انوار نبوی ا دسویں قسط:
محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمیؔ
عَنْ سَعْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قُلْتُ : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ، اَیُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَائً ؟ قَالَ : ((اَلْأَنْبِیَائُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ،فَیُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلَی حَسَبِ دِیْنِہِ،فَإِنْ کَانَ دِیْنُہُ صُلْبًا إشْتَدَّ بَلَاؤُہُ، وَإِنْ کَانَ فِيْ دِیْنِہِ رِقَّۃٌ ابْتُلِیَ عَلَی حَسَبِ دِیْنِہِ، فَمَا یَبْرَحُ حَتَّی یَتْرُکَہُ یَمْشِیْ عَلَی الْأَرْضِ مَاعَلَیْہِ خَطِیْئَۃ ٌ)) ۔ (ترمذی : ابواب الزہد ، باب ماجاء فی الصبر علی البلاء )
صفت صبر سے آراستہ ہونے کے اسباب ِعشر
(گذشتہ قسط اورابتدائی اسبابِ ثلاثہ اپریل۲۰۱۹کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)
چوتھا سبب : صبر کی نیت :۔
عبد الواحد بن یزید فرماتے ہیں کہ : من نوی الصبر علی طاعۃ اللّٰہ صبرہ اللّٰہ علیہا وقوّاہ لہا، ومن نوی الصبر عن معاصی اللّٰہ أعانہ اللّٰہ علی ذلک وعصمہ منہا ۔ (حلیۃ الاولیاء : ۶/۱۶۳)
جو طاعتِ خداوندی پر صبر کرنے ، جمنے اور استقامت اختیار کرنے کی نیت کرتا ہے ، اللہ اسے اس راہ پر صبر نصیب فرمادیتے ہیں اورقوتِ استقامت عطا فرماتے ہیں ۔ اسی طرح جو معاصی پر صبر کرنے کی نیت کرتا ہے اور گناہوں سے بچنے کا عزم کرتا ہے،تو اللہ اس کی اس دشوار گزار منزل میں مدد فرماتے اور اسے گناہوں سے بچالیتے ہیں ۔
پانچواں سبب : پریشانی کے بعد خوشی کا یقین : ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے پیش نظر اپنے بندوں کے لیے ایک مصیبت پر دو سہولتیں فراہم کی ہیں اور اعلان کردیا ہے : {فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا }(الانشراح: ۵-۶)
’’چنا ںچہ حقیقت یہ ہے کہ مشکلات کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے ۔ یقینا مشکلات کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے‘‘ ۔
تشریح : آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جارہی ہے کہ شروع میں آپ کو فرائض رسالت کی ادائیگی میں جو مشکلات پیش آرہی ہیں ، وہ عنقریب آسانی میں تبدیل ہوجائیں گی ۔ اس کے ساتھ ایک عام قاعدے کے طور پر یہ حقیقت بتلاکر عام انسانوں کو بھی سبق دیا گیا ہے کہ دنیا میں مشکلات پیش آئیں تو یہ سمجھ لیں کہ ان کے بعد آسانی کا وقت بھی آئے گا ۔
نور الانوار میںشاعر کا شعر ہے ؎
اذا اشتدت بک البلوی ففکرفی الم نشرح
فعسر بین یسرین اذا فکرتہ فافرح
’’جب پریشانیاں تجھ پر گراں بار ہوجائیں، تو تو سورۂ الم نشرح میں غور کر، جہاں ایک مصیبت دو آسانی کے مابین ہے؛ جب (پریشانی کمر توڑ ڈالے ) توتو اس میں غور کر کہ (ایک پریشانی آتی ہے تو یہ دو آسانی بھی ساتھ لاتی ہے )تو تو خوشی محسوس کرے گا اور تجھے تقویت حاصل ہوگی ‘‘۔
جس قدر مصیبت وآزمائش ہوتی ہے، اللہ کی نصرت ومدد اسی قدر سایہ فگن ہوتی ہے ۔ اور(نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرسکتا ۔ {فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَاللّٰہِ حَقٌّ وَّلَا یَسْتَخِفَّنَّکَ الَّذِیْنَ لَا یُوْقِنُوْنَ} (الروم: ۶۰)
’’لہٰذا (اے پیغمبر ! )تم صبر سے کام لو، یقین جانو اللہ کا وعدہ سچا ہے اورایسا ہر گز نہ ہونا چاہیے کہ جو لوگ یقین نہیں کرتے ان کی وجہ سے تم ڈھیلے پڑجاؤ‘‘۔
رات کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو ، اس کی تاریکی کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو ، صبح کی روشنی اس کے بعد آتی ہی ہے سیاہی اور تاریکی چھٹ کر ہی رہتی ہے ۔ اس لیے مومن کو کبھی پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے دل کو مصیبت شکستہ نہیں کرسکتی ۔
یعقوب علیہ السلام کا صبر :
یعقوب علیہ السلام یوسف علیہ السلام بل کہ اپنی دو دو چہیتی اولاد حضرت بنیامین علیہ السلام کی گم شدگی کی مصیبت میں جدائیگی کی کربت میں آزمائے گئے ؛ لیکن آپ نے مثالی صبر اختیار کیا ، صبر جمیل سے کام لیا اور آپ نے صبر کو اپنے حق میں بہتر قرار دیا ۔ اور کسی قسم کی ناراضگی ، جزع فزع کو راہ نہیں دی، بل کہ کہا :{فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّاْتِیَنِیْ بِہِمْ جَمِیْعًا } (یوسف: ۸۳)
’’اب تو میرے لیے صبر ہی بہتر ہے ، کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ میرے پاس ان سب کو لے آئے‘‘ ۔ آپ نے کسی کے سامنے اپنا دکھڑا نہیں سنایا ، کسی مخلوق کے سامنے نہ روئے نہ گڑگڑائے ، بل کہ آپ نے تو اپنا غم ، اپنا ہم ، اپنا حزن ، اپنا ملال ،اپنا دکھڑا اوراپنی شکایت صرف اور صرف اپنے رب کو ہی سنایا اور کہا : {اِنَّمَا اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْ اِلَی اللّٰہِ } (یوسف: ۸۶)تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر جمیل عطا فرمایا ، آپ کی صداکی شنوائی کی اور آپ کے غم کو نہ صرف دور کیا ؛بل کہ تمام اولاد کو عزت اور منصب کے ساتھ آپ کے حضور جمع فرمادیا۔
مصیبت پرصبر یہ جواں مردی ہے ۔ غم کا اظہار ، دل کا دکھڑا اس ذات کو سناؤ جو قادر مطلق ہے ، جو مانگنے والوں کو پسند کرتی ہے۔ جس کے قبضۂ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ، جو صابرین کو بہترین اجر دیتا ہے ، جو اپنے عاشقین کو کبھی مایوس نہیں کرتا ۔
چھٹا سبب :اللہ تعالیٰ سے صبر پر مدد چاہنا : ۔
صبر پر معین اسباب میں سے ایک اہم ترین سبب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہنا ہے ،اس کی حفاظت میںپناہ لینا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی معاونت طلب کرنا ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے : {وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ}(النحل:۱۲۷)’’اور اے پیغمبر ! تم صبر سے کام لو اور تمہارا صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے‘‘ ۔
ابن کثیر ؒ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اچھی طرح سمجھ لو ! کہ صبر اللہ کی مشیت ، اس کی اعانت ، طاقت اور حرکت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا ۔
ساتواں سبب: قضا و قدر پر ایمان : ۔
صبر پر معاون اسباب میں اہم ترین سبب قضا و قدر پرایمان بھی ہے ۔ بندہ اس چیزکو ذہن نشین کرلے ، دل میں بیٹھالے کہ اللہ کا فیصلہ نافذ ہوکر ہی رہتا ہے اور اس کو تسلیم کرلے اور اچھی طرح سمجھ لے کہ اللہ کے فیصلے اس کی قضا و قدر کے آگے سارے حیلے حوالے اور تمام تدابیر ناکام ہیں ۔ بندے کو تدبیر اختیار کرنے کا حکم ہے ، لیکن اس پر نتیجہ برآمد کرنے کا اختیارنہیں وہ تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ اپنی حکمت سے جو بہتر ہوتا ہے وہ فیصلے کرتا ہے ۔ اسی طرح اس بات کو ذہن میں راسخ کرلے کہ :{ مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ ٓ اَنْفُسِکُمْ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَھَا ط اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْر’‘}(الحدید:۲۲)
ترجمہ:’’کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین پر نازل ہوتی یا تمہاری جانوں کو لاحق ہوتی ہو، مگروہ ایک کتاب میں اس وقت سے درج ہے، جب ہم نے ان جانوں کو پیدا بھی نہیں کیا تھا۔ یقین جانو کہ یہ بات اللہ کے لیے بہت آسان ہے ۔‘‘
اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھ لے کہ جزع ، فزع، گھبراہٹ، بے قراری ، بے صبری وبے چینی ، چیخ و پکار، آہ و بکا ، گلے ، شکوے اور اظہار رنج وغم سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ نہ تکلیف دور ہوتی ہے ، نہ مصیبت میں کمی ہوتی ہے ، نہ کھویا واپس آتا ہے ، نہ سویا بیدار ہوتا ہے ؛ بل کہ یہ چیزیں اعمال کو بھی ناکارہ کردیتی ہیں اور انسان کو گھن کی طرح گھلا کر رکھ دیتی ہیں ۔ دنیا کا چین و سکون بھی غارت ہوتا ہے اور آخرت کا اجر بھی ضائع ہوجاتا ہے ۔
عقل مند شخص مصیبت کے وقت خود کو صبر کے لیے تیار رکھتا ہے اور جاہل وکم عقل واویلا مچا تا پھرتا ہے؛ بالآخر اسے صبر کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں ہوتا۔ یہی کام اگر اول مرحلہ میںمصیبت آتے ہی کرلیتاتو اس کے حق میں دنیا اور آخرت ہر دو اعتبار سے بہتر ہوتا ۔
آٹھواں سبب:آزمائش کی شدت مبتلیٰ بہ کی صالحیت کی علامت ہوتی ہے : ۔
بندہ جس قدر نیک اور اللہ کے قریب ہوگا ، اللہ اس کا امتحان اسی قدر سخت لیںگے ۔ اس کی آزمائش اسی قدر بڑی ہوگی جب اس چیز کو بندہ جان لے گا، تو پھر صبر کرنا اور نیکیوں پر جمے رہنا رضائے خداوندی کی راہ پر چـلنا اور منزلِ مقصود کو پالینا اس کے لیے آسان ترین ہوگا۔
عَنْ سَعْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قُلْتُ : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ، اَیُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَائً ؟ قَالَ : ((اَلْأَنْبِیَائُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ،فَیُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلَی حَسَبِ دِیْنِہِ،فَإِنْ کَانَ دِیْنُہُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُہُ، وَإِنْ کَانَ فِيْ دِیْنِہِ رِقَّۃٌ ابْتُلِیَ عَلَی حَسَبِ دِیْنِہِ، فَمَا یَبْرَحُ حَتَّی یَتْرُکَہُ یَمْشِیْ عَلَی الْأَرْضِ مَاعَلَیْہِ خَطِیْئَۃ ٌ)) ۔ (ترمذی : ابواب الزہد ، باب ماجاء فی الصبر علی البلاء )
ترجمہ: حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! سب سے مشکل آزمائش کن لوگوں کی ہوتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انبیا کی پھر زیادہ افضل کی ۔ آدمی اپنے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے ، پس اگر اس کے دین میں صلابت (پختگی ) ہوگی تو اس کا امتحان بھی سخت ہوگا ۔ اوراگر اس کے دین میں کمزوری ہوتی ہے تو دین (کی قوت وضعف ) کے بقد راسے آزمایا جاتا ہے ۔ پس ابتلا آدمی کے ساتھ لگا رہتا ہے ؛تاآن کہ اسے چھوڑ دے زمین پر چلتا ہوا ؛دراں حالاں کہ اس کا کوئی گناہ (باقی) نہیں رہتا ۔
تشریح حدیث :
مطلب یہ ہے کہ اللہ والے تکالیف کے باوجود اللہ کی طرف مزیدجھکتے ہیں ۔اس لیے ان کے رفعِ درجات کے پیش نظر ان کوتکالیف میں مبتلا کیا جاتا ہے، کیوںکہ مصیبت اوراس پرصبر کی بدولت آدمی کو جنت کے اس درجہ تک پہنچانا مقصود ہوتا ہے ،جہاں وہ اپنے عمل کی وجہ سے نہیں پہنچ سکتا ۔اگر چہ مقربین کے اعمال انتہائی عالی ہوتے ہیں، لیکن اللہ کے قرب اور جنت کے درجات بھی بے شمار ہیں، تو کچھ اعمال کی وجہ سے اور کچھ آزمائش کی بنا پر بطورغیبی مدد کے حاصل کیے جاتے ہیں۔ گویا آزمائش بھی سیرالی اللہ اور سلوک کے زمرہ میں آتی ہے۔ پس جولوگ فنا فی السیر ہیں ان کی آزمائش ان کی شان کے مطابق یعنی سخت ہوتی ہے؛ تا کہ ان کی سیراورسفرورفتار مزید تیز ہو، جب کہ ان سے نیچے درجے کے لوگ اپنی استعداد کے مطابق مکلف بنادیئے جاتے ہیں اور جولنگڑے ہوتے ہیں وہ گویا اس مقابلے میں شریک بھی نہیں کیے جاتے، جب کہ اندھے تو ایک قدم بھی نہیں چل سکتے؛البتہ لنگڑا کوشش تو کرتا ہے اور اپنے عمل کے مطابق نمبر حاصل کرتا ہے جب کہ اعمیٰ اس میدان کے شہسواروں میں شماربھی نہیں ہوتا۔(تشریحات ترمذی : ۷/۱۹۸)