۱۷؍ویں قسط :
مفتی نجم الحسین آسامی
اللہ کے پیغمبر حضرت نوح کے بار بار سمجھانے کے باوجود ان کی نا ہنجار قوم کو کچھ سمجھ میں نہ آیا اور اڑیل گھوڑے کی طرح وہ لوگ بکتے رہے؛ کیوں کہ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت اور سچ ہے کہ جب حق وباطل کی کشمکش ہوئی اور حق نے اپنی کم زوری کے باجود باطل کو ثابت کرنے کا ارادہ کیا اور حق ،باطل کی خامیوں کی تردید اور اس کی حقیقت کو واشگاف کرنے کے لیے صدائے صادق بلند کرنے کی کوشش وسعی کرتا ہے، توباطل اپنی گمراہی کے سبب تلملا اٹھتا ہے ۔اور مارے غضب کے وہ سب کچھ کرتا ہے جو انسانیت کے بالکل منافی ہوتا ہے ۔ اور باطل کا ٹڈی دل اپنے لشکر ِجرار کے ساتھ ہمہ وقت اس صدائے حق کو اس کے حلقوم اور مخرج میں ہی دبانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ’’ نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری‘‘۔
لیکن صدائے حق میں خود رو درخت سے بھی زیادہ نشو ونما بالیدگی ہوتی ہے جو تنکے کے سہارے سے بھی ابھر جاتا ہے اور اپنی منزلِ مقصود کو حاصل کیے بغیر شکست اور ہزیمت تسلیم نہیں کرتا ۔اور حق کے اندر ایسی صلاحیت ہوتی ہے ،جس کی پرکشش آواز صداقت پسند قلوب کو جھنجھوڑ دیتی ہے؛ اگر چہ خاردار باطل اُس آوازِ حق کو اپنے لپیٹ میں لے کر اس کو ملیا میٹ اور تہس نہس کرنے کی بارہا ناکام کوشش کرتا ہے اور ہر بار اس کو منہ کی ہی کھانی پڑتی ہے۔
آمدم برسر مطلب :
نوح علیہ السلام کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو تقریباً ایک ہزار سال کی عمر دراز عطا فرمائی۔ ساتھ ساتھ گمراہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے اور قوم کی اصلاح کی فکر بھی عطا فرمائی ۔ نیز آپ پیغمبرانہ جدو جہد سے بھی مالا مال تھے ،آپ نے اپنی قوم کی اصلاح کی خاطر مدت مدید صرف کردی ، رات دن کی انتھک کوشش کے بعد بھی جب قوم نے آپ کی بات نہ مانی ، بل کہ بعضوں نے تو آپ پر پتھراؤ کیا اور بعض نے آپ کی شان میں گستاخانہ جملے کسے ؛لیکن آپ برابر ان کو دعوت حق دیتے رہے۔ ایک نسل کے بعد دوسری نسل پھر تیسری نسل کو اس امید پردعوت دیتے رہے کہ شاید یہ نئی نسل حق کو قبول کرلیں اور ایک اللہ وحدہ لاشریک لہ پر ایمان لے آئے؛ لیکن افسوس صد افسوس! صدیاں گزر جانے کے بعد بھی آپ کی قوم پر کوئی اثرنہیں پڑا اورمرورِ ایام کے ساتھ ان کی گمراہی بڑھتی گئی اور جب نوح کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تو نوح علیہ السلام نے اپنی حالتِ زار کا شکوہ اپنے مالکِ حقیقی سے کیا ، جس کو قرآن کریم نے اس انداز میں بیان کیا :
{ قَالَ نُوْح’‘ رَّبِّ اِنَّہُمْ عَصَوْنِیْ وَاتَّبَعُوْا مَنْ لَّمْ یَزِدْہُ مَالُہٗ وَوَلَدُہٗٓ اِلَّا خَسَارًاo وَمَکَرُوْا مَکْرًاکُبَّارًا o وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًاo وَّ لَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا o وَقَدْ اَضَلُّوْا کَثِیرًاo وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا ضَلٰلاً o مِمَّا خَطِیْئٰٓتِھِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا o فَلَمْ یَجِدُوْا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْصَارًا o وَقَالَ نُوْح’‘ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا o اِنَّکَ اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا o رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ط وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا تَبَارًا o}۔(سورۂ نوح: ۲۱-۲۸)
نوح علیہ السلام نے کہا : اے میرے پرور دگار !ان لوگوں نے میرا کہنا نہیں مانا اور ایسے شخصوں کی پیروی کی کہ جن کے مال اور اولاد نے ان کو نقصان ہی زیادہ پہنچا یا ۔ اور جنھوں نے بڑی بڑی تدبیریں کیں اور جنھوں نے کہا: تم اپنے معبودوں کو ہر گز نہیں چھوڑنا اور نہ’’ود‘‘ کو اور نہ ’’ سواع‘‘ کو اور نہ ’’یغوث ‘‘ کو اور نہ ’’ یعوق ‘‘ کو اور نہ’’نسر‘‘ کو چھوڑنا اور ان لوگوں نے بہتوں کو گمراہ کیا ۔ اور ان ظالموں کی گمراہی اور بڑھادیجیے۔ اپنے اُن ہی گناہوں کے سبب وہ غرق کیے گئے ،پھر دوزخ میں داخل کیے گئے اور خدا کے سوا ان کو کچھ حمایتی بھی میسر نہ ہوئے اور نوح علیہ السلام نے کہا اے میرے پرور دگار ! کافروں میں سے زمین پر ایک باشندہ کو بھی مت چھوڑ، اگر آپ ان کو روئے زمین پر رہنے دیںگے تو یہ لوگ آپ کے بندوں کواور گمراہ کردیںگے اور ان کے محض فاجر اور کافر ہی اولاد پیدا ہوگی ۔ اے میرے رب !مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو مومن ہونے کی حالت میں میرے گھر میں داخل ہوان کو اور تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کو بخش دیجیے اور ان ظالموں کی ہلاکت اور بڑھا دیجیے ۔
حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی اور قرآنی تصریح کے مطابق ان کی عمر ساڑھے نوسوسال تھی ۔ اِس پوری مدت میں کبھی اپنی تکلیف کے بدلے کسی کوکوئی تکلیف نہ دی ۔ قوم کی طرف سے مختلف ایذائیں دی گئیں،لیکن آپ صبر کرتے رہے ۔
(معارف القرآن : ۸/۵۶۵)