انوار نبوی ا پانچویں قسط:
محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمیؔ
بقیہ ثمراتِ صبر
(۱۳)صبر حصول ِنصرت کا ذریعہ ہے:
عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ’’واعلم ان فی الصبر علی ما تکرہ خیرا کثیرا وان النصر مع الصبر ‘‘ ۔(رواہ احمد :۱۲۸۰۰)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جان لو! ناپسندیدہ امور پر صبر کرنا خیرِ کثیر کا ذریعہ ہے اور یہ بھی سمجھ لو کہ مدد تو صبر کے ساتھ ہے ۔
اور دیکھئے کہ جب صحابہ ؓنے صبر سے کام لیا اور تقویٰ کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ مدد فرمائی ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
{بَلٰٓی لا اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَیَاْ تُوْکُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُسَوِّمِیْنَ } (آل عمران:۱۲۵)
ہاں ! بل کہ اگر تم صبر او رتقویٰ اختیار کرو، اور وہ لوگ اپنے اسی ریلے میں اچانک تم تک پہنچ جائیں ،تو تمہارا یہ پرور دگار ۵؍ ہزار فرشتوںکوتمہاری مدد کے لیے بھیج دے گا، جنہوں نے اپنی پہچان نمایاں کی ہوئی ہوگی ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
{ وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَھَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَاط وَ تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ بِمَا صَبَرُوْا ط وَدَمَّرْنَا مَا کَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہٗ وَمَا کَانُوْا یَعْرِشُوْن }(الاعراف: ۱۳۷)
اور جن لوگوں کو کمزور سمجھا جاتا تھا ، ہم نے انہیں اس سرزمین کے مشرق ومغرب کا وارث بنادیا ، جس پر ہم نے برکتیں نازل کی تھیں۔ اور بنی اسرائیل کے حق میں تمہارے رب کا کلمۂ خیرپورا ہوا ، کیوں کہ انہو ں نے صبر سے کام لیاتھا اور فرعون اور اس کی قوم جو کچھ بنائی چڑھائی کررہی تھی ان سب کو ملیا میٹ کردیا ۔
امام شافعی ؒ کا قول ہے کہ صبر کی جڑ کسی کام پر کمر کس لینا ہے اور اس کا پھل مراد کو پالینا ہے ۔
(۱۴)صبر معیت خداوندی کا ذریعہ ہے :
اللہ تعالیٰ نے صابرین کو اپنی معیت کا مژدہ سنایا ہے :
{اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ } (البقرہ : ۵۳)یقینا اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
(۱۵)صبر دشمنوں کے فریب سے نجات دلا تا ہے :
اللہ تعالیٰ نے صبر اور تقویٰ کو دشمن کے مکرو فریب سے محفوظ رکھنے کے لیے بہت مضبوط ڈھال بنا یا ہے ۔
چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا }(آل عمران: ۱۳۰)
اگر تم صبر اور تقویٰ اختیار کروگے، تو ان کی چالیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیںگی ۔
(۱۶)صبر اللہ کی جانب سے برکت ، رحمت اور ہدایت کا ذریعہ ہے :
اللہ تعالیٰ نے صابرین کے ساتھ تین ایسی نعمتوں کو خاص کیا ہے، جو اُن کے علاوہ کسی اور کے لیے نہیں ہے اور وہ نعمتیں یہ ہیں :
(۱) برکت (۲) رحمت (۳) ہدایت ۔
جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
{ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْن oالَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃ’‘ لا قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰت’‘ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃ’‘ قف وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ }
(البقرۃ: ۱۵۵-۱۵۷)
اور جو لوگ (ایسے حالات میں ) صبر سے کام لیتے ہیں ان کو خو شخبری سنادیں ۔ یہ و ہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پرور دگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں ۔
(۱۷)صبر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی محبت پانے کا آسان ذریعہ ہے :
اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کو صبر کے ساتھ معلق کردیا ہے اور صابر کے ساتھ اسے مخصوص کردیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{وَکَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ لا مَعَہٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْر’‘ ج فَمَا وَھَنُوْا لِمَآاَصَابَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَااسْتَکَانُوْا ط وَاللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْن}(آل عمران: ۱۴۶)
اور کتنے سارے پیغمبر ہیں، جن کے ساتھ مل کر بہت سے اللہ والوں نے جنگ کی ! نتیجتاً انہیں اللہ کے راستے میں جو تکلیفیں پہنچیں ان کی وجہ سے نہ انہوں نے ہمت ہاری ، نہ وہ کمزور پڑے اور نہ انہوں نے اپنے آپ کو جھکایا ، اللہ تعالیٰ ثابت قدم لوگوں سے محبت کرتا ہے ۔
(۱۸)صبر اللہ سبحانہ وتعالی کی تعریف کے حصول کا ذریعہ ہے:
اللہ تعالیٰ جیسے اپنے بندے ایوب علیہ السلام کی بے مثال صبر پر ان کی تعریف بیان کرتے ہیں:
{ اِنَّا وَجَدْنٰہُ صَابِرًا ط نِعْمَ الْعَبْدُ ط اِنَّہٗٓ اَوَّاب’‘ } (ص: ۴۴)
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انہیں بڑا صبر کرنے والا پایا ۔ وہ بہترین بندے تھے ، واقعتا وہ اللہ تعالیٰ سے خوب لگاؤ رکھتے تھے ۔
(۱۹)صبر ایک روشنی ہے :
عن ابی مالک الا شعری رضی اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ’’ الصلاۃ نور ، والصدقۃ برہان ، والصبر ضیاء ، والقرآن حجۃ لک او علیک ‘‘ (مسلم)
ابو مالک اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز نور ہے اور صدقہ دلیل ہے اور صبر روشنی ہے اور قرآن دلیل ہے دوسرے پر یا دوسرے کی دلیل ہے تجھ پر۔
(۲۰)صابرین ہی نشانی اور آیاتِ باری تعالیٰ سے نفع اٹھاتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے یہ بات بتلا دی ہے کہ اللہ کی آیات سے تو صرف بہت زیادہ صبر کرنے والے ہی نفع اور فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، اس لیے آیتِ کریمہ میں اللہ نے مبالغہ کا صیغہ’’ صَبَّارٌ ‘‘ استعمال کیا ہے ۔
{ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرلا وَذَکِّرْھُمْ بِاَیّٰمِ اللّٰہِ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْر} (ابراہیم: ۵)
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاؤ اور (مختلف لوگوں کو ) اللہ نے (خوش حالی اور بد حالی کے ) دن جو دکھا ئے ہیں ، ان کے حوالے سے انہیں نصیحت کرو ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو صبر اور شکر کا خوگر ہو، اس کے لیے ان واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں ۔
سورۂ لقمان میں فرمایا : {اَلَمْ تَرَ اَنَّ الْفُلْکَ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللّٰہِ لِیُرِیَکُمْ مِّنْ اٰیٰتِہٖ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْر }(لقمان: ۳۱)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کشتیاں سمندر میں اللہ کی مہربانی سے چلتی ہیں ، تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے ؟ یقینا اس میں اس شخص کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں ، جو صبر کا پکا اور اعلی درجہ کا شکر گزار ہو ۔
اور اللہ تعالیٰ نے سبا کے قصے کے بعد فرمایا :
{فَجَعَلْنٰھُمْ اَحَادِیْثَ وَمَزَّقْنٰھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْر} (سبا:۱۹)
تو ہم نے (ان کی ناشکری کے نتیجے میں ) افسانہ ہی افسانہ بنادیا ، اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے بالکل تتربتر کردیا ۔ یقینا اس واقعہ میں ہر اس شخص کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو صبر وشکر کا خوگر ہو ۔
اور بندوں پر اللہ کی جانب سے کی گئی نعمتوں کے ذکر سے جیسے کہ کشتی جو پانی پر انسانوں اور ان کے سازو سامان کو لے کر اِدھر سے اُدھر ہوتی ہے یہ کتنی بڑی نعمت ہے ، اس نعمت اور اس جیسی نعمتوں میں تدبر سے صرف صابرین ہی فائدہ اٹھاتے ہیں ۔چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{ اِنْ یَّشَاْ یُسْکِنِ الرِّیْحَ فَیَظْلَلْنَ رَوَاکِدَ عَلٰی ظَھْرِہٖ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ}(شوریٰ : ۳۲-۳۳)
اور اس کی نشانیوں میں سے ہیں سمندر میں یہ پہاڑوں جیسے جہاز اگر وہ چاہے تو ہو ا کو ٹھہرادے ، جس سے یہ سمندر کی پشت پر کھڑے رہ جائیں ۔ یقینا اس میں ہر اس شخص کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو صبر کا بھی خوگرہو اور شکر کا بھی ۔
قرآنِ کریم میںیہ چار مقامات ہیں جو اِس بات کو صاف صاف بتلارہے ہیں کہ اللہ کی نشانیوں اورآیات سے صرف صبر اور شکر کرنے والے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