مسجد کے لیے وقف کردہ زمین میں دکانیں بناکر اس سے کرایہ حاصل کرنا

فقہ وفتاویٰ

مفتی محمد جعفر صاحب ملی رحمانی

صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا

مسجد کے لیے وقف کردہ زمین میں دکانیں بناکر اس سے کرایہ حاصل کرنا

سوال: زیدنے مسجد کے لیے زمین وقف کی ،کسی مجبوری یا حالات کی وجہ سے مسجد نہیں بن پائی ، چنانچہ ٹرسٹیان نے اس جگہ پر دکانیں، شاپنگ وغیرہ بنادی۔ ان دکانوں کا کرایہ کمیٹی کے پاس جمع ہوتا ہے۔

۱- یہ رقم دوسری مساجد بنانے یا اخراجات میں صرف کرسکتے ہیں؟

۲- مدرسہ کی تعمیرات میں رقم استعمال کی جاسکتی ہے؟

۳- ایک حافظ بنانے کا سالانہ خرچ دیا جاسکتا ہے؟

۴- غربا یتیم پر خرچ کرسکتے ہیں؟

الجواب وباللہ التوفیق:

صورتِ مسئولہ میں جب واقف نے اپنی زمین مسجد کے لیے وقف کردی، اور وقف تام ہوگیا، تو اب تمامی وقف کے بعد اس میں واقف کی منشا کے خلاف تصرف کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اس لیے مسجد کے لیے اس وقف کردہ زمین پر دکانیں بنانا اور اس سے کرایہ حاصل کرنا، اور کرایہ کی رقم مدرسہ کی تعمیر میں یا بچوں کو حافظ بنانے میں ، یا غربا ، یتامیٰ اور مساکین کی کفالت میں خرچ صرف کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ مسجد کے لیے وقف کردہ اس زمین کی حفاظت ونگہداشت ٹرسٹیان پر لازم ہے۔


 

الحجة علی ما قلنا

مافي”تنویر الابصار مع الدر المختار“: فاذا تم ولزم لا یملک ولا یملک ولا یعار ولا یرہن۔(۶/۵۳۹/ کتاب الوقف، مطلب مہم فرق ابو یوسف الخ)

مافي ”رد المحتار“: وإذا قد عرفت ان الصلاة فیہ أقیمت مقام التسلیم، علمت أنہ بالتسلیم إلی المتولی یکون مسجداً دونہا، أی دون الصلاة، وہذا ہو الأصح کما فی الزیلعی وغیرہ، وفی الفتح، وہو الأوجہ لأن بالتسلیم إلیہ یحصل تمام التسلیم إلیہ تعالیٰ…… قال في البحر: وبہ علم أن الفتوی علی قول محمد في آلات المسجد، وعلی قول أبی یوسف في تأبید المسجد اھ۔ (۶/۵۴۶، ۵۴۹/ کتاب الوقف، مطلب في أحکام المسجد)

وفیہ أیضاً: أنہم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفین واجبة الخ )فقط

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی

۲۵/محرم الحرام/۱۴۴۳ھ

فتوی نمبر:۱۱۲۵