انوار نبوی ا نویں قسط
محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمیؔ
عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’’ یَوَدُّ اَہْلُ الْعَافِیَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، حِیْنَ یُعْطَی اَہْلُ الْبَلاَئِ الثَّوَابَ : لَوْ أَنَّ جُلُوْدَہُمْ کَانَتْ قُرِضَتْ فِی الدُّنْیَا بِالْمَقَارِیْضِ‘‘۔(ترمذی)
ترجمہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جب مصیبت زدوں کو (آخرت میں ) ثواب دیا جائے گا تو اہلِ عافیت قیامت کے دن تمنا کریں گے اے کاش! ان کی کھالیں دنیا میں قینچیوں سے کتری گئی ہوتیں! ‘‘۔ صفتِ صبر سے آراستہ ہونے کے دس بیش بہا اسباب :
ماہ ِفروری کے شمارے میں کیے گئے وعدے کے مطابق صبر کے معاون اسبابِ عشرہ پیش خدمت ہیں۔ہم ان اسباب کو اختیار کرکے بہ آسانی مادۂ صبر اپنے اندر پیدا کرسکتے ہیں اور اس وصف حمیدہ کے خوگر ہوکر، اس پر ملنے والے بے حساب اجر و ثواب کے مستحق بھی ہوسکتے ہیں ۔
پہلا سبب :دنیوی زندگی اور اس کی حقیقت کی پہچان :
حیاتِ دنیوی مشقت ،تھکن ، کڑھن اور تکلیف کا نام ہے ؛ یہی دنیا کی حقیقت ہے ، اسی کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ بلدکی آیت نمبر ۴ ؍ میں فرمایا :
{ لَقَدْ خَلَقنَا الانسَانَ فِي کَبَدٍ } (البلد: ۴)
ترجمہ: کہ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔
تفسیر:یہ ہے وہ بات جو قسم کھاکر فرمائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں انسان کو اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی مشقت میں لگارہتا ہے، چاہے کتنا بڑا حاکم ہو یا دولت مند شخص ،اسے زندہ رہنے کے لیے مشقت اٹھانی ہی پڑتی ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اسے دنیا میں کبھی کوئی محنت کرنی نہ پڑے تو یہ اس کی خام خیالی ہے، ایسا کبھی ممکن ہی نہیں ہے۔
ہاں مکمل راحت کی زندگی جنت کی زندگی ہے، جو دنیا میں کی ہوئی محنت کے نتیجے میں ملتی ہے، ہدایت یہ دی گئی ہے کہ انسان کو دنیا میں جب کسی مشقت کا سامنا ہو تو اسے یہ حقیقت یاد کرنی چاہیے۔ خاص طور پر آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو مکہ مکرمہ میں جو تکلیفیں پیش آرہی تھیں ،اس آیت نے ان کو بھی تسلی دی ہے اور یہ بات کہنے کے لیے اول تو شہرِ مکہ کی قسم کھائی ہے، شاید اس لیے کہ مکہ مکرمہ کو اگرچہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کا سب سے مقدس شہر بنایا ہے، لیکن وہ شہر بذاتِ خود مشقتوں سے بنااور اس کے تقدس سے فائدہ اٹھانے کے لیے آج بھی مشقت کرنی پڑتی ہے، پھر خاص طور پر اس میں آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقیم ہونے کا حوالہ دینے میں شاید یہ اشارہ ہے کہ افضل ترین پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افضل ترین شہر میں مقیم ہیں، لیکن مشقتیں ان کو بھی اٹھانی پڑرہی ہیں، پھر حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی ساری اولاد کی قسم کھانے سے اشارہ ہے کہ انسان کی پوری تاریخ پر غور کرجاؤیہ حقیقت ہر جگہ نظر آئے گی کہ انسان کی زندگی مشقتوں سے پُر رہی ہے۔
(آسان ترجمۂ قرآن:از شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ علینا)
