مسلمانو!!! ’’یہ زمانۂ صبر ہے‘‘کمر بستہ ہوجائو!!

انوار نبوی ا                                                                                                             ساتویں قسط:

محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمیؔ

۴…دعوت الی اللہ پر صبر :

                یہ چوتھا اہم ترین موقع صبر ہے ۔ آج مبلغین اور داعیین سے لوگوں کی دین سے دوری ، بے علمی اور لاپرواہی مخفی اور ڈھکی چھپی نہیں ، امت کی یہ نا گفتہ بہ حالت ہمارے سامنے ہے ؛لیکن امت کے ان حالات کو دیکھ کر ہم مایوسی کے شکار ہوجائیں ، ہاتھ پر ہاتھ دھرکے بیٹھ جائیں ؛یہ وارثینِ انبیا اور جانشینِ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان نہیں ہے ؛ بل کہ یہ حالات تو مزید دعوت الی اللہ کے تقاضوں کو پورا کرنے پر ابھار رہے ہیں ۔ ہماری ذمے داریوں میں مزید اضافہ کررہے ہیں اور ہماری ضمیر کو جھنجھو ڑ کر کہہ رہے ہیں کہ ایسے موقع پر پوری طرح سے اٹھ کھڑے ہو! کمر بستہ ہوجاؤ ! منکرات اور برائیوں کی جڑیں کھود ڈالو ! ہر سو حق کا پرچم لہرا دو !دو ٹوک اور کھل کر حق کی بات کرو! اس کا اظہار کر و۔ اس راستے میں جگہ جگہ خار دار وادیاں آئیںگی ، اندھیری اور تاریک نگری آئے گی ، قزاقوں کا حملہ ہوگا ، ظالمین اور فتین ظلم اور فتنہ پروری سے باز نہیں آئیںگے ،ان تمام حالات کے باوجود سینہ سپر ہوکر دعوت الی اللہ کے لیے ہر طرح کوشاں رہنا ہوگا۔

صبر نوح:

                نوح علیہ السلام کے صبر کو دیکھیے ، دعوت الی اللہ کی راہ میں ان کا صبر پہاڑ معلوم ہوتا ہے ۔ ۹۵۰؍ سال تک ہر قسم کی آزمائشیں ،مصائب ، آلام ، اورتکالیف برداشت کرتے رہے ، اور اللہ کے بندوں کو اللہ کے طرف بلاتے رہے ۔ جس کی ترجمانی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے کلام میں اس طرح کی ہے ۔

                 { قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّنَھَارًاo فَلَمْ  یَزِدْھُمْ   دُعَآئِیْٓ اِلَّا  فِرَارًا}(نوح: ۵-۶)

                (پھر) نوح نے (اللہ تعالیٰ سے ) کہا کہ میرے پروردگار! میں نے اپنی قوم کو رات دن (حق کی ) دعوت دی ہے، لیکن میری دعوت کا اس کے سوا کوئی نتیجہ نہیں ہوا کہ وہ اور زیادہ بھاگنے لگے ۔

راہِ دعوت میں اذیت قلبی:     

                ہاں ! یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ دعوت کی راہ میں جو تکلیفیں پہنچتی ہیں، وہ صرف بدنی نہیں ہوتیں ؛ بل کہ دعاۃ کو دشمنان سے ایسے کلمات بھی سننے کو ملتے ہیں کہ کلیجہ چھلنی ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے کلام اللہ میں پیشگی ہی اس کی اطلاع دے دی اور فرمایا:

                 { لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ قف وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا ط وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ } (آل عمران: ۱۸۶)

                (مسلمانو! )تمہیں اپنے مال و دولت اور جانوں کے معاملے میں (اور ) آزمایا جائے گا، اور تم اہلِ کتاب اور مشرکین دونوں سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنوگے ، اور اگرتم نے صبر اورتقویٰ سے کام لیا تو یقینا یہی کام بڑی ہمت کے ہیں (جو تمہیں اختیار کرنے ہیں ۔)

                { وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلاً } (المزمل: ۱۰)

                ’’اور جو باتیں یہ (کافر لوگ ) کہتے ہیں ، ان پر صبر سے کام لو ، اور خوب صورتی کے ساتھ ان سے کنارہ کرلو‘‘۔  ان سب ایذا رساں کلمات سے کبیدہ خاطر نہ ہوناچا ہیے ، دل چھوٹا نہ کرناچا ہیے ؛بل کہ انبیا علیہم الصلاۃ والسلام نے اس پر جو کیا اور کہا وہ کرنا چاہیے ؛ جسے کلامِ پاک میں ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے :

                {وَ لَنَصْبِرَنَّ  عَلٰی مَآ  اٰذَیْتُمُوْنَا ط وَ عَلَی اللّٰہِ   فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ  }(ابراہیم: ۱۲)

                اور تم نے اس میں جو تکلیفیں پہنچائی ہیں ، ان پر ہم یقینا صبر کریں گے ، اور جن لوگوں کو بھروسہ رکھنا ہو انہیں اللہ پر ہی بھروسہ رکھنا چاہیے ۔

    { وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُل’‘مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّیٰٓ اَتٰئھُمْ  نَصْرُنَا }(انعام : ۳۴)

                اور حقیقت یہ ہے کہ تم سے پہلے بہت سے رسولوں کو جھٹلایاگیا ہے ، پھر جس طرح انہیں جھٹلایا گیا اور تکلیفیں دی گئیں ، اس سب پر انہوں نے صبر کیا ، یہاں تک کہ ہماری مدد ان کو پہنچ گئی ۔

                داعیین ایک لمبے عرصے اسی طرح مصیبتوں اور دشواریوں پرصبر کرتے رہتے ہیں، تب کہیں جاکر اللہ کی مدد آتی ہے ؛اس ـلیے کہ سنتِ خداوندی ہے کہ وہ آزمائشوں کے بعد انعامات سے نوازتا ہے اسی کو کہا ہے :

                { اَمْ  حَسِبْتُمْ  اَنْ  تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ  وَ لَمَّا  یَاْتِکُمْ  مَّثَلُ  الَّذِیْنَ  خَلَوْا  مِنْ قَبْلِکُمْ ط مَسَّتْھُمُ  الْبَاْسَآئُ  وَ الضَّرَّآئُ  وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ  مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ط اَلآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْب’‘  }(البقرۃ: ۲۱۴)

                ’’(مسلمانو!) کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں (یونہی داخل ہوجاؤگے ، حالاں کہ ابھی تمہیں اس جیسے حالات پیش نہیں آئے ، جیسے ان لوگوں کو پیش آئے تھے ، جو تم سے پہلے گزرے ہیں ، ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں ،انہیں ہلا ڈالا گیا ؛یہاں تک کہ وہ رسول اور ان کے ایمان والے ساتھ بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ یاد رکھو ! اللہ کی مدد نزدیک ہے‘‘۔

                 داعیوں کو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ کی مدد دیر سویر ہی سہی مگر ضرور آئے گی ۔

                { حَتّیٰٓ اِذَا اسْتَیْئَسَا الرُّسُلُ  وَظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ  قَدْ کُذِبُوْا جَآئَ ھُمْ  نَصْرُنَا لا فَنُجِّیَ مَنْ نَّشَآئُ ط وَلَا یُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ }(یوسف: ۱۱۰)

                ’’یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہوگئے اور کافر لوگ یہ سمجھنے لگے کہ انہیں جھوٹی دھمکیاں دی گئی تھیں ، تو ان پیغمبروں کے پاس ہماری مدد پہنچ گئی ۔(یعنی ) کافروں پر عذاب آیا ) اورجن کو ہم چاہتے تھے ،انہیں بچالیا گیا،اور جو لوگ مجرم ہوتے ہیں ،ان سے ہمارے عذاب کو ٹالا نہیں جا سکتا‘‘ ۔

