مولانا افتخار احمد قاسمی بستوی/ استاذ جامعہ اکل کوا
اللہ کا بندہ اپنی مدتِ عمرپوری کرکے چلاگیا اورہزاروں لاکھوں چاہنے والوں کو غم ناک آنسووٴں کے سمندر میں ڈوبا ہوا چھوڑ گیا۔ محمود رامپوری نے کہا ہے
موت اس کی ہے، کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں، مرنے کے لیے
لیکن کیا کیا جاسکتا ہے؟!! موت آنی ہے، اور آتی ہے۔ انسان کی زندگی کا وجود خدائے ذوالجلال کے واجب الوجود کا پرتو ہے۔ انسان کی زیست ایک دھوپ ہے، جو آفتاب کے روانہ ہونے سے رخصت ہوجاتی ہے۔ صنعتی خوش وقت علی خورشید کے شعر کا ایک مصرعہ ہے
ع ایک دھوپ تھی کہ گئی ساتھ آفتاب کے
اللہ تعالیٰ بال بال مغفرت فرمائے حضرت مفتی عبد اللہ صاحب مظاہری# قدس سرہ کی ، کہ آپ اب ہمارے درمیان نہ رہے۔امام المنطق والفلسفہ ایک محدث، ایک فقیہ ،علما اور مہمانان رسول کی میزبانی کرنے والا، اب ہم سے رخصت ہوا۔ ۸/ ستمبر ۲۰۲۰ء کی صبح ہم لوگ السلام مسجد اکل کوا سے نماز ِفجر پڑھ کر نکلے تو السلام ہاسپیٹل کے پہلو میں حضرت رئیس ِجامعہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی مدظلہ کے چھوٹے بھائی” حافظ سلیمان صاحب معروف باسم استاذ“ کا گھر واقع ہے۔ وہیں ان کے گھر کے سامنے گاڑی کھڑی ہے اور اہل ِخانہ میں کچھ بے چینی کے آثار نظر آرہے ہیں، گھر کے بچے بتارہے ہیں کہ کچھ ہواہے، بندہ معمول کے مطابق جامعہ کی چہار دیواری میں داخل ہوا، سب سے پہلے مولانا رضی الرحمن صاحب قاسمی بستوی سابق استاذجامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ نے اچانک خبر دی کہ مفتی عبد اللہ صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ سنتے ہی میں نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور کہنے لگا کہ ابھی رات ہی مفتی صاحب کے فرزند سے گفتگو ہوئی تھی اور آج صبح ہی یہ جانکاہ خبر آئی۔ اللہ رحمت و مودت کا فیصلہ فرمائے۔آمین!
آپ کا پورا نام ” عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم بن داوٴد لولات پٹیل“ ہے۔آپ کی جائے پیدائش گجرات کے مشہور مردم خیز علاقہ ” رویدرہ“ نامی گاوٴں میں ہوئی، تاریخ ِولادت ۲۸/ جمادی الاولیٰ ۱۳۷۱ھ -۲۴/ فروری ۱۹۵۲ء یکشنبہ کا دن گزار کر دوشنبہ کی شب میں ۹/ بجکر ۳۰/ منٹ ہے۔آپ نے ابتدائی تعلیم گاوٴں ہی کے مکتب ”مدرسہ تعلیم الاسلام“ رویدرہ میں حاصل کی۔ یہیں مکتب میں” حضرت مولانا محمد بن سلیمان جھانجھی“ کے پاس قرآن پاک کے پونے چار پارے حفظ بھی کیے، بقیہ پارے جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل گجرات میں حفظ مکمل کیے۔ اورعربی دوم تک عالمیت کا کورس بھی جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل میں مکمل کیا۔ا بھی آپ عربی سوم میں جانے والے تھے کہ جامعہ مظاہر علوم سہارن پور چلے آئے اور دورہٴ حدیث شریف تک یہیں مظاہر علوم میں پڑھتے رہے۔اور عالمیت وفضیلت کی سند مظاہر علوم سے حاصل کرکے یہیں افتا بھی مکمل کیا۔ تدریب فی الافتا کا قیام بھی مظاہر علوم سہارن پور میں عمل میں آچکا تھا، اسے بھی آپ نے پورا کیا، اس کے بعد حضرت قاری سید صدیق احمد صاحب شیخ الحدیث جامعہ ہتھورا باندہ یوپی سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا۔ آپ کے بعد حضرت مولانا الشاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی رحمة اللہ علیہ کے سلسلہٴ ارادت سے منسلک ہوگئے۔ آپ کو حضرت باندوی رحمة اللہ علیہ سے اجازت وخلافت بھی حاصل تھی اور آپ کے استاذ ِگرامی حضرت شیخ یونس صاحب رحمة اللہ علیہ نے بھی خلافت سے نوازا تھا۔ آپ کو چار بزرگان ِامت سے اجازتِ بیعت وارشاد حاصل تھی۔حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی نے شیخ یونس صاحب جون پوری سے فلاح دارین ترکیسر گجرات کے لیے ایک استاذ ِحدیث کی درخواست کی تھی، تو حضرت شیخ یونس صاحب نور اللہ مرقدہ کی نظر انتخاب حضرت مفتی عبد اللہ صاحب مظاہری رویدروی پر پڑی۔ آپ کو فلاح دارین بھیجا ، جہاں آپ نے تقریباً آٹھ سال تک تدریس کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دیا، مشکوٰة ، طحاوی، موٴطا امام محمد اورمقدمہٴ مسلم کے ساتھ ساتھ منطق، فلسفہ، بلاغت اور اصول ِفقہ کے فنون بھی پڑھائے۔
جب ہانسوٹ گجرات میں ایک ادارہ ”مظہر ِسعادت“ کے نام سے قائم کیا گیا، تو آپ یہاں تشریف لے آئے اور مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھاتے رہے، یہ بھی وقت آیا کہ اصح الکتاب بعد کتاب اللہ بخاری شریف بھی آپ سے وابستہ رہی۔ اور شیخ الحدیث کے منصب پر آپ فائز ہوکر خواص ِامت کی خدمت انجام دیتے رہے۔ آپ کی بخاری شریف کی شرح ” اسعاد القاری“ کے نام سے شائع ہوئی، جس کی ۲/ جلدوں پر جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کے اردو ماہنامہ ” شاہراہ علم “ میں تبصرہ بھی راقم ِسطور کے قلم سے طبع ہوا۔ حضرت مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ کی پوری بخاری شریف کے افادات ودروس آڈیو کی شکل میں بھی محفوظ کر لیے گئے ہیں، جن پر کام کی ضرورت ہے؛تاکہ انہیں نشر کرکے افادہٴ عام کیا جاسکے۔ اورماشاء اللہ فوری طور پر کام شروع بھی ہوچکا ہے۔ اللہ تکمیل آسان فرمائے۔ آمین!
حضرت مفتی عبد اللہ صاحب خود ہی اپنی زندگی کے ماہ و سال اس طرح شمار کروایا کرتے کہ آٹھ سال اپنے گاوٴں رویدرا میں رہا ، جہاں والدین کی تربیت اور مکتب کی تعلیم پائی، حفظ ِقرآن کی ابتدا بھی گاوٴں ہی میں ہوئی۔ بعد ازاں آٹھ سال جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل کی فضائے علمی وعملی میں گزرے،جہاں تکمیل ِحفظ کے بعد عالمیت کا آغاز بھی ہوا، پھر سہارن پور یوپی جامعہ مظاہر علوم میں جانا ہوا، یہاں پر بھی آٹھ سال کا قیمتی عرصہ بزرگانِ امت، اکابرِ فضل و کمال اوراساطین ِتقویٰ وطہارت کی بافیض صحبت میں گزرا، پھر آٹھ ہی سال فلاح دارین ترکیسر گجرات میں تدریسی خدمات میں گزارے اور حدیث وفقہ اورمنطق کے دروس متعلق رہے، حساب لگائیں تو ٹوٹل بتیس سال ہوتے ہیں، اور بتیس سال جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ میں گزرے اس طرح کل چونسٹھ سال کی عمر کا ایک اجمالی خاکہ سامنے ہے۔ اخیر میں زندگی کے ۴/ سالہ عرصے کو سنت ِیوسفی کی ادائیگی میں بھروچ سب جیل میں گزارا اور عارضی رہا ئی کی حالت میں اپنی جان جان ِآفریں کے سپرد کی۔ کل عمر ۶۸/ سال کی پائی۔
مسلسل یاد آئیں گے، وہ پیہم یاد آئیں گے
کوئی موسم رہے وہ بے قید موسم یاد آئیں گے
مفتی عبد اللہ صاحب مرحوم نے اپنی ۶۸/ سالہ زندگی میں جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ گجرات کی نظامت بحسن و خوبی انجام دینے کے ساتھ ساتھ سعادت ریلیف کمیٹی کے پلیٹ فارم سے سماجی وفلاحی سرگرمیاں بھی انجام دیتے رہے۔” سعادت اردو پرائمری اسکول“ قائم کیا، جمعیت علمائے گجرات کی خدمات بھی انجام دیں۔ جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ کی مجلس ِشوریٰ کے رکن رکین بھی رہے۔ ”یونائٹد یونین فارمسلم اسکالرزقطر “کے ممبر بھی تھے۔آپ کے اساتذہ کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں، جن میں خصوصیت سے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمة اللہ علیہ، قطب ِعالم حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رامپوری ، مفتی مظفر حسین صاحب، مولانا شیخ یونس صاحب جونپوری کی شفقت وعنایت شاملِ حال رہی اور حضرت مولانا عاقل صاحب مدظلہ اور مولانا مفتی احمد خان پوری صاحب مدظلہ ابھی حیات ہیں۔ جو اپنی دعاوٴں سے نوازتے رہے اور نواز رہے ہیں۔ آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا ابو الحسن الندوی رحمة اللہ علیہ بھی ہیں اور الشاہ ابرار الحق ہردوئی رحمة اللہ علیہ سے بھی آپ نے کسب ِفیض کیا ہے۔ اسی طرح حضرت مولانا سلیمان جھانجھی سے بھی استفادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی قبر کو نور سے بھر دے ۔ آپ کے متعلقین، اعزا واقربا کو صبرِ جمیل نصیب فرمائے اور آپ کا جاری کردہ مشن آپ کے لیے صدقہ جاریہ ثابت ہو، آمین یا رب العالمین۔