اورپھر سورۂ انشقاق آیت نمبر ۶؍ میں بتادیا کہ سکون، راحت اور اطمینان یہ تو اپنے رب کے پاس پہنچ کر ہی ملے گا ، جب تک روح کا پرندہ اس دنیا کا قید میں ہے اور قفس جسدی سے پرواز نہیں کرجاتا ہے ، اسے آزمائش وابتلا سے فرار نہیں ۔ مصیبت وپریشانی سے چھٹکارا نہیں ۔ ابتلا وآزمائش یہ دنیا کی طبیعت ہے ، اس کی حقیقت ہے ، لہٰذا اس خیال کو ذہن سے کھرچ کر نکال دینے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے مزے بلا کسی تکلیف ومشقت اور غم واندوہ کے حاصل ہوجائیںگے ۔ آرام وسکون کی جگہ تو صرف اور صرف جنت ہے ۔
{یٰاَیُّہَا الاِنسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیہِ }(الانشقاق:۶)
ترجمہ: اے انسان! تو اپنے پروردگار کے پاس پہنچنے تک مسلسل کسی محنت میں لگا رہے گا، یہاں تک کہ اس سے جا ملے گا۔
تفسیر : انسان کی پوری زندگی کسی نہ کسی کوشش میں خرچ ہوتی ہے۔ جو نیک لوگ ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل میں محنت کرتے ہیںاور جو دنیا پرست ہیں، وہ صرف دنیا کے فوائد حاصل کرنے کے لیے محنت کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ ہر انسان کا آخری انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ محنت کرتا کرتا اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔
(آسان ترجمۂ قرآن شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ علینا)
مصیبتوں، آفتوں اورآزمائشوں کے وقت وہی شخص گھبراتا ہے ، پریشان ہوتاہے اور جزع و فزع کرتا ہے، جو دنیا کی حقیقت سے واقف نہیں ،جو دنیا ہی کو اپنی جنت سمجھتا ہے یا اسے جنت بنانے کی کوشش کرتا ہے ؛ ایسا ہی شخص پریشانی کے وقت اپنا آپا کھو دیتا ہے۔اور بعض تو اس قدر مایوس ہو جاتے ہیں کہ خودکشی کی راہ اختیار کرلیتے ہیںاور نہ صرف خود کو ،بل کہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ موت کو گلے لگاکر اس پریشانی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں ؛ لیکن اس عمل حرام کو اختیار کرکے وہ مصیبت وآلام ،آفتوں اور سزائوں کی ایک دردناک اور لامتناہی دنیا میں قدم رکھتے ہیں۔
اور جو لوگ حقیقت ِدنیا سے واقف ہیں ، اس کی دنائت و کلفت سے آشنا ہیں ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایما ن رکھتے ہیں ، قال اللہ وقال الرسول کی مجلسوں کے جو یاہوتے ہیں ، ان کے صبر واستقامت کو بڑی سے بڑی آزمائشیں بھی ٹھیس نہیں پہنچا پاتی ۔ان کے پائے ثبات کو سنگین سے سنگین حالات بھی جنبش نہیں دے پاتے ،ان کا ایمان ویقین ان کو ہر حال میں مطمئن اور پرسکون رکھتا ہے ۔
یہی فرق ہے مومن بندے اور غیر مومن بندے میں کہ مصیبت تو دونوں کے گھر کا مہمان بنتی ہیں ، مگر ایک جزع فزع کرنے لگتا ہے اور اپنی دنیا وآخرت اپنے ہی ہاتھوں برباد کرلیتا ہے۔ اور دوسرا اسے اللہ کی آزمائش سمجھ کر، اس کا امتحان تصور کرکے خندہ پیشانی کے ساتھ استقبال کرتا ہے اور{ انما یوفی الصٰبرون اجرہم بغیر حساب} (سورۂ زمر: ۱۰)( جو لوگ صبر سے کام لیتے ہیں ، ان کا ثواب انہیں بے حساب دیا جائے گا ۔ )کا مژدہ اپنے نام کرلیتا ہے ۔
دوسرا سبب :اس بات کا یقین کہ ساری دنیا ملکِ خداوندی ہے :
اس بات پرایمان اور پختہ یقین ہو کہ پوری دنیا اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے ، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے ، جس سے چاہتا ہے روک دیتا ہے ، کوئی مال دار ہے تو اسی کی مرضی سے اور کوئی نادار ہے تو اسی کی حکمت سے {وما بکم من نعمۃ فمن اللہ }(النحل:۵۳) اور تم کو جو نعمت بھی حاصل ہوتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے ۔
اسی لیے مصیبت کے وقت ، انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کا حکم ہے ۔
{ الَّذِینَ اِذَا اَصَابَتْہُمْ مُّصِیبَۃٌ قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رٰجِعُوْنَ } (البقرۃ: ۱۵۶)
ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ‘‘ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔
تفسیر:اس فقرے میں پہلے تو اس حقیقت کا اظہار ہے کہ چوںکہ ہم سب اللہ کی ملکیت میں ہیں، اس لیے اسے ہمارے بارے میں ہر فیصلہ کرنے کا اختیار ہے اور چوںکہ ہم اس کے ہیں اور کوئی بھی اپنی چیز کا برا نہیں چاہتا، اس لیے ہمارے بارے میں اس کا ہر فیصلہ خود ہماری مصلحت میں ہوگا؛چاہے فی الحال ہمیں وہ مصلحت سمجھ میں نہ آرہی ہو۔ دوسری طرف اس حقیقت کا بھی اظہار ہے کہ ایک دن ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کے پاس اسی جگہ جانا ہے ،جہاں ہمارا کوئی عزیز یا دوست گیا ہے، لہٰذا یہ جدائی عارضی ہے ہمیشہ کے لیے نہیں ہے اور جب ہم اس کے پاس لوٹ کرجائیں گے، تو ہمیں اس صدمے یا تکلیف پر ا ن شاء اللہ ثواب بھی ملنا ہے، جب یہ اعتقاد دل میں ہو تو اسی کا نام صبر ہے، خواہ اس کے ساتھ ساتھ بے اختیار آنسو بھی نکل رہے ہوں۔
(آسان ترجمۂ قرآن شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ علینا)
انسان اس کے اہل وعیال ، مال و جائداد سب اللہ کی ملکیت ہیں ۔ یہ ساری چیزیں اللہ نے اسے عاریۃً دی ہیں اور عاریت دینے والے شخص کو پورا اختیار ہوتا ہے کہ جب چاہے اپنی چیز لوٹا لے اور اپنی ملکیت میں واپس لے لے ۔
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کامثالی واقعہ :
اس چیز کو حضرت ام سلیم ؓ نے بڑے اچھے انداز میں سمجھ لیا تھا اور اپنے ذہن ودماغ میںرچا بسا لیا تھا ، اسی وجہ سے ان کا یہ واقعہ نہایت مشہور، مثالی اور لائقِ تقلید ہے ۔ آپ جب ابو طلحہ کے نکاح میں تھیں اسی وقت ابو طلحہ کے ایک بیٹے کا انتقال ہوگیا ، جسے وہ بے انتہا چاہتے تھے ، تو حضرت ام سلیم ؓ نے انہیں دلاسا دیتے ہوئے اور ان کے غم کو ہلکا کرتے ہوئے نہایت پر اعتماد لہجے میں کہا تھا :اے ابو طلحہ ! اگر کوئی قوم کسی کے گھرانے کو ا پنی چیز بہ طورِ عاریت دے ، پھر وہ اپنی چیز اُن سے مانگ لے ،تو کیا اس گھرانے کے لیے یہ بات روا ہے کہ اس مال کو اس کے مالک کو نہ دے ؟ ابو طلحہ نے جواب دیا کہ نہیں ۔تو ام سلیم نے کہا تو آپ اپنے بیٹے کے متعلق یہی سمجھ لیں۔
حدیث ِ ام سلیم ازمسلم شریف:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:کہ حضرت ام سلیم ؓ کے بطن سے حضرت ابو طلحہ کا ایک لڑکا فوت ہوگیا ۔حضرت ام سلیم نے اپنے گھر والوں سے کہا حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو ان کے بیٹے کے انتقال کی اس وقت تک خبر نہ دینا جب تک کہ میں خود نہ بتادوں ۔ حضرت ابو طلحہ آئے تو حضرت ام سلیم ؓ نے انہیں شام کا کھا نا پیش کیا ، انہوں نے کھا نا کھایا اور پانی پیا ، پھر حضرت ام سلیم نے پہلے کی بہ نسبت زیادہ اچھا بناؤ سنگار کیا ، حضرت ابو طلحہ نے ان سے عملِ ازدواج کیا ؛ جب حضرت ام سلیم نے دیکھا کہ وہ سیر ہوگئے ہیں ۔ اوراپنی جنسی خواہش بھی پوری کرلی، تو پھر انہوں نے کہا: اے ابو طلحہ ! یہ بتاؤ کہ اگر کچھ لوگ کسی کو عاریتاً کوئی چیز دیں اور وہ پھر اپنی چیز واپس لے لیں تو کیاوہ ان کو منع کرسکتے ہیں ؟ حضرت ابو طلحہ نے کہا: نہیں ۔ حضرت ام سلیم ؓ نے کہا تو پھر تم اپنے بیٹے کے متعلق یہی گمان کرلو۔ حضرت ابو طلحہ یہ سن کر غضب ناک ہوئے اور کہا تم نے مجھے میرے بیٹے کے متعلق خبر نہیں دی حتیٰ کہ میں (جنسی عمل سے ) آلودہ ہوگیا ، پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر اس واقعہ کی خبر دی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہاری اس گزاری ہوئی رات میں برکت عطاکرے ، پھر حضرت ام سلیم حاملہ ہوگئیں ۔
تیسرا سبب:صبر پر ملنے والے بے حساب اجر وثواب :
اللہ تبارک وتعالیٰ نے صابرین کے لیے جو صبر کے وعدے کیے ہیں ،اسے اپنے کلامِ پاک میںاور اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے فرمان میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں بیان کیا ہے :
’’نِعْمَ أَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ۔ الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ‘‘۔(العنکبوت:۵۸،۵۹)
بہترین اجر ہے ان عمل کرنے والوں کا،جنہوں نے صبر سے کام لیا اورجو اپنے پروردگار پربھروسہ کرتے ہیں۔
ان وعدوں کو ہمیشہ اپنے ذہن میں مستحضر رکھنا اور جب صبر کا موقع آئے تو ان جزا ، ثواب اور انعامات کی طرف فوراً اپنے دل و دماغ کو متوجہ کرنا ، نہایت معاون عمل ہے ؛اس سے صبر پر اس قدر تعاون حاصل ہوگا کہ بڑی سے بڑی مشقت اور مصیبت معمولی سے معمولی تر معلوم ہوگی اور رتی برابر مایوسی و گھبراہٹ جگہ نہ بنانے پائے گی ۔
ابن قیم ؒ فرماتے ہیں: ’’کہ حسنِ عاقبت کو ملحوظ رکھنا یہ صبر کی راہ میں نہایت مدد گار ثابت ہوتا ہے ‘‘۔
اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث جو مضمون کے آغاز میں لائی گئی تھی : ’’ یَوَدُّ اَہْلُ الْعَافِیَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، حِیْنَ یُعْطَی اَہْلُ الْبَلاَئِ الثَّوَابَ : لَوْ أَنَّ جُلُوْدَہُمْ کَانَتْ قُرِضَتْ فِی الدُّنْیَا بِالْمَقَارِیْضِ‘‘۔صاف صاف ہم سے گویا ہے کہ آخرت میں مصیبت زدہ ، آزمائشوں میں تپائے ہوئے لوگ، تکالیف ومشقت کی چکیوں میںپسے گئے صابرین ، جان و مال اورآل و اولاد کی خاطر تڑپائے گئے مومنین کو جو اجر ملے گا ؛ اسے دیکھ کر دنیا میں پرسکون زندگی گزارنے والے تمنا اورخواہش کریں گے ،ان پر رشک کرتے ہوئے کہیں گے کہ کاش! دنیا میں کوئی راحت و سکون نہ ملی ہوتی ! کاش کہ میری کھال کھینچ لی جاتی ! میرے ٹکڑے کردیے جاتے ۔
جب ہم صبر پر ملنے والے ایسے اجر و ثواب پر یقین اوراس کا استحضار رکھیںگے تو دنیا کی کوئی طاقت ، بڑی سے بڑی مصیبت ہمارے ایمان کو جنبش تک نہیں دے سکتی ۔
(جاری……)