                یاد رکھیے ! ہر وہ شخص جو حق کے لیے کھڑا ہوگا ، یا بھلائی کا حکم کرے گا، یا برائیوں سے روکے گا،تو اسے اس راہ میں تکالیف اٹھانی پڑیں گی اور ان تکالیف کاصرف اور صرف ایک ہی علاج ہے اوروہ ہے صبر ، اللہ سے مدد طلبی اور اس کی طرف انابت اور رجوع ۔

نوٹ:  داعیین سے مراد کوئی خاص جماعت نہیں ؛بل کہ ہروہ جماعت یا افرادہیں جو کسی بھی اعتبار سے دینِ حق کا کام کریں ، خواہ تبلیغ کے ذریعہ،( اپنوں میں یا غیروں میں) خواہ تعلیم کے راستے سے، خواہ تزکیہ کے واسطے سے، خواہ نہی عن المنکر سے یا امر بالمعروف کرکے۔ زبان سے یا قلم سے، موجودہ دورکے ہر مشروع ذرائع سے ۔

۵…میدان جنگ اور مڈبھیڑ پر صبر :

                صبر کے اہم ترین مواقع میں سے ایک موقع دشمنوں سے مڈبھیڑ کے وقت صبر کرنااورمیدانِ جنگ میں ڈٹے رہنا ہے ، جب دونوں جانب سے گھمسان کی لڑائی شروع ہو اس وقت جمے رہنا ہے ؛ان لمحوں میں صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا ، مدد و نصرتِ خداوندی کی شرط ہے ۔ اور قدم اکھڑ جانااور راہِ فرار اختیار کرنا، اکبر الکبائر یعنی بہت بڑا گناہ ہے ؛اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کلام اللہ میں ثبات قدم کو واجب قرار دیا ۔اور فرمایا ہے:

                { ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓااِذَا لَقِیْتُمْ  فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ  تُفْلِحُوْنَ} (انفال : ۴۵)

                ’’اے ایمان والو! جب تمہارا کسی گروہ سے مقابلہ ہو جائے تو ثابت قدم رہو‘‘ ۔

                ایسے موقع پرثابت قدم رہناضروری ہے۔ اورپیٹھ پھیر کر بھاگنے اورراہِ فرار اختیارکرنے سے احتراز لازمی ہے ؛نیز میدانِ جنگ جب پوری طرح گرم ہوجائے اورمعاملہ ہاتھ سے نکل جائے ،اس وقت صبرکا دامن تھامے رہنا اور اپنے پرچم تلے ڈٹے رہنا اہم ترین فریضہ اور بدل جنت ہے۔ { اَمْ حَسِبْتُمْ  اَنْ  تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ  وَلَمَّا  یَعْلَمِ  اللّٰہُ  الَّذِیْنَ  جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ } (آل عمران: ۱۴۲)

                ’’بھلا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ (یونہی ) جنت کے اندر جاپہنچو گے ؟ حالاں کہ ابھی تک اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو چانچ کر نہیں دیکھا جو جہاد کریں ، اور نہ ان کو جانچ کر دیکھا ہے ،جو ثابت قدم رہنے والے ہیں‘‘ ۔

                {  وَمَا مُحَمَّد’‘ اِلَّا رَسُوْل’‘ج  قَدْ خَلَتْ  مِنْ  قَبْلِہِ  الرُّسُلُ ط  اَفَاْئِنْ  مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ  عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ ط وَمَنْ  یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا ط وَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ}(آل عمران: ۱۴۴)

                ’’اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )ایک رسول ہی تو ہیں ، ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں ، بھلا اگران کا انتقال ہوجائے یا انہیں قتل کردیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤگے ؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا، وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ اور جو شکر گزار بندے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ثواب دے گا‘‘ ۔

                اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے طالوت علیہ السلام کے قصے میں، ان مخلص مومنین کی جماعت کے متعلق فرمایا ،جو باقی رہ جانے والوں میں سے تھے ۔

