ابو صفوان محمد نعمان گوگانوی(استاذ جامعہ اکل کوا)
خداوند عالم نے جس طرح اس کائنات کے لیے ایک نظام مرتب کیا، ٹھیک ویسے ہی اپنی دیگر مخلوقات کے لیے عموماً اور اشرف المخلوقات کے لیے خصوصاً اسی ضابطہ ٴنظام کو جاری فرمایا۔اب جو بھی کام ترتیب وار ،منظم شکل میں اور رہبروں کی رہبری میں انجام دیا جائے گاوہ ضرور شرمندہ ٴتکمیل ہوگا ۔
اب سوال یہ ہے کہ رہبر کسے بنایا جائے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ رہ نما کے لیے کن صفات کا حامل ہونا ضروری ہے؟ تو آئیے! علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ کے ای شعر سے روشنی حاصل کرتے ہیں
نِگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
نگاہ کی بلندی ؛جو گردش ایام اور احوال عالم کو محیط ہو۔ گفتار میں ایسی نرمی جو دلوں کو موہ لے اور ایسا فدائی جذبہ؛ جو ہر محاذ پر کار آمد ہو۔اگر یہ صفات کسی میر ِکارواں میں پائی جائیں تو ضرور اس کا کارواں کام یابی کے ساحل سے ہم کنار ہوگا۔
اب ہم ہندی مسلمان اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں اور نگاہ دوڑائیں کہ کہیں ہمیں بھی ایسی صفات کا حامل میر کارواں میسر ہے؟اور کیا ایسی کوئی ہستی نظر میں ہے جو لائق ِتقلید ہو؟ جسے ہم دور حاضر میں اپنا رہبر، رہنمااور آئیڈیل قرار دے سکیں؟
حقیقی نمونہ:
ہمارے معاشرے اور ہماری قوم کی فلاح کے لیے ہمیں وہی طریقہ اختیار کرنا ہوگا ،جو قرن ِاول کے انسانوں نے اختیار کیا اور لائق ِتقلید نمونے کی رہبری قرآن مجید نے کی اور یوں فرمایا کہ:
﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ، لِمَنْ کَانَ یَرْجُوْا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا﴾(الاحزاب:۲۱)
ترجمہ: تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ یعنی ان لوگوں کے لیے ،جو اللہ سے ڈرتے ہوں اور آخرت کی کام یابی کے طلب گار ہوں اور اللہ کو خوب یاد کرتے ہوں ۔
قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خاص صفت اپنی امت پر مہربانی کو اس طرح بیان کرتا ہے:
﴿لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِینَ رَؤُوفٌ رَحِیمٌ﴾ (التوبة:128)
بے شک تمہارے پاس ایک پیغمبر آئے ہیں تمہاری ہی جنس میں سے، جو چیز تمہیں مضرت پہنچاتی ہے، انہیں بہت گراں گزرتی ہے تمہاری (بھلائی) کے حریص ہیں۔ ایمان والوں کے حق میں تو بڑے ہی شفیق ہیں مہربان ہیں۔
یعنی ملت اور امت کا درد ان کا اپنا درد ہے۔ اور وہ ہمیشہ اپنی امت کے خیر خواہ ہیں اور وہ اپنے متبعین پر مہربان ہیں۔
ایک جگہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نرم گفتاری کو قرآنِ کریم نے اس طرح بیان فرمایا:
﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ﴾(آل عمران: 159)
پھر یہ اللہ کی رحمت ہی کے سبب سے ہے کہ آپ ان کے ساتھ نرم رہے۔ اور اگر آپ تند خو اور سخت طبیعت ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو گئے ہوتے۔
انہی صفات کو علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ کے حوالے سے سپرد قرطاس کیا گیا کہ نگاہوں میں ایسی بلندی ہو جو عقاب کی طرح دور ہی سے حالات کا اندازہ کرے اور کارواں کو آنے والے نفع و ضرر سے آگاہ کر سکے۔ نرم گفتاری اوڑھنا بچھونا بن جائے؛ جس سے اپنے تو اپنے؛ غیر بھی اسیرِ بے دام ہو جائیں۔ جاں پرسوز ہو یعنی قائد کی روح اپنے اندر ایک خاص اثر رکھے، جفاکشی، ہمہ وقت کمر بستگی اور علو ہمت بھی کام یابی کی ضمانت ہیں۔
علامہ اقبال نے فرمایا ع
چیتے کا جگر چاہیے شاہیں کا تجسس
یعنی حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لیے چیتے کا جگر چاہیے ،جو ہمہ وقت تیار رہے اور کبھی تھک ہار کر ٹوٹ اور بکھر نہ جائے۔
کسی دانا نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ اگر میر کارواں اپنی جان بچانے کے لیے کسی پتھر کی اوٹ لیتا ہے؛ تو اس کی قوم پہاڑوں کی اوٹ میں پناہ لیتی ہے۔ اور حالات کو دیکھ کر ایسی خوفزدہ ہوتی ہے؛ جیسے شیر اور چیتے کو دیکھ کر نازک اندام ہرن!
اس لیے میر ِکارواں کو بلند ہمتی ، بے خوفی اور جفا کشی کی صفات اپنانا ہوگی اور اس بلند ہمتی اور بے خوفی کی مثال ہمیں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بخوبی مل سکتی ہیں؛ جیسا کہ حدیث پاک میں وارد ہے:
کانَ النبیُّ صَلَّی اللہُ علیہ وسلَّمَ أحْسَنَ النَّاسِ، وأَشْجَعَ النَّاسِ، وأَجْوَدَ النَّاسِ، ولقَدْ فَزِعَ أہْلُ المَدِینَةِ فَکانَ النبیُّ صَلَّی اللہُ علیہ وسلَّمَ سَبَقَہُمْ علَی فَرَسٍ، وقَالَ: وجَدْنَاہُ بَحْرًا۔
(الراوی: أنس بن مالک المحدث: البخاری صحیح البخاری الرقم: 2820 )
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں باعتبار حسن کامل، کمال درجے کے بہادراور لوگوں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے۔ کسی موقعے پر افواہ کی وجہ سے اہل ِمدینہ کو خوف نے آ گھیرا؛ تو حالات کا جائزہ لینے کے لیے سب سے پہلے نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور حالات کا جائزہ لے کر لوٹ آئے۔ اور گھوڑے کی تعریف فرماتے ہوئے یوں فرمایا کہ: ہم نے اسے دریا کی طرح تیز رفتار پایا۔
الغرض یہ کہ قائد؛ جب خطرات کے سامنے سینہ سپر ہو جائے اور حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرے؛ تو اس سے کاررواں کی ہمت بندھ جاتی ہے۔ اور اگر قائد و رہبر ہی عیش کوشی اور آرام طلبی کا دلدادہ ہو جائے تو اس کا کارواں زمانے کے قزاقوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ اور حالات کے بے رحم تھپیڑے اسے ایسی غار میں دھکیل دیتے ہیں جس سے نکلنا ممکن نہیں ہوتا، لہذا رہبروں اور عمائدین قوم و ملت کو ہوش کے ناخن لے کر ان تمام عمدہ صفات (تواضع، رواداری، نرم گفتاری اور بلند ہمتی) سے لیس ہو کر اور گھٹیا و ضرر رساں خصلتوں (کبر، نخوت، ترش روی و ترش کلامی) سے بچ کر ملت کی رہبری کرنے کے لیے کمر بستہ ہونا چاہیے۔
اور یہ تبھی ہوگا جب ملت کا درد اپنا درد مانا جائے۔ پیش آمدہ معاملات میں انجام پر نظر رکھ کر فیصلے لیے جائیں اور ہمہ وقت تواضع کو اپنا شعار اور شیوہ بنا لیا جائے اور:
کر بلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے طاؤس فقط رنگ
کہ دنیا کے رنگ و روغن میں خود کو الجھا نہ لیں۔ آرام طلبی اور کم ہمتی کو چھوڑ کر آگے بڑھنے کا عزم ہو، تو ضرور یہ میر کارواں اپنے کارواں کو کام یابی کے ساحل پر لنگر انداز کرے گا ۔
اللہ کرے کہ ہمارے زعمائے قوم خصوصاً اور قوم و ملت عموماً اسوہٴ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی میں حقیقی معنوں میں اختیار کریں اور دنیا و آخرت کی سرخ روئی کے حق دار ہوں۔