مسجد غربلی

حرم جامعہ میں اللہ تعالیٰ کے ایک اور نئے گھر کا قابلِ تحسین اضافہ

عبدالغفار خان ابن شبیر خان /نانیگاؤں

            اربابِ جامعہ اکل کوا نے روز اول سے اساتذہ ٴکرام وطلبا ئے عظام کی سہولتوں کو مقدم رکھا ہے، جس کی تازہ مثال لاک ڈاوٴن کے زمانہ کوہی لے لیا جائے۔اس لاک ڈاوٴن کے زمانہ میں بہت سے مدارس کے اساتذہ کے حالات ناگفتہ بہ ر ہیں اور بعض اہلِ مدارس کے رویہ اساتذہ کے حق میں قابل مبارکباد ہے، انھیں میں جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا، ضلع نندربار مہاراشٹربھی ایک ایسا ادارہ ہے، جس کے اساتذہ کی تعداد۳۰۰/ سے زائدہیں ،مگر قربان جاوٴں جامعہ اکل کوا کے حسنِ سلوک پر جس نے اس کورونا جیسی مہا ماری میں ہم اساتذہٴ کرام کا جو اکرام و احسان کیا ہم ارباب جامعہ کے اس احسان کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے ۔انتظامیہ جامعہ نے اساتذہٴ جامعہ کو قرآنی مشغلہ میں لگائے رکھااور اس لاک ڈاوٴن کے زمانہ میں بھی جامعہ قرآن کی صداوٴں سے گونجتا رہا،جامعہ کے ہر کوارٹر سے تلاوت کی آوازیں بلند ہوئیں، اس کا پورا سہرا حضرت رئیس الجامعہ اور ناظم تعلیمات حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی دامت برکاتہم العالیہ کے سر جاتا ہے،جن کی ایک آواز پر اساتذہ ٴجامعہ ہر وقت لبیک کہتے ہیں۔ہمیں بڑا فخرہے کہ اللہ تعالیٰ نے جامعہ کوآپ جیسا مخلص رئیس عطا فرمایا ہے۔اللہ آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائے۔

            بندہ ذکر کر رہا تھا مسجد غربلی کا ؛ہم نے پہلے ہی ذکرکیا کہ جامعہ نے روزِ اول ہی سے اساتذہ وطلبا کی سہولتوں کو مقدم رکھا ۔اسی سہولت کے پیشِ نظر جامعہ نے ”مسجد غربلی“ کی تعمیر کرائی، جو اسٹاف کوارٹرس کے بالکل درمیان ہے۔مسجدغربلی سے جو آسانیاں اور راحتیں ہم اساتذہ نے محسوس کیں وہ ہر ایک زبان پر ہے۔مسجد غربلی کی تعمیر ارباب جامعہ کاقابل مبارکباد اقدام ہے۔انتظامیہ نے مسجد غربلی کے لیے جس جگہ کا انتخاب کیا وہ” انتخابِ لا جواب“ہے ۔ ارباب جامعہ نے مسجد غربلی کو بالکل اچھوتے اندازمیں تعمیر کرایا ،حضرت رئیس الجامعہ دامت برکاتہم العا لیہ کے ہونہار وفعال فرزند حضرت مولانا اویس صاحب وستانوی# نے مسجد غربلی کی تعمیر میں جو کاوشیں اور محنتیں کیں ،وہ قابل مبارکبادہیں ۔ان کی پوری ٹیم جن میں اول الذکر حضرت مولانا اویس صاحب وستانوی، حافظ جابرصاحب وستانوی ، حضرت مولانا معوذ صاحب وستانوی اور حضرت مولانا مفتی ریحان صاحب رویدروی قابل مبارکبادہیں، جن کی رات دن کی محنتیں رنگ لائیں اور یہ احباب حضرت رئیس جا معہ ونائب رئیس الجامعہ اور ناظم تعلیمات حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی کی رہبر ی ورہنمائی میں بڑی سلیقہ مندی سے جامعہ کے کاموں کو انجام دے رہے ہیں۔

            ہم تمام اساتذہ، طلباومتعلقین جامعہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت رئیس الجامعہ ونائب رئیس الجامعہ کو عمر نوح عطا فرمائے، ہمارے اکابرین کو صحت وعافیت عطا فرمائے اور ناظم تعلیمات حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی کو صحت وعافیت دے ،آپ کی عمر میں برکتیں عطا فرمائے اور مولانا اویس صاحب وستانوی اور ان کی پوری ٹیم کو جامعہ کے حق میں خوب خوب نفع بخش بنائے۔آمین!

وفیات

نیک طینت اور صالح طبیعت استاذ محترم مولانا عبدالحفیظ بھڑکودروی جوار رحمت میں :

            مولانا عبدالحفیظ بھڑکودروی رحمہ اللہ ماہر استاذ حدیث و تفسیر اور شاندار خطیب تھے۔موصوف جامعہ اکل کوا کے ابتدائی دور کے کامیاب اساتذہ میں سے ایک تھے، آج سے ۲۶/ سال قبل جب بندہ حفظ مکمل کر کے عالمیت میں داخل ہوا تو مولانا کے پاس کتب خانہ جامعہ اکل کوا میں املا کے گھنٹے میں جاتا تھا، مولانا بہترین علمی ذوق کے حامل تھے،جامعہ کے کتب خانہ کے ذمہ دار تھے اور بہت منظم تھے ساتھ ہی ابتدائی درجات سے لے کر علیا درجات تک منطق ،فقہ، تفسیر اور حدیث کی کتابوں کے درس بھی دیتے تھے۔ مولانا بہترین اناؤنسر بھی تھے ، بندہ کو جہاں تک یاد پڑتا ہے مشکوة ،ھدایہ، جلالین اور بیضاوی وغیرہ علیا کی کتابیں ان کے ذمہ تھیں اور ان کے دروس طلبہ میں مقبول بھی تھے۔ مولانا بہت نیک اور صالح طبیعت کے حامل تھے ،نرم مزاج تھے، مگر جب غصہ آتا تھا تین مرتبہ اس کا اظہار کرتے تھے، آج ہمارے اردو املا میں جو کچھ تھوڑی بہت درستگی ہے ، وہ انہیں کی برکت سے ہے ، ہم نے انہیں ہمیشہ نماز باجماعت ،تکبیر اولیٰ کے ساتھ صف اوّل میں ادا کرتے ہوئے دیکھا۔ جامعہ اکل کوا سے اپنے وطن بھڑکودرہ کے قریب دارالعلوم ستپون بھروچ بحیثیت شیخ الحدیث جب ہم عربی سوم میں تھے یعنی آج سے تقریباً ۲۲/ یا ۲۳/ سال قبل تشریف لے گئے تھے، پھر وہاں کچھ مدت نظامت اور اہتمام بھی غالباً آپ کے ذمہ رہا، اس کے بعد ”بچوں کا گھر جمبوسر“ جو ان کے گاؤں سے چند ہی کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے وہاں جب علیا کی تعلیم شروع ہوئی تو منتقل ہوگئے۔ ۵ ۱/ جمادی الاولیٰ ۱۴۴۲ھ کی شام بعد مغرب دار فانی سے دار باقی کی جانب رحلت فرماگئے اناللہ وانا الیہ راجعون۔ اسلامی تقویم کے اعتبار سے جمعہ کا دن شروع ہوچکا تھا؛ لہٰذا ۱۶/ تاریخ بننی چاہیے۔ بہر حال مولانا صوفی طبیعت تھے اور ماشاء اللہ انھیں جمعہ میسر ہوا۔ آپ نے طبِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر چند کتابیں بھی لکھی ہیں مثلاً” کدو کے فوائد“ اسی طرح” انجیر کے فوائد“ وغیرہ، البتہ مولانا کی قدرجیسی ہونی چاہیے ویسی نہ ہوسکی، ایسا مجھے محسوس ہوتا ہے۔ اللہ آپ کی تمام خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے، آپ کے پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور امت کو آپ کا نعم البدل نصیب فرمائے۔ آمین !

حذیفہ وستانوی

            جامعہ دارالقرآن کے استاذ حافظ تنصیر احمد صاحب کی والدہ محترمہ ۲۸/ دسمبر ۲۰۲۰ء کو اللہ کی رحمت میں پہنچ گئی ہے۔انکے لئے دعائے مغفرت کی درخواست ہے۔ اللہ پاک غریق رحمت فرمائے۔آمین!

            جامعہ اکل کوا شعبہٴ عا لمیت کے استاذ مولانا شفیع احمد صاحب مدھوبنی کے ماموں جان اور مشفق استاذ مولانا محمد مستقیم صاحب ۲۸/جمادی الاخریٰ۱۴۴۲ھ مطابق۱۱/ فروری۲۰۲۱ء بروزجمعرات اللہ کی رحمت کی طرف کوچ کرگئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون! آپ کی ولادت ۹/ جمادی الاولیٰ ۱۳۷۳ھ مطابق ۱۵/جنوری ۱۹۵۴ء کوجمعہ کے دن ہوئی ۔ آپاپنے ۶/ بھائی بہنوں میں تیسرے نمبرپرتھے،جن میں سے فی الوقت ایک بہن اورایک بھائی بقیدحیات ہیں۔گاوٴں کے مدرسہ میں۳۵/سال تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ مرحوم ہمیشہ سے نمازروزہ اورتلاوت قرآن کے پابندتھے اورالحمدللہ یہ پابندی زندگی کی آخری سانس تک باقی رہی۔ جب چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہے اورمعذوری نے اوربھی معذورکردیا تو بھی نماز نہیں چھوڑی۔ جب قدرت نے وضوکی قدرت بھی چھین لی توتیمم کر کے بیٹھ کر نماز ادا کرتے اورجب بیٹھنے پر بھی قدرت نہیں رہی تو پھر اشارے سے ہی نمازکی ادائیگی کرتے رہے ۔آخری وقت میں زبان سے ”اللہ اکبر“کی صدابھی بہ کثرت سنی گئی اوراسی حالت میں زندگی کی ڈور کٹ گئی۔باری تعالیٰ نے اپنے بے پایاں رحم وکرم کے صدقے مرحوم کی مغفرت فرماکراپنی رضاکاپروانہ عطا کردیاہوگا۔قارئین شاہ راہ علم سے بھی پرخلوص دعاوٴں کی درخواست ہے ۔

            اسی طرح گجرات کے مشہور و معروف دینی ، تعلیمی ادارہ دارالعلوم مدرسہ عربیہ تعلیم المسلمین لونا واڈا، ضلع مہی ساگر کے شیخ الحدیث ، معتبر عالم دین حضرت مولانا محمد اسحاق صاحب مڈانوی بھی ۲۶/ جنوری ۲۰۲۱ء بروز منگل بعد نماز مغرب رحلت فرماگئے۔

            حضرت شیخ صاحببڑے ملنسار، متقی وپرہیزگار اور مثالی شخصیت تھے۔مرحوم نے لونا واڈا میں پچاس سال تک تعلیمی وتربیتی خدمات انجام دیں۔ان میں سے ۴۷/ سال تک بخاری شریف کا درس دیتے رہے، یہ بہت بڑی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کی بال بال مغفرت فرماکر جنت الفردوس عطافرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطافرمائے اور لونا واڈا کو حضرت کا نعم البدل عنایت فرمائے۔

آہ ! ہم شفقت ِپدری سے محروم ہوگئے۔

            میرے مشفق والدبزرگوار حاجی یونس خان صاحب ۔جنہیں بادل ناخواستہ رحمة اللہ علیہ کہہ رہا ہوں تقریبا۸۳ سال کی یعنی پون صدی سے زائد عرصہٴ حیات پاکر ۱۱/جنوری ۲۰۲۱بروز منگل اپنے مولائے حقیقی سے جاملے۔والد مرحوم کی تاریخ پیدائش۱۶جون۱۹۳۸ء ء ہے۔

            والد صاحب رحمة اللہ علیہ کا قدمتوسط ، رنگ سانولا،دبلا پتلا مگر پھر تیلابدن،سر پہ لامبی نہر و ٹوپی رکھتے تھے۔آپ نے اپنے ہی وطن تو نڈاپور میں دینی مکتب کی تعلیم ناظرہ قرآن مجیداور اسکول ۷/کلاس پاس کیا۔ آپاپنی ماموں زاد بہن سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ۔

             آپ کثیرالعیال تھے ۔ ۸ بیٹے اور ۴ بیٹیاں ہیں۔ اپنی تما م اولا د کو دینی اور عصری تعلیم وتربیت سے آراستہ کیا جن میں احقر راقم حافظ وعالم ہے۔ آپ پیشہ سے زراعت کرتے تھے ،اپناذاتی کھیت اور زمین تھی ماہر کسان اور زرعی کاموں میں بڑی مہارت تھی ۔زراعت ہی کی آمدنی سے آپ نے ۱۹۹۵ میں حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا ۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔

            اللہ رب العزت نے والد مرحوم کومثالی اور قابل رشک اخلاق و اوصاف سے متصف فرمایا تھا ۔         والد صاحب رحمة اللہ علیہ اپنے گھر اور اہل وعیال کے لئے بڑے مشفق اورانتھائی فکر مند تھے ۔بیوی بچوں کے لئے اسبابِ ضرورت و حاجت کا بہت اہتمام اور خیال کرتے ،معاملات اور لین دین کی صفائی میں راقم نے آپ جیسا نہیں دیکھا ۔

            محنت مجاہدہ ، سادگی رزق حلال کی طلب اور عدمِ حرص و طمع آپ کے امتیازی اوصا ف تھے۔حسد کینہ کپٹ سے دور ہی نہیں بلکہ بیزار تھے ۔ صوم وصلاة کے ایسے پاپندکہ شدید گرمیوں میں بھی روزہ ترک نہ فرماتے۔جنگل ہو یا گاوٴں نماز کبھی ترک نہ فرماتے ۔ تلاوت قرآن بڑی دلجمعی اور شوق سے کرتے۔تبلیغی اجتماعات اوردینی جلسوں میں شرکت اور علماء کرام کی زیارت کا اہتمام فرماتے آپ نے جب سے حج بیت اللہ کا سفر کیا تھا تب سے آخر عمر تک سفر حج اور اعمال حج بلکہ سرزمین عرب کابہت زیادہ اور پر عشق و محبت تذکرہ فرماتے۔ اخیر کار ۸ دن کی مختصر علالت اور نقاہت کے بعد داعی اجل کو لبیک کہا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

آسمان ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے ۔ آمین!

 (ازقلم:محمد صادق تونڈاپوری)