھلائے گااورپھر دنیا اُن کی ہلاکت وبربادی کے مناظربھی دیکھے گی۔
تمیز حق وباطل کے لیے تھرما میٹر لگائے جارہے ہیں:
ربِّ ذوالجلال کی مہربانی سے اِس جنگ کاسب سے اہم اورنقدفائدہ ”فعل الحکیم لایخلواعن الحکمة“کے اصول پریہ ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں چھپے منافقین بے نقاب ہورہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کانظام یہی ہے کہ مسلمانوں پرجوبھی آزمائشیں آتی ہیں،وہ مخلصین ومنافقین میں امتیازکے لیے ہی آتی ہے۔حالیہ جنگ نے یہ ثابت کردیاکہ عالمی سطح پرنظر دوڑائیں توپتاچلے گا کہ دو،چارکے سوا کوئی بھی دیش ایسانہیں،جس کے چمکتے چہرے پر نفاق کاداغ موجودنہ ہو۔ ارشادِرب العباد ہے:﴿ وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً وَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْن۔﴾کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق وباطل کی تمیز کے لیے تھرما میٹر لگاجائیں گے اور جانچ پڑتال ہو گی، تاکہ کسی طرح کی غلط فہمی کی دیوار کھڑی نہ ہو۔ اِسی لیے اللہ تعالیٰ اپنی لازوال کتاب میں ارشاد فرماتے ہیں: ﴿ اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ۔﴾ نیکوکاروں، پرہیزگاروں اور بدکاروں، ناہنجاروں کوایک ہی پلڑے میں نہیں رکھا جائے گا ۔
موسم ہے چھٹائی کا:
اِس لیے یقین کے ساتھ کہاجاسکتاہے کہ موجودہ وقت بھی ؛ امتیاز اور چھَٹائی کا ہے، اس میں چھٹائی کا کام چل رہا ہے۔سنتِ الٰہیہ کے مطابق منافقین اوراہل ایمان الگ کیے جارہے ہیں۔ جن کو تشکیک کا مرض لاحق نہیں ہے،اُن کوثابت قدم رکھ کرحلاوتِ ایمانی کی چاشنی عطاکی جارہی ہے۔اِس لیے وہ ایسی کسی بھی آزمائش سے ہرگز متأثر نہیں ہوں گے اوران تیزوتند آندھیوں اورمشکل ترین حالات کے تھپیڑوں میں بھی چٹان کی طرح جمے اور ہر محاذپرڈٹے رہیں گے، جس کی طرف قرآن پاک نے :﴿یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ۔﴾ سے اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کامل ایمان ویقین والوں کو دنیاوآخرت میں اپنے کلمہ سے ثابت قدم رکھتے ہیں ۔
اِن حکمرانوں سے کوئی توقع نہیں:
فلسطین اورغزہ کی گلیوں میں،سڑکوں اورچوراہوں پریہ ننھی ننھی چٹکتی کلیاں،جوبن کھلے مرجھا گئیں اور شیرخواربچے جام شہادت پینے پر مجبور، بھوکے پیاسے زخموں سے چور،علاج ومعالجات کی سہولت سے دور،حاملہ خواتین اورعمررسیدہ عورتوں کے جسم راکٹ،میزائیل ،ٹینکوں اوربموں کی مارسے زخم آلود،سڑکوں پرپڑی لاشیں، خون شہیداں سے رنگین غزہ واطراف کی گلیاں اوردلوں کوتڑپادینے والے دلدوزمناظراورمعصوم بچوں کی دل خراش چیخیں بھی اُن ابن الوقت اوراستعمارکے غلاموں پر کوئی اثر نہیں دکھلارہی ہیں،اُن کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی،توایسے سنگین ماحول ومنظر میں عسکری مداخلت اور فوجی امدادکی توقع بھی بہت دورکی بات ہے۔
اگلانشانہ اُنھیں پرسادھاجائے گا:
مگریہ بات بھی ذہن کے پردے پررکھنی ضروری ہے کہ بھیڑیاجب اپنے شکارکانپٹارہ کرلیتاہے تو پھر اُس کے کرم کااگلاشکاروہی بکراہوتاہے،جوکھڑاہوکرتماشادیکھ رہاہوتاہے ۔شایداِسی وجہ سے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخراُن ننگِ دین وملت اوربے غیرت مسلم حکمرانوں کی بے حسی آخری سطح پرکیوں ہے؟اِس شدیدترین مجرمانہ خاموشی اوربزدلی پر بھیڑ بکریوں کا یہ ریوڑ خدائے جباروقہار کی گرفت میں نہیں آئے گا؟ضرورآئے گا، کیوں کہ ابھی تو ﴿وَاُمْلِیْ لَہُمٌْ۔﴾ہے، اس کے بعد:﴿ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ۔﴾کادردناک وعبرت ناک منظر بھی سامنے آئے گا۔
افغانستان کاکردار:
اسرائیل کی موجودہ جارحیت اورخونچکاں داستان کے پس منظرمیں سربراہانِ مملکتِ اسلامیہ کے اوآئی سی کے اجلاس میں صرف افغانستان ہی ایساملک ہے ،جوشریکِ اجلاس نہیں تھا۔اِس کاپس منظرآپ کے پیش منظر کیاجارہاہے ۔ جب ۵۷/ ملکوں کے سربراہوں نے انعقادِ اجلاس کافیصلہ کیاتوسبھی کے ساتھ افغانستان کوبھی دعوت نامہ ارسال کیا گیا، لیکن افغان اعلیٰ حکام نے کہاکہ:”باربارکی یہ بیٹھکیں فضو ل اوربکواس ہیں۔ہمیں یہ بتاؤکہ اسلامی فوجیں کہاں جمع ہوں گی؟اُس کاپتااور(Location)بھیجو“۔یہ جواب سن کر عرب نے اپنادعوت نامہ واپس لے لیا،اِس لیے افغانستان کی غیرحاضری ہوگئی۔
اور وہی بات سچائی کاروپ دھارکراجلاس سے باہرآئی ،جوکہ افغان کے اعلیٰ حکام نے کہاتھا۔یعنی سبھی ۵۶/ ممالک ایک دوسرے سے آپس میں ہی الجھ پڑے ،جس کاشان دارنتیجہ یہ نکلا کہ اجلاس کانتیجہ بھی آپسی رسہ کشی کی وجہ سے(Zero Point) ہی رہا۔
اِس لیے موجودہ عالمی تناظر میں یہ بات بغیرکسی جھجھک کے زیرقلم لائی اورکاغذی صفحات کے سینے پر سجائی جاسکتی ہے کہ ”مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے“۔اب فیصلہ قارئین کے ہاتھوں میں ہے ،جوچاہے آپ کاحسن کرشمہ سازکرے۔