                 {  فَلَمَّا  فَصَلَ  طَالُوْتُ   بِالْجُنُوْدِ لا  قَالَ  اِنَّ  اللّٰہَ مُبْتَلِیْکُمْ بِنَھَرٍ ج فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْج وَمَنْ لَّمْ یَطْعَمْہُ  فَاِنَّہٗ  مِنِّیْٓ  اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَۃً م بِیَدِہٖ ج فَشَرِبُوْا مِنْہُ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْھُمْ ط فَلَمَّا جَاوَزَہٗ ھُوَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ لا قَالُوْا لَا طَاقَۃَ لَنَا الْیَوْمَ  بِجَالُوْتَ  وَ جُنُوْدِہٖ ط  قَالَ الَّذِیْنَ  یَظُنُّوْنَ  اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللّٰہِ لا کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ  قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃًم بِاِذْنِ اللّٰہِط وَاللّٰہُ  مَعَ  الصّٰبِرِیْنَ}(البقرۃ: ۲۴۹)

                ’’چناںچہ جب طالوت لشکر کے ساتھ روانہ ہوا تو اس نے(لشکر والوںسے) کہا کہ اللہ ایک دریا کے ذریعے تمہارا امتحان لینے والا ہے ، جو شخص اس دریا سے پانی پیے گا وہ میرا آدمی نہیں ہوگا ، اور جو اسے نہیں چکھے گا وہ میرا آدمی ہوگا ؛ الا یہ کہ کوئی اپنے ہاتھ سے ایک چلّوبھرلے (تو کچھ حرج نہیں)پھر (ہوا یہ کہ ان میں سے تھوڑے آدمیوں کے سوا باقی سب نے اس دریا سے (خوب) پانی پیا ، چناں چہ جب وہ (یعنی طالوت) اور اس کے ساتھ ایمان رکھنے والے دریا کے پار اترے ، تویہ لوگ (جنہوں نے طالوت کا حکم نہیں مانا تھا )کہنے لگے کہ آج جالوت اور اس کے لشکر کا مقابلہ کرنے کی ہم میں بالکل طاقت نہیں ہے۔ (مگر ) جن لوگوں کا ایمان تھا کہ وہ اللہ سے جاملنے والے ہیں ، انہوں نے کہا کہ نہ جانے کتنی چھوٹی جماعتیں ہیں ،جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آتی ہیں اور اللہ ان لوگوں کا ساتھی ہے، جو صبر سے کام لیتے ہیں‘‘ ۔

                تو جن لوگوں نے صبر نہیں کیا اور پانی پی کر طالوت علیہ السلام کی نافرمانی کی ، وہ تو امتحان میںناکام رہے اور جنت میں شریک نہ ہوسکے؛ لیکن بقیہ جماعت جو طالوت علیہ السلام کی تابع دارتھی، جنہوں نے صبرکا دامن تھامے رکھا تھا، تو یہ صابرین کی مٹھی بھر جماعت نے قتال کیا ۔اور صابرین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا جووعدہ ہے، وہ وعدہ پورا ہوا ، اللہ کی مدد آئی اوریہ لوگ ان نافرمانوں کے بغیر ہی فتح یاب ہوئے ۔

۶… حصول علم کی راہوں میں صبر :

                مواقع صبر میں سے ایک اہم ترین موقع حصول علم کے لیے صبر کرنا ہے ؛کیوںکہ علم کو حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ، اس میں بڑی مشقتیں ہیں ؛کسی کے ذہن میں اگریہ خیال ہو کہ وہ علم حاصل کرلے اور اسے ناکوں چنے چبانے نہ پڑیں، تو یہ خیالِ واہیہ ہے، جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ۔

                اس لیے کہ طالب علم جب تک حصولِ علم کے لیے صبر کا دامن نہیںتھامے گا ، استقامت کا لبادہ زیبِ تن نہیں کرے گا ، سرد گرم برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھے گا ؛وہ اس راستے کے قریب پھٹک بھی نہیں سکتا ۔ اسی وجہ کر تو حضرت خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا:

     { قَالَ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًاo وَکَیْفَ  تَصْبِرُ عَلٰی  مَا لَمْ  تُحِطْ  بِہٖ خُبْرًا} (الکہف : ۶۷-۶۸)

                ’’انہوں نے کہا: مجھے یقین ہے کہ آپ میرے ساتھ رہنے پر صبر نہیں کر سکیں گے۔اور جن باتوں کی آپ کو پوری پوری واقفیت نہیں ہے، ان پر آپ صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں؟‘‘

                تو موسیٰ علیہ السلام نے ان کے جواب میں کہاتھا:

                {سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَائَ اللّٰہُ ً صَابِرًا وَّلَا اَعْصِیْ لَکَ اَمْرًا} (الکہف: ۶۹)

                ’’موسیٰ نے کہا:ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا‘‘۔

طلب علم میں صبر کے اولین اصول:

                طلبِ علم میں صبر یہ ہے کہ، جب تک علما کے درجے کو نہ پہنچ جائے،وہ مقام ومرتبت حاصل نہ ہوجائے ،اس وقت تک اپنے آپ کو فتوی دینے سے بے دھڑک مسائل بتانے سے ،بڑ اپن کے کاموں سے، صدوریت اورشیخیت بگھارنے سے بچائے ۔ بعض طلبہ کے اندر دورانِ طالب علمی ہی یہ چیزیں کسی راہ سے آجاتی ہیں ، یا تو انہیں کسی بڑے کی خدمت کا موقع یا ان کا قرب نصیب ہوجاتا ہے ،یا پھر درجات یا مسابقات وغیرہ میں نمایاں کامیابی کویہ طلبہ ہضم نہیں کر پاتے اور پھر ان کی ترقی تو کجا ؛ البتہ تنزلی کا صدر دروازہ کھل جاتا ہے۔

                ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ ان انعامات کو عطیۂ خداوندی سمجھتے اور تو اضع کے پیکر بنتے ۔ہاں! جو ایسا کرتے ہیں ،انہیں صدر بننے کی ضرورت نہیں ہوتی ، وقت انہیں مقام صدارت پر بڑے عزت واکرام کے ساتھ خود ہی پہنچا دیتا ہے ۔

معلم کا صبر :

                طلب علم کے صبر ہی کے ضمن میں معلمین کا اپنے تلامذہ اور شاگردوں پر صبر کرنا ہے۔ ان کی تعلیم پر،ان کی تفیہم پر ، ان کی تحفیظ اور مذاکرے وغیرہ پر ۔ بسا اوقات وہ سبق یاد نہیں کرپاتے ،باربار سمجھانے کے باوجود سمجھ نہیں پاتے،یاد داشت کی چیزیں یاد نہیں کرپاتے، صحیح طورپر تمارین اور کاپیاں نہیں لکھ پاتے ، مذاکرے اور تکرار میں کمی رہ جاتی ہے، تو اس وقت معلم کو آپے سے باہر نہ ہوتے ہوئے ،تنبیہ کا ایسا طریقہ اختیارکرنا چاہیے ، جس سے طلبہ کبیدہ خاطر بھی نہ ہوں ، اور مذکورہ چیزوں کی تلافی بھی بہ آسانی ہوجائے ؛ان کو اس کا مناسب طریقہ بتائیں اور ایسا انداز اختیار کریں کہ، وہ طلبہ دل جمعی اور دل لگی سے حسن خوبی کے ساتھ مفوضہ امورکوپائے تکمیل تک پہنچا دیں ۔

                یہ مواقع صبر میں سے ۶؍ اہم مواقع تھے جہاں صبر کرنا مشکل ہوتا ہے ؛ اسی وجہ سے یہاں صبر مطلوب بھی ہے ۔ اب آئندہ وہ اسباب پیش کیے جائیںگے ،جو صبر کی راہوں میں معین ہیں اور جن کو اختیار کرکے صبر کرنا آسان اور سہل ہوجائے گا۔

                صبر کے اسبابِ معین کو ان شاء اللہ آئندہ شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں………