مسلمانوں کے ایمان کو کمزور کرنے کی دشمنوں کی سازشیں:

                دشمنان ِاسلام نے اس کا ادراک کیاکہ مسلمانوں کی ترقی وکامیابی،سرخروئی وسربلندی کاسرچشمہ ان کا ایمان ہے اور اسی لیے انہوں نے اس انداز میں ان کے خلاف سازشیں رچی ۔ چند اعدائے اسلام کے مقولے اس سلسلہ میں پیش خدمت ہیں۔

                فرانس کا مشہور بادشاہ جس نے صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کھائی تھی، اس نے کیا کہا جاننے سے تعلق رکھتا ہے !!

                وہ کہتا ہے : ’’ صرف طاقت ،قوت اور بھاری بھر کم ہتھیاروں کے ذریعے مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرنا یہ نا ممکنات میں سے ہے ۔اگر مغربی اقوام چاہتی ہے کہ وہ مسلمانوں پر غالب آجائے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہتھیار سے زیادہ اس چیز کی طرف توجہ دے کہ مسلمانوں میں موجود داخلی اور روحانی طاقت جوبہ صورتِ ایمان ان کے قلوب میں جاگزیں ہے، اسے کس طرح کمزور کیا جا سکتا ہے،اگر وہ اس میں کامیاب ہوگیں وہ خود بہ خود ان پر غلبہ حاصل کرلیںگے ؛کیوں کہ جب تک مسلمانوں کا عقیدہ مضبوط ہوگا دنیا کی کوئی طاقت ان پر غالب نہیں آسکے گی یہ میرا چیلنج ہے ۔ (الیہود والعالم ، المؤمرات ، الاہداف الاسرار :ص ۷)

                اسی مقولہ کی روشنی میں انہوں نے ایک اصول بنایا ہے ۔

                ’’ جب کوئی قوم تم پر غالب ہوتی ہوئی نظر آئے تو اس کے عقیدے اورفکرمیں فساد اور بگاڑ پیدا کردو وہ قوم اپنے آپ خود ہی کمزور ہوجائے گی اور پھر تم اس پر غالب آجاؤگے ‘‘ (ایضاً)

                اسی لیے صلیبی جنگوں کے بعد مغرب نے پوری قوت طاقت ماسٹر پلاننگ اور تمام تر سریع الاثر اوردور رس وسائل کے ساتھ عالم اسلام میں سیکولرزم اور مادی افکار کو ترویج دی اور’’ راند کارپوریشن ‘‘جیسے سیکڑوں ادارے اسی عمل میں مصروف کردیے ۔نیز ہتھیار سے زیادہ خرچ اسی پر کیاجاتا ہے کہ مغربی افکار کو کس طرح بچوں اور بوڑھوں ، جوانوں اورعورتوں میں عام کیا جائے ۔

                ’’ارنالڈ توینی‘‘ ایک مشہور مغربی مصنف ہے ،جس نے دنیا کی مختلف تہذیبوں کو اپنا موضوعِ بحث بنایا اور تقریباً ۲۰؍ کتابیں دنیا کی مختلف تہذیبوں کے سلسلے میں تحریر کی ۔اس نے امتوں اورتہذیبوں کے زوال کے اسباب کے ضمن میں لکھا ہے کہ :

                ’ ’ جب کوئی قوم اپنی اولاد کی دینی تربیت سے محروم ہوجاتی ہے،دنیا کی فانی لذتوں کی دلدادہ ہوجاتی ہے، لذت کوشی اس کا مقصدحیات بن جاتا ہے اور رقص وسرور ، ناچ ، گانے اور مال ا ور و قت کوفضولیات میں صرف کرنے لگتی ہے تو وہ خود بہ خود زوال کا شکار ہوجاتی ہے۔ میں نے یہ چیز مشترکہ طور پر تمام تہذیبوں کے زوال میں محسوس کی بل کہ حتمی طور پر پائی ۔ (ایضا:ص۹)معلوم ہوا کہ روحانی اورباطنی سبب کسی بھی تہذیب کے زوال میں اہم رول ادا کرتا ہے ۔ ہمارا بھی یہی حال ہے ۔

فکر و عقیدے کی کمزوری کے اثرات:

                جب کسی قوم کا اپنا عقیدہ کمزور ہوجاتا ہے، تو وہ آسانی سے اپنے دشمن کی سازشوں کا شکار ہوجاتی ہے اور دشمن انہیں آپس میں لڑواتا ہے، جس سے ان کی ظاہری طاقت بھی کمزور پڑجاتی ہے اور علمی صلاحیت میں فقدان کا رجحان بڑھ جاتا ہے ،جو اس کے سیاسی زوال پر منتج ہوتا ہے ۔ آج امتِ مسلمہ کے زوال کو اگر دیکھا جائے تو آپ ضروراس کو محسوس کریںگے کہ دشمن نے پہلے ہمارے عقیدے پر وار کیاجب اس میں کامیابی ملی ،تو ہمیں قومیت کے نام پر لڑایا ،جس سے ہماری طاقت منتشر ہوگئی اور ہم نے تعلیمی وعلمی میدان کو بھی چھوڑ دیا اور آخرکار ہم ہرچیز میں دشمن کے محتاج ہوگئے ، اب دشمن ہم پر حکمرانی کررہا ہے اور اپنی مرضی چلارہا ہے ۔

                صلاح الدین ایوبی سے پہلے فلسطین ہمارے ہاتھ سے کیوں گیا ؟ یہ ایک چبھتا ہوا سوال ہے کہ آخر کار وہ کیا اسباب تھے !!!