مسلمانوں کو در پیش مسائل پر مذکورہ تمہید کے بعد آیے اب چیلنجز کا جائزہ لیتے ہیں۔ مسلمانوں کو دو طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے: داخلی اور خارجی ۔
داخلی تحدیات سے مراد و ہ مشکلات ہیں، جن کے ذمہ دار خود مسلمان ہیں اور خارجی چیلنجز سے مراد وہ مشکلات اور مسائل ہیں، جو دشمنانِ اسلام کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف کھڑے کیے گئے اورکیے جارہے ہیں۔
داخلی تحدیات:
۱- دینی تعلیم سے دوری ۔
۲- اسلامی تربیت کا فقدان ۔
۳- عبادت میں کوتاہی۔
۴- غفلت اور سستی ۔
۵- دعااور ذکر اللہ کو چھوڑنا۔
۶- دنیا سے محبت ۔
۷- آخرت فراموشی۔
۸- امر بالمعروف ونہی عن المنکرکا فقدان۔
۹- حسد یعنی کینہ اور کپٹ کی شدت وکثرت۔
۱۰- اسباب پر نظر اور مسبب الاسباب پر نظر کا نہ ہونا۔
۱۱- قرآن سے دوری ۔
۱۲- صالحین سے دوری ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان دونوں قسم کے چیلنجز سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجائیں، ان شاء اللہ۔ اللہ کی مدد شامل ِحال ہوگی۔
خارجی تحدیات:
۱- دشمنوں کی سازشیں مثلاً استشراق ، تنصیر(نصرانی بنانا)، استعمار ، نیوو رلڈآڈر ،گلوبلائزیشن ، اسلام فوبیا۔
۲- الحادی تعلیم نظام۔
۳- اسلام دشمن میڈیا۔
۴- مسلمانوں کو لڑوانا۔
۵- اسلامی خلافت کو قائم نہ ہونے دینا۔
۱- دین کی جانب خلوص کے ساتھ رجوع:
سب سے پہلے دین ِاسلام کی جانب خلوص ِدل کے ساتھ منسلک ہونا ہوگا، یعنی قرآن و حدیث اورفقہ وتفسیر کی تعلیم حاصل کرکے دین کا علم حاصل کرنا ہوگااور اس پر حتی المقدور عمل کرنا ہوگا۔
۲- کتاب و سنت میں مذکورفتنے کی تفصیلات سے واقف ہونا ہوگا:
احادیث ِمبارکہ میں اکثر فتنوں کو بیان کیا گیا ہے، لہذا ”علم الفتن“ کو معتبر کتابوں اورپھر علما سے حاصل کرنا ہوگا؛ تاکہ ان فتنوں سے حفاظت ہو۔
۳- تزکیہٴ نفس کی جانب توجہ دینی ہوگی:
اصل بگاڑکی جڑ دل ہے، اگر اس کی اصلاح کی کوشش کی گئی تو ان شاء اللہ تمام مسائل حل ہوجائیں گے؛ لہذا صحیح معنی میں جو متبعِ سنت وشریعت اللہ والے ہوں، تعلق قائم کرنا ہوگا، ان کی صحبت میں رہ کر اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔
۴-اپنی اولاد کی تربیت پرمکمل توجہ دینی ہوگی:
مسلمانوں کو سب سے زیادہ اپنی اولاد کی تربیت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ والدین اگر اپنی موجودہ اورآئندہ نسلوں کو ایمان پر دیکھنا چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے اولاد کو گھر کا اسلامی ماحول فراہم کرنا ہوگا، ان کی مضبوط دینی تعلیم کی فکر کرنی ہوگی۔ مستند اور معتبر علما اور صلحا کی صحبت میں بچوں کو حاضر کرنا ہوگا، اپنے بچوں کو ایسے ماحول میں تعلیم دینی ہوگی، جو الحاد اور شرک سے پاک ہو ، اپنے بچوں کو بری صحبت سے بچانا ہوگا، موبائل سے بچوں کو یا تو دور رکھنا ہوگا، یا اس کے استعمال پر کڑی نگرانی کرنی ہوگی۔
