مسلمانوں کی نئی نسل میں صلاح الدین کا ظہور:

                اس نئی نسل کے افرادمیں سے ایک کم سن نوجوان صلاح الدین بن یوسف بھی تھا،جوبعدمیں نورالدین کا جانشین بنا ۔شایدصلاح الدین کی ابتدا ئی زندگی کے بارے میں سب سے ثقہ ماخذسیرتِ ابن شداد ہے جوصلاح الدین کے لشکر کے قاضی تھے اور جنہیں وہ اـپنی زندگی کے آخری حصہ میں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ ان کی تحریر کردہ سیرت جس کانام ’’المحاسن الیوسفیۃ والنوادرالسلطانیۃ‘‘ہے صلاح الدین پرلکھی گئی تمام کتابوں میں سے سب سے زیادہ ثقہ قراردی جاتی ہے ۔

صلاح الدین کی زندگی کے ابتدائی حالات:

                صلاح الدین کی ابتدائی زندگی کے حالات کے بارے میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ وہ سن 532ھ میں قلعہ ’’تکریت ‘‘میں پیداہوا۔پھر اپنے والدجو نورالدین کے فوجی محافظین میں سے تھے۔کی زیرِنگرانی موصل اوربعلبک آیا ۔اس وقت صلاح الدین ایک عام نوجوان تھا، جس نے اپنے اوقات مشقت کے کھیلوں ، گھڑسواری اور دیگر کھیل تماشوں کے لیے وقف کررکھے تھے ۔اس کی یہی مصروفیت تھی؛ یہاں تک کہ وہ اپنے چچا اسد الدین شیرکوہ،جونورالدین کے لشکرکے بڑے امرا میں سے تھے،کے ساتھ مصرپرحملہ کرنے کی غرض سے نکلا ؛ جہاں اس نے اس اعتقادی کیمپ میں شمولیت اختیارکی جوفکر ی ،روحانی اور عسکری تربیت میں اہم رول ادا کرتے تھے۔ صلاح الدین اس کیمپ میں شمولیت کی موقعہ پر اپنی ذاتی کیفیت یوں بیان کرتے ہیں:

                ’’میں اس وقت باہر جانے کوبہت ناپسند کرتا تھا اورمیںاپنے اختیارسے چچا کے ساتھ نہیںنکلاتھا، اللہ تعالیٰ کے قول کایہی مطلب ہے : عسی ان تکرہواشیئاً وھوخیرلکم’‘ شایدکہ کوئی چیز تم ناپسند کرتے ہواوروہ تمہارے حق میں بہترہو۔(سورہ بقرہ ۔216)‘‘

 صلاح الدین پر اسلامی ماحول کا اثر:

                اسلامی رہ نمائی کی تاثیرسے صلاح الدین کی شخصیت میں تبدیلی رونماہوئی اورنورالدین کی قیادت میں چلنے والی تحریکِ اسلامی میں اس نے اپنامقام بنالیا ،جواس کے چچااسدالدین کی وفات کے بعدمستحکم ہوئی اورصلاح الدین نے اس کی جگہ مصرکے امورسنبھالے۔وہ کہتاہے:

صلاح الدین تعیش سے زہد وتقویٰ کی طرف:

                ’’اس کے بعدمعاملات سلطان کوتفویض ہوگئے۔اس نے قواعد کومضبوط بنایا،احوال کومستحکم کیا، شراب سے توبہ کرلی ،ہرقسم کے کھیل تماشوں سے منہ موڑلیا ،بزرگی اور ریاضت کالباس زیب تن کیا ۔پھراسے ترک نہ کیا اورنہ اس میں کمی بیشی کی؛ یہا ں تک کہ اللہ نے اسے اپنی رحمت کی طرف اٹھـالیا ۔‘‘

                علامہ سبکیؒ بھی اس کی تبدیلی کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں:’’جب صلاح الدین کا تعلق نورالدین کی ملازمت سے ہواتواس نے ملذات کوخیراباد کہا‘‘ ۔

                ابن شدّادنے ہمیں بعض علما کے نام بتائے ہیں، جنہوں نے صلاح الدین کی زندگی کومتاثرکیا ۔وہ کہتا ہے:’’صلاح الدین نے کبارعلما سے علم حاصل کیا ،ان میں سے زیادہ مشہور قطب الدین نیشاپوری تھے جنہوں نے اس کے اور اس کی اولاد کے دل میںاسلامی عقیدے کوراسخ کیا ۔سبکی مزید کہتے ہیں کہ صلاح الدین نے حافظ ابوطاہر سلفی ،ابوطاہربن عوف‘شیخ قطب الدین نیشاپوری، عبداللہ بن بری نحوی اوردیگرعلما سے حدیث سماعت کی ۔

                بہت سے غیر ت مندوں پریہ بات گر اں گزرتی ہے کہ وہ صلاح الدین کے متعلق ایس باتیں سنیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ اسے بچپن سے نیکی وپرہیزگاری کامجسمہ بتا یاجائے؛ کیوں کہ ان کے خیا ل میں اسلام کے اس بطلِ عظیم کے لیے یہی صورت موزوں ہے یا ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی ابتدائی زندگی کی تفصیلات پر غورنہ کیا جائے ؛ کیوں کہ ان کی سمجھ کے مطابق ،اس عظیم مجاہدکے سامنے یہی ادب مناسب ہے ۔ ہماراجواب یہ ہے کہ صلاح الدین کی ابتد اور نہجِ اسلام سے دور رہنا؛ جس طرح ہم نے اس کا تجزیہ کیاہے ،اس سے صلاح الدین کوکوئی ضر ر نہیں پہنچتا ۔ اسلام کے لیے یہ بات قابل ِ فخر ہے کہ اس میں ہمیشہ یہ قدرت رہی ہے کہ وہ بندوں کی گراوٹ کے باوجود ان کی تشکیل ِنو کرتاہے۔یہ اس کردار کے لیے خاص طور پرمفید ہے ،جسے عنا یتِ خداوندی نے اپنی نمائند گی کے لیے چن لیا ہو؛ کیوں کہ اسے خیر وشر کی تمام معلو مات ہوتی ہیں ۔اس بارے میں حضر ت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فیصلہ فرمایا تھا ’’اسلامی رابطو ں میں سے وہ رابطہ کمزور ہوتاہے، جس کاآغازاسلام میں ہی ہواہو اور اس نے جا ہلیت کونہ دیکھاہو۔

شَر کا ذائقہ چکھ کر خیر کی طرف آنے والا زیادہ ثابت قدم ہوتا ہے:

                ابن تیمیہ نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کے اس قول کی شرح بیان کی ہے ۔

                ’’جس نے شر کوــپہچانا اوراسکاذائقہ چکھا ،پھر خیر کوــپہچانا اور اس کاذائقہ چکھا تواس میں خیر کی معرفت اور شرسے نفرت اس شخض سے کہیں زیادہ ہوتی ہے ،جس نے خیر وشرکو نہ جانا ہو اور نہ چکھا ہو۔ اسی لیے صحا بہ رضی اللہ عنہم  بعد میں آنے والوں کے مقابلہ میںایمان وجہاد کے معاملہ میں بہت عظیم تھے؛ کیوں کہ وہ خیر وشر دونوں کو خوب جانتے تھے۔ خیر کے لیے ان کی محبت اور شرکے لیے ان کی نفرت کمال کوپہنچی ہو ئی تھی، اس لیے کہ انہیں علم تھا کہ اسلام، ایمان اور عمل ِ صالح میں کیا خوبی ہے اور کفر وگناہ میں کیا قباحت ہے؟

موجودہ نسل جوبرائی کے دلدل میں پھنسی ہے، صلاح الدین کی زندگی سے سبق سیکھے:

     اس صورت ِحال کوذہن میں رکھنا ضروری ہے تاکہ وہ دورِحاضر کی نسلوںکے لیے امید اور تر غیب بن جائے۔ یہ نسلیںجو مایو سی، شکست خوردگی اور ضعف کاشکاربن چکی ہیں ؛کیوں کہ اسلام جس نے صلاح الدین اور اس کی نسل کی تشکیل ِنوکی، اس پر قادر ہے کہ وہ ضعف اور اخلاقی نافرمانی سے داغدار نسلوں کی تشکیل ِنوکرے؛ بشرطے کہ حکیمانہ انداز کے تعلیمی ادارے قا ئم ہوجائیں ۔یہی نوجوان ہیں جوخام مال ہیں جن پرتوجہ کر کے ان کی صفوں سے ’’جدید صلاح الدین ‘‘اس کے معاون اورار کانِ حکومت نکالے جاسکتے ہیں ۔

                یہ تبھی ممکن ہے جب محکم تعلیمی منہاج فراہم کیا جائے اورایسے’’علمائے آخرت ‘‘تلاش کیے جائیں، جو ’’تزکیۂ نفس ‘‘کو سمجھتے ہوںاور سلوک کوعملی صورت دے سکتے ہوں،نہ کہ ’’علمائے دنیا‘‘جومنبروں ’’ٹیلی ویژن مذاکروں اور عام جلسوں میں جوانوں کے عیوب اور ان کی غلطیوں کی تشہیر کرتے ہوئے خطاب کر تے ہوں اور یونی ور سٹیوں اور علمی حلقوں کے طلبہ میں گروہی ومذہبی تنازعات ابھارکر دادِ عیش دیتے ہوں۔ (عہد ایوبی کی نسلِ نواور القدس کی بازیابی:۲۲۷تا۲۳۰)

صلاح الدین کی کوششوں سے سیاسی وحدت کا وجود میں آنا:

                سیا سی وحدت کی جانب پہلا قدم یہ تھا کہ 545ھ /1151ء میںطویل مز احمت کے بعد مملکتِ دمشق کو سلطنت زنگیہ میں شامل کر لیا گیا ۔اس دورا ن اس کے حا کم نے مملکتِ جد ید ہ کی مخا لفت میں القدس کی صلیبی حکو مت کے سا تھ معا ہدہ کرنے کی کو شش بھی کی۔اس وقت میں دمشق کاایک استبدادی گر وہ بھی اس کے ساتھ تعا ون کر رہا تھا ،جو دمشق کی د ولت سے فا ئد ہ اٹھا تاتھا۔ڈاکٹر حسین مو نس نے ان تمام مراحل کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ،جن سے گز ر کر مملکت ِدمشق با لا ٓ خر نو رالدین کے قبضہ میں آئی اوراس طر ح ان کے با شندوں نے نورالدین کو خود دعو ت دی اور اس کی اطا عت قبو ل کی۔’’یہ مملکتِ دمشق ۔جنو ب میںبیت المقدس کی صلیبی حکومت کی حد تک پھیلتی چلی گئی تھی۔اب نو رالدین اس حکو مت کے در میان وسیع میدان حائل تھا ،جو دونوںکو آمنے سا منے لانے میں حدِّفا صل کا کا م دیتا تھا۔ دمشق پر قبضے سے قوتِ اسلا می میں اضا فہ ہوا ۔بہا در لو گو ں میں جہاد کا جذبہ تیز ہوا اور مصر کی طر ف راستہ کھل گیا‘‘۔

مملکتِ فاطمیہ کا زوال اور سقوط:

                اسی طرح ایک دوسری علاحد گی پسند حکومت یعنی مملکتِ فا طمیہ مصر کے سا تھ آمنے سامنے ہو گئی ۔مصر سے قر یب ہونے کے طریقِ کا رنے نو رالدین اور صلیبیو ں کے درمیان تعلقا ت میں اضطراب کی کیفیت پیداکی۔ وہ یوں کہ سلطا ن نے اپنی مملکت اور مصر کے درمیا ن واقع چند صلیبی ٹکریوںکو صاف کرنے کا عزم کیا ؛ اسی طر ح اس نے واعظو ںکو مصر روانہ کیا؛ تا کہ را ئے عا مہ کو ایسے مخلص فاتح کے استقبا ل کے ـلیے تیار کیا جائے جو اسلا می وحدت کا عَلم بر دار ہو؛کیو ںکہ اس کے بغیر شہر وں کی آزادی اورخطرات کے سدِّ باب کا اور کو ئی ذریعہ نہیں۔

مملکتِ فاطمیہ کے زوال میں واعظوں کا رول:

                ہم ان واعظوں میں ابن نجا الوا عظ اور محمد بن موفق حبو شا نی کااضافہ کرتے ہیںجو 500ھ میں مصر میں داخل ہوئے ۔انہوں نے صحیح اسلام کی تبلیغ شروع کی ،فاطمیوں پر لعن کیا اور انہیں زندیق اور یہودی قرار دیا۔عالمِ اسلام میں ہر طرف اس کی خبریں پھیلیں اور مصر پر حملہ کے لیے صلاح الدین کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ مورخ سبکی کے نزدیک فاطمیوں کے خلاف مصری رائے عامہ ہموار کرنے میں یہ سب سے اہم سبب تھا۔

نور الدین کا مصر پر قبضہ:

                نورالدین مصر میں داخلہ کے لیے مناسب موقعہ کے انتظار میں رہا۔یہ موقعہ اسے اس وقت ہاتھ آیا جب ایک دوسرے کے خلاف نورالدین اور صلیبیوں سے امداد طلب کی،اس کے نتیجہ میں نورالدین نے 562ھ/1167ء اسدالدین شیر کوہ اور اس کے بھتیجے صلاح الدین کے تحت ایک مہم روانہ کی۔جب یہ مہم مصر میں داخل ہوئی تو وہاں صلیبیوں کی طرف سے بھی ایک فوج پہنچ چکی تھی، ایک مدت تک ان دونوں میں جھڑپیں ہوتی رہیں، اس دوران فاطمیہ مصر کے حکام نے اپنے مفادات کے پیشِ نظر طرفین سے کھیل جاری رکھا۔مصر پر نورالدین کی گرفت 564ھ/1169ء میں کہیں جاکر مستحکم ہوئی، جب کہ صلاح الدین نے وزیر شاور کو اسلام سے غداری اور صلیبیوں سے ساز بازکر نے کے الزام میں قتل کردیا۔

مصر پر نورالدین کے قبضے نے صلیبیوں کے پیر اکھاڑ دیے:

                مصر میں نورالدین کے داخلہ کی صدائے باز گشت نہ صرف بیت المقدس کی صلیبی حکومت ؛بل کہ تمام یورپ میں سنائی دی چناں چہ انہوں نے مشرق پر ایک نئے صلیبی حملے کی تیاری شروع کر دی ۔دوسری طرف حالات نے ایسا رخ اختیار کیا جو فاطمی خلافت کے خاتمہ اور مصر کو مملکت ِاسلامیہ میں شامل کر نے پر منتج ہوا ۔

                اس کے بعد نورالدین صلیبیوں پر حملہ آور ہوتا رہا اور مقدس مقامات کو باز یاب کرتا رہا یہاں تک کہ وہ پچاس سے زاید شہروں کو صلیبیوں سے واپس لینے میں کامیاب رہا۔

نورالدین کا بیت المقدس کے لیے منبر تیار کروانا:

                اب نورالدین نے بیت المقدس کی فتح کا ارادہ کیا اور مسجد اقصیٰ کے لیے ایک نیا منبر تیارکروایا(اس سے نورالدین کے عزمِ مصمم اور فتح کے یقین کا بھی پتہ چلتا ہے اور اللہ پر اعتماد کا بھی علم ہوتا ہے) لیکن 569ھ/ 1174ء میں انہیںاس وقت موت نے آلیا جب وہ تیاریوں میں مصروف تھے۔اب معاملہ اس کے عظیم ساتھی والیٔ مصرصلاح الدین ایوبی کے ہاتھ میں آیا جو اُن مقاصد کے حصول میں اپنے طریقِ کار پرگامزن رہا۔

القدس الشریف پر صلاح الدین کا قبضہ:                 مسلمان صلاح الدین کی قیادت میں مختلف مقامات پر حملہ آور ہوتے رہے؛ یہاں تک کہ جب مناسب وقت آیا تو القدس کی جانب چل پڑے اس لشکر میں تمام سالار ،امر ا ،علما، فقہا اور صوفیا شامل تھے ۔ان میں موفق الدین بن قدامہ، ان کا بھائی محمد بن قدامہ اور ابن نجاالواعظ موجود تھے ۔ یہ لوگ تمام فقہی مذاہب اور جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے،اس جگہ ان سب کے نام تحریرکرنے کی گنجائش نہیں