اسلامی عقائد کو مضبوط اور موٴثر انداز میں اپنے بچوں کے ذہن ودماغ میں بٹھانا ہوگا، اپنے بچوں کو موبائل رکھنے کے عادی بنانے کے بجائے مطالعہ کا شوقین بنانا ہوگا، اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ معتبر اور مستند علما کی کتابیں پڑھیں اور ضلالت وگمراہی کے حامل افراد کی کتابوں سے اجتناب کریں۔
مسلمانوں کے اپنے تعلیمی ادارے ضروری ہیں:
۵- مسلمانوں کو الحاد اور لا دینیت سے اپنی نسلوں کو بچانے کے لیے اس وقت سب سے زیادہ، جس چیز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ ہے اپنے تعلیمی اداروں کا قیام ۔ ہماری اپنی اسکولیں اورکالجز ہوں، جن میں معیاری تعلیم وتربیت کا انتظام ہو، اسے No loss, No profit کی بنیاد پر چلایا جائے۔ پڑھانے والے اساتذہ کو دینی ذہنیت کا حامل بنایا جائے، وہ مضامین کو اسلامائزیشن آف نالج کو پیش ِنظر رکھ کر پڑھائے۔ ہمارے علاقوں میں لڑکیوں کے لیے Only for Girls اسکولوں کا انتظام ہونا بے حد ضروری ہوگیا ہے؛ تاکہ ہمارے بچیوں کو ارتداد سے بچایا جائے ، ہمارے بچوں کے ذہن میں یہ بات سمجھنے کے بجائے کہ وہ سب سے پہلے مسلمان اس کے بعد سب کچھ۔
میڈیا ہاوٴس اور سوشل میڈیا پر خاص توجہ کی ضرورت:
۶- مسلمانوں کا اپنا میڈیا ہاوٴس ہونا چاہیے، جس میں امت مسلمہ کی صحیح خبریں نشر ہو، اپنی عمدہ اور علما کے زیر نگرانی چلنے والی ویب سائٹ اور موبائل ایپ ہونے چاہیے ،جس میں بچوں کے لیے خاص طور پر عمدہ پروگرام نشر کیے جائیں، جو موٴثر انداز میں اسلامی تعلیمات کو ان کے ذہن میں راسخ کرے ۔
ہر علاقہ میں کیئریر گائنڈنس اور کانسلنگ کے ادارے ضروری:
۷- مسلمانوں کے کیئریر گائنڈنس اورکانسلنگ کے ادارے ہونا چاہیے، جس میں ہمارے طلبہ کو مستقبل کے لیے تیار کیا جائے۔
اپنا مذہبی بورڈ ضروری ہوچکا ہے:
۸- عیسائی اوردیگر مذاہب کی طرح مسلمانوں کا پرائیوٹ تعلیمی بورڈ ہونا چاہیے، جو اسلامی تعلیمات کے مطابق نرسری سے دسویں اور بارہویں تک نصاب تیار کرے اورہمارے تعلیمی اداروں کو جوڑے۔
کوچنگ کلاسس بھی ضروری :
۹- مسلمانوں کے ایسے ادارے ہونے چاہیے، جو نواجوانوں کو سول سروسز کے لیے تیار کریں ، ان کی اسلامی ذہینت کے ساتھ انہیں امانتداری سکھاتے ہوئے تیار کریں، ان کی اسلامی ذہنیت کے ساتھ انہیں امانتداری سکھائیں۔
مدارس کو اپڈیٹ کیا جائے:
۱۰- مدارس کے نصاب میں ایسے مضامین شامل کرنے چاہیے، جو عصرِحاضر کی دعوتی ضرورت کو پورا کرسکیں، مثلاً :علم کلام جدید، الغزوالفکری، المقاصد الشرعیہ، الاقتصادالإسلامی،تاریخ الاسلامی، الحضارة الاسلامیہ، حاضر العالم الاسلامی ، السیاسیة الاسلامیة ، کتابة البحوث ، طرق التدریس التربیة الاسلامیہ ، مقارنة الادیان، الاعجاز العلمی۔
اسلام پر کیے جارہے اعتراضات کے جوابات کی تیاری ضروری:
۱۱- الحاد ، میڈیا اورتعلیم کے راستے ، اسلام پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں اوراسلامی تعلیمات پر جو شبہات قائم کیے جاتے ہیں، ان کے جوابات مضبوط اورٹھوس انداز میں دینے کا نظم ہو نا چاہیے۔
مسلمانوں کو ضروریات دین سے واقف کرنے کے لیے کوششیں ہونی چاہیے:
۱۲- معتبر اداروں کو ضروریاتِ دین اور حلال و حرام ، تجارت وغیرہ عنوان پر بڑی عمر کے مسلمانوں کو آف لائن اور آن لائن پریزنٹیشن کی صورت میں کورس کی تشکیل دینی چاہیے۔
امت کو قرآن سے مربوط کرنے کے لیے موٴثر اسباب اختیار کیا جانا چاہیے:
۱۳- امت کو قرآن سے قریب کرنے کے لیے مختلف قرآنی موضوعات پرپروگرام ہونے چاہیے ، جس میں قرآن کے اسرار و رموز اجاگر کیے جائیں۔ قرآن کے فضائل بیان کیے جائیں، اس کے اعجاز کو ذکر کیا جائے۔
سنت سے امت کوقریب کیا جائے:
۱۴- سنتِ رسول اور احادیث ِمبارکہ کی اہمیت کو امت کے سامنے بیان کیا جائے۔
اسرارِ شریعت سے آگاہ کرنے کی ضرورت :
۱۵- شریعت کی حکمتوں کو بیان کیا جائے، اور دیگر ادیان سے مقارنہ کرکے اس کی برتری کو ثابت کیا جائے۔
روزی کے حلال طریقوں کی نشاندہی:
۱۶- امت کے فقر کو دور کرنے کے لیے کسب ِحلال اورکامیاب تجارت کیسے کریں؛ جیسے عنوان سے پروگرام کیے جائیں۔
فضول خرچی اور ضیاع وقت سے بچانے کی تدابیر:
۱۷- فضول خرچی اور وقت کو بیکار ضائع کرنے سے روکنے کے لیے موٴثر اسلوب میں کمپین چلایا جائے۔
اخلاق کی اصلاح کی طرف توجہ دی جائے:
۱۸- امت میں اخلاقی اصلاح کے لیے بھر پور انداز میں محنت کی ضرورت ہے ، عوام وخواص سب میں اخلاصی دیوالیے کا شکار ہیں۔
مکاتب کو موٴثر بنایا جائے:
۱۹- مکاتب کے نظام کو موٴثر بنایا جائے اور ہر جگہ مکاتب قائم ہونے چاہیے۔
زکوٰةکے بارے میں بیداری ضروری:
۲۰- زکوٰة کے بارے میں بیداری کی ضرورت ہے، کہ زکوٰة کیسے نکالے ، اس کے بارے میں رہبری کی جائے اورایسا ادارہ قائم ہو، جو زکوة کو صحیح مصرف میں خرچ کرنے کی فکر کرے۔
نوجوانوں اور عورتوں میں دین کی محنت:
۲۱- نوجوانوں اور عورتوں میں خاص طور پر دین کی محنت کی جائے اور انہیں دین سے قریب کیا جائے۔
صالحین کی صحبت:
۲۲- مسلمان نوجوانوں کو صالحین کی صحبت کی طرف متوجہ کیا جائے۔
ضروری سافٹ ویرٴز کی طرف توجہ:
۲۳- ویب ڈیزائن ، روبوٹک، ایپ ڈیولپ وغیرہ کورس کی طرف خاص توجہ دی جائے۔
علماء امت کویاس سے نکال کر آس دلائیں:
۲۴- علما کی ذمہ یہ ہے کہ وہ امت کو نا امیدی سے نکالیں، بالکل ڈرائیں نہیں! حوصلہ دیں ، ایمانی ، اخلاقی اور اعمال کے اعتبار سے انہیں تیار کریں۔
سلگتے موضوعات سے واقف رہیں اور واقف کروائیں:
جمعہ کے خطبات کرنٹ موضوعات پردیں، اسی طرح تقریریں بھی سلگتے مسائل پر کریں۔ امت میں اتحاد اور جوڑ کی کوشش کریں، افتراق سے بچائیں ۔ فقہ النصرو التمکین یعنی امت مسلمہ کے عروج کی راہ کیسے ہموار ہو؟ اس پر خاص زور دیں ۔ان شاء اللہ آئندہ شاہراہ علم کا خصوصی شمارہ اسی عنوا ن پر لانے کی کوشش کی جائے گی ۔
نوجوانوں کو مہلک چیزوں سے نکال کر فلاحی چیزوں میں لگائیں:
۲۵- امت کے نوجوانوں کو نشہ ، گٹکھا، بیڑی ، سگریٹ وغیرہ مہلک عادات سے باہر نکالیں اور ورزش ، کراٹے جیسے جسمانی ،تعلیمِ دین جیسے روحانی اور تعلیم حرفت جیسے مفید مشاغل کی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کریں۔
کافی عرصہ سے خیالات ذہن میں گردش کررہے تھے، جو آپ کے سامنے پیش کردیے ، اللہ ہم سب کو اس